Daily Roshni News

ناول : محبت کی ادھوری کہانی۔۔۔تحریر ۔۔۔۔ اقرا علی

ناول : محبت کی ادھوری کہانی

تحریر ۔۔۔۔ اقرا علی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ ناول : محبت کی ادھوری کہانی۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔ اقرا علی)کاشف کی آنکھیں سرخ اور بھاری تھیں۔ رات بھر نشے اور چھوٹ کے درد نے اس کے اعصاب کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ صبح جب اس نے نیم بوجھل آنکھوں سے اردگرد دیکھا تو اسے یاد آیا کہ زینب اس کے قید خانے میں تھی۔ دل میں ایک عجیب سا سکون تھا کہ وہ لڑکی اب اس کی قید میں ہے، مگر جیسے ہی وہ ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ اس کمرے تک پہنچا، اس کا سکون لمحوں میں ٹوٹ گیا۔

کمرہ سنسان تھا، زینب کہیں بھی نظر نہ آئی۔ بستر کے ایک کونے میں پھٹی ہوئی چادر پڑی تھی، کھڑکی کے پردے آدھے کھلے ہوئے تھے اور کمرے میں ہلکی سی ہوا آ جا رہی تھی۔ کاشف کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔

“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

اس کے دماغ میں سب سے پہلا شک اپنی ماں شبانہ پر آیا۔ وہ غصے سے تپتے قدموں کے ساتھ صحن میں نکلا اور زور سے چلایا:

“امییییی…!!!”

شبانہ جو باورچی خانے میں کسی کام میں لگی تھی، بدک کر باہر نکلی۔ کاشف نے اس کی طرف پاگلوں کی طرح دیکھا اور غرایا:

“زینب کہاں ہے؟ بول!!! تُو نے اسے آزاد کیا ہے نا؟”

شبانہ سہم گئی، لیکن اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا:

“میں نے کچھ نہیں کیا کاشف، مجھے نہیں پتا زینب کہاں گئی!”

کاشف نے غصے میں زور سے دیوار پر مکا مارا۔

“جھوٹ بولتی ہے تُو! وہ لڑکی اپنے آپ تو نہیں بھاگ سکتی… ضرور تُو نے ہی کچھ کیا ہے۔”

شبانہ نے ڈرتے ڈرتے قسم کھائی مگر کاشف پر تو جیسے جنون سوار تھا۔ وہ زور زور سے چلانے لگا، برتن الٹ پلٹ کرنے لگا اور آنکھوں میں پاگل پن کی چمک تھی۔ پھر اچانک اس نے گھر کا دروازہ کھولا اور گاؤں کی طرف لپکا۔

پورے گاؤں میں شور مچ گیا کہ کاشف دیوانہ وار زینب کو ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ ہر ایک کے پاس جا کر پوچھتا:

“کسی نے زینب کو دیکھا ہے؟ بتاؤ… ورنہ اچھا نہ ہوگا!”

کچھ گاؤں والے ڈرے ڈرے سے قریب آئے اور آہستہ سے بولے:

“کاشف… رات کو ہم نے واقعی ایک لڑکی کو بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اندھیرے میں سڑک کے کونے کونے پر دوڑ رہی تھی۔”

کاشف نے خونخوار نگاہوں سے انہیں گھورا اور دہاڑا:

“پھر تم لوگوں نے اسے پکڑا کیوں نہیں؟”

وہ سب سہمی ہوئی آواز میں بولے:

“ہم نے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر وہ پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی… جیسے زمین پھٹ گئی ہو اور وہ اس میں سما گئی ہو۔”

یہ سن کر کاشف کا دماغ مزید بھڑک اٹھا۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنے بال نوچنے لگا اور زمین پر پیر مار کر چلایا:

“زینب… تُو مجھ سے بچ کر کہاں جائے گی؟ پورا گاؤں چھان ماروں گا… تجھے ڈھونڈ کر رہوں گا!”

اس کے قدم زور زور سے زمین پر پڑ رہے تھے۔ گاؤں والے ڈرے سہمے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، کسی کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اس کے آگے کچھ بولے۔ کاشف کا یہ جنون اب پورے گاؤں پر سایہ ڈالنے لگا تھا۔

وہ ایک ایک کھیت میں گیا، ندی کے کنارے تک پہنچا، کھنڈرات میں جھانکا، لیکن زینب کہیں نہ ملی۔ اس کے اندر کی آگ اور بھڑکتی جا رہی تھی۔

کاشف کی آنکھوں میں اب صرف ایک ہی چیز تھی:

انتقام اور زینب کو ہر حال میں دوبارہ قید کرنے کا جنون۔

—-

“ہاتھ اٹھاؤ!” لیڈی پولیس نے کمانڈ دی۔ زینب نے گھبرا کر اپنے ہاتھ اوپر کیے، اور وہ بازوؤں سے اس کا جسم چیک کرنے لگی۔ ماحول میں تناؤ بڑھ گیا، زینب کی آنکھوں میں خوف، شرم اور بے بسی کی ایک آمیزش تھی۔

