Daily Roshni News

اشاروں کنایوں میں جنسی دلچسپی کا اظہار مشرقی شاعری کی جان ہے

اشاروں کنایوں میں جنسی دلچسپی کا اظہار مشرقی شاعری کی جان ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )هوش‌ می‌باید، زبان‌ سرمه هم بی‌حرف نیست

با سخن‌فهمان خط مکتوب ناطق می‌شود

 بیدل

چشم خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے

سرمہ تو کہوے کہ دود شعلۂ آواز ہے

غالب

تحریر: قدیر قریشی

اکتوبر 15، 2025

آج کل کے زمانے میں لڑکے اور لڑکی میں پیار کا اظہار دو ٹوک الفاظ میں کر دیا جاتا ہے۔ I love you  کے جواب میں I love you too کہہ کر بات واضح کر دی جاتی ہے- لیکن روایتی مشرقی معاشروں میں لڑکے اور لڑکی میں آپسی دلچسپی کا اظہار اشاروں کنایوں میں کیا جاتا تھا، کبھی منہ پھاڑ کر ‘اڑیے، توں سانوں چنگی لگنی ایں’ نہیں کہا جاتا تھا۔

اشاروں کنایوں میں جنسی دلچسپی کا اظہار مشرقی شاعری کی جان ہے۔ اگر اردو اور فارسی شاعری سے (عربی شاعری سے متعلق میرا علم صفر ہے اس لیے میں عربی شاعری کے بارے میں کچھ عرض نہیں کر سکتا) اگر یہ اشارے کنائے نکال دیے جائیں تو شاعری ہی ختم ہو جاتی ہے۔ عموماً کسی بھی آرٹ کا محرک وہ کچھ کہنا ہوتا ہے جسے عام لفظوں میں کہنا ممکن نہیں ہوتا اور یہ بات شاعری پر خاص طور پر اپلائی ہوتی ہے- جس قدر نزاکت اور subtlety اردو اور فارسی شاعری میں پائی جاتی ہے، اس کی مثال شاید دوسرے علاقوں کی روایتی شاعری میں نہیں ملتی۔ اس نزاکت کی وجہ ہی یہ ہے کہ شاعری میں وہ کچھ کہہ دیا جاتا ہے جسے عام الفاظ  میں کہنا معاشرتی اقدار کی وجہ سے ممکن نہیں ہوتا

خواتین جب بنتی سنورتی ہیں تو شعوری یا لاشعوری طور پر کسی مرد کی توجہ چاہتی ہیں۔ وہ کبھی منہ سے کسی مرد کو نہیں بولتیں کہ انہیں اس مرد میں دلچسپی ہے- لیکن انتہائی مبہم اشاروں سے سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ کیا پیغام دے رہی ہیں۔

بیدل کے اس شعر کو دیکھیے کہ خاتون کے اشاروں کو کیسے سمجھایا جا رہا ہے۔ فرماتے ہیں کہ خواتین کے اشارے سمجھنے کے لیے کچھ ہوشمندی درکار ہے- یہ ہوشمندی بے ہوشی کا متضاد نہیں ہے بلکہ معاملہ فہمی، اشاروں کو سمجھنے کی قابلیت ہے۔ اگر کوئی ہوشمند یعنی اشارے سمجھنے والا ہو تو خواتین کی آنکھوں میں لگے سرمے کی زبان بھی بے حرف یعنی خاموش نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں، اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو خواتین کی آنکھوں میں لگا سرمہ بھی بول رہا ہے، پیغام دے رہا ہے۔ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ بات کو سمجھنے والے ہوں تو خط کو با آواز بلند پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، خط کا متن از خود باتیں کرنے لگتا ہے

اس شعر میں ‘زبان سرمہ’ کا لفظ خاص طور پر قابل غور ہے۔ یوں تو ہماری روایت میں خواتین ہمیشہ سے آنکھوں میں سرمہ لگاتی ہیں، لیکن جب انہیں بہت زیادہ بننا سنورنا ہو (جس کا مقصد کسی کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے) تو سرمے کو آنکھوں سے باہر بھی ایک لمبی لکیر کی صورت میں لگایا جاتا ہے- بیدل نے اس لمبی لکیر کو سرمے کی زبان سے تشبیہہ دی ہے اور اس سے یہ نکتہ نکالا ہے کہ سمجھدار لوگ سرمے کی زبان کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ پھر دوسرے مصرعے میں اس دعوے کی جو دلیل دی ہے وہ کس قدر خوبصورت ہے- کسی بھی شخص کے لیے اپنے محبوب کا خط صرف پڑھنے کی ہی چیز نہیں ہوتا۔ وہ خط دیکھنے کی چیز بھی ہوتا ہے، چھونے کی چیز بھی ہوتا ہے، وہ خط از خود مخاطب ہوتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ خط لکھنے والا کس قدر شدت سے تمہیں چاہتا ہے

آج کل کے ٹیکسٹنگ، واٹس ایپ، اور ای میل کے دور میں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ماضی میں کسی کا خط ملنا کس قدر خوشی کی بات ہوتی تھی۔ جس زمانے میں ہرکارے پیدل یا گھوڑوں پر خط ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے، اس زمانے میں کسی دوسرے شہر سے کسی کا خط آنا گویا اس شخص سے ملاقات کرنا ہوتا تھا۔ اسی لیے خط کو آدھی ملاقات کہا جاتا تھا۔ اور اگر یہ خط کسی محبوب کا ہو تو لوگ اس خط سے کیا کیا باتیں کرتے تھے، اسے کیسے سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے، اسے بار بار پڑھتے تھے، اس کے ایک ایک حرف پر ہاتھ پھیر کر لکھنے والے کے لمس کو محسوس کرتے تھے، یہ سب کچھ سمجھنا آج کے نوجوانوں کے لیے شاید ممکن نہیں ہے

سرمے سے متعلق غالب نے بھی کیا کمال کا شعر لکھا ہے جسے میں نے اوپر درج کیا۔ غالب نے جس طرح چشم خوباں یعنی خوبصورت لوگوں کی آنکھوں کو خاموشی میں بھی باتیں کرتا (نوا پرداز) بتایا ہے اس بلاغت کی مثال ملنا بھی مشکل ہے- اور پھر سرمے کی بناوٹ کو دودِ شعلہ آواز کہنا تو خوبصورتی اور بلاغت کی حد ہے۔ سرمے کی بناوٹ کو غالب اوپر اٹھتے دھویں سے تشبیہہ دے رہے ہیں اور پھر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ دھواں آواز کے شعلے کا دھواں ہے۔ جس طرح آگ بظاہر بجھ جائے تو بھی اندر ہی اندر سلگتی رہتی ہے اور اس میں سے دھواں اٹھتا رہتا ہے اسی طرح خوباں کی آنکھوں کی آواز تو سنائی نہیں دے رہی کیونکہ وہ آواز تو خوباں کے دل میں ہے، لیکن اس آواز کے شعلوں سے اٹھتا ہوا دھواں سرمے کی صورت آنکھوں میں دیکھا جا سکتا ہے اور اس میں وہ پیغام صاف پڑھا اور سنا جا سکتا ہے جو خوباں دے رہی ہیں

Loading