Daily Roshni News

ندائے معرفت۔۔۔قسط نمبر2

ندائے معرفت

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہے جیسے خزاں آگئی یعنی وقت پھر گیا اب زندگی میں

لطف باقی نہیں رہا۔

چاروں طرف دیکھنے پر دنیا میں رہنے کو کوئی جگہ نظر نہیں آتی یعنی کوچ کا وقت آگیا اب دنیا چھوڑ دیناٹھہر گیا ہے۔

فرید!! ہاتھی سوہن انباریاں دیکھے کٹک ہزار

 جاں سر آوے اپنے تاں کو میت نہ پار

اس دنیا کا اصول ہے کہ جب مصیبت آجائے تو یہ کسی کا ساتھ نہیں دیتی چاہے کوئی اپنے وقت کا کیسا بھی صاحب اقتدار ہو ، اگر اس کے پاس ہاتھی، سونے کے انبار اور ہزاوں کی فوج بھی ہو ۔

جب جان سر آتی ہے تو بھی کچھ کام نہیں آتا۔

 کجھ نہ بجھے سمجھ نہ سجے دنیا کبھی بھاہ

سائیں میرے چنگا کیتائیں تاں منجھی دجھاں  ہا

 کچھ نہ بو جھا جائے کچھ نہ بجھائی دے دنیا ایک ایسی پوشیدہ آگ ہے۔

میرے مالک نے کرم کیا میں سنبھل گیا، نہیں تومیں بھی جل جاتا۔

بولے سیخ فرید پیارے اللہ لگے

 ایہہ تن ہوسی ناک زمانی، گور گھرے

آج ملاوا  شیخ فریدا

ٹھاکم کو ٹھیاں  منوں مچنڈریاں

 شیخ فرید کہتا ہے کہ اللہ سے لولگا

تیرا جسم مٹی ہو جائے گا اور قبر تیراگھر ہو گا

خدا سے اسی زندگی میں ملاقات ہو سکتی ہے

 بشر طیکہ خواہشات نفسانی اور دلوں کو بھڑ کانے والے جذبات کو روک لو۔

دلوں محبت میں سے سی سچے آ

جیں  من ہور، مکھ ہورا ئے کانڈھے کچے آ

رتے عشق ندائی رنگ دیدار کے

 وسریا جیں نام تے بھوئیں بھار تھئے

 جن کے دلوں میں محبت ہے وہی بچے ہیں۔ جن کے دل اور چیرے اور ہیں، وہ کچے کہلاتے ہیں۔

جو خدا کے عشق میں رنگے ہوتے ہیں وہی دیدار خدا کر سکتے ہیں۔

جو نام خدا بھول گئے وہ زمین پہ بوجھ بن گئے۔

 پروردگار، انار، اگم، بے انت توں

جنھاں پچھاتا  سچ چمناں  پیر موں

 پروردگار ! تولا محدود حدوں سے باہر ہے، تیری انتہا نہیں ہے۔ جس نے حق کو پہچانا ، حق ہے کہ اس کی قدم بوسی کی جائے۔

جے جانا مر جائیے گھم نہ آئیے

جھوٹی دنیا لگ نہ آپ  و سجائیے

 اگر تو جانتا کہ مرنے کے بعد پھر لوٹ کر واپس نہیں آنا۔

تو اس جھوٹی دنیا کے پیچھے خود کو بر باد نہ کرتا۔

 بولیے سچ دھرم، جھوٹ نہ بولیئے

 جو گرو دسنے واٹ، مریداں جو لیے

 اپنے ایمان کے ساتھ سچ بولیئے، جھوٹ نہ ہو لیے۔مرشد جو رستہ بتائے اسی پر شاگردوں کو چلنا چاہیے۔