لیڈی پولیس نے زینب کی حالت کو بغور دیکھا اور قانونی طور پر یہ یقینی بنانے کے لیے ہلکی چھان بین کی کہ وہ واقعی ایک جوان ماں ہے۔ لیڈی پولیس نے  زینب کے جسم پر ہلکی چھان بین کی  اس دوران لیڈی پولیس کے ہاتھوں پر گرم دودھ لگنے سے لیڈی  پولیس کو تصدیق ہو گئی کہ یہ واقعی ایک بچے کی ماں ہے۔

یہ چھان بین سخت مگر ضروری تھی، تاکہ زینب کی حفاظت اور قانونی حیثیت واضح ہو جائے۔

لیڈی پولیس کو یقین ہو گیا کہ زینب  واقعی ایک بچے کی ماں ہے، اور اب اس کا کیس قانونی طور پر واضح ہو گیا۔

آخرکار ایک کانسٹیبل نے ایک دوسرے کو نظر ملائی اور بولی:

“ٹھیک ہے، لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہی۔”

زینب کا وجود پسینے اور آنسوؤں میں بھیگ چکا تھا۔ وہ دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی، جیسے زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔

کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔ انسپکٹر کرسی سے اٹھا، سگریٹ ایش ٹرے میں بجھائی اور بولا:

“چلو… جاؤ۔ لیکن اگر پھر کسی مشکوک حالت میں ملی تو سیدھا جیل میں ڈالو گا۔”

پروین بھاگ کر زینب کے پاس آئی اور اسے گلے لگا لیا۔ دونوں کے آنسو ایک دوسرے کے کندھے پر بہہ نکلے۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ رات ان کے لیے ایک قیامت کی طرح گزری ہے۔

رات گہری ہو چکی تھی۔ تھانے سے باہر نکلتے ہی ٹھنڈی ہوا نے جیسے ان کے آنسو سکھا دیے۔ سڑک سنسان تھی،دونوں کے قدم کانپ رہے تھے مگر دلوں میں ایک ہی بات تھی: اب ہمیں یہاں سے دور جانا ہوگا۔

پروین نے زینب کا ہاتھ پکڑا اور آہستہ کہا:

“چلو اسٹیشن چلتے ہیں، رات کی ٹرین نکلنے والی ہوگی۔

وہ سیدھا اسٹیشن کی طرف چل پڑیں۔ پلیٹ فارم پر ادھ جلا بلب ٹمٹما رہا تھا۔ کہیں کہیں لیمپ پوسٹ کی پیلی روشنی جھلملا رہی تھی۔ کچھ لوگ کمبل اوڑھے بینچوں پر سو رہے تھے۔ ایک پرانی ٹرین سیٹی بجاتی ہوئی آ کر رکی۔

زینب اور پروین جلدی سے بھاگ کر ایک ڈبے میں جا بیٹھیں۔ لکڑی کی سیٹیں ٹھنڈی تھیں، کھڑکی سے ہوا اندر آ رہی تھی۔ زینب کھڑکی سے باہر اندھیروں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے دل میں زین کا چہرہ ابھر رہا تھا، چھوٹے چھوٹے ہاتھ، دودھ کی خوشبو، اور اس کی معصوم ہنسی۔ آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے ساتھ وہ دھیرے سے بولی:

“پروین باجی… میرا بیٹا… وہ کہاں ہوگا؟”

پروین نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، خود کی آواز بھی لرز گئی:

“اللہ بڑا ہے زینب… اگر آج اس نے تمیں زندہ رکھا ہے تو کل تمہیں اپنے بیٹے سے بھی ملا دے گا۔”

ٹرین کی سیٹی کی تیز آواز اندھیرے کو چیرتی ہوئی گونجی اور دھیرے دھیرے وہ اسٹیشن سے آگے بڑھنے لگی۔ باہر چھوٹے قصبے کی ٹمٹماتی بجلی کے بلب آہستہ آہستہ پیچھے رہ گئے اور کھڑکی کے باہر اب محض اندھیرا، سنسان کھیت اور کہیں کہیں درختوں کی پرچھائیاں نظر آنے لگیں۔

زینب نے گہرا سانس لیا۔ دن بھر کی بھاگ دوڑ، پولیس کی پوچھ گچھ، بار بار کے سوالات اور دھوپ میں خجل خواری نے اس کی ہمت توڑ دی تھی۔ اس نے اپنی چادر کو ٹھیک کیا اور پروین کے کندھے پر سر رکھ دیا۔ پل بھر میں اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔ پروین بھی کچھ کم تھکی نہیں تھی، اس کے قدموں میں درد اور آنکھوں میں نیند رقص کر رہی تھی۔ دونوں جیسے ہی ایک دوسرے پر سہارا لیے بیٹھیں، غنودگی آہستہ آہستہ ان پر قابو پانے لگی۔

ٹرین کے ڈبے میں گہری خاموشی تھی۔ مسافر بہت کم رہ گئے تھے، اکثر کسی نہ کسی اسٹیشن پر اتر گئے تھے۔ اب آدھے سے زیادہ برتھ خالی تھیں۔ کبھی کبھار کوئی مسافر کھانس دیتا یا کوئی بچہ آدھی نیند میں بلبلاتا تو اس سکوت میں ہلکی سی جنبش محسوس ہوتی۔ روشنی صرف چھوٹے بلبوں سے تھی، جو ہلکی پیلی مدھم روشنی میں ہر شے کو دھندلا کر رہے تھے۔

باہر سے ٹرین کی رفتار کے ساتھ ساتھ ہوا کے جھونکے آ رہے تھے۔ زینب نے کانپ کر چادر اپنے گرد لپیٹ لی۔ اسے لگا جیسے یہ سفر ابھی ختم ہونے والا نہیں۔ ایک انجانا خوف دل میں سرسرانے لگا۔ پروین نے نیم خوابیدہ حالت میں کہا:

“سو جا زینب… صبح تک لمبا راستہ ہے۔”

زینب نے آہستگی سے آنکھیں بند کر لیں۔ ٹرین کی ہلکی ہلکی جھٹکوں نے اسے نیند کی دنیا میں دھکیل دیا۔

کچھ گھنٹوں بعد رات اور گہری ہو گئی۔ باہر کا اندھیرا یوں تھا جیسے زمین پر کوئی روشنی اتر ہی نہ رہی ہو۔ کھڑکی کے شیشے پر محض اپنی ہی پرچھائی نظر آتی تھی۔ پروین نے چونک کر ایک لمحے کو آنکھ کھولی۔ اسے لگا جیسے کسی نے ان کے ڈبے کا پردہ ہلایا ہو۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا، سب مسافر خاموش اور بے خبر تھے۔ دل میں ایک انجانا سا وسوسہ جاگا مگر اس نے اپنے آپ کو سمجھایا، “ہو سکتا ہے ہوا سے پردہ ہلا ہو۔”

اس نے زینب کی طرف دیکھا جو گہری نیند میں تھی۔ زینب کے چہرے پر دن بھر کی تھکن صاف جھلک رہی تھی، آنکھوں کے گرد ہلکے سائے اور لبوں پر بے بسی کا بوجھ۔ پروین نے اس کے دوپٹے کو درست کیا اور خود بھی آنکھیں موند لیں۔

ٹرین آگے بڑھتی گئی۔ دور دور کہیں کتے بھونکنے کی آوازیں، کھیتوں میں جھینگر کی ٹرٹر، اور پٹڑی پر پہیوں کی ٹک ٹک… یہ سب ایک عجب سا منظر بنا رہے تھے۔ اچانک ایک چھوٹا سا اسٹیشن آیا۔ اسٹیشن پر شاید دو تین لوگ کھڑے تھے، ایک دکان پر مٹی کا دیا جل رہا تھا۔ کچھ دیر کو ٹرین وہاں رکی، پھر سیٹی بجی اور دوبارہ اندھیرے میں غائب ہو گئی۔

زینب نیم جاگتی حالت میں اٹھ بیٹھی۔ اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ اندھیرا اور کھیت ہی کھیت۔ وہ چند لمحے باہر دیکھتی رہی پھر تھکی ہوئی سی آہ بھر کے واپس ٹک گئی۔ اس کے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال ابھر رہا تھا:

“یہ سفر ہمیں کہاں لے جا رہا ہے؟ کیا واقعی ہم منزل تک پہنچ پائیں گے… یا یہ اندھیرا ہی ہماری قسمت بن جائے گا؟”

ٹرین مسلسل آگے بڑھ رہی تھی اور ہر لمحہ زینب اور پروین کو ایک انجان کائنات کی طرف دھکیل رہا تھا…

ٹرین اندھیرے کو کاٹتی ہوئی دوڑ رہی تھی کہ اچانک پچھلے ڈبے سے شور کی آوازیں ابھریں۔ عورتوں کی گھبرائی ہوئی چیخیں، بچوں کے بلکنے کی آوازیں اور مردوں کی بوکھلائی ہوئی سرگوشیاں۔ زینب نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ پروین بھی ہڑبڑا کر سیدھی ہو بیٹھی۔

زینب کے چہرے پر خوف چھا گیا۔ اس کی آنکھوں میں وہی پرانا ڈر جھلک رہا تھا جو کاشف کا نام سنتے ہی اس کے وجود میں سرایت کر جاتا تھا۔ وہ کپکپاتی ہوئی پروین کے قریب سرک آئی اور آہستہ مگر لرزتی آواز میں بولی:

