Daily Roshni News

جانوروں سے حسن سلوک  ہر مذہب میں ہے۔

جانوروں سے حسن سلوک  ہر مذہب میں ہے۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہمارے گھر کے سامنے ایک پارک تھا۔ اس میں ایک کتیا نے بچے جنے ۔ سردی کے دن تھے۔ میرے والد صاحب فجر کی نماز پڑھ کر گھر آئے تو دیکھا کہ وہ ننھے بچوں کے ساتھ ٹھنڈ اور دھند میں  ٹھٹھر رہی ہے۔ اور ابھی ان بچوں کی پیدائیش کے کرب سے بھی گزری ہے۔ تو جلدی سے گھر آئے گرم گرم حلوہ تیار کیا اور جا کر اسے کھانے کو دیا۔ میں تب بہت چھوٹی تھی حلوے کی خوشبو سے میری بھی آنکھ کھل گئی ، مجھے یاد ہے کہ میں نے پوچھا ابو اتنی صبح  حلوہ کہاں لے کر جا رہے ہیں تو مسکرا کر کہنے لگے کچھ مہمان آئے ہیں۔ اور ساتھ ہی کہا بیچاری اتنی ٹھنڈ میں بچوں کے ساتھ ٹھٹھر رہی ہو گی۔ میں بھی اٹھ کر ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی کہ اس وقت دیکھوں کون سے مہمان آئے ہیں  ۔ دیکھا تو وہ اس کتیا کو گرم گرم حلوہ پیش کر رہے ہیں اور گرم کپڑے سے اس کے بچوں کو کور کر رہے ہیں۔

ابو جان نے بتایا کہ ان کی والدہ اور دیگر خاندان کے بڑے بھی ایسا کرتے تھے ۔ جب بھی کوئی کتیا بچے جنتی تو وہ خاص دودھ ملے   حلوے کا اہتمام کرتے۔  پھر ہمیں چند دن فجر کے وقت گھر میں حلوہ بننے کی خوشبو آتی رہی۔ ابو یہ سب کام خود کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں۔ اس وقت جب بھی ہم گھر سے باہر نکلتے چھوٹے چھوٹے کتورے آگے پیچھے بھاگنے لگتے۔

اسی طرح اکثر بلیاں گلی میں بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ تو ابو نے سپیشل  کلیجی لا کر فریج میں رکھنی اور بلیوں کو کھانے کے لیے دیتے ۔ اور فریج میں ان کے لیے الگ سے گوشت ہوتا۔ اور ہمارے گیراج میں اور گھر کے باہر بلیوں کا رش رہتا۔  وہ اتنے اطمینان سے گھومتی رہتیں تھیں۔

 پرندوں کو دانا ڈالنا بھی ہمارے گھر کےبزرگوں کی روایت رہی ہے۔ مجھے یاد ہے دادی اماں کے دانت نہیں تھے وہ موٹی نرم روٹی بنواتیں اور پھر روزانہ آدھی روٹی کھاتیں اور آدھی  روٹی کو باریک باریک کاٹ دیتیں ، اتنا باریک کہ وہ ایک دانہ کے برابر ہوتیں اور پھر انھیں پرندوں کو ڈالتیں اور کہتیں اتنا باریک کرنے سے ان پرندوں کو کھانے میں آسانی ہوتی ہے۔  ( یہاں جب انسانوں کی آسانی کوئی نہیں سوچتا دادی جان جانوروں اور پرندوں کی سہولت کا سوچتی تھیں ) ۔

 بلیوں کے لیے صحن میں ایک برتن ہوتا جس میں دودھ ڈالتے۔ اور یہ دودھ کا برتن کم و بیش میں نے اپنے ہر رشتہ دار کے گھر میں بچپن میں دیکھا۔ ہمارے بڑے  شہد کی مکھی کو مارنے سے بھی منع کرتے تھے کہ بھلے یہ کاٹ لیں لیکن انھیں نہیں مارتے ۔( اب سائینس یہ ثابت کر رہی ہے کہ شہد کی مکھی نہ ہو تو ایکو سسٹم تباہ ہو جائےگا ) ۔

 ایک بار ایک کزن نے بلی کو دم سے پکڑ کر گھمایا اور پھینک دیا۔ یہ بات اتنی بری سمجھی گئی کہ سب توبہ استغفار کرنے لگے کہ یا اللہ اس کے اس عمل کی وجہ سے کوئی عذاب نہ بھیجنا۔

