طلاق کا غم: بکھرے ہوئے رنگ
سلمیٰ نے چائے کا ٹھنڈا کپ میز پر رکھا اور بے جان نگاہوں سے کھڑکی کے باہر بارش کو دیکھنے لگی۔ چھ سال پہلے، جب اس کی اور عادل کی شادی ہوئی تھی، تو دونوں نے اسی بارش میں اپنی نئی زندگی کے میٹھے خواب بُنے تھے۔ آج، صرف چھ ماہ قبل طلاق کے کاغذات پر دستخط کرنے کے بعد، سب کچھ بے رنگ اور خاموش تھا۔
وہ خالی پن… وہ خلا جو عادل کے چلے جانے سے پیدا ہوا تھا، وہ کسی چیز سے پُر نہیں ہو رہا تھا۔ سلمیٰ کے دل میں ایک مسلسل درد رہتا تھا، ایک ایسا بوجھ جو اسے سانس لینے میں دشواری پیدا کرتا تھا۔ یہ صرف عادل کی دوری کا غم نہیں تھا، یہ ان خوبصورت یادوں کا ماتم تھا جو اچانک زہریلی ہو چکی تھیں۔
اسے یاد ہے، طلاق سے ایک ہفتہ پہلے تک، وہ اس گھر کو اپنا آشیانہ سمجھتی تھی۔ اب یہ گھر ایک قید خانہ بن گیا تھا، جس کی ہر دیوار طنزیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ہر کمرے میں، ہر کونے میں عادل کی موجودگی محسوس کرتی تھی۔ کچن میں اس کی پسندیدہ کافی کی خوشبو، کتابوں کی الماری میں اس کی ادھوری پڑھی ہوئی کتاب… یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی خنجر کی طرح اس کے دل میں پیوست ہو رہی تھیں۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ وہ تھا جب عادل نے کہا تھا، “میں اب اس رشتے سے آزاد ہونا چاہتا ہوں۔” سلمیٰ نے سوچا تھا کہ کیا چھ سال کی محبت، کوشش، اور ایک دوسرے کے ساتھ گزارے گئے لمحے اتنی آسانی سے زائل ہو سکتے ہیں؟ طلاق نے اسے ناکامی کا احساس دیا تھا۔ وہ خود کو عادل کی زندگی کی ایک ناکام کوشش سمجھنے لگی تھی۔
راتیں سب سے مشکل تھیں۔ سونے سے پہلے وہ بستر پر لیٹ کر گھنٹوں چھت کو گھورتی رہتی۔ اس کا دماغ بار بار ماضی کی فلم چلاتا، اور وہ سوچتی رہتی کہ “میں نے کہاں غلطی کی؟” اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، لیکن یہ سوال اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا تھا۔ کبھی وہ غصے سے بھر جاتی کہ عادل نے کس طرح ان کے رشتے کی بے حرمتی کی، اور کبھی وہ شدت سے روتی کہ اس کی دنیا اجڑ گئی ہے۔
ایک دن، اس کی بہترین دوست، سارہ، اس سے ملنے آئی۔ سارہ نے دیکھا کہ سلمیٰ کی آنکھوں کی چمک غائب ہو چکی ہے۔
سارہ نے نرمی سے کہا، “سلمیٰ، تمہیں اپنے غم کا احترام کرنا ہو گا۔ یہ ایک زخم ہے، اور زخم کو بھرنے کے لیے وقت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔”
سلمیٰ نے روتے ہوئے کہا، “میں تھک چکی ہوں، سارہ! میں اس غم کی دلدل سے باہر نہیں نکل پا رہی۔”
سارہ نے اسے گلے لگایا اور کہا، “تم باہر نکلو گی، لیکن پہلے تمہیں اسے قبول کرنا ہو گا۔ یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ اس دکھ کو محسوس کرنے کی اجازت دو، مگر اس دکھ کو اپنی پہچان نہ بننے دو۔ عادل کا فیصلہ تمہاری قیمت نہیں بتا سکتا۔”
سارہ کی باتوں سے سلمیٰ کو پہلی بار لگا جیسے کسی نے اس کے دل کے تالے کھول دیے ہوں۔ اس نے پہلی بار کھل کر رونا شروع کیا۔ وہ غم آنسوؤں کی شکل میں بہہ نکلا۔
آہستہ آہستہ، سلمیٰ نے خود کو سنبھالنا شروع کیا۔ اس نے گھر کی چیزیں دوبارہ ترتیب دیں، اور عادل سے جڑی تمام یادگاریں ایک صندوق میں بند کر دیں۔ یہ عمل مشکل تھا، لیکن اس نے اسے آزادی کا ایک نیا احساس دیا۔ وہ باہر نکلنے لگی، پرانے شوق دوبارہ اپنائے، اور اپنے لیے نئے مقاصد طے کیے۔
چھ ماہ بعد، جب دوبارہ بارش ہوئی، تو سلمیٰ اکیلی بیٹھی تھی، لیکن اس کے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ تھی۔ اس نے تسلیم کر لیا تھا کہ اس کی کہانی کا ایک باب ختم ہو چکا ہے، مگر پوری کتاب ابھی باقی تھی۔ طلاق کا غم ایک کالا بادل تھا جو چھٹ چکا تھا۔ وہ جان گئی تھی کہ غم کو گلے لگانا اور پھر اسے الوداع کہنا ہی زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کا راستہ ہے۔
اختتام
![]()