” یہ وہی ہیں… کاشف کے بندے…! مجھے ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔”

پروین نے اسے فوراً اپنے بازوؤں میں چھپا لیا اور اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تسلی دی:

“پاگل نہ بن… وہ لوگ اس وقت یہاں نہیں ہو سکتے۔ ان کو کیسے خبر ہو کہ تُو کہاں ہے؟ ڈرنے کی ضرورت نہیں، میں ہوں تیرے پاس۔ کچھ نہیں ہوگا۔”

لیکن زینب کے دل کی دھڑکنیں اور تیز ہوگئیں۔ باہر کے شور میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔

پچھلے ڈبے میں ڈاکوؤں نے ہنگامہ مچا رکھا تھا۔ مسافروں سے زیور، پرس اور نقدی چھینی جا رہی تھی۔ ایک پولیس والا، جو عام مسافر بن کر سفر کر رہا تھا، اچانک کھڑا ہوا اور اس نے ڈاکوؤں کو للکارا:

“بس کرو! یہ سب غیر قانونی ہے، میں پولیس ہوں، تم سب کو گرفتار کر لوں گا۔”

ڈاکو پہلے تو ایک لمحے کو رکے، پھر ان میں سے ایک ہنسا اور بولا:

“صاحب… آپ بھی اپنا کام کریں، ہم بھی اپنا۔ یہ لیجیے کچھ نظرانہ… خاموش رہیے۔”

اس نے پولیس والے کے ہاتھ میں نوٹ ٹھونسنے کی کوشش کی، لیکن پولیس والا غصے سے چیخا:

“میں رشوت نہیں لیتا! فوراً ٹرین سے نیچے اترو ورنہ…”

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا، ڈاکوؤں میں سے ایک نے خنجر نکال کر اس پر حملہ کیا۔ پولیس والا کراہ کر پیچھے گر پڑا۔ اس کے بازو سے خون بہنے لگا۔ وہ فرش پر تڑپنے لگا۔

یہ منظر دیکھ کر پورا ڈبہ دہل اٹھا۔ عورتوں نے بچوں کو سینے سے لپٹا لیا، مرد کرسیوں کے پیچھے دبک گئے، سب اپنی سانسیں روک کر چھپنے لگے۔ ڈاکو اب مزید ڈبوں کی طرف بڑھنے لگے۔

زینب نے لرزتے ہوئے پروین سے  کہا:

“یہ لوگ… یہ لوگ یہاں تک آ جائیں گے… مجھے پتا ہے- یہ کاشف کے آدمی ہی ہیں۔ وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔”

پروین نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھا اور آہستگی سے کہا:

“خاموش رہ… ابھی کسی نے کچھ نہیں دیکھا۔ حوصلہ رکھ… ہم نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈیں گے۔”

ٹرین ہچکولے کھاتی آگے بڑھ رہی تھی اور ڈاکو ایک ایک ڈبہ لوٹتے ہوئے قریب آ رہے تھے۔ ان کی ہنسی اور دھمکیوں کی آواز اب صاف سنائی دینے لگی تھی۔ ہر لمحہ زینب کے خوف میں اضافہ ہو رہا تھا۔

دور کونے میں وہ زخمی پولیس والا کراہ رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر خون لگا ہوا تھا مگر وہ بار بار سر اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ جیسے وہ اب بھی ہمت کر کے ڈاکوؤں کا راستہ روکنا چاہتا ہو۔

پروین نے زینب کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔

“زینب… اگر وہ ادھر آئے… تو ہمیں چھپنا ہوگا۔ سمجھ گئی؟ تو کچھ نہیں بولے گی۔”

زینب نے آنکھوں میں آنسو لیے اثبات میں سر ہلا دیا۔

ٹرین کا ماحول اب ایک قیدخانے کی طرح تھا، جہاں ہر مسافر اپنی جان بچانے کے لیے دبکا بیٹھا تھا۔ شور بڑھتا جا رہا تھا۔ اور یہ واضح تھا… اگلا ڈبہ زینب اور پروین کا تھا۔

ٹرین کی پٹڑیوں پر پہیوں کی ٹک ٹک کے ساتھ ساتھ اب ڈبے میں انسانوں کے دل کی دھڑکنیں بھی سنائی دینے لگی تھیں۔ دروازہ زور سے کھلا اور دو نقاب پوش ڈاکو اندر گھس آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بڑی بڑی بندوقیں تھیں، جن کا دہانہ سیدھا مسافروں کی طرف تھا۔

“سن لو سب!” ایک ڈاکو گرج دار آواز میں بولا۔

““چپ چاپ سب کچھ نکالو! ”جو بھی زیور، نقدی، گھڑیاں ہیں، فوراً ہمارے حوالے کرو۔ ضد کی تو یہیں قبر کھود دیں گے۔”

ڈبے کا سکوت ٹوٹ گیا۔ عورتوں کی چیخیں، بچوں کا رونا، مردوں کی بوکھلاہٹ—سب ایک خوفناک شور میں ڈھل گیا۔

ایک عورت نے لرزتے ہوئے اپنے کان کی بالیاں اتاریں اور آنسو بہاتے ہوئے ڈاکو کے ہاتھ میں رکھ دیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ روتے ہوئے بولی:

“میرے پاس کچھ نہیں ہے… میں بہت غریب ہوں… میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، خدا کے لیے کچھ مت لیجیے۔”

ڈاکو نے اس پر بندوق تان لی اور غرایا:

“چپ رہ! غریب ہے یا امیر، ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ جو ہے، وہ سب نکال!”

