جشن کے شور میں دبی ہوئی چیخیں: آتشبازی اور جنگلی حیات
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )چند روز پہلے ایک شخص نے مجھ سے ایک بات شیئر کی ایک ایسی بات جو دل میں گھر کر گئی۔
یہ سیاست یا خبروں کے بارے میں نہیں تھی، بلکہ ہماری ایک عام عادت کے بارے میں تھی. “آتشبازی”۔
وہی چمکتے رنگ، وہی گونجتی آوازیں، جنہیں ہم خوشی، آزادی اور جشن کی علامت سمجھتے ہیں۔
لیکن ان چمکدار لمحوں کے پیچھے ایک خاموش المیہ چھپا ہے ایک ایسا دکھ جسے اکثر ہم سن ہی نہیں پاتے۔
یہ کوئی فرضی کہانی نہیں۔ 2011 کے نئے سال کی صبح، امریکی ریاست آرکنساس کے ایک چھوٹے سے قصبے بیبی (Beebe) کی سڑکیں ہزاروں مردہ سرخ پروں والے بلیک برڈز سے اٹی ہوئی تھیں۔
تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ پرندے کسی بیماری سے نہیں مرے تھے وہ “ڈرے” تھے۔
آتشبازی کے شور اور روشنی سے گھبرا کر وہ اندھیرے آسمان میں اڑ گئے، مگر سمت کا اندازہ کھو بیٹھے۔
بے بسی میں وہ گھروں، درختوں اور گاڑیوں سے ٹکرا گئے۔ اگلی صبح زمین پر ان کی لاشیں بکھری پڑی تھیں انسانوں کے چند لمحوں کی خوشی کے بدلے ان کی زندگیاں ختم ہو گئیں۔
یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں۔ دنیا بھر میں، جب بھی کوئی تہوار آتا ہے چاہے وہ بھارت کی “دیوالی” ہو، یورپ کا “نیو ایئر” ہو یا کسی اور ملک کا قومی دن آسمان روشن ضرور ہوتا ہے، مگر فضا خوف سے بھر جاتی ہے۔
جانوروں کے لیے وہ چمک اور شور کسی قیامت سے کم نہیں۔
پرندے اپنے گھونسلے چھوڑ کر اڑ جاتے ہیں، پالتو جانور کانپتے رہ جاتے ہیں، اور جنگلی حیات کی ایک پوری دنیا بکھر جاتی ہے۔
جانوروں کے تحفظ کی تنظیمیں ہر سال یہی منظر دیکھتی ہیں۔
ہر تہوار کے بعد ان کے ہیلپ لائن نمبرز پر درجنوں کالیں آتی ہیں زخمی پرندے، کھوئے ہوئے پالتو جانور، اور خوف زدہ مخلوقات جو نہیں جانتیں کہ کیا ہوا۔
یہ کوئی جذباتی بیانیہ نہیں بلکہ ایک سائنسی حقیقت ہے۔
جنوری 2024 میں بلغاریہ میں نیو ایئر کی آتشبازی کے دوران ایک ہزار سے زیادہ “ماؤنٹین فنچ” پرندے ہلاک ہوئے۔
2022 میں ہونے والی ایک سائنسی تحقیق میں جی پی ایس کے ذریعے ہجرت کرنے والے “بطخ نما پرندوں” (geese) کی نگرانی کی گئی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ آتشبازی کے شور سے وہ لمبے فاصلے طے کرنے لگے، آرام کم کرنے لگے، اور ان کی بقا خطرے میں پڑ گئی۔
یہی منظر حالیہ دیوالی پر ایک بار پھر دہرایا گیا۔
نئی دہلی میں قانوناً “گرین” آتشبازی کی اجازت کے باوجود فضا دھوئیں اور شور سے بھر گئی۔
جانوروں کی فلاحی تنظیموں کو سینکڑوں شکایات موصول ہوئیں زخمی پرندے، کانپتے کتے، اور الجھے ہوئے جانور۔
یہ اثر صرف بھارت تک محدود نہیں رہا؛ پاکستان کے کئی شہروں میں بھی آتشبازی کے دھوئیں سے فضائی آلودگی بڑھ گئی۔
تو اب سوال یہ ہے:
ہماری خوشیوں کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟
ہم اپنے عقیدہ، رسم اور مذہب کے نام پر اس سیارے کو جہنم بنا رہے ہیں۔
ہم زمین کے محافظ بننے آئے تھے، مگر اسے زخمی کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم خود بھی اسی سیارے کے باسی ہیں۔ ایک دن ہم خود اپنی لگائی آگ میں جل جائیں گے۔
ہمیں اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ کیا ہماری خوشی واقعی خوشی ہے، یا کسی اور کی تباہی؟
ہمارے لیے آتشبازی خوشی، روایت اور رنگوں کا نام ہے
لیکن جانوروں کے لیے یہ خوف، الجھن، اور کبھی کبھی موت بن جاتی ہے۔
یہ تحریر کسی کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں۔
یہ صرف یاد دہانی ہے کہ ہماری خوشیاں دوسروں کے سکون کی قیمت پر نہیں ہونی چاہئیں۔
شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم سوچیں
کیا ہم روشنی اور خوشی کو منانے کے ایسے طریقے نہیں اپنا سکتے جو زمین کے دوسرے رہائشیوں کے لیے محفوظ ہوں؟
کیونکہ “اصل جشن” وہی ہے جو صرف انسانوں کو نہیں،
بلکہ اس پوری زمین پر بسنے والی زندگی کو سکون دے۔۔۔۔۔ ختم شد
A thought by Owais, shaped through words and writing tools.
![]()