جانوروں کے معاملہ میں اتنا حساس ہونا یہ ایک جنریشن کے مزاج کا حصہ رہا ہے۔ جانوروں سے حسن سلوک  ہر مذہب میں ہے۔ لیکن اس عمل کے بارے میں اب صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم سے انگریز نہیں بنا جاتا۔ یعنی ایک نیک عمل کو انگریزوں سے جوڑ کر حقارت سے کہہ دینا کافی ہو گیا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جہاں جانور کو دیکھتے ہیں اس کو مارنے کو دوڑتے ہیں۔ ہمارا فطرت کی طرف رویہ انتہائی برا ہے۔ کتنی نایاب نسل کے جانور اور پرندے اسی وجہ سے معدوم ہو رہے ہیں کہ بس ہم اپنی جہالت میں انھیں مار دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں ہر جانور قید کرنا ہے یا مارنا ہے۔ اور مار کر اس طرح فخر کرتے ہیں جیسے یہ کوئی ملک فتح کر کے آئے ہیں۔

ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جب جانور کو ہماری گاڑی سے ٹکر لگے تو اتر کر دیکھتے ہیں ؟ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو باقاعدگی سے پرندوں کو دانہ ڈالتے ہیں ، گرمی میں ان کے لیے پانی کا انتظام کرتے ہیں۔ اور ہم میں سے کتنے ہیں جنھوں نے کبھی ان بے زبانوں کی مدد کی اور ان کے درد کو سمجھا ہوگا۔ یقینا بہت کم لوگ ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو یہ سکھایا ہے کہ جہاں بھی کوئی کتا نظر آئے تو اسے پتھر مارنا لازمی ہے۔ بلی کو پونچھ سے پکڑ کر گھمانا لازمی ہے۔ اور ان کے پیچھے پاگلوں کی طرح لگ جانا ضروری ہے۔ ہمیں جانوروں کی اہمیت اور ایکو سسٹم میں ان کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں۔

ابھی چند دن پہلے بارش میں کینچوئے نکل آئے۔ ہمسائے میں بچے انھیں کچلنے لگے۔ میرے بچوں نے منع کیا میں نے بھی سمجھایا کہ انھیں نہ مارو یہ کچھ نہیں کہتے لیکن بچے باز نہیں آئے۔ تو بیٹی کہنے لگی ماما یہ تو بات نہیں مان رہے۔ میں نے کہا انھیں ان کے والدین نے جانداروں کی ماحول میں اہمیت اور محبت نہیں سکھائی ۔ وہ اکثر بتاتی ہیں ماما بچے بلیوں کو مار رہے تھے ہم نے انھیں سمجھایا ہے۔

ہم کتنے جانوروں کو جو ناپید ہو رہے ہیں مار دیتے ہیں۔ ہم بے رحم ہو چکے پیں۔  ہم نے اپنے بچوں کو یہ منتقل ہی نہیں کیا کہ ان جانوروں سے محبت کرنی ہے۔ ان کی وجہ سے ایکو سسٹم قائم ہے۔ اور ان کو اللہ نے کسی مقصد کے تحت بنایا ہے۔

انسانوں کا جانوروں کی طرف رویہ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ انسان ہی درحقیقت جانور ہیں ۔ محمکہ جنگلی حیات کو بھی چاہیے کہ عوام میں جانوروں کے حوالے سے شعور بیدار کریں خاص کر معدوم ہوتے جانوروں اور پرندوں کے حوالے سے ۔ ادارے قائم کریں اور آگاہی مہم چلائیں۔ ان کے شکار ، قید اور مارنے پر بھاری جرمانہ اور سزا ہونی چاہیے۔ لوگوں کو بھی ان جانوروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ کیا فرق پڑتا ہے اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے انھیں کچھ کھانے کو دے دیں ؟ خراب گلا سڑا کھانا ہی کیوں ؟ تازہ میں حصہ داری کیوں نہیں ؟ اور انھیں سردی سے بچانے کے لیے یا ان کی تکلیف دور کرنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ جتنی بھی ہمت اور استطاعت ہو ۔۔۔۔دوستو کیا خیال ہے۔ ایسا ہونا چاہیے ؟

نوٹ: وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ کتا حلوہ نہیں کھا سکتا ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے بعض  کتے دودھ میں ملا پتلا سا نیم گرم حلوہ کھا لیتے ہیں اور عموماً وہ کتے جو انسانی آبادی کے قریب رہے ہوں یا اسی طرح کی خوراک انھیں ملتی رہی ہو۔

اور اگر آپ کسی تجربہ یا مشاہدہ سے نہیں گزرے اور کوئی دوسرا گزرا ہے اس کا ہر گز مطلب نہیں کہ وہ جھوٹا،ہے۔

Loading