خوشیاں خریدی نہیں جاتیں، محسوس کی جاتی ہیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آج کا انسان اپنی زندگی کے ہر شعبے میں دکھاوے اور نمود و نمائش کی دوڑ میں ایسا پھنس چکا ہے کہ اصل مقصد کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی جیسے مقدس اور سادہ رشتے کو بھی ایک مقابلہ بنا دیا گیا ہے۔ جہاں کبھی نکاح کا مطلب دو دلوں کا بندھن اور دو خاندانوں کی محبت ہوتا تھا، وہاں اب یہ ایک مہنگا تماشہ بن چکا ہے۔ شادی کی تقریب کا معیار اب خوشیوں سے نہیں بلکہ بینک بیلنس، قیمتی برانڈز، اور سوشل میڈیا پر لائکس سے ناپا جاتا ہے۔ تمہید یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاشرتی معیار خود اس حد تک مصنوعی بنا لیے ہیں کہ اب کوئی بھی اصل خوشی محسوس ہی نہیں کر پاتا۔ جو باتیں کبھی رسم تھیں، اب وہ مجبوری بن گئی ہیں۔ جو اخلاص کبھی رشتے کی بنیاد ہوتا تھا، اب وہ دکھاوے کے شور میں دب گیا ہے۔ یہی وہ بیماری ہے جس نے ہماری خوشیوں کو خالی اور رشتوں کو بوجھل کر دیا ہے۔ اب ہمارے معاشرتی تقاضے بھی بدل گئے ہیں۔ رشتہ داروں کو خوش کرنے کے لیے لاکھوں روپے اڑانا، تصویروں کے لیے سٹیج اور لائٹنگ پر ہزاروں خرچ کرنا، کھانوں کی اقسام میں مسابقت، اور بارات کے قافلے میں گاڑیوں کی چمک — یہ سب “شادی کی کامیابی” کی نشانیاں بن گئی ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان تقاضوں کو پورا کرنے کے چکر میں ہم نے شادی کے اصل مقصد یعنی دو انسانوں کی زندگی آسان بنانا بھلا دیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کے لیے مستقبل محفوظ کرنے کے بجائے ایک دن کے تاثر کو سنوارنے پر ساری جمع پونجی لٹا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ شادی کے بعد مالی تنگی، ذہنی دباؤ، اور خاندانی اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔ اور جو لوگ ایک دن کی شان و شوکت سے متاثر ہو کر تعریف کرتے ہیں، وہی بعد میں کوئی مدد کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی شادیوں میں خوشی کم اور دکھاوا زیادہ ہے۔ دلہن کے لباس پر اتنے پیسے خرچ کیے جاتے ہیں جتنے میں ایک چھوٹا کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے۔ شادی ہال کی سجاوٹ پر اتنی رقم بہا دی جاتی ہے جتنی کسی غریب خاندان کے پورے سال کے خرچ کے برابر ہو۔ والدین اپنی عزت بچانے کے لیے قرض لیتے ہیں، زیور گروی رکھتے ہیں، یا جائیداد بیچ دیتے ہیں — صرف اس لیے کہ کوئی یہ نہ کہے “شادی کمزور تھی”۔ یہ سوچ دراصل ہمارے معاشرتی زوال کی علامت ہے۔ ہم نے عزت کو سادگی سے نہیں بلکہ اسراف سے جوڑ دیا ہے۔ اور یہی سب سے بڑی بدقسمتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو آج کل شادی کا مطلب بس یہی رہ گیا ہے کہ سالوں کی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو ایک ایسے دن پر لٹا دیا جائے جس کا مقصد دوسروں کو خوش کرنا ہو۔ مگر وہ “دوسرے” کبھی خوش نہیں ہوتے۔ آپ چاہے 400 لوگوں کے لیے کھانا بنوائیں، قیمتی تحفے دیں، یا بہترین انتظام کریں، ہمیشہ کوئی نہ کوئی اعتراض ضرور کرے گا۔ کسی کو سالن کم لگے گا، کسی کو موسیقی زیادہ شور والی لگے گی، اور کسی کو بیٹھنے کی جگہ پسند نہیں آئے گی۔ یعنی جتنی بھی محنت اور خرچ کیا جائے، آخر میں تعریف کم اور تنقید زیادہ ملتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ جو لوگ خود اپنی زندگیوں میں ناخوش ہیں، وہ آپ کی خوشیوں میں بھی سکون نہیں دیکھ سکتے۔ شادی اب ایک سماجی امتحان بن گئی ہے، جہاں دلہن اور دلہا سے زیادہ خاندانوں کی عزت داؤ پر لگی ہوتی ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ دباؤ آخر کار رشتے کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے۔ جب دو لوگ زندگی کے آغاز سے ہی قرض، تنقید، اور دکھاوے کے بوجھ تلے دب جائیں، تو اس رشتے میں محبت کہاں سے پھلے گی؟ معاشرہ ہمیں خوش کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے مگر خود کبھی خوش نہیں ہوتا۔ یہ دوغلا پن ہی ہمارے نظام کی جڑوں میں زہر بن چکا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ شادی کا حسن سادگی میں ہے، نہ کہ اسراف میں۔ اصل خوشی تب ہوتی ہے جب دو لوگ دل سے ایک دوسرے کے شریکِ سفر بنیں، نہ کہ جب مہمان تالی بجا کر تعریف کریں۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مہنگی شادی سے عزت بڑھتی ہے، وہ دراصل اپنے بچوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ عزت پیسے سے نہیں، کردار سے بنتی ہے۔ معاشرہ چند دن بات کرے گا، پھر بھول جائے گا، مگر قرض اور تھکن آپ کے ساتھ رہ جائیں گے۔ اگر ہم نے اپنی ترجیحات نہ بدلیں تو آنے والی نسلیں شادی سے خوفزدہ ہوں گی، محبت نہیں کریں گی۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس دکھاوے کی دوڑ سے نکلیں اور سادگی کو دوبارہ عزت دیں۔ کیونکہ خوشیاں خریدی نہیں جاتیں، محسوس کی جاتی ہیں — اور جو لوگ سب کو خوش کرنے کی کوشش میں خود کو بھول جاتے ہیں، وہ کبھی سچی خوشی نہیں پاتے۔
#Veer
![]()

