۔۔۔۔۔ خدا خدا کرکے وہ دن ۔۔۔۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )عروسہ ایک ڈانسر تھی اور بڑی مشکل میں پھنس گئی۔ وہ کسی کے بچے کی ماں بنے والی تھی اور وہ آدمی اس حاملہ کر کے بھاگ گیا تھا۔ عروسہ نے ہسپتال میں کلب کے ایک شریف لڑکے کا نام باپ کے طور پر لکھوا دیا۔ وہ میرا بھائی تھا۔ بھائی تو جیسے پتھر کا بت بن گئے۔ عروسہ نے اس کی کافی منت سماجت کی اور بھائی اس کی مدد کے لیے تیار ہو گیا۔ لیکن بھائی کو کیا خبر تھی کہ اک خوفناک مصیبت گلے پڑ چکی ہے۔
👇👇
ماں نے بڑی مشکل سے عرفان بھائی کو پڑھایا تھا۔ ہماری ساری اُمیدیں اُسی سے وابستہ تھیں۔ وہی ہمارے گھر کی کشتی کا کھیون ہار تھا۔ خدا خدا کر کے وہ دن آیا جب میرے بھائی نے اچھے نمبروں سے گریجویشن مکمل کر لی۔ اب اگلا مرحلہ ملازمت کی تلاش کا تھا۔ دفتر دفتر خاک چھان ماری، مگر کوئی روزگار نہ ملا۔ بالآخر ایک دوست کے ذریعے اُمید کی کرن نظر آئی۔ بلال، عدنان بھائی کا دیرینہ دوست تھا۔ وہ ایک ہوٹل میں استقبالیہ کلرک کے طور پر کام کرتا تھا۔ خوش قسمتی سے اُسے بیرونِ ملک جانے کا موقع مل گیا۔ اُس نے عدنان بھائی سے کہا کہ تم روزگار کی تلاش میں ہو اور میں ملازمت چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میری جگہ خالی ہو رہی ہے۔ اگر کہو تو ہوٹل کے منیجر سے تمہارے لیے بات کر لوں۔
اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں۔ فی الحال یہی بہت تھا کہ کہیں سے روزگار کی سبیل نکل رہی تھی۔ بھائی نے فوراً ہامی بھر لی۔ بلال نے اُنہیں اپنی جگہ ہوٹل میں ریسپشنسٹ رکھوا دیا۔ تنخواہ معقول تھی، یعنی گھر کے چار افراد کا گزارا ہو رہا تھا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد عدنان بھائی اپنی ملازمت سے کچھ غیر مطمئن نظر آنے لگے۔قصہ یہ تھا کہ جس ہوٹل میں وہ ریسپشنسٹ تھے، وہ صرف نام کا ہوٹل تھا۔ درحقیقت وہ ایک نائٹ کلب کی حیثیت رکھتا تھا۔ بہرحال، مجبوری انسان سے ہر کام کرواتی ہے۔ بھائی کو دوسری کوئی ملازمت نہ ملی تو وہ اسی کام کو جاری رکھے رہے۔
یوں دو سال گزر گئے۔ان دو برسوں میں کئی رقاصائیں آئیں اور اپنی ادائیں دکھا کر دوسرے ہوٹلوں سے وابستہ ہو گئیں، لیکن عروسہ وہ واحد ڈانسر تھی جو اب تک اسی ہوٹل بہارِ نو سے وابستہ تھی۔عروسہ واقعی اپنے نام کی طرح خوبصورت تھی۔ جب ذرا سا بناؤ سنگھار کر لیتی، تو ہر بار نئی نویلی دلہن جیسی لگتی۔ میک اپ زدہ چہرے کے باوجود اُس کے چہرے پر ایک معصومیت جھلکتی تھی۔ خدا جانے کون سے حالات تھے جنہوں نے اُسے اس پیشے سے منسلک ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ جب بھی وہ عدنان بھائی کو دیکھتی، اُس کے لبوں پر ایک دلکش مسکراہٹ بکھر جاتی۔عدنان بھائی کا کہنا تھا کہ ایک دن جب وہ ڈیوٹی ختم کر کے گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے تو ویٹر ندیم ان کے پاس آیا اور ایک لفافہ تھما کر چلا گیا۔انہوں نے وہ لفافہ کوٹ کی جیب میں ڈال دیا اور ہاتھ منہ دھونے واش روم چلے گئے۔
واش روم جانے کے لیے میک اپ روم کے سامنے سے گزرنا پڑتا تھا۔ جیسے ہی وہ وہاں سے گزرے، دیکھا کہ عروسہ آئینے کے سامنے میک اپ کرنے میں مصروف تھی۔آئینے میں بھائی کی شبیہ دیکھ کر اُس کے ہاتھ سے لپ اسٹک چھوٹ کر فرش پر لڑھک گئی۔ اُس نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی، بولی کہ دروازہ بند رکھا کریں، یہاں سے کئی لوگ گزرتے ہیں۔ بھائی بولے کہ ہاں، میں بھول گیا تھا۔وہ گھبرا کر خاموش ہو گئی۔ بھائی آگے بڑھ گئے۔ واش روم سے ہاتھ منہ دھو کر نکلے تو وہ جا چکی تھی۔ بھائی تھکے ہارے گھر پہنچے، لباس تبدیل کیا اور بستر پر دراز ہو گئے۔ تبھی لفافے کا خیال آیا جو ویٹر ندیم نے دیا تھا۔اُٹھ کر کوٹ کی جیب سے لفافہ نکالا، کھولا اور اُس میں لکھی تحریر پڑھنے لگے۔ خط پڑھتے ہی وہ سکتے میں آ گئے۔
یہ خط عروسہ کی طرف سے تھا۔ اُس نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تھا کہ وہ سخت مشکل میں ہے اور چند ماہ میں ایک بچے کو جنم دینے والی ہے۔عدنان بھائی کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ جہاں تک اُن کو علم تھا، عروسہ غیر شادی شدہ تھی۔ یا پھر اُس نے خود کو جان بوجھ کر غیر شادی شدہ ظاہر کر رکھا تھا۔اگلے دن وہ بھائی سے ملی اور بولی کہ ذرا سا وقت دو عدنان، تم سے بات کرنی ہے۔ بھائی نے کہا کہ بولو، اس وقت یہاں کوئی موجود نہیں، تم بات کر سکتی ہو۔ وہ کہنے لگی، کیا تم نے خط پڑھا؟ بھائی نے جواب دیا کہ ہاں، پڑھ لیا ہے۔عروسہ بولی کہ در اصل تم ہی مجھے یہاں واحد ایسے مرد لگے جس پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔ تبھی تمہیں اپنے راز میں شریک کیا ہے۔ اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ مجھ کو معاف کر دینا۔ یہ میری زندگی کا سوال ہے۔ میں نے اسپتال میں نام لکھوانا تھا۔ ظاہر ہے، شوہر کا نام بھی دینا لازم تھا۔ سو میں نے وہاں تمہارا نام لکھوا دیا ہے۔ خدا کے لیے مجھے انکار نہ کرنا۔ میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ بھائی تو جیسے پتھر کا بت بن گئے۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
#KashifJani
 
 
															 
								 
								 
								
