اقبال کا شاہین
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اقبال کی شاعری میں جن تصورات نے علامتوں کا لباس اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے اپنے شاہین کو خصوصیات ِ مذکورہ کے علاوہ درویشی، قلندری اورخوداری و بے نیازی کی اعلیٰ صفات سے بھی مزین کیا اور اپنی قوم کے نوجوان کے سامنے اسے زندگی کا بہترین نمونہ بنا کر پیش کیا۔
اقبال کے ہاں شاہین مسلمان نوجوان کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اقبال کو جمال سے زیادہ جلال پسند ہے اقبال کو ایسے پرندوں سے کوئی دلچسپی نہیں جن کی اہمیت صرف جمالیاتی ہے یا جو حرکت کے بجائے سکون کے پیامبر ہیں،
شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خوصیات پائی جاتی ہیں۔
خود دار اور غیرت مند ہے کہ کسی اور کے ہاتھ کا مارا ہو شکار نہیں کھاتا۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ بلند پرواز ہے۔ خلوت نشین ہے۔ تیز نگاہ ہے۔
اقبال کے نزدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی صفات ہیں وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتا ہے۔
شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں جو نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن سکے اُردو کے کسی شاعر نے شاہین کو اس پہلو سے نہیں دیکھا ” بال جبریل“ کی نظم ”شاہین“میں اقبال نے شاہین کو یوں پیش کیا ہے۔
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیا نہ؟
اقبال کی شاہین کی صفات:۔
غیرت و خوداری
غیرت و خوداری درویش کی سب سے بڑی صفت ہے اور یہی حال شاہین کا بھی ہے اس لئے وہ مرغ سرا کے ساتھ دانہ نہیں چگتا جو دوسروں کے احسان کے باعث ملتا ہے اور نہ گرگس کی طرح مردہ شکار کھاتا ہے درویش اور فلسفی میں یہی فرق ہے کہ گدھ اونچا تو اُڑ سکتا ہے لیکن شکار ِزندہ یعنی حقیقت اس کے نصیب میں نہیں ہوتی۔
بلند بال تھا لیکن نہ جسور و غیور
حکیم ِ سر ِمحبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضائوں میں گرگس اگر چہ شاہیں وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
فقراور استغنا:۔
فقر بھی اقبال کے نزدیک مرد درویش کی بڑی خصوصیت ہے جس طرح شاہین چکور کی غلامی نہیں کر سکتا اُسی طرح درویش شاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ بلکہ وہ فطرت و کائنات کی تسخیرکرے گا یا باطل کی قوتوں کا مقابلہ کرے گا۔
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان ِ بے نیازی
کنجشک و حمام کے لئے موت
ہے اس کا مقام شہبازی
آشیانہ نہ بنانا :۔
اقبال کو شاہین کی یہ ادا بھی پسند ہے کہ وہ آشیانہ نہیں بناتا، آشیانہ بنانا اس کے فقر کی تذلیل ہے۔
گذر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ بیاباں میں
کہ شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی
شاہین کی طرح درویش بھی سرمایہ جمع کرنے کو درویشی کے خلاف سمجھتا ہے۔ اقبال شاہین کو قصر سلطانی کی گنبد پر نہیں بلکہ پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کرنے کے لیے کہتے ہیں ان کے خیال میں جب نوجوانوں میں عقابی روح پیدا ہوتی ہے تو انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں ترا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
بلند پروازی:۔
اقبال کے شاہین کی ایک خوبی اُس کی بلند پروازی ہے اقبال کو شاہین کی بلند پروازی اس لئے پسند ہے کہ یہ اس کے عزائم کو نئے نئے امکانات سے روشناس کرتی ہے اقبال شاہین کے اس وصف کو اپنے مرد مومن میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
خلوت پسندی:۔
اقبال کا شاہین خلوت پسند ہے وہ کبوتر، چکور یا زاغ کی صحبت سے پرہیز کرتا ہے۔ اقبال کو ایسا شاہین پسند نہیں جو گرگسوں میں پلا بڑھا ہو کیونکہ وہ رسم شاہبازی سے بیگانہ ہو جاتا ہے اقبال فرماتے ہیں کہ گرگس اور شاہین ایک فضا میں پرواز کرنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلندی پرواز
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت ِ زاغ
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو گرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم ِ شاہبازی
پرواز ہے دونوں کا اسی ایک فضا میں
گرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
تیز نگاہی:۔
اقبال کو شاہین کی تیز نگاہی اور دوربینی بھی پسند ہے یہی خصوصیت اس کے خیال میں مردِ مومن میں بھی ہونی چاہیے شاہین کی پرواز اس کی نگاہوں کو وسعت بخشتی ہے اقبال کہتا ہے کہ دوسرے پرندوں کو بھلا ان مقامات کا کیا پتہ جو فضائے نیلگوں کے پیچ و خم میں چھپے ہوئے ہیں انہیں صرف شہباز کی تیز نگاہی دیکھ سکتی ہے۔
لیکن اے شہباز ، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
سخت کوشی:۔
اقبال جدوجہد اور سخت کوشی کے مبلغ ہیں یہ صفت بھی شاہین میں ملتی ہے اقبال مسلم نوجوانوں میں شاہین کی یہ صفات پیدا کر کے انہیں مجسمہ عمل و حرکت بنانا چاہتے ہیں۔ سخت کوشی دراصل لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہے۔
جھپٹنا پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گر م رکھنے کا ہے اک بہانہ
قوت اور توانائی:۔
اقبال کو شاہین اسی لئے پسند ہے کہ وہ طاقتور ہے قوت اور توانائی کے تمام مظاہر اقبال کو بہت مرغوب ہیں۔۔
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
آزادی:۔
اقبال کو حریت اور آزادی کی قدر بہت پسند ہے یہ قدر بھی شاہین کی ذات میں انہیں نظر آتی ہے ۔ اقبال کا شاہین میر و سلطاں کا پالا ہوا باز ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے آزادی ضروری ہے۔ اقبال جب ہندوستان کے مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کو دیکھتے ہیں تو بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں کہ،
وہ فریب خورہ شاہیں کہ پلا ہو گرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسمِ شاہبازی
تجسّس:۔
اقبال کے نزدیک آزادی کے عالم میں ہی شاہین کے لئے تجسس ممکن ہے ورنہ غلامانہ ذہنیت تو اس بزدل اور کمزور بنا دیتی ہے وہ پر تجسس نگاہ کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی چیتے کے جگر کو ان کے خیال میں یورپی علوم ہمارے لئے اتنے ضروری نہیں جتنا تجسس کا ذوق ضروری کیونکہ اسکے بغیر ہم تخلیقی صلاحیتوں سے محروم رہیں گے۔
چیتے کا جگر چاہئیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش افرنگ
تصوف:
اقبال کا شاہین ایک بزرگ ذہن و دل رکھتا ہے کلام اقبال میں جا بجا تصوف کے مضامین بکھرے نظر آتے ہیں ان کا علامتی پرندہ شاہین بھی تصوفانہ ہے جسے دنیا سے دلچسپی نہیں بلکہ وہ تو بالکل درویش منش پرندہ ہے جو کہیں بھی رہ لیتا ہے
پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں مَیں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
#allamaiqbalpoetry #کلیات_اقبال #allamaiqbal #iqbalpoetry #iqbal #Shaheen
![]()

