کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں
قسط نمبر3
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں) درمیانی اور اعلیٰ راہ کی تلاش میں دونوں میاں بیوی کو احساس ہوتا ہے کہ ان کی محبت اور ان کا تعلق ان کے اتحاد عمل کا حصہ ہیں۔ وہ اپنے اندر اتحاد عمل یعنی سائی نرجی پیدا کرتے ہیں۔ وہ اس وقت تبادلہ خیال کرتے ہیں جب تک کہ وہ کسی ایسے حل تک نہیں پہنچ جاتے جو دونوں کو مطمئن کرسکے۔ یہ ان کی اپنی اپنی ترجیحات کی نسبت بہتر ہے۔ یہ اتحاد عمل پر مبنی حل ہے جو کہ P اور PC دونوں کو تقویت بخشتا ہے۔
تیسرے متبادل، درمیانی راہ کی تخلیق دراصل زاویہ نظر کی ایک بڑی تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی دو شاخوں میں منقسم ہونے کے بجائے نئے ممکنات کی طرف ہے۔ لیکن نتائج میں فرق دیکھیے !
جو لوگ باہمی انحصار میں رہ کر فیصلے کرتے ہیں وہ کس قدر منفی توانائی خرچ کرتے ہیں۔ دوسروں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلانے میں ، سیاسی چالوں میں، مقابلہ بازی میں، مخالفت میں، اپنا دفاع کرنے میں کتنا وقت برباد کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ آپ ڈھلان کی طرف گاڑی چلا رہے ہوں اور ایک پاؤں اسپیڈ بڑھا رہا ہو اور دوسرا پاؤں بریک دبا رہا ہو!…. اور بجائے بریک پر سے پاؤں ہٹانے کے بہت سے لوگ اسپیڈ بڑھانے میں لگے رہتے ہیں۔ ان کا زیادہ زور دباؤ ڈالنے پر ہوتا ، خطابت کے زور پر، منطق اور دلائل کے زور پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے پر ہوتا ہے۔
مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ دوسروں پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے لوگ باہمی انحصار میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا انحصار یا تو اپنی پوزیشن اور رتبہ پر ہوتا ہے اور ان کا مطمع نظر جیت/ہار ہوتا ہے۔ یا پھر ان کا انحصار اس خواہش پر ہوتا ہے کہ وہ دوسروں میں مقبول ہوسکیں۔ لہٰذا انہیں ہار/جیت بھی قبول ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ باہمی جیت کی تکنیک کی بات تو کریں لیکن وہ سنجیدگی سے سننا نہیں چاہتے، وہ تو بس چالاکی سے ساز باز اور جوڑ توڑ کرکے کام نکلوانا چاہتے ہیں اور اس ماحول میں سائی نرجی یعنی اتحاد عمل اور تخلیقی تعاون نہیں پنپ سکتا۔
تحفظات اور خدشات میں مبتلا لوگ چاہتے ہیں کہ حقائق ان کے زاویہ نظر کے مطابق ہی ہوں۔ دوسروں کی نقالی کرنا ان کی بہت بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کی سوچ کو وہ اپنی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ تعلقات کی اصل مظبوطی دوسروں کا نقطہ نظر معلوم کرنے میں مضمر ہوتی ہے۔ ایک جیسا نقطہ نظر ہونا، یکتائی نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اتحاد ہوتا ہے۔ اتحاد عمل کا نچوڑ یہ ہوتا ہے کہ اختلاف رائے کی قدر کی جائے۔
آپس میں اتحاد عمل ((Synergy قائم کرنے کی کلید یہ ہے کہ پہلے اپنے اندر اتحادعمل پیدا کیا جائے۔ لوگوں کے درمیان اتحادعمل کا نچوڑ پہلی تین عادات کے اصولوں میں ہے۔ یہ ہمیں اندرونی تحفظ مہیا کرتی ہے جو کہ لوگوں کے ساتھ کھلنےا ور پراعتماد ہونے کے لیے ضروری ہے۔
جب کسی شخص کی اپنے دائیں دماغ کی وجدانی، تخلیقی اور بصری `قوت تک رسائی ہو اور وہ بیک وقت بائیں دماغ کی تجرباتی، منطقی اور زبانی صفات پر بھی دسترس رکھتا ہو تو پھر اس کا مطلب ہوتا ہے کہ پورا دماغ کام کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے دماغ میں ایک ذہنی وروحانی سائی نرجی Synergy پیدا ہورہی ہوتی ہے اور یہ خصوصیت زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے بہترین ذریعہ Tool ہے۔ کیونکہ زندگی محض منطق کا نام نہیں بلکہ یہ جذبات کا نام بھی ہے۔
اختلافات کی قدر کرنا سائی نرجی کا نچوڑ ہے۔ لوگوں کے درمیان ذہنی ، جذباتی اور نفسیاتی اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ ان اختلافات کو سمجھنے کی بنیادی کلید یہ ہے کہ یہ ادراک کیا جائے کہ لوگ دنیا کو اس طرح نہیں دیکھتے جیسے کہ وہ حقیقتاً ہے بلکہ ویسے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ خود سوچتے ہیں۔
اگر میرا یہی زاویہ نظر رہا تو پھر میں کبھی بھی باہمی انحصار نہیں پاسکوں گابلکہ اپنے اوپر بھی انحصار نہیں کرسکوں گا۔ میرے اپنے زاویہ نظر کی مشروطیت ہی مجھے محدود کیے رکھے گی۔
جو شخص صحیح معنوں میں پُر اثر ہوتا ہے اس میں عجز و انکسار اور احترام ہوتا ہے۔ وہ اپنے ادراک کی حدود کو بھی جانتا ہے اور دوسروں کے دل و دماغ میں موجود بےبہا وسائل کا بھی قدر دان ہوتا ہے۔ ایسا شخص اختلافات کی قدر کرتا ہے کیوں کہ ان اختلافات کو سمجھنے سے اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے، حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم صرف اپنے تجربات تک محدود ہوجاتے ہیں تو پھر ہم بیرونی معلومات کی کمی کے مسائل میں پھنسجاتے ہیں ۔
کیا یہ منطقی بات ہے کہ دو لوگوں کا کسی بات پر اختلاف رائے ہو اور دونوں صحیح ہوں….؟
یہ منطقی نہیں یہ نفسیاتی ہے اور یہ بالکل حقیقت ہے۔
ہم پہلے بھی تجربہ کرچکے ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی تصویر دیکھ رہے ہی ، اس تصویر میں آپ نوجوان دوشیزہ دیکھتے ہیں، اور میں بوڑھی عورت دیکھتا ہوں اور ہم دونوں صحیح ہیں۔ ہم دونوں ایک ہی طرح کی سیاہ لکیریں اور ان کے درمیان سفید جگہ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ہم انہیں مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں اس لیے کہ ہم اسے اپنی اپنی سوچ (نفسیات)کے انداز کے مطابق دیکھ رہے ہیں۔
جب تک ہم اپنے ادراک کے اختلافات کو نہیں سمجھیں گے، تب تک ہم ایک دوسرے کی قدر نہیں کریں گے۔
میں صرف بوڑھی عورت دیکھ رہا ہوں مگر مجھے یہ اندازہ ہوگا کہ آپ کچھ اور دیکھ رہے ہیں اور میں آپ کے زاویہ نظر کی قدر کرتا ہوں، آپ کے ادراک کی قدر کرتا ہوں۔ جب مجھے ادراک کے فرق کا احساس ہوجاتا ہے تو میں کہتا ہوں ‘‘ٹھیک ہے ، آپ اسے مختلف انداز میں دیکھتے ہو! تو مجھے سمجھاؤ کہ آپ کیا دیکھ رہے ہو۔’’
اگر دو افراد ایک ہی جیسی رائے دے رہے ہوں تو ایک غیر ضروری ہوجاتی ہے۔ میں ایسے شخص سے بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھنا چاہوں گا جو مجھے وہی بات بتائے جو میں پہلے سے جانتا ہوں۔ میں ان سے بات کرنا چاہوں گا جو مجھ سے مختلف سوچ ، علم رکھتے ہوں گے۔
میں اس اختلاف رائے کا قدر دان ہوں۔ ایسا کرنے سے ناصرف یہ کہ میں اپنے علم اور آگاہی میں اضافہ کرتا ہوں بلکہ میں آپ کی بات کو بھی تسلیم کرتا ہوں اور آپ کو نفسیاتی تعاون فراہم کرتا ہوں۔ دراصل میں بریک سے پاؤں اٹھالیتا ہوں اور خرچ ہونے والی اپنی اس منفی انرجی کو خارج کر دینے کا موقع فراہم کرتا ہوں جو آپ خواہ مخواہ اپنی پوزیشن کو درست ثابت کرنے میں خرچ کر رہے تھے۔ اس طرح میں سائی نرجی کے لیے ماحول قائم کرتا ہوں۔
باہمی انحصار کی صورتحال میں سائی نرجی ایسی منفی طاقتوں سے نپٹنے کے لیے مددگار ہوتی ہے، جو ترقی اور تبدیلی کے خلاف کام کر رہی ہوتی ہیں۔
ایک سماجی ماہر کرٹ لیون Kurt Lewin نے Force Field Analysis نامی ایک ماڈل تیار کیا ، اس ماڈل میں انہوں نے وضاحت کی کہ کسی بھی کارکردگی کی موجودہ سطح دراصل ایک توازن کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ ڈرائیونگ فورس Driving Forceیعنی توازن چلانے، اکسانے اور حوصلہ و ہمت دینے والی قوتوں اور ریسٹریننگ فورس Restraining Force یعنی مزاحمت، رکاوٹ ڈالنے اور حوصلہ شکنی کرنے والی قوتوں کے درمیان ہوتا ہے۔
ہمت اور حوصلہ افزائی کرنے والی قوتیں۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017