اور 6 اکتوبر ممتاز ترقی پسند شاعر، افسانہ نگار اور نقاد اختر انصاری دہلوی کی برسی۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظ میرا
آج اس شعر کے خالق ممتاز ترقی پسند شاعر، افسانہ نگار اور نقاد اختر انصاری دہلوی کی برسی ہے
وہ یکم اکتوبر 1909ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے اور 6 اکتوبر 1988 کو علی گڑھ میں وفات پائی۔
ان کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد دہلی میں مستقل طور پر سکونت اختیار کر لی تھی ، اس لئے اختر انصاری نے دہلی میں ہوش سنبھالا ۔ اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کرنے کے بعد یونیورسٹی اسکول میں انگریزی کے استاد بن گئے۔ اس دوران اردو ادب کا مطالعہ بھی جاری رہا ، 1947 میں علی گڑھ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ بعد ازاں مسلم یونیورسٹی ٹریننگ کالج میں لکچرر ہو گئے۔
اختر انصاری نے ترقی پسند نظریات کو عام کرنے اور انہیں ایک تنقیدی، فکری اور سائنسی بیناد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی شاعری، تنقید اور افسانے اسی جد وجہد کا اعلامیہ میں۔ شاعری میں اختر انصاری قطعہ نگار کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔ ان کی تصانیف میں’نغمۂ روح‘، ’ آبگینے‘، ’خوناب‘، ’ تنقیدی شعور‘، ’روحِ ادب‘، ’روحِ عصر‘، ’سرودِ جاں‘، ’ ٹیڑھی زمین‘ ’شہرِ غزل‘ ، ’اندھی دنیا اور دوسرے افسانے‘ ، ’ نازو اور دوسرے افسانے‘ (افسانے) ’حالی اور نیا تنقیدی شعور‘ ، ’ افادی ادب‘ (تنقید) وغیرہ شامل ہیں۔
اختر انصاری دہلوی کے کچھ اور شعر
اس میں کوئی مرا شریک نہیں
میرا دکھ آہ صرف میرا ہے
روئے بغیر چارہ نہ رونے کی تاب ہے
کیا چیز اف یہ کیفیتِ اضطراب ہے
ہاں کبھی خواب، عشق دیکھا تھا
اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے
اپنی اجڑی ہوئی دنیا کی کہانی ہوں میں
ایک بگڑی ہوئی تصویر جوانی ہوں میں
وہ ماضی جو ہے اک مجموعہ اشکوں اور آہوں کا
نہ جانے مجھ کو اس ماضی سے کیوں اتنی محبت ہے