Daily Roshni News

لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف

لندن سے ایک خط

تحریر۔۔۔فیضان عارف

باغات اور جنگلات

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف)پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں ساڑھے تین بلین یعنی ساڑھے تین کھرب سے زیادہ درخت لگے ہوئے ہیں۔ان میں سے لاکھوں درخت ایسے ہیں جن کی عمر ایک صدی سے بھی زیادہ ہے۔ تعداد کے اعتبار سے برطانیہ میں رہنے والے ہر شخص کے حصے میں 45 درخت آتے ہیں۔ گھروں کے باغیچوں میں اُگے ہوئے پیڑاورپھولوں کے پودے اس کے علاوہ ہیں۔ باغات اور جنگلات کے ان درختوں کی وجہ سے برطانیہ ایک ایساسر سبز جزیرہ ہے جس کی آب وہوا بہت صحت بخش اور موسم خوشگوار رہتا ہے۔ گریٹ بریٹن میں اپریل سے اکتوبر تک درجہ حرارت بہت معتدل ہوتا ہے اس دوران پورے ملک اور خاص طور پر لندن میں غیر مکی سیاحوں کی آمدو رفت کا سلسلہ بھی اس شہر کی رونقوں میں اضافہ کرتا ہے۔ درختوں کی بہتات کی وجہ سے برطانیہ میں ہونے والی بارش کی سالانہ اوسط 1168 ملی میٹر ہے۔ پورے ملک کے کسی بھی حصے یا شہر میں موسم گرما کے دوران درجہ حرارت28 ڈگری سنٹی گریڈ سے بڑھتا ہے تو اگلے ہی روز وہاں موسم ابر آلود ہو جاتا ہے۔ لندن شہر کو پارکوں اور جھیلوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ گریٹر لندن کی تقریبا ًایک کروڑ آبادی میں تین ہزار سے زیادہ پارک اور سیکڑوں چھوٹی بڑی جھیلیں ہیں جبکہ 9 ملین درخت اس شہرکی فضا کو قدرتی آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ برطانیہ میں نہ تو کوئی محکمہ جنگلات ہے اور نہ ہی شجرکاری کی کوئی مہم چلائی جاتی ہے۔ پارک اور رہائشی علاقوں میں درخت لگانے اور اُن کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری کو نسلز (بلدیہ) کی ہوتی ہے۔ لندن میں سب سے زیادہ درخت سیکا مور کے ہیں اسے میپل ٹری بھی کہا جاتا ہے۔ اس درخت کا پتا کینیڈا کے قومی پرچم کے وسط میں دیکھا جا سکتا ہے۔اس درخت پر پتوں کی بہتات ہوتی ہے خزاں کے موسم میں یہ پتے زرد گلابی رنگ کے ہو کر جھڑنے لگتے ہیں جن کی وجہ سے ہر درخت کے نیچے خوش نما پتوں کی ایک تہہ بچھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

      لندن سمیت برطانیہ کے مختلف شہروں کے مضافاتی علاقوں میں سیکڑوں ایسے فروٹ فارمز(باغات) ہیں جہاں سیب، آلو بخارے اور بگو گوشوں کے علاوہ اور کئی پھلوں کے درخت لگے ہوئے ہیں۔ کئی ایکڑز پر پھیلے ہوئے ان باغات میں کوئی بھی شخص جا کر جی بھر کے پھل کھا سکتا ہے اور وہ بھی بالکل مفت البتہ اگر کوئی ان پھلوں کی ٹوکری بھر کے گھر لے جانا چاہے تو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔میں ایسٹ لندن کے جس علاقے میں رہتا ہوں اس کا نام فارسٹ گیٹ ہے، اس کے گردو نواح میں ویسٹ ہیم پارک، و انسٹڈ پارک، پلیشٹ پارک اورسنٹرل پارک موجود ہیں۔ یہ وسیع و عریض پارک کئی ایکڑز پر محیط ہیں،چھوٹے چھوٹے پارک ان کے علاوہ ہیں۔ ان پارکوں میں انواع و اقسام کے درخت اور پودے لگے ہوئے ہیں جن کی حفاظت اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ویسٹ ہیم پارک اس علاقے کا سب سے شاندار پارک ہے یہاں کرکٹ اور فٹ بال کے گر اونڈز کے علاوہ ٹینس کورٹس، اوپن ائیرجم اورچھوٹے بچوں کے لئے جھولوں وغیرہ کا ایک حصہ مختص ہے۔ اس پارک میں ایک روز گارڈن بھی بنایا گیا ہے جہاں گلاب اور دیگر پھولوں کے پودے ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح مشرقی لندن کے رہائشی علاقوں کی ہر سڑک کے دونوں طرف درجنوں درخت لگے ہوئے ہیں جن کی چھنڈائی اور دیکھ بھال مقامی کونسل کے ذمہ ہے۔یو کے میں گھروں کی اکثریت بیک گارڈن پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان عقبی باغیچوں میں عام طور پر پھولوں کے علاوہ پھلوں کے درخت بھی لگائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے طرح طرح کے پرندے چہچہاتے، تتلیاں اور بھونرے منڈلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پچھلے ہفتے جب میں لندن سے آکسفورڈ جاتے ہوئے ایپنگ فاریسٹ کے علاقے سے گزراتو یہاں موسم خزاