انٹرنیشنل ہینڈ واشنگ ڈے
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انٹرنیشنل ہینڈ واشنگ ڈے۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )ایک زمانہ تھا جب مغربی ممالک میں نہانے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔اس کی وجہ سرد موسم تھا، پانی کی کمی یا باطنی طہارت کی خامی جو بھی تھی یورپینز کی زندگی میں ہمیشہ سے صفائی کی کمی رہی ہے۔بظاہر صاف دکھنے والے کئی کئی دن نہاتے نہیں، استنجاء کا رواج وہاں ہے ہی نہیں۔شاید اس رواج کی وجہ سے آنے والی بدبو سے نجات حاصل کرنے کے لیے انہوں نے پرفیوم ایجاد کر لیا تھا۔تاریخ پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے ان کی ننز، پادری حتی کہ بادشاہ اور ملکہ بھی ایسے تھے کہ ساری زندگی نہائے ہی نہیں۔
جب کہ اسلام میں طہارت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔الطہور من الشطر الایمان۔ ہماری ہر عبادت سے پہلے وضو شرط ہے۔اہم مواقع جمعہ، عمرہ، حج، عید، پیدائش اور وفات پر غسل لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم نہ صرف ظاہری بلکہ باطنی طور پر بھی صاف ہے۔ جو شخص سیلف کیئر نہیں کر سکتا وہ اپنے گھر، کمرے، گلی، شہر اور ماحول کو کیسے صاف رکھ سکتا ہے۔اس لیے 2008 میں مغرب کو بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا اور انہوں نے ہاتھ دھونے کا دن منانا شروع کر دیا۔
کوئی بھی وبائی مرض ہو ڈاکٹرز ہاتھ دھونے کی عادت اپنانے پر اصرار کرتے ہیں وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہاتھوں سے جراثیم پھیلتے ہیں جن چیزوں کو ہم چھوتے ہیں ان پر جراثیم منتقل ہو جاتے ہیں اور دوسری چیزیں بھی آلودہ ہو جاتی ہیں۔ کرونا اور آشوب چشم کی مثال آپ کے سامنے ہے۔پاکستان میں کرونا پھیلا تو سب سے کم کیسزز بلوچستان میں ہوئے۔اس پر غور کیا تو جانا کہ یہاں کے لوگ پانچ وقت نمازکی پابندی کرتے ہیں۔اور کرونا سے بچاؤ کے لیے زیادہ سے زیادہ ہاتھ دھونا ہی بہتر تھا۔تب وہ حدیث یاد آئی جس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہر میں پانچ بار نہانے والے کے صاف ہونے کو بیان کیا تھا۔
اسلام واحد مذہب ہے اور نبی صلعم واحد نبی ہیں جو ہمیں رفع حاجت کے بعد طہارت سے لے کر غسل جنابت تک کا طریقہ بتاتے ہیں۔دانت برش کرنا مسواک کرنا ،ناخن کاٹنا، بغل کے بال اکھیڑنا( کاٹنا نہیں اکھیڑنا جیسے ویکس یا کسی ایپی لیٹر سے)زیر ناف بال مونڈھنا، غسل کرنا، وضو، صاف کپڑے، جائے نماز کا صاف ہونا، خوشبو کا استعمال یہ سب نہ صرف انسان کی سیلف کیئر کے متعلق ہیں۔ بلکہ دوسروں کے ساتھ بھلائی بھی ہے۔ہر الہامی مذہب اور کتاب میں دس احکام الہی میں سے ایک طہارت بھی ہے۔
جمعہ کی باجماعت نمازپڑھنے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اس دن غسل، ناخن کاٹنے، صاف لباس پہننے اور خوشبو لگانے پر بھی اجر بتاکر لوگوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ صفائی کا اہتمام کریں۔ذرا تصور کیجئے آپ مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں، کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہے ہیں، تعلیمی ادارے میں ہیں یا کام کی جگہ پر آپ کے قریبی ساتھی کے منہ سے بدبو آ رہی ہو، پسینے کی بو ہو یا جرابوں کی کیا آپ اس کے ساتھ بیٹھنا پسند کریں گے؟؟؟؟ یقینا آپ کا جواب نہیں میں ہو گا۔
تو جناب ہمیں خود بھی ایسا انسان بننے سے بچنا چاہیے جس کے ساتھ بیٹھنے سے لوگ گریز کریں۔ظاہری صفائی نہ صرف انسان کی شخصیت میں چار چاند لگا دیتی ہے بلکہ اس کے باطن کو بھی صاف رکھتی ہے۔جو شخص کسی گندے لباس میں ملبوس ہونا ، کسی گندی پلیٹ یا جگہ پر کھانا پسند نہیں کرتا وہ اپنی روح کو گناہ کی گندگی سے آلودہ کرنا بھی پسند نہیں کرے گا۔یہی وجہ ہے اللہ تعالٰی محسنین اور متقین کی ایک خاصیت تزکیہ بھی بیان کرتے ہیں یعنی اللہ کو خوش کرنے کے لیے اچھے اعمال کرنے والے اور اللہ کی ناراضگی کے ڈر سے بڑے اعمال چھوڑ دینے والے۔وہ لوگ جو اپنے اندر سے گندگی ختم کر کے اندرونی صفائی کا اہتمام کرتے ہیں وہ ہی اللہ کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں۔
“نماز قائم کرتے ہیں اور جو پاک ہوتا ہے سو وہ اپنے ہی لیے پاک ہوتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔”
سورہ فاطر 18
اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔اور میل کچیل دور کرو۔”4-5سورہ المدثر
صاف رہنے اور پانی سے طہارت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اللہ تعالٰی نے سورہ المائدہ میں چھٹی آیت میں وضو کا حکم دیا اور طریقہ بتا دیا۔سورہ مدثر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پاک رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر نبی کے لیے یہ حکم ہے تو ہمیں بھی اس پر عمل کرنا ہے۔اور کئی آیات میں بھی مسلمانوں کو صفائی کا حکم دیا گیا ہے۔جو راز آج کے جدید دور میں مغرب پر آشکار ہو رپے ہیں وہ اسلام نے ہمیں 1400 سال پہلے ہی بتا دئیے تھے۔