“ہاتھی عدل، عقل، اور اعتدال کی علامت ہے۔”
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جب ایک ہاتھی کو ایک مُلک سے دوسرے مُلک شفٹ کیا جاتا ھے تو اُسے ایک بہت بڑے لکڑی کے صندوق میں بند کر کے ہوائی جہاز میں بٹھایا جاتا ہے۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اُس صندوق کے اندر ننھے ننھے چُوزے بھی رکھے جاتے ہیں۔
جی ہاں — نرم، نازک، کمزور چُوزے۔
وجہ؟
کیونکہ ہاتھی اپنی دیوہیکل جسامت کے باوجود فطری طور پر نہایت محتاط ہوتا ہے۔
وہ کسی جاندار کو نقصان پہنچانے سے شدید گریز کرتا ہے۔
چُوزوں سے گھرے ہونے کے بعد ہاتھی پورے سفر کے دوران بالکل خاموش اور ساکت کھڑا رہتا ہے
نہ اس لئے کہ اُسے خود کوئی خطرہ ہے،
بلکہ اس لئے کہ کہیں کسی چُوزے پر پاؤں نہ آ جائے۔
یہ اُس کے صبر، اُس کی طاقت، اور اُس کی شرافت کا پہلا امتحان ہوتا ہے۔
اس غیرمعمولی رویے نے سائنسدانوں کو حیران کر دیا۔
تحقیق سے پتا چلا کہ ہاتھی کے دماغ میں spindle cells نامی وہ خاص اعصابی خلیے موجود ہیں جو ہمدردی، خود آگاہی، اور سماجی رشتوں سے وابستہ ہیں —
اور یہ خلیے صرف چند مخلوقات میں پائے جاتے ہیں، مثلاً انسان اور بندر۔
یوں ہاتھی صرف جسمانی طور پر ہی نہیں، جذباتی طور پر بھی عظیم ہے۔
وہ محسوس کرتا ہے۔
سمجھتا ہے۔
اور ہر موقع پر رحم کو جبلّت پر ترجیح دیتا ہے۔
صدیوں پہلے لیونارڈو دا ونچی نے ہاتھی کی انہی صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا:
“ہاتھی عدل، عقل، اور اعتدال کی علامت ہے۔”
وہ کہتا ہے، ہاتھی جب دریا میں اُترتا ہے تو شور نہیں مچاتا،
بلکہ باوقار انداز میں نہاتا ہے — گویا کوئی مقدّس عمل انجام دے رہا ہو۔
وہ بھٹکنے والوں کی راہ دکھاتا ہے۔
تنہا نہیں چلتا، ہمیشہ جھنڈ کے ساتھ رہتا ہے۔
راستہ ایک رہنما کے پیچھے طے کرتا ہے۔
اور جفتی کے بعد خود کو پاک کرتا ہے، پھر قافلے میں واپس آتا ہے۔
یہاں تک کہ جب کسی دوسرے جھنڈ سے سامنا ہو تو وہ اپنی طاقت نہیں جتاتا —
بلکہ اپنی سونڈ سے نرمی سے راستہ بناتا ہے، بغیر نقصان پہنچائے۔
لیکن شاید اُس کا سب سے گہرا عمل وہ ہوتا ہے جب ہاتھی کو اپنی موت قریب محسوس ہوتی ہے۔
وہ چپ چاپ اپنے جھنڈ سے الگ ہو جاتا ہے —
اکیلا مرنے کے لیے۔
کمزوری سے نہیں،
بلکہ اس لئے کہ کم عمر ہاتھی اپنے دکھ سے محفوظ رہیں۔
تاکہ غم کا بوجھ وہ خود اُٹھا لے۔
یہ اُس کی عزّتِ نفس ہے،
اُس کی رحم دِلی،
اُس کی شرافت۔
انسانوں کے لیئے سوال ھے