Daily Roshni News

ملکہ ترنم نور جہاں 99 واں یوم پیدائش

ملکہ ترنم نور جہاں 99 واں یوم پیدائش

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پاکستانی فلمی صنعت کی مایہ ناز پس پردہ گلوکارہ، اداکارہ اور فلم ساز۔

21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئیں، پیدائشی اور گھریلو نام اللہ وسائی تھا۔ان کے خاندان کا تعلق فن موسیقی سے تھا۔

   فن موسیقی کی تربیت کے لئیے نور جہاں اور ان کی دو بہنوں کو ہندوستان کے فلمی صنعتی شہر ممبئی بیجھ دیا گیا۔وہاں انہوں نے ٹھمری،دھرپد اور خیال میں بہت جلد مہارت حاصل کر لی۔ وہاں نور جہاں نے آغا حشر کی زوجہ اور ممتاز گلوکارہ مختار بیگم کی شاگردی اختیار کر لی۔مختار بیگم نے اللہ وسائی کا نام بے بی نور جہاں رکھ دیا۔نور جہاں نے شروع شروع میں کلکتہ شہر کی تھیٹر کمپنی میں بھی گلوکارہ اور ادا کاری کے جوہر دکھائے۔متحدہ ہندوستان کے مشہور موسیقار بابا غلام محمد نے بھی نور جہاں کو فن موسیقی کی ابتدائی تربیت دی۔

     نور جہاں نے مختار بیگم کی شاگرد ہونے کا پورا حق ادا کر دیا۔ساڑھی کو ساری زندگی کا پہناوا بنا لیا۔ان کی طرح ہی ساڑھی کے پلو کو انگلی میں لپٹ کر گانا گاتی۔ان کے ہی انداز نششت و برخاست کو اپنایا ۔

   نور جہان لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن تھیں۔ان کے مداحین نے انہیں ملکہ ترنم کا خطاب دیا۔10000 سے زائد فلمی و غیر فلمی  گانے گائے. انہوں نے 1148 فلموں میں 2422 فلمی گیت گائے۔میڈم نور جہاں نے بہت سے ملی اور جنگی نغمات بھی گائے۔1965اور 1971 کی جنگوں میں انہوں سے بہت سے پنجابی اور اردو میں جنگی نغمے گائے جن میں سب سے زیادہ مشہور صوفی تبسم کا لکھا ہوا نغمہ،اے پتر ہٹانے تے نہی وکدے،توں لبھدی پھیریں بازار کڑے( ایسے بہادر اور جان فروش سپوت دکانوں پر نہیں ملتے اور نہ ہی کسی کو بازار سے مل سکتے ہیں ،یہ جنس نایاب ہوتے ہیں جو ماؤں کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں ) بہت مشہورہے ۔ان کے متعلق ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فلمی صنعت کے آدھے گانے نور جہاں نے گائے اور آدھے گانے سنے۔نور جہاں کو ہفت زبان گلوکارہ بھی کہتے ہیں۔کچھ ناقدین کے مطابق میڈم جتنی خوش گلو تھیں اتنی ہی مغرور اور نک چڑھی بھی تھیں۔مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے میڈم کے حالات زندگی کے متعلق اپنی کتاب سرور جہاں میں کافی واقعات لکھے ہیں۔

    انہوں نے اردو،پنجابی،سندھی،پشتو،بنگالی اور عربی زبان میں بھی گانے گائے۔پاکستان کی پنجابی فلمیں نور جہاں کے نغمات کے بغیر ادھوی رہتیں۔1973 میں جشن کابل کے موقعہ پر انہوں براہ راست اپنی گلوکاری کا مظاہرہ کیا اور فلم ہونہار میں خمار بارہ بنکوی کا لکھا ہوا گانا جو ہم نے پیار سے دیکھا تو تم نے کیوں برا مانا گا کر جشن کابل کو لوٹ لیا۔

جب وہ امریکہ میں دل کا آپریشن کرانے گئیں تو ڈاکٹرز کو پتا چلا کہ یہ پاکستان کی مشہور مغنیہ ہیں تو انہوں نے فرمائش کی کہ انہیں کوئی گانا سنائیں ۔نور جہاں نے انہیں فلم سالا صاحب کا یہ گانا گا کر سنایا،