اسی دوران ڈاکوؤں میں سے ایک جو عورت کی طرف بندوق تانے کھڑا تھا، اچانک چونکا۔ اس کی نظریں سیدھی سامنے ایک کونے میں گئیں۔ اچانک  وہ ٹھٹک کر رکا۔ اس کی آنکھوں نے پردے کے پیچھے لرزتی ایک پرچھائی کو دیکھا۔ پھر وہ آہستہ سے اپنے ساتھی کو کہنے لگا:

اوئے…” اس نے ہولے سے اپنے ساتھی کو کہنی ماری، “وہ دیکھ…”

دوسرا چڑچڑا سا بولا:

“کیا یار! جلدی جلدی ختم کرو یہ سب، ٹرین کسی بھی اسٹیشن پر رک سکتی ہے۔ ہمیں نکلنا ہے۔”

لیکن پہلا ڈاکو مسلسل گھورتا رہا۔ اس نے سر جھکا کر دھیمی مگر سنسنی خیز آواز میں کہا:

“وہ لڑکی… دیکھ تو صحیح… وہیں بیٹھی ہے،  چادر میں لپٹی ہوئی۔”

دوسرے نے چونک کر زینب کی طرف دیکھا۔ اور لمحہ بھر کو جیسے وقت رک سا گیا۔ ان دونوں کی آنکھوں کی چمک صاف ظاہر کر رہی تھی کہ وہ اپنا مقصد بھول چکے ہیں۔

زینب اپنی کالی چادر میں لپٹی سہمی ہوئی بیٹھی تھی۔ دل کی دھڑکنیں اتنی تیز ہو گئیں کہ اسے لگا جیسے ڈبے کے شور میں سب سن لیں گے۔ اس کے آنسو رخساروں پر بہہ رہے تھے۔اس نے چادر کو مزید اپنے گرد لپیٹ لیا، جیسے وہ خود کو اندھیرے میں چھپا لینا چاہتی ہو۔ مگر اس کی کانپتی ہوئی انگلیاں اور لرزتی آنکھوں سے بہتے آنسو سب کچھ ظاہر کر رہے تھے۔

جیسے ہی دونوں ڈاکوؤں کی نظریں اس پر جمی، اس کے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

پروین نے گھبرا کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور سرگوشی کی:

“خاموش رہ… کچھ مت بول…”شاید یہ آگے بڑھ جائیں۔”

لیکن تقدیر جیسے زینب کا امتحان لینے پر تُلی ہوئی تھی۔ دونوں ڈاکو آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے اس کی طرف آنے لگے۔ باقی مسافر دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ کسی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ کچھ کرے۔

ڈاکوؤں کے جوتوں کی چاپ قریب آتی جا رہی تھی۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی لالچ اور وحشت بھری چمک تھی۔ ان کے قریب آتے ہی زینب کو یوں محسوس ہوا جیسے زمین اس کے پیروں تلے سے کھسک گئی ہو۔

دونوں ڈاکو آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے زینب کی طرف آنے لگے۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ اپنی دنیا ہی بھول گئے ہوں۔ زیور، پیسہ، سب کچھ ایک طرف رہ گیا تھا—اب ان کے سامنے صرف زینب تھی۔

ڈبے کے باقی مسافر دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ سب کو لگا جیسے اب کوئی قیامت ٹوٹنے والی ہے۔

زینب کے دل نے جیسے دھڑکنا چھوڑ دیا۔

ڈاکوؤں کے قدموں کی چاپ قریب آتی گئی۔ ان کے جوتوں کی آواز ڈبے کی خاموشی کو چیر رہی تھی۔

پہلا ڈاکو زینب کے سامنے آ کر رک گیا۔ نقاب کے پیچھے سے اس کی آنکھوں میں وحشیانہ چمک جھلک رہی تھی۔ اس نے دوسرے کو کہنی ماری اور ہنستے ہوئے بولا:

“ارے… یہ تو خاص شکار ہے…”

دوسرا بھی قریب جھکا اور غور سے زینب کو دیکھنے لگا۔ پھر سرد لہجے میں بولا:

“ہاں… خاص شکار ہے۔یہی چاہیے ہمیں۔”

