Daily Roshni News

منٹو اور قائدِاعظم کی ملاقات کی روداد

منٹو اور قائدِاعظم کی ملاقات کی روداد

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سعادت حسن منٹو، برصغیر کے وہ بےباک افسانہ نگار تھے جنہوں نے انسانی نفسیات اور سماجی حقیقتوں کو بےنقاب کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی۔ ان کی تحریروں میں سچائی، تلخی اور طنز کا ایسا امتزاج پایا جاتا ہے جو قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ مگر کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ منٹو کی زندگی میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب ان کی ملاقات بانیٔ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح سے ہوئی۔

یہ واقعہ اُس زمانے کا ہے جب منٹو بمبئی میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تھے اور ادبی دنیا میں اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ قائدِاعظم اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے برطانوی ہند کی سیاست کے افق پر چمک رہے تھے۔

منٹو کے دوستوں میں سے ایک شخص، جو قائدِاعظم کے قریب تھا، نے ایک روز منٹو سے کہا کہ وہ انہیں قائدِاعظم سے ملوائے گا۔ منٹو اس پیشکش پر فوراً تیار ہوگئے — کیونکہ وہ جناح صاحب کی شخصیت سے گہرا تاثر رکھتے تھے؛ وہ انہیں ایک خاموش، مگر فولادی ارادے والے رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔

جب ملاقات کا وقت مقرر ہوا، منٹو قائدِاعظم کے دفتر پہنچے۔ وہ لمحہ منٹو کے لیے غیرمعمولی تھا۔ کمرے میں سادہ مگر وقار بھرا سکوت تھا۔ قائدِاعظم کرسی پر بیٹھے کچھ کاغذات دیکھ رہے تھے۔ منٹو اندر داخل ہوئے، تو جناح صاحب نے سر اٹھایا، مسکرائے اور اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔

منٹو نے بعد میں لکھا کہ “جناح صاحب کی نگاہ میں ایک ایسی سنجیدگی اور شرافت تھی کہ انسان خودبخود سیدھا بیٹھ جاتا ہے”۔

گفتگو کا آغاز رسمی انداز میں ہوا۔ جناح صاحب نے ان کے کام کے بارے میں دریافت کیا۔ منٹو نے بتایا کہ وہ افسانہ نگاری اور ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھتے ہیں۔ قائدِاعظم نے مسکرا کر کہا:

“قوموں کی اصلاح کے لیے قلم تلوار سے زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ مگر یہ شرط ہے کہ وہ قلم سچ لکھے، خواہ وہ سچ کڑوا ہی کیوں نہ ہو۔”

یہ جملہ منٹو کے دل پر نقش ہوگیا۔ منٹو نے اعتراف کیا کہ “میں اس دن پہلی بار سمجھا کہ قیادت صرف تقریروں سے نہیں بلکہ کردار اور فہم سے جنم لیتی ہے۔”

ملاقات زیادہ دیر نہ چلی — چند منٹ کی تھی — مگر منٹو پر اس کا گہرا اثر ہوا۔ انہوں نے بعد میں کہا کہ “میں جناح صاحب سے زیادہ بول نہیں سکا، کیونکہ اُن کی موجودگی میں خاموشی بھی ایک گفتگو بن جاتی تھی۔”

ادبی و فکری تاثر

یہ ملاقات کسی رسمی یا سیاسی نوعیت کی نہ تھی، بلکہ دو مختلف مگر ہم خیال دنیاؤں — سیاست اور ادب — کا ایک حسین ملاپ تھی۔ قائدِاعظم کا منٹو سے کہنا کہ “قلم سچ لکھے” دراصل اس بات کا اعتراف تھا کہ ادب قوم کی روح کو جگانے کی طاقت رکھتا ہے۔

منٹو کی تحریروں میں بعد کے برسوں میں جو جرأتِ اظہار اور سچائی کی بےرحم جھلک دکھائی دیتی ہے، اس پر بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اُس میں قائدِاعظم کی اس ملاقات کا اثر کسی نہ کسی درجے میں موجود تھا۔

اختتامیہ

یوں تو منٹو کے بارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں، مگر قائدِاعظم سے ملاقات کا یہ واقعہ ان کے دل کے نہاں خانوں میں ہمیشہ محفوظ رہا۔ شاید اسی لیے منٹو نے بعد میں لکھا:

“میں نے جناح صاحب کو دیکھا — وہ الفاظ میں نہیں، خاموشی میں بولتے تھے۔ اور ان کی خاموشی میں ایک پوری قوم کا خواب چھپا تھا۔”

Loading