جے جاناں تل تھوڑے سنبھل بنک بھریں

 جے جاناں شوہ ننڈھڑا تھوڑا مان کریں

 اگر تو جانتا کہ زندگی کم ہے، سنجل کرپیالہ بھرتا۔

اگر جانتا کہ خدا بے نیاز ہے، تو تھوڑا اور کی مانگ کرتا۔

 چنت کھٹولا ، وان دُکھ ، پره و چھاون لیف

ایہہ ہمارا جیونا، توں صاحب سچے دیکھ

فکر کی چار پائی ، دکھوں کی بان اوپر سے فراق کی رضائی۔

یہی ہماری زندگی ہے ، تو بچے مالک دیکھ لے۔

ہوں بلہاری تھاں پنگھیاں جنگل جنھاں داس

 کنگر چکن، تھل وسن، رب نہ چھوڈان پاس

 ان پرندوں پہ قربان ہو جاؤں جنگل جن کا بسیرا ہے۔ دشت میں آباد کنکر کھائیں پر رب کا بھروسہ نہ چھوڑیں۔

کٹھ مصلا ، صوف گل، دل کاتی ، گڑ وات

باہر دسنے چاننا، دل اندھیاری رات

 کندھے پر جاہ نماز، گلے میں رومال، دل چھری کی مانند اور منہ میں مٹھاس !

ایسے لوگوں کے ظاہر سے روشنی نظر آئے گی مگر ان کا دل سیاہ رات کی طر حکالا ہے۔

سبھناں من مانک ، ٹھاہن مول مچانگوا

 جے تو پر یا دی سک بیاؤ نہ تھا میں کہیں دا

 سب کے دل موتی کی طرح ہیں اسے ہر گزنہ توڑتا۔

 اگر تجھے محبوب کی آرزو ہے تو کسی کا دل مت توڑنا۔

 کون سو اکھڑ، کون گن ، کون سو منیا منت

 کون سو و لیسو ہوں بکری چت دس آوے کنت

 کون سے الفاظ ، کون سی خوبی

کون سا موتی و منتر، کون سا بھیس میں اپناؤں جس سے میرا محبوب (خدا) مجھے مل جائے۔ سکھ برادری میں بابا فرید کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ بابا فرید گنج شکر کی اعلیٰ اقدار کی ترجمانی کرتی انسان دوست شاعری بہت زیادہ مقبول ہوئی۔ سکھوں کے گورو بابا گورو نانک نے بابا فرید کے کئی اشعار کو اپنی کتاب گرنتھ میں شامل کیا۔

بابا فرید کی شاعری نے نا صرف پنجابی ادب کی بنیاد رکھی بلکہ اردو زبان (ریختہ) کی ترویج میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنے مقالہ اردو زبان کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کردار میں مختلف صوفیاء کے اشعار اقوال اور فرمودات پیش کئے ہیں ان کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اردو کے آغاز وارتقاء میں صوفیا کرام نے ہر اول دستے کا کام کیا ہے۔

حضرت بابا فرید گنج شکر نے پنجابی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی وعظ و تزکیہ کے لئے بخوبی استعمال کیا۔ وہ اپنے وقت کے صوفی شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں جو زبان ملتی ہے وہ ریختہ (اردو زبان) سے بظاہر کافی مشابہ ہے۔ حضرت بابا فرید کی اردو شاعری کے بعض اشعار جو آپ سے منسوب ہیں درج ہیں:

تن دھونے سے دل جو ہوتا پوک

 پیش رو اصفیا کے ہوتے غوث

خاک لانے سے گر خدا پائیں

 گائے بیلاں بھی واصلاں ہو جائیں

 حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر 5 محرم الحرام 679 ہجری 1280 سن عیسوی 92 سال کی عمر میں وفات پائی۔ بابافرید کے خلفاء میں حضرت مولانا بدر الدین اسحاق، خواجہ نظام الدین اولیاء حضرت علی احمد کلیر صابری شامل ہیں، بابا فرید کا عرس ہر سال پانچ محرم کو پاکپتن میں منایا جاتا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2025

Loading