Daily Roshni News

پچھتر سے زائد کتابوں کے مصنف  بندرابن نامی۔۔۔

پچھتر سے زائد کتابوں کے مصنف  بندرابن نامی۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )پچھتر سے زائد کتابوں کے یہ مصنف  بندرابن نامی اس مقام پر پیدا ہوئے جسے کرشن جی کی جائے پیدائش بھی بتایا جاتا ہے۔  یہ یوپی کے  ضلع متھرا میں واقع ہے۔

ابوالخیر کشفی صاحب نے ان کی تاریخ پیدائش 2 فروری 1909 تحریر کی ہے جبکہ چند دیگر جگہوں پر  یہ مارچ 1905 بتائی گئی ہے۔ ان کے والد شیخ صدیق احمد کوتوالِ شہر تھے جنہوں نے ان کا نام محمد عمر رکھا۔ ابتدائی تعلیم بھوپال الیگزنڈرا ہائی اسکول، لکھنؤ کے چرچ ہائی اسکول اور گورنمنٹ ہائی اسکول حسین آباد میں حاصل کی۔  علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا مگر والد کے انتقال کے سبب تعلیم مکمل نہ ہوسکی۔

لکھنؤ کے ہمدم اخبار میں ملازمت اختیار کی  بعد میں جس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ روزنامہ ہند لکھنؤ کے ایڈیٹر بنے اور اس کے بعد اپنا روزانہ اخبا رطوفان نکالنا شروع کیا۔آپ دیگر جن اخبارات و رسائل سے وابستہ رہے ان میں روزنامہ ہمت لکھنؤ، انکشاف، سر پنچ، شباب، حق، حسنِ ادب لکھنؤ،  تحریک،  اور کائنات وغیرہ شامل ہیں۔

اسکول کے دنوں میں ہی شعر کہنے کا آٖغازکیا ۔ پہلی غزل رسالہ ترچھی نظر میں شائع ہوئی  جس کے دو اشعار ہیں

ہمیشہ غیر کی عزت  تیری محفل میں ہوتی ہے

تیرے کوچہ میں جاکر ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں

شفا پائے ہوئے ان کو نہیں دیکھا کبھی شوکت

جو عشق مرض مہلک کے کبھی بیمار ہوتے ہیں

ان کے والد نے  رسالے میں چھپی یہ غزل دیکھی جس کے نیچے درج تھا

’’ نتیجہ فکر شیخ محمد عمر صاحب شوکت تھانوی ‘‘  تو ان کی والدہ سے خفگی سے کہا

’’ میں پوچھتا ہوں یہ اس  نا معقول  کوچے میں جاتے ہی کیوں ہیں‘‘ والدہ بے چاری نے نہایت معصومیت سے فرمایا ’’ مجھے تو  خبر نہیں کہاں جاتا ہے اور کیوں جاتا ہے ‘‘

پہلا مزاحیہ مضمون ’ میٹھے چاول‘  لکھا جو   پہلے  اسی رسالے میں جس کا نام اب ’ نظر‘ ہوگیا تھا ، میں چھپا  اور پھر  1934  میں شائع ہونے والے مجموعہ مضامین موج تبسم میں شامل ہے۔ شوکت تھانوی کا پہلا مجموعہ کلام گہرستان کے عنوان سے  شائع ہوا۔

ہندوستان میں ریڈیو کی آمد پر آل انڈیا ریڈیو  لکھنؤ میں کام کرنے لگے جہاں لکھتے بھی رہے اور بولتے بھی رہے۔ چار سال ریڈیو کی ملازمت کے بعد فلمی دنیا  کا رخ کیا اور لاہور کی پنچولی پکچرز میں ملازم ہوگئے اور کہانی لکھنے لگے۔

دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں  سانگ پبلسٹی آرگنائزیشن  نامی سرکاری  ادارے میں ملازمت اختیار کی جس کے ڈائریکٹر حفیظ جالندھری تھے۔ جنگ کے خاتمے پر پنچولی پکچرز میں دوبارہ شامل ہوگئے۔ فلم شیریں فرہاد کی کہانی اور فلم پونجی کے گانے لکھ کر اور مشہور ہوگئے۔ فلم گلنار میں لکھنوی نواب دلشاد کے کردار میں  خوب صورت اداکاری بھی کی۔