زینب کا دل ڈوب گیا۔ اس  نے کپکپاتے ہوئے اپنی چادر کو اپنے گرد مزید لپیٹا مگر اس کے لرزتے ہاتھ سب کچھ ظاہر کر رہے تھے۔ پروین نے فوراً اسے اپنے سینے سے لپٹا لیا جیسے وہ اپنے وجود سے زینب کو بچا لینا چاہتی ہو۔

 اور بلند آواز میں کہا:

“اسے ہاتھ مت لگانا! تمہیں شرم نہیں آتی عورتوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے؟”

ڈاکو ہنسا، اس کی ہنسی میں سفاکی تھی۔ اس نے بندوق کا دہانہ پروین کی طرف کرتے ہوئے غرایا:

“خاموش رہ! ورنہ ابھی یہیں گرا دوں گا۔

پورے ڈبے میں سناٹا چھا گیا۔ سب کی نظریں اب صرف اسی کونے پر مرکوز تھیں۔

زینب کے آنسو اور تیز ہو گئے۔ اس نے پروین کا ہاتھ مزید مضبوطی سے پکڑ لیا، جیسے کہہ رہی ہو:

“میں یہاں سے نہیں جاؤں گی… مجھے بچا لو…”

پروین نے ہمت باندھ کر اسے اور سختی سے تھام لیا اور کہا:

“یہ کہیں نہیں جائے گی۔”

ڈاکو ایک دم بھڑک اٹھا۔ بندوق کا دہانہ اوپر اٹھایا اور دھاڑ کر بولا:

“تمہیں لگتا ہے ہمیں کوئی روک سکتا ہے؟ جو ہم چاہتے ہیں، وہ لے کر ہی جائیں گے۔”

—–

ٹرین رات کے اندھیرے کو کاٹتی ہوئی مسلسل دوڑ رہی تھی۔ پٹڑیوں پر پہیوں کی ٹک ٹک سنسان کھیتوں میں گونج رہی تھی، لیکن ڈبے کے اندر سکوت موت کی طرح چھایا ہوا تھا۔ سب مسافر سہمے ہوئے تھے، کسی کو سانس لینے کی بھی ہمت نہ تھی۔

پروین نے کانپتے ہاتھوں سے دوپٹے سے جو چند نوٹ نکالے تھے وہ ڈاکوؤں کے سامنے رکھ دیے، آنکھیں نم تھیں اور آواز میں وہی دہلیز سے نیچے جھک جانے والی عاجزی تھی۔

“خدا کے لیے… اس بچی کو کچھ مت کہو- بس یہ لے لو، ہمارے پاس اور کچھ نہیں۔”

ڈاکوؤں نے نوٹ چیک کیے، ایک دوسرے کی طرف متبادل نگاہیں پھیریں، پھر سرد مسکراہٹ کے ساتھ کہا:

“نسخہ ٹھیک ہے، مگر اصل قیمتی چیز وہ ہے جو تمہارے پاس چھپی ہوئی ہے۔”

تبھی ایک ڈاکو نے آگے بڑھ کر اپنی موٹی کلائی سے زینب کے ہاتھ پر جاہلانہ انداز میں پلٹا مارا، اور پھر بے رحمی سے اس کے بازوؤں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ زینب نے چادر کو اور زور سے اپنے گرد لپیٹنے کی کوشش کی، مگر اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں، دوپٹا پھسلنے لگا۔ آنکھوں کے سامنے سب کچھ دھندلا گیا- اس کا دل ایک طوفان سا بن گیا۔

اس نے روتے ہوئے کہا:

“ جانے دو… میرا بچہ تنہا ہے، اسے میری ضرورت ہے… رحم کرو مہربان بنو…!”

پروین فوراً ڈاکوؤں کے آگے  ہاتھ جوڑ کر گری، جیسے آسمان سے کوئی شفا مانگ رہی ہو۔ اس کے آنسو زمین پر گرتے تھے، مگر ڈاکوؤں کی طرف سے کوئی نرم دلانہ کیفیت دکھائی نہ دی۔ ایک نے پروین کو سختی سے دھکا دیا- اتنا زور کہ وہ پیچھے منہ کے بل گری اور فرش پر اسے چوٹ لگی۔ خون آہستہ آہستہ اس کے ہونٹوں کے کنارے سے بہنے لگا۔ پروین کی چیخ کمزور سی نکلی، مگر ڈاکوؤں کی سنگ دلی نے اس کی آواز کو بھی گھٹادیا۔

دوسرا ڈاکو بندوق تانے رہتے ہوئے باقی مسافروں کی طرف دیکھ کر خاموش رہنے کا واضح اشارہ کرتا رہا۔ کسی نے ہمت کر کے کچھ کہا تو بندوق کا دہانہ فوراً ان کی جانب اٹھا دیا جاتا۔ وہ بولا:

“اگر کسی نے کوئی حرکت کی تو گولی۔ سمجھ گئے؟”

ڈبے میں قیامت جیسی کیفیت پھیل گئی۔ چند لوگ اپنی باری کے انتظار میں جھکے رہے، کسی کی آنکھوں میں نفرت تھی تو کسی کے چہروں پر خوف کا گھنا سایہ۔ بچے بہک رہے تھے، ماؤں نے انہیں چھاتی سے چمٹا لیا تھا۔ ہر کوئی اپنی پناہ میں کھویا ہوا تھا۔

دونوں ڈاکو زینب کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے دروازے کی طرف لے جانے لگے۔ زینب کے پیر زمین پر گھست رہے تھے، اس کے گھٹنوں سے چھالیں رگڑ کر خون کی ہلکی لکیر چھوڑ رہی تھیں۔ وہ چیختی، روتی،  چلاتے ہوئے کہتی:

“میرا بچہ…  میرا بچہ ہے… وہ، وہ بہت چھوٹا ہے… مجھے اس کے پاس جانے دو!”

ان الفاظ نے پروین کا دل دہلا دیا۔ وہ دوبارہ اٹھ کر ڈاکوؤں کے سامنے کھڑی ہوئی، باوجود خون اور درد کے۔ اس نے ہمت سے کہا:

“تم لوگوں کو اللہ نے انسان بنایا ہے—تم لوگ ایک ماں کو چھوٹے سے بچے سے جدا کر رہے ہو-  چھوڑ دو اسے!”

لیکن ڈاکو کی نگاہ میں نرم گوشہ کہیں نہ تھا۔ اس نے زینب کو ایک زوردار گرفت میں اٹھایا اور دروازے کے قریب لے آیا، جہاں سرد دھات کی ہینڈل کے پاس وہ اسے کھینچ کر باہر نکالنے کی تیاری کر رہا تھا۔ زینب کے کپڑے پھسل رہے تھے، چہرہ سفید پڑ چکا تھا، مگر اس کی آنکھوں میں بچہ کے لیے ایک انوکھی روشنی جل رہی تھی—ایک ماتھے کی لکیروں جیسی پکی امید۔

دوسرا ڈاکو بندوق کا دہانہ پوری طاقت سے اٹھا کر تمام ڈبے کو گھورتا رہا، اس کی آواز میں دھمکی اور تسلط دونوں کا میل تھا:

“اب جو کوئی حرکت کرے گا، فوراً گولی مار دوں گا—سمجھا؟”

ڈاکوں کا ہاتھ زینب کے بازوؤں پر مضبوط تھا اور وہ دروازے کی جانب زور سے قدم بڑھا رہے تھے۔ زینب کی چیخ ایسے لپٹی کہ پورا ڈبہ خاموش سا رہ گیا—ایک چیخ جو اس کے اندر کے تمام خوف، پیاس، اور ماں کی بےتابی کو ظاہر کر رہی تھی۔

جب وہ دروازے کے قریب پہنچے تو ٹرین ایک ہلکی سی کمپن سے گزری، باہر کا سیاہ منظر تیز ہوا میں لہرا گیا۔ ڈاکو نے زینب کو کھینچ کر ڈبے سے باہر کھینچنا شروع کیا—اس کی انگلیاں چادر میں پھنس گئیں، دوپٹے کے کنارے کھچ گئے۔  پروین نے اس کا ہاتھ چھڑا لینے کی کوشش کی مگر ڈاکو نے ایک زوردار دھکا دیا اور پروین کونے میں گرتی پڑی، کئی بوکھلاہٹ بھری سانسیں نکلیں۔

ڈبے میں بیٹھے لوگوں کے منہ بند تھے، آنکھوں سے ایک ایک قطرہ نیچے آتا، اور باہر سیاہ رات میں ٹرین کی لیمپوں کی دھیمی روشنی تیزی سے پیچھے رہ گئی۔ زینب کو جب دروازے کے پاس کھینچا جا رہا تھا، اس نے اپنے اندر سے آخری کوشش کے ساتھ ایک فریاد نکالی:

“کوئی… مدد کرو… میرا بچہ… میرا بچہ…”

ٹرین کا شور، پٹریوں کی کھڑکھڑاہٹ اور مسافروں کی دبی دبی سسکیاں—یہ سب ایک ہی رنگ میں گھل مل گئے تھے۔ ڈبے کی فضا اتنی بھاری ہو چکی تھی کہ جیسے ہر سانس میں خوف گھل کر لوگوں کے سینے میں پتھر رکھ رہا ہو۔

ڈاکو بندوقیں لہرا رہے تھے، اور کوئی بھی ہمت نہیں کر رہا تھا کہ ان کے آگے زبان کھولے۔ بچوں کی رونے کی آوازیں دب کر ہچکیوں میں بدل گئی تھیں۔ عورتیں اپنے آنچل سے آنسو پونچھتی رہیں، مرد سر جھکائے اپنی بے بسی پر شرمندہ تھے۔

زینب چیختی، روتی، فریاد کرتی رہی:

“اللہ کے واسطے مجھے چھوڑ دو… میرا بچہ بھوکا پیاسا میرا انتظار کر رہا ہے… مجھے اس کے پاس جانے دو، خدا کے لیے مجھے جانے دو!”

وہ اپنے لرزتے ہاتھ جوڑ کر ڈاکوؤں کے قدموں میں گرنے کی کوشش کرتی مگر ایک ڈاکو نے بے دردی سے اسے بازوؤں سے دبوچ لیا۔ اس کی گرفت ایسی تھی کہ زینب کے ہاتھ سوجنے لگے، آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر دوپٹے میں جذب ہوتے رہے۔

پروین بار بار ڈاکوؤں کے آگے گر کر ہاتھ جوڑتی رہی۔ اس کی آواز میں اتنی بے بسی اور کرب تھا کہ ڈبے کی دیواریں بھی جیسے رو پڑیں:

“چھوڑ دو اسے… وہ ابھی بچی ہے، ایک ماں ہے… خدا کے واسطے چھوڑ دو! ہم پر رحم کرو…!”

مگر جواب میں صرف ڈاکو کی غصیلی آواز گونجی:

“چپ کر! ورنہ تجھے بھی یہیں ختم کر دیں گے۔”

ٹرین جھٹکے سے رکی۔ باہر ایک سنسان سا چھوٹا اسٹیشن تھا—اندھیروں میں ڈوبا ہوا، جہاں چند ٹمٹماتی لائٹیں بس ادھورا سا منظر دکھا رہی تھیں۔ نہ بھیڑ، نہ ہجوم—صرف سنسناہٹ۔

اسی لمحے ایک ڈاکو نے زینب کو جھٹکے سے اپنے کندھے پر ڈال لیا۔ زینب کی چیخ پورے ڈبے کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ وہ ہاتھ پاؤں مارتی، بال بکھیرتی، دہائی دیتی رہی:

“پروین! مجھے بچا لو! کوئی ہے؟ رحم کرو! میرا بچہ… میرا بچہ…”

پروین نے اس کے پیروں کو پکڑنے کی کوشش کی، مگر ڈاکو نے اسے دھکا دے کر پرے گرا دیا۔ پروین کا سر سیٹ کے کنارے سے ٹکرا گیا، خون بہنے لگا۔ وہ زمین پر گر کر بھی ہاتھ پھیلا کر چیختی رہی:

“زینب! میری بچی! انہیں نہ جانے دو… خدا کے واسطے کوئی کچھ کرو…!”

لیکن ڈبے کے لوگ پتھر بنے بیٹھے تھے۔ کوئی ہمت نہ کر سکا۔ صرف آنکھوں میں خوف اور دلوں میں افسوس تھا۔

زینب ڈاکو کے کندھے پر لٹکی ہوئی تھی، اس کی چیخیں اندھیرے میں گونج رہی تھیں۔ اس کے پاؤں ہوا میں جھول رہے تھے، آنکھوں سے بہتے آنسو اس کے رخساروں کو بھگو رہے تھے۔ وہ بس ایک ہی جملہ بار بار دہرا رہی تھی:

“مجھے میرے بچے کے پاس جانے دو… خدا کے لیے… مجھے چھوڑ دو!”

ڈاکو نیچے اتر گئے۔ اسٹیشن کی سنسان فضا میں زینب کی سسکیاں، پروین کی چیخیں اور مسافروں کی بے بسی سب ایک ہو گئے۔ ٹرین دوبارہ چل پڑی، اور پروین ہاتھ پھیلا کر دروازے کے قریب دوڑی مگر دیر ہو چکی تھی—زینب اندھیروں میں غائب ہو رہی تھی۔

پروین گھٹنوں کے بل گر کر زمین پر ہاتھ مارنے لگی، اس کی چیخیں اندھیرے میں گونج رہی تھیں:

“زینب! زینب! او خدا! میری بیٹی کو بچا لے… کوئی ہے؟”

ٹرین کے اندر ہر چہرہ شرمندگی سے جھکا ہوا تھا، اور باہر اسٹیشن پر اندھیروں نے زینب کو اپنی بانہوں میں چھپا لیا۔

ٹرین اندھیرے میں آگے بڑھتی رہی، لیکن زینب کا وجود اس سے کٹ چکا تھا۔ وہ ڈاکو کے مضبوط کندھے پر لٹکی ہوئی اندھیری رات کے اس سنسان اسٹیشن پر نیچے اتاری گئی۔ اسٹیشن کی زنگ آلود لائٹیں کبھی جلتی، کبھی بجھتیں، اور ہوا میں خوفناک سی سنسناہٹ پھیلی ہوئی تھی۔

📖 جاری ہے…

Loading