نظام نے مارا ہےاستاد کو بھی، بچے کو بھی، اور ہمیں بھی۔”
تحریر۔۔۔عبداللہ خالد
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تحریر۔۔۔عبداللہ خالد)شام کے وقت جب میں تھکا ہارا دفتر سے واپس آیا تو میری بچی دروازے پر ہی روتی ہوئی ملی۔
میں نے گھبرا کر پوچھا،
“کیا ہوا بیٹا؟”
اس نے ہچکیوں کے درمیان کہا،
“ابو… استانی نے تھپڑ مارا…”
بس اتنا سننا تھا کہ میرا خون کھول اٹھا۔
غصے میں میرے ہاتھ خودبخود مکے کی شکل میں بند ہو گئے۔
ساری رات میں غصے میں اُبلتا رہا۔
دل میں بار بار وہی جملہ گونجتا رہا — “استانی نے تھپڑ مارا!”
اگلے دن صبح ہوتے ہی میں نے موٹر سائیکل نکالی اور سیدھا سکول کا رخ کیا۔
راستے بھر دماغ میں ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا:
“اتنی چھوٹی بچی پر ہاتھ اٹھانے کی جرات کیسے ہوئی؟ استاد کو اتنا بھی احساس نہیں کہ بچوں پر تشدد کا کیا اثر ہوتا ہے؟”
میں نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ آج یہ بات یونہی ختم نہیں ہوگی۔
سکول پہنچ کر میں نے گیٹ پر کھڑے ایک بچے سے پوچھا،
“پہلی کلاس کہاں ہے؟”
اس نے انگلی سے اشارہ کیا،
“ادھر، جہاں شور زیادہ آ رہا ہے!”
میں نے دروازے کے قریب جا کر جھانکا —
اور جو منظر دیکھا، اس نے میرے سارے غصے کو جیسے کسی نے پانی میں بہا دیا۔
ایک کمزور سی خاتون، دھیمی آواز مگر تھکی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ستر بچوں کے درمیان کھڑی تھیں۔
بچے ایسے شور مچا رہے تھے جیسے کسی میلے میں ہجوم اکٹھا ہو۔
کوئی بنچ پر چڑھا ہوا تھا، کوئی نیچے بیٹھ کر گارہا تھا،
کوئی لڑکی دوسری کی چٹیا کھینچ رہی تھی۔
اور بیچاری استانی ایک ہاتھ سے بورڈ پر لکھ رہی تھیں، دوسرے ہاتھ سے بچوں کو چپ کرانے کی کوشش۔
“بیٹا بیٹھ جاؤ… نہیں وہ چیز مت کھینچو… سنو تو سہی… سب اپنی جگہ…”
ان کے الفاظ تھکن سے لبریز تھے۔
میں نے غور سے ان کا چہرہ دیکھا —
پسینے کے قطرے، ماتھے پر شکنیں، آواز میں بھاری پن۔
ان کی حالت دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔
میری بیٹی وہیں بیٹھی تھی، سر جھکائے۔
میں نے اسے دیکھا، مگر بول نہ سکا۔
استانی کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ چونک گئیں۔
بولیں، “آپ… شاید آپ حنا کے والد ہیں؟”
میں نے آہستگی سے کہا، “جی۔”
وہ مسکرائیں، مگر اس مسکراہٹ کے پیچھے تھکن چھپی تھی۔
میں نے نرمی سے پوچھا، “میڈم، یہ سب آپ اکیلی سنبھالتی ہیں؟”
وہ تھوڑا رُکیں، پھر بولیں،
“کون ہے جو مدد کرے؟ ایک کلاس، ستر بچے، نہ کوئی آیا ہے، نہ صفائی والا۔
کبھی کوئی لڑ پڑتا ہے، کبھی کوئی بیمار ہو جاتا ہے۔
پھر بھی سب کو پڑھانا بھی ہے، قابو میں بھی رکھنا ہے۔
کبھی کبھار… ہاتھ اٹھ ہی جاتا ہے۔
مگر خدا گواہ ہے، دل سے نہیں مارتی۔”
ان کے الفاظ نے میرے اندر کی گرمی جیسے ایک دم سرد کر دی۔
میں نے سوچا، یہ عورت روزانہ یہ سب برداشت کرتی ہوگی۔
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ استاد بھی انسان ہے؟
کبھی تھک بھی سکتا ہے، کبھی ٹوٹ بھی سکتا ہے۔
میں خاموشی سے باہر نکلا۔
موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہی دل بوجھل ہو گیا۔
راستے بھر یہی سوچتا رہا —
ہم کتنی آسانی سے الزام لگا دیتے ہیں۔
“استاد نے مارا، سخت ہے، ظالم ہے…”
مگر کبھی نہیں دیکھتے کہ ان کے حالات کیا ہیں۔
میرے ذہن میں ایک تصویر بار بار ابھر رہی تھی:
ایک کمزور عورت، شور مچاتے بچوں کے بیچ، تھکن اور ذمے داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے۔
وہ مجھے ایک چرواہے کی طرح لگی،
جو اپنے ریوڑ کو قابو میں رکھنے کی کوشش میں خود بھاگتے بھاگتے تھک گیا ہو۔
گھر پہنچ کر میں نے بیٹی کو گود میں بٹھایا،
اس کے گال پر ہاتھ پھیرا اور کہا،
“بیٹا، استانی نے تمہیں مارا ضرور ہوگا،
مگر شاید وہ تم سے ناراض نہیں تھی،
بس تھک گئی تھی۔”
اس رات میں دیر تک جاگتا رہا۔
سوچتا رہا کہ ہمارا معاشرہ ان استادوں سے کیا چاہتا ہے؟
وہ لوگ جو قوم کے بچوں کو علم دیتے ہیں،
مگر خود بے حوصلگی، کمی اور بے قدری کا سامنا کرتے ہیں۔
اب جب بھی کوئی کہتا ہے کہ “استاد نے مارا”،
میں جواب دیتا ہوں —
“شاید نہیں،
شاید نظام نے مارا ہے —
استاد کو بھی، بچے کو بھی، اور ہمیں بھی۔”
—
تحریر: عبداللہ خالد
تاریخ: ۹ اکتوبر ۲۰۲۵