اصل سکون اور کامیابی رزقِ حلال میں ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک شخص کا بکرا چوری ہوگیا، وہ بہت غمگین و پریشان تھا، وہ اسی حالت میں اپنے پیر صاحب کے پاس چلا گیا اور عرض کی، ”یا حضرت! میرا بکرا چوری ہوگیا ہے، دعا کریں کہ مجھے واپس مل جائے۔”
پیر صاحب نے کہا، ”تُو چور کو اپنا بکرا معاف کر دے، کہہ مجھ پر بکرا حرام ہو اور چور پر بکرا حلال ہو۔“
پریشان حال شخص بولا ”پیر صاحب، کیسی باتیں کر رہے ہیں، ایک تو چور نے زیادتی کی اور اب میں اسے اپنا بکرا معاف کر دوں، یہ تو غلط ہے۔“
پیر صاحب نے جواب دیا، ”جیسا کہا بس ویسا ہی کر۔“
پیر صاحب کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، دل پر پتھر رکھ کر بکرا چور کو معاف کر دیا اور زبان سے بولا،
”میرا بکرا چرانے والے، میرا بکرا تجھ پر حلال ہوا۔“
وہ شخص سخت مایوسی کے عالم میں واپس لوٹ آیا اور رات کو سو گیا، آدھی رات گذری تو بکرے کی آواز سن کر اس کی آنکھ کھل گئی، وہ جلدی سے اٹھا، جب باہر نکل کر دیکھا تو بکرا دروازے کے ساتھ بندھا ہوا تھا، رات کے پچھلے پہر چور خود ہی بکرا چھوڑ گیا تھا، وہ بہت حیران ہوا اور صبح ہوتے ہی پیر صاحب کے پاس پہنچ کر سارا احوال سنایا۔
پیر صاحب نے مسکرا کر جواب دیا،
”دراصل چور نے ساری زندگی حرام کا مال کھایا تھا اور حرام اسے ہضم بھی ہوجاتا ہے، جب تُو نے اسے اپنا بکرا معاف کیا تو وہ اس پر حلال ہوگیا، چونکہ اسے حلال مال ہضم نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ بے چین ہوگیا اور رات ڈھلنے سے پہلے ہی بکرا واپس چھوڑ گیا۔“
انسان کے لیے اصل سکون اور کامیابی رزقِ حلال میں ہے، جو لوگ حرام کے عادی ہو جائیں وہ وقتی طور پر اسے سہہ لیتے ہیں مگر حلال ان کے لیے بوجھ بن جاتا ہے، اس واقعے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حلال کو برکت اور راحت کا ذریعہ بنایا ہے، جبکہ حرام آخرکار بے چینی اور نقصان کا سبب بنتا ہے، اسی لیے ہمیں ہمیشہ صبر اور توکل کے ساتھ رزقِ حلال کی تلاش کرنی چاہیے اور دوسروں کو معاف کرنے کی عادت اپنانی چاہیے، کیونکہ معافی اور شکرگزاری سے ہی زندگی میں اصل بھلائی اور سکون ملتا ہے۔