حق الیقین
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حق الیقین)انسانی وجود جسم و روح کا مجموعہ ہے۔ اس دنیا میں زندگی کو بہتر طور پر بسر کرنے کے لیے جسمانی یعنی مادی تقاضوں کو سمجھنا اور ان کی تکمیل کرنا ضروری ہے۔ کئی ماؤی تقاضے اس قدر ناگزیر ہیں کہ کوئی انہیں سمجھنا نہ چاہے تب بھی یہ ہر شخص سے اپنی تکمیل کر والیتے ہیں مثلاً غذا کا تقاضہ ۔ جو شخص یہ نہ جانتا ہو کہ بھوک کیوں لگتی ہے؟ کیسی لگتے ہے؟ اسے بھی جب بھوک لگتی ہے تو اپنے لیے کسی نہ کسی طرح خوراک طلب کرتا ہے یا اسے حاصل کرتا ہے۔ یہی حال پیاس کا بھی ہے۔ کوئی شخص پیاس کے میکنزم کو جانتا ہو یانہ جانتا ہو لیکن جب اسے پیاس لگے گی تو اسے اپنی زندگی کی بقاء کے لیے پانی پینا ہو گا۔ ماڈی تقاضوں میں تن ڈھانپنا اور رہائش بھی شامل ہیں۔ تاہم ان تقاضوں کی نوعیت بھوک و پیاس سے کافی مختلف ہے۔ اسے سمجھنا مشکل بھی نہیں ہے۔ ایک دن کے بچہ کو بھی بھوک لگتی ہے، پیاس لگتی ہے۔ اس کی بھوک پیاس رفع نہ ہو تو وہ اپنی طلب ظاہر کرتا ہے، روتا ہے، لیکن اس بچہ کو کپڑے نہ پہنائے جائیں تو وہ کچھ نہیں کہتا۔ ایک دن کے بچہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ ہسپتال یا گھر کے آرام دہ کمرہ میں ہے یا اسے کسی درخت کے نیچے لٹایا ہوا ہے۔ اس مثال سے بھوک پیاس اور کپڑ او مکان کے تقاضوں کی ناگزیریت اور اہمیت کا اندازہ لگایا
جاسکتا ہے۔ جیسے جیسے انسان شعوری طور پر آگہی کے مراحل طے کرتا ہے غذا کی ناگزیریت کے باوجود اس کے لیے کپڑا اور مکان ( یعنی سماج میں ایک بہتر مقام زیادہ اہمیت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروریات زندگی کی ایک فہرست مرتب کیجیے۔ غور کیجیے ! زندگی گزارنے کے لیے غذا کے حصول پر کتنے اخراجات آتے ہیں اور اپنے اسٹیٹس کو بر قرار رکھنے کے لیے نئے ملبوسات، رہائش اور دیگر لوازمات پر کس قدر اخراجات آتے ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان یعنی ماڈی ضروریات کی تکمیل کا اندازہ سماجی قدروں کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان ماڈی تقاضےہونے کے باوجود اہمیت کے لحاظ سے مختلف درجات کے حامل ہیں۔ ان تقاضوں کی بہتر تکمیل کے لیے آگہی اور کوشش کے بھی مختلف مراحل اور مختلف نتائج ہیں۔ انسانی وجود جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ انسانی وجود میں ماڈی تقاضے بھی ہیں اور روحانی تقاضے بھی ہیں، لیکن روحانی تقاضے اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود بھوک پیاس کی مانند نہیں ہیں۔ یہاں کسی انسان کو روٹی پانی نہ ملے تو وہ بھوک پیاس سے مر جائے گا لیکن کسی کو مناسب کپڑا یا ر ہائش نہ مل پائے تو وہ مر نہیں جائے گا۔ البتہ شدید احساس محرومی اسے جسمانی، ذہنی اور
نفسیاتی طور پر بہت نقصان پہنچائے گا۔ کچھ ایسا ہی حال روحانی تقاضوں کا بھی ہے۔ روحانی تقاضوں کی بہتر تفہیم اور ان کی تکمیل کی خواہش انسان کے قلب میں ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ مگر اس خواہش کو قلب کے نہاں خانوں سے شعوری احساسات تک لانا عام انسان کا اپنا کام ہے۔ اگر کوئی شخص روحانی تقاضوں کو سمجھنانہ چاہے تو یہ تقاضے اس پر ظاہر ہو کر اپنی تکمیل کے لیے اسے مجبور نہیں کریں گے۔ جو شخص روحانی تقاضوں کو نہ سمجھے یا ان سے آگہی حاصل نہ کرے ، وہ ان کی تکمیل کے لیے بھی کوشاں نہ ہو گا۔ کئی ماڈی تقاضوں کی مانند روحانی تقاضوں کی تکمیل نہ ہونے سے بھی کوئی شخص مر نہیں جائے گا، وہ اس دنیا میں اپنا وقت پورا کرے گا مگر کس طرح ….؟
اس دنیا میں بہت سے انسان ایسے ہیں جو جنگلوں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بھوک مٹانے کے لیے جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ پتے یا سبزیاں کھاتے ہیں۔ تن ڈھانپنے کو وہ پتوں یا مختصر سے کپڑوں کا استعمال کرتے ہیں، درختوں یا گھاس پھوس کی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ بجلی، ٹیلی فون، موٹر کار، ہوائی جہاز، ریڈیو، ٹیلیویژن، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ وغیرہ سے واقف ہی نہیں ہیں اور نہ واقف ہونا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے حال میں مست ہیں۔ زندگی تو ان کی بھی بسر ہو رہی ہے۔ ان سے پوچھیں تو شاید یہ سننے کو ملے کہ جناب ہماری زندگی خوب گزر رہی ہے۔ آرام سے رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں، بچے پالتے ہیں۔ کوئی تنازعہ ہو جائے تو سردار کے پاس چلے جاتے ہیں۔ انسان تو انسان جانوروں سے بھی ہماری دوستی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ کہ ماڈی تقاضوں کی بہتر طور پر تکمیل سے جو لوگ یا جو قبیلے پوری طرح واقف نہیں، وہ بھی اس دنیا میں زندگی تو بسر کر رہے ہیں تو جو لوگ یا جو قبیلے یا قو میں روحانی تقاضوں کی تکمیل سے واقف نہ ہوں یا واقف نہ ہونا چاہیں اس دنیا میں زندگی تو ان کی بھی بسر ہو جائے گی۔ مگر ایسا کئی طرح کی تشنگی اور محرومیوں کے ساتھ ہو گا۔ بہت سے لوگوں کو ان محرومیوں کا احساس یا اس کا اندازہ ممکن ہے کہ اس ماڈی زندگی کے ایک بڑے حصہ میں نہ ہو، کچھ لوگ اس احساس سے ناواقف رہتے ہوئے ہی شاید اس دنیا سے کوچ کر جائیں مگر اس عارضی دنیا کے قیام کے دوران روح کی تشنگی اور پیاس حیات کے اگلے مراحل میں بھی انہیں تشنہ ، پیاسا اور ناتواں رکھے گی۔ ماڈی تقاضوں کی تکمیل کا مقصد تو اس دنیا میں بہتر زندگی بسر کرنا ہے۔ روحانی تقاضوں کو سمجھنے اور ان کی تکمیل کے اہتمام کا مقصد کیا ہے….؟ روحانی تقاضوں کی تکمیل کا اعلیٰ ترین مقصد اپنے خالق، اپنے مالک اللہ وحدہ لاشریک کو پہچاننا اور اس سے۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2015