Daily Roshni News

مسلم رہنماؤں کو پیش کیےگئے ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی منصوبےکی تفصیلات سامنے آگئیں

مسلم رہنماؤں کو پیش کیےگئے ٹرمپ کے غزہ جنگ بندی منصوبےکی تفصیلات سامنے آگئیں

انٹرنیشنل (ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ غزہ میں امن کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے۔

یہ منصوبہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر، مصر، اردن، ترکیے، انڈونیشیا اور پاکستان کے سربراہان کو پیش کیا گیا اور اب غیر ملکی خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے اس حوالے سے کچھ تفصیلات رپورٹ کی ہیں۔

امریکا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو مدنظر رکھا گیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ اس منصوبے میں اصل میں کیا شامل ہے؟

غزہ میں جنگ کیسے ختم ہوگی؟

اے ایف پی کی جانب سے رپورٹ کی گئیں تفصیلات کے مطابق ٹرمپ کے منصوبے میں غزہ میں مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کے انخلا اور بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔

عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا اور ساتھ ہی اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور غزہ پر قبضے کی کسی بھی کوشش کو ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ یہ ’ٹرمپ کا 21 نکاتی امن منصوبہ‘ ہے جو اسرائیل اور خطے کے تمام ہمسایہ ممالک کے خدشات کو حل کرتا ہے۔

امریکی ویب سائٹ ایکزيوس کے مطابق ٹرمپ نے عرب اور مسلم رہنماؤں کو خبردار کیا کہ جنگ فوراً ختم ہونی چاہیے ورنہ اسرائیل مزید عالمی تنہائی کا شکار ہوگا۔

حماس کا کیا ہوگا؟

ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی منصوبے میں غزہ کے لیے ایک نیا نظام حکومت تجویز کیا گیا ہے جس میں حماس شامل نہیں ہوگی۔

اسرائیل پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ حماس کا مستقبل کی انتظامیہ میں کوئی کردار نہیں ہوسکتا۔

عرب اور اسلامی رہنماؤں نے زور دیا کہ فلسطینی اتھارٹی کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے اور اسے غزہ اور مغربی کنارے دونوں کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے بااختیار بنایا جائے۔

رپورٹس کے مطابق منصوبے میں فلسطینی اتھارٹی کا کردار، ایک مشترکہ سکیورٹی فورس (جس میں فلسطینیوں کے ساتھ عرب و مسلم ممالک کے فوجی شامل ہوں گے) اور خطے کے ممالک سے مالی مدد شامل ہے تاکہ تعمیرِ نو میں مدد اور نئی انتظامیہ کو سہارا دیا جا سکے۔

اسرائیلی قبضے اور مغربی کنارے کا الحاق

عرب و اسلامی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ مغربی کنارے کے حصوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کی کوئی کوشش نہ ہو اور نہ ہی مقبوضہ بیت المقدس میں مذہبی مقامات کی حیثیت تبدیل کی جائے۔

اس کے علاوہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ غزہ کے شہریوں کو بے دخل کرنے یا ان کی واپسی میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہ دی جائے۔

ایکزيوس کے مطابق ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے کسی حصے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

یاد رہے کہ ٹرمپ نے فروری میں یہ تجویز دی تھی کہ فلسطینیوں کو نکال کر غزہ کو ’مشرقِ وسطیٰ کا ریوئرا‘ بنایا جائے جس پر عرب دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا۔

امریکا اور اتحادی کیا کہتے ہیں؟

ٹرمپ کے ایلچی وٹکوف نے نیویارک میں کہا کہ ’ہم پرامید ہیں، بلکہ مجھے کہنا چاہیے کہ پُراعتماد ہیں، کہ آنے والے دنوں میں کسی بڑی پیش رفت کا اعلان کر سکیں گے‘۔

منگل کے اجلاس کے بعد جاری مشترکہ بیان میں عرب اور اسلامی رہنماؤں نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ تعاون کے لیے پرعزم ہیں اور ان کی قیادت جنگ ختم کرنے کے لیے اہم ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق ملاقات کا ماحول ’مثبت‘ تھا جبکہ ایکزيوس نے عرب حکام کے حوالے سے بتایا کہ شرکا نے اجلاس کے بعد کہا کہ ’پہلی بار ہمیں لگا کہ مسئلے کے حل کیلئے ایک سنجیدہ منصوبہ موجود ہے‘۔

Loading