   وے اک تیرا پیار مینوں ملیا میں دنیا تے ہور کیہ لینا،کری نہ دور قدماں چوں آساں تینوں ہور کہہ کہنا( میرے محبوب تیرا پیار ہی میری دنیا ہے،مجھے اپنے قدموں سے کبھی دور نہ کرنا،بس میری اتنی سی ہی درخواست ہے)

    نور جہان نے متحدہ ہندوستان اور پاکستان میں 50 سے زائد فلموں میں کام کیا۔چن وےسنتوش کمار کے ساتھ ان کی پہلی فلم تھی جس نے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی۔ڈوپٹہ ان کی دوسری مشہور فلم تھی۔جس کا گانا چاندنی راتیں آج تک کانوں میں رس گھولتا ہے۔1951میں میڈم نے اس فلم کا معاوضہ 6000 روپے لیا تھا۔

   نور جہاں کی پہلی شادی 1942 میں شوکت حسین رضوی کے ساتھ ہوئی جن سے ان کے دو بیٹےاکبر رضوی اور اصغر رضوی اور ایک بیٹی ظل ہما پیدا ہوئیں۔ شوکت حسین رضوی کو لاہور میں شوری فلم سٹوڈیو ملا تھا جس کی تزئین و آرائش کے بعد انہوں نے اس کا نام اپنے اور نور جہاں کے نام کو ملا کر شاہ نور اسٹوڈیو رکھا تھا جہاں بے شمار اردو اور پنجابی فلموں کی عکس بندی کی گئ تھی۔اب اس اسٹوڈیو کے بڑے حصے پر دکانیں اور ورکشاپ بن گئ ہیں۔

     اعجاز درانی سے ان کی دوسری شادی 1970 میں ہوئی جس کے بعد انہوں نے ادا کاری چھوڑ دی اور صرف گلوکاری کو جاری رکھا۔اعجاز درانی سے ان کے بچوں کے نام حنا درانی، نازیہ اعجاز خان اور منا حسن ہیں۔ اعجاز درانی کو نور جہاں سے شادی کرنے کے بعد دھڑا دھڑ پنجابی اور اردو فلموں میں کام ملنا شروع ہوگیا اور وہ ایک مصروف فلمی ادا کار بن گئے۔نور جہاں کی ان دونوں شادیوں کا انجام اپنے شوہروں سے اختلافات کے باعث طلاق پر ہوا۔

    نور جہاں کو ہر قسم کی گائیکی کی مکمل مہارت حاصل تھی۔وہ غزل، کلاسیکل، ہلکی پھلکی موسیقی اور فلمی گانے یکساں مہارت سے گاتیں تھیں۔حکومت پاکستان نے میڈم کی فن موسیقی کی خدمات کے صلے میں ان کو تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز عطا کئیے۔

نور جہاں کو پس پردہ فلمی گیت گانے کے لئیے15 دفعہ نگار فلمی اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔

   میڈم نور جہاں نے آج سے کئ برس پہلے فلم موسیقار میں تنویر نقوی کا لکھا ہوا یہ گانا جو صبیحہ خانم پر فلمایا گیا تھا، گا کر بتا دیا تھا کہ ‘گائے گی دنیا گیت میرے سریلے رنگ میں نرالے رنگ میں’

     آج کے سوشل میڈیا دور میں فیس بک، یو ٹیوب انسٹا گرام اور دیگر شوشل میڈیا ذرائع پر رات و رات مشہور ہونے والے نوجوان گلوکار اور گلو کارائیں میڈم کے گائے ہونے گانوں اور نغمات کو گا کر اور ان پر ریاض کرکے میڈم کے بولے ہو الفاظ کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔میڈم کے گائے ہوئے بہت سے نغمات اور گانے پاکستان اور ہندوستان میں ری مکس اور ری میش کرکے کے تیار کئیے جارہے ہیں جن کو گانے والے بہت مشہور ہو جاتے ہیں لیکن وہ ان تمام گانوں کی اصل گلو کارہ ملکہ ترنم کا نام نہیں بتاتے ہیں جو انتہائی بد دیانتی ہے۔

   فیض احمد فیض کی نظم،

  مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ،

کو ملکہ ترنم نے اس ترنم اور سوز و گداز سے گایا کہ فیض کو کہنا پڑا کہ نورجہاں ،

آج سے یہ غزل آپ کے نام ہوئی۔

   نیت شوق بھر نہ جائے کہیں،

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئیے آ

، سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے،

جدوں ہولی جئ لیندا میرا ناں،

سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے،میں تاں ہو ہو گئ قربان وے،

کو نئے گلوکار بطور ریاض گاتے ہیں۔

     فلم ات خدا دا ویر کے مشہور گانے جدوں ہولی جئ لیندا میرا ناں جسے تنویر نقوی نے لکھا تھا، اور یہ حبیب اور نغمہ پر فلمایا گیا تھا، کو سب سے زیادہ ری مکس اور ری میش کیا گیا ہے۔انمول سیال اور نصیبو لال نے اس گانے کو ہو بہو میڈم کے انداز میں گایا ہے، لیکن انمول سیال نے اس گانے کے بول کو بہت اونچے سروں میں گا کر اس کی غنائی کیفیت ختم کر دی ہے۔رنی چدر اور خدیجہ دلنواز نے اس گانے کو پوپ میوزک کے ساتھ ری میش کرکے گایا ہے۔نورا فتحی نے کوکا کولا پلا دے کو بھی نئے انداز میں گایا ہے۔شازیہ منظور نے بتیاں بجھائی رکھ دی اور مست ملنگ چا کیتی ای کو بھی دوبارہ گا کر شہرت حاصل کی ہے۔ساحر علی بگا نے بھی کوک سٹوڈیو میں میڈم کا ایک گانا نئے انداز میں گایا ہے لیکن اصل گلوکارہ میڈم کا نام نہیں لیا ہے۔حال ہی میں چاہت فتح علی خاں نے میڈم کے گائے ہوئے گانے آکھ لڑی بدو بدی کو ری مکس گا کر کروڑوں ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ری مکس اور ری میش گانے اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ یہ نوجوان نسل کو اپنے گم کردہ خزانہ موسیقی سے جوڑے رکھتے ہیں،تاہم ری مکس اور ری میش کرنے والوں کو اصل گلوکارہ یا گلوکار کا نام ضرور بتانا چاہئے۔

     حمیرا ارشد نے فلم انار کلی میں میڈم کے گائے ہوئے گانے،

صدا ہوں اپنے پیار کی ، اور

  سب جگ سوئے ہم جاگیں،چاندنی راتیں،

کو بہت سی تقریبات میں گا کر خوب داد سمیٹی ہے۔

  سجاد علی نے فلم انار کلی میں میڈم کی آواز میں گائے  ہوئےگانے،

بانوری چکوری کرے، چندا سے پیار

دنیا سے چوری چوری

کو گا کر پی ٹی وی اور سٹیج پر بہت شہرت حاصل کی۔

  فلم سسرال میں منیر نیازی کا لکھا ہوا گیت،حسن لطیف کی موسیقی اور نور جہاں کی آواز نے ایک شہکار ترتیب دے دیا تھا۔

    جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا

کہیں سن نہ لے زمانہ اے دل خاموش ہو جا

میڈم نور جہاں کی ایک بہت خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنی گائی ہوئی غزلیات کی دھن ہمیشہ مشہور ریڈیو موسیقار استاد نذر حسین سے تیار کرواتی تھیں۔ملکہ ترنم کے گائے ہوئے نغمات اور گانوں کی اتنی طویل فہرست ہے کہ جو کئ کتب میں لکھی جا سکتی ہے۔اننکیںفلموں اور گانوں کی فہرست نیٹ،یو ٹیوب اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع پر موجود ہے۔

میڈم نور جہاں نے مہدی حسن ، احمد رشدی، منیر حسین،مسعود رانا،اےنیئر،پرویز مہدی اور غلام عباس کے ساتھ مل کر بہت سے دو گانے گائے۔اسی طرح انہوں نے رونا لیلی،ناہید اختر مہناز اور دیگر زنانہ گلوکاروں کے ساتھ مل کر بہت سے گیت گئے۔

 ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000ء کو 74 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔وہ کراچی ڈیفینس کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

   مہدی حسن اور لتا منگیشکر کہتی تھیں کہ ہم نے گانا گانا ملکہ ترنم سے سیکھا ہے۔

ممتاز گلوکار ترنم ناز میڈم نور جہاں کی باقاعدہ شاگرد پیں۔

  محمد سلیم ،گوجرانوالا

21 ستمبر 2025

Loading