“دواخانے کے سامنے”
Shah Ji
شام ڈھل چکی تھی۔ بازار کی چہل پہل دھیرے دھیرے سمٹ رہی تھی۔
اسی بھیڑ میں ایک حسین و جمیل لڑکی دواخانے کے سامنے آ کر رک گئی۔
وہ چپ چاپ کھڑی تھی — نہ کسی سے کچھ کہہ رہی تھی، نہ کچھ خرید رہی تھی۔
بس جیسے کسی انجانے انتظار میں ہو۔
دواخانے کا مالک اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔
اس کے تجربہ کار چہرے پر شک کی ایک لکیر ابھری —
آخر یہ لڑکی اتنی دیر سے یہاں کیا کر رہی ہے؟
وقت گزرتا گیا۔
گاہک آتے رہے، جاتے رہے، اور دکان آہستہ آہستہ سنسان ہونے لگی۔
جب آخری خریدار بھی چلا گیا تو لڑکی نے دھیرے سے قدم بڑھائے۔
اس کی نظریں نیچی تھیں، آواز دبی ہوئی۔
وہ سیدھی ایک سیلز مین کے قریب جا کر ٹھہری۔
مالک کی آنکھیں اور بھی تیز ہو گئیں —
جیسے کوئی راز کھلنے والا ہو۔
لڑکی نے آہستہ سے اپنے دوپٹے کے آنچل میں ہاتھ ڈالا،
اور ایک چھوٹا سا کاغذ نکال کر کانپتے ہاتھوں سے آگے بڑھایا۔
پھر مدھم سی آواز میں بولی:
“بھیا… میری ایک ڈاکٹر سے شادی طے ہوئی ہے…
آج اُن کی پہلی چٹھی آئی ہے…
ذرا… پڑھ کر سنا دیں گے کیا؟”