Daily Roshni News

ایک نیا سفر، ایک نئی جدوجہد، جو  پرانی کہانی کا نیا باب لکھنے کے لیے تیار ہے۔۔۔تحریر۔۔۔ چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.

ایک نیا سفر، ایک نئی جدوجہد، جو  پرانی کہانی کا نیا باب لکھنے کے لیے تیار ہے

تحریر۔۔۔ چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ایک نیا سفر، ایک نئی جدوجہد، جو  پرانی کہانی کا نیا باب لکھنے کے لیے تیار ہے۔۔۔ تحریر۔۔۔ چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور)گاؤں یا کسی چھوٹے شہر کے ایک عام گھر میں پیدا ہونے والا بچہ آنکھ کھولتے ہی والدین کے سپنے وراثت میں پاتا ہے۔ ایک ماں ہے جو اس کے لیے اپنی خواہشات قربان کر کے اس کی کتابیں سنبھالتی ہے، ایک باپ ہے جو دن رات پسینہ بہا کر یہ سوچتا ہے کہ اس کا بیٹا اس کی محرومیوں کا ازالہ کرے گا۔ چھوٹے چھوٹے خوابوں سے شروع ہونے والی یہ زندگی بڑے بڑے خوابوں تک پھیلتی ہے…..ڈاکٹر بننا ہے، انجینئر بننا ہے، افسر بننا ہے یا پھر کوئی ایسا مقام حاصل کرنا ہے جس پر لوگ رشک کریں۔

پھر لڑکپن آتا ہے اور اس کے بعد جوانی، یونیورسٹی کا زمانہ، کتابیں، نوٹس، امتحانات، کرائے کے کمرے اور دوستوں کے ساتھ مستقبل کے سنہرے خواب۔ والدین ایک امید کے دیے کی طرح پیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور بیٹا ان کے خوابوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے آگے بڑھتا ہے۔ مگر پڑھائی ختم ہوتے ہی زندگی ایک تلخ سوال پوچھتی ہے: ’’نوکری کہاں ہے؟‘‘

اس کے بعد ایک طویل جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے۔ درخواستیں، انٹرویوز، سفارشی خطوط اور آخرکار ایک ایسی نوکری جو نہ خوابوں کے مطابق ہوتی ہے، نہ تنخواہ کے۔ ابتدائی تنخواہ اتنی کم کہ کرائے کے مکان اور آمد و رفت کے اخراجات نکالنے کے بعد ہاتھ میں کچھ بھی نہ بچے۔ اور اگر کاروبار کرنے کا سوچے تو سرمائے کا مسئلہ، قرضے کا دباؤ اور معاشی غیر یقینی۔

ساتھ ہی بہن کی شادی کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے. زندگی کا سب سے قیمتی وقت اسی دوڑ میں گزر جاتا ہے۔ پھر ایک دن شادی ہو جاتی ہے، ایک کمرہ اور ایک خواب اور ایک نیا دائرہ ذمہ داریوں کا۔ بیوی کے اخراجات، بچوں کے دودھ اور اسکول کی فیس، بجلی اور گیس کے بل، ڈاکٹر کی پرچیاں، اور کبھی کبھار ایک کپڑوں کا جوڑا……سب کچھ ایک محدود آمدنی میں بانٹنا۔ وہ خواب جو کبھی اپنے لیے دیکھے تھے، اب بچوں کے لیے مختص ہو جاتے ہیں۔

پچیس تیس سال کی عمر میں وہ جوانی کی تپش لیے لڑ رہا ہوتا ہے مگر چالیس کے بعد جسم تھکنے لگتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے چکر، بلڈ پریشر اور شوگر کی ادویات، ایک چھوٹا سا گھر خریدنے کا خواب اور بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کا جنون…. سب کچھ ایک مسلسل جدوجہد میں بدل جاتا ہے۔ آئینے میں جھانک کر دیکھے تو سیاہ بالوں میں چاندی اتر آئی ہوتی ہے۔

پچاس کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے خوابوں کے قافلے تھک جاتے ہیں مگر ذمہ داریاں زندہ رہتی ہیں۔ بچوں کی شادیاں، ان کے مستقبل کی فکر، معاشرتی دباؤ اور بڑھتی عمر کے ساتھ صحت کی مشکلات۔ وہ آدمی جو کبھی سوچتا تھا کہ ایک دن سکون سے بیٹھے گا، اب بھی دوڑ رہا ہوتا ہے……مگر اب یہ دوڑ اپنی منزل کے لیے نہیں، دوسروں کی منزلیں بنانے کے لیے۔

یہ کہانی صرف ایک شخص کی نہیں بلکہ مڈل کلاس کے ہر شخص کی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی جینے کے لیے نہیں بلکہ جھیلنے کے لیے گزارتے ہیں۔ ان کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں مگر ان کے کندھوں پر دوسروں کے خواب پورے ہو جاتے ہیں۔ ان کے بچے بڑے ہو کر معاشرے میں مقام بناتے ہیں مگر وہ خود زندگی کی آخری دہائیوں میں اپنے خوابوں کی قبریں شمار کرتے رہ جاتے ہیں۔

زندگی ان کے لیے جشن نہیں، ایک امتحان ہے۔ ایک ایسا امتحان جس کے سوال بدلتے رہتے ہیں اور جواب دینے والا آخر تک ان سوالوں میں الجھا رہتا ہے۔ اور جب وہ اپنی آنکھ بند کرتا ہے تو اس کے بیٹے یا بیٹی کی آنکھوں میں ایک نیا خواب جنم لے چکا ہوتا ہے، ایک نیا سفر، ایک نئی جدوجہد، جو اسی پرانی کہانی کا نیا باب لکھنے کے لیے تیار ہے۔

تحریر: چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.

………………….. قلم کٹہرا………………………

Loading