اگست 1947 سے دس برس تک ریڈیو پاکستان لاہور  میں ملازم رہے ۔ بے شمار فیچر، خاکے اور ڈرامے لکھے اور صدا کاری کے جوہر دکھائے۔ قاضی جی کا لافانی کردار اسی دوران میں تخلیق کیا اور خود ادا بھی کرتے رہے۔ جولائی 1957 میں پی آئی اے نے پراپیگنڈہ مہم پر  یورپ بھیجا ۔ وہاں سے واپسی پر  روزنامہ جنگ کراچی کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور مشہور کالم وغیرہ وغیرہ اور پہاڑتلے لکھتے رہے۔ مشاعروں میں  اپنا کلام ترنم سے سناتے تھے۔

23 مارچ 1963 کو گورنر ہاؤس لاہور میں  بیماری کی حالت میں تمغہ امتیاز وصول کیا۔ اگلے ماہ اپریل میں کینسر کی تشخیص ہوئی اور 4 مئی 1963 کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ آپ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں مدفون ہیں۔

ان کا آخری کالم  پہاڑ تلے انتقال کے تیسرے روز 7 مئی 1963 کو جنگ راولپنڈی کی اشاعت میں شامل تھا جس میں  انہوں نے مختصر غیر حاضری کی معذرت کی تھی۔

آپ کے انتقال پر قراۃ العین حیدر نے لکھا ’’ اب کوئی دوسرے شوکت تھانوی دنیا میں نہیں آئیں گے‘‘

آپ کی تصانیف کے نام ہیں: مولانا، داماد، بیوی، بھابی، بقراط، کتیا، گرگٹ، شوکتیات، خبطی،  سسرال، پگلی، نورتن، مسکراہٹیں، سودیشی ریل، کِھی کِھی، جوڑ توڑ، موڈی کاٹے، تیسری آنکھ، نمک مرچ، مابدولت، مسٹر 58 ( جو مسٹر 420 کے نام سے بھی شائع ہوئی)، خوامخواہ،  شوکت تھانوی کی مزاحیہ شاعری،  سوتیا چاہ، پہیلی بیگم،  راجہ صاحب، ان شاءاللہ، قہقہے،  مریخ کی سیر، شیطان کی ڈائری،  نیلوفر،  صاحبزادی،  منجدھار، کارٹون،  بحر تبسم، موج تبسم،  بار خاطر،  طوفانِ تبسم،  اے دل ربا تیرے لیے، خدا نخواستہ، منشی جی، خانم خان، بکواس، دل پھینک، بیگم صاحب، سپنے، مارشل لا، جی ہاں پٹے ہیں، مجھے خرید لو، سانچ کو آنچ، ہم زلف ، قاضی جی،  گہرستان ( مجموعہ کلام 1934)، جوکر، بہروپیا، سنی سنائی ( ریڈیو ڈرامے)، کائنات تبسم، بید کی کرسی، نیا سال،  مکرر ارشاد، بڑبھس، مریض عشق پر،  غزالہ، کچھ یادیں کچھ باتیں، الٹ پھیر، برے بھلے، سیلاب تبسم، انتخاب مضامین،  معمہ خاتون، بیگم بادشاہ غلام،  غالب کے ڈرامے،  غم غلط، ( مزاحیہ کلام)،  شیش  محل، تیسرا آدمی،  کہا مرزا غالب نے،  بیر بل و ملا دو پیازہ،، دنیا کی بات،دنیائے  تبسم،  برق تبسم، قاعدہ بے قاعدہ،  لاٹری کا ٹکٹ، رقاصہ ( افسانے) ، حامد مرحوم، مغالطہ، سچ ( افسانے) ،شرمناک افسانے،  ڈھونگ، لاہوریات،  رعنا، نواب صاحب،  بچوں کے لیے گولر کا پھول، ،  وغیرہ وغیرہ

( تحریر: عابد علی بیگ )

Loading