۔۔۔۔۔ خوف انسان کا دشمن ہے ۔۔۔۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )*کہتے ہیں کہ دور دراز کے کسی علاقے میں ایک بستی تھی۔ وہاں لوگ ہمیشہ پریشان رہتے تھے، وجہ یہ تھی کہ ہر سال ایک خوفناک دیو وہاں آتا اور بستی والوں کو للکار کر کہتا،*
“کیا کوئی مرد ہے تمہارے درمیان جو مجھ سے مقابلہ کرے؟ کیا کوئی ایسی ہمت رکھتا ہے جو مجھے ہرا سکے؟”
اور یوں وہ ہر سال کسی نہ کسی انسان کو مار ڈالتا۔
آج بھی وہی دن تھا… دیو کے آنے کا… اور گاؤں والے سخت ڈرے اور پریشان تھے کہ آج بھی ہماری بستی کا کوئی نوجوان جان سے جائے گا۔
اتفاقاً اسی دن، ایک مرد مجاہد وہاں جا پہنچا۔ جب اس نے پورے گاؤں میں موت جیسا سوگ دیکھا تو وہ بہت حیران اور بے چین ہوا۔ اس نے بستی والوں سے پوچھا،
“تم لوگ اتنے پریشان کیوں ہو؟ یہاں کیا ہوا ہے کہ سب کچھ مردہ سا نظر آتا ہے؟”
بستی والوں نے حالت سنائی،
“ہر سال ایک دیو آتا ہے، مقابلے کے لیے کسی مرد کا مطالبہ کرتا ہے اور پھر گاؤں کا ایک انسان مار دیتا ہے۔”
مرد مجاہد نے پوچھا،
“تو اس سال تم نے کس کو مقابلے کے لیے چنا ہے؟”
بستی والوں نے ایک نوجوان کو لا کر اس مجاہد کے سامنے کھڑا کیا۔ وہ نوجوان پژمردہ، کمزور اور نحیف دکھتا تھا۔ اس کے جسم سے واضح تھا کہ وہ کسی لڑائی یا مقابلے کے قابل نہیں۔
مرد مجاہد نے اسے دیکھ کر حیرت سے سر ہلایا، پھر بولا،
“اس بار دیو کا مقابلہ تم لوگ نہیں کرو گے۔ میں خود اس کے ساتھ لڑوں گا۔ دیکھتے ہیں اس میں کتنی طاقت ہے۔”
مرد مجاہد کے اس حوصلے پر بستی والوں کے چہروں پر امید کی کرن جاگی۔ انہیں پہلی بار امید لگی کہ شاید آج ان کی مصیبتوں کا خاتمہ ہو جائے۔
میدان میں بیٹھ کر مجاہد نے دیو کے نمودار ہونے کا انتظار کیا۔ تھوڑی دیر بعد دور سے ایک خوفناک سایہ دکھائی دیا، ایک بہت بڑا دیو سامنے آیا۔
اس کا قد آسمان کو چھو رہا تھا اور وہ ہاتھ میں تلوار لیے آرہا تھا۔
بار بار وہی سوال دہرا رہا تھا،
“کیا کوئی ہے تمہارے اندر ایسا جوان جو مجھ سے مقابلہ کرے؟ کیا تمہارے درمیان کوئی مرد نہیں جو مجھ سے لڑ کر مجھے ہرا سکے؟”
جب اس کی آواز سنائی دی تو پورا گاوں سہم گیا۔ مجاہد بھی ایک لمحے کے لیے گھبرا اٹھا، مگر پھر خدا کا نام لے کر میدان میں کود پڑا اور دیو کو للکارا،
“ہاں، میں ہوں… میں مقابلہ کروں گا، میں تمہیں ہرا دوں گا۔ آؤ دیکھتے ہیں کس میں کتنا دم ہے۔”
یہ کہتے ہی وہ دوڑا اور دیو بھی اسی طرف لپکا۔
جوں جوں وہ قریب آیا، محسوس ہوا کہ دیو کا قد کم ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے وہ آسمان کو چھوتا ہوا پہاڑ محسوس ہورہا تھا، پھر ہاتھی کے برابر، پھر ایک عام انسان، پھر بچے کے قد تک سکڑ گیا اور جب وہ بالکل قریب پہنچا تو ایک مینڈک کے برابر رہ گیا۔
مجاہد نے تلوار اس کے سینے میں گھونپ دی اور پھر جھک کر پوچھا،
“تم کون ہو؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ پہلے تم اتنے بڑے تھے۔ پھر جیسے ہی میں ہمت اور حوصلے سے تمہاری طرف دوڑا، تم چھوٹے ہوتے چلے گئے؟”
دیو نے مرنے سے پہلے بس ایک ہی جواب دیا،
“میں کچھ بھی نہیں… میں تو انسان کے دل میں پلنے والا خوف ہوں۔ جتنا وہ خود پر حاوی کرے گا اتنا ہی میرا قد بڑھتا چلا جائے گا۔ اور جب وہ اس خوف کو دل سے نکال کر پھینک دے تو میری بھی کوئی وقعت نہیں رہتی۔”
سبق ہے کہ
“خوف صرف اُتنا طاقتور ہوتا ہے جتنا تم اسے اپنے دل میں جگہ دیتے ہو۔”
جب انسان ہمت، ایمان اور حوصلے سے خوف کا سامنا کرتا ہے تو وہ خوف خود بخود چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔
لیکن اگر وہ ڈر کے آگے جھک جائے، تو یہی خوف اس پر حاوی ہو کر اسے کمزور کر دیتا ہے۔
یعنی
“انسان کی اصل طاقت اس کا یقین ہے، اور اس کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا خوف۔”
 
 
															 
								 
								 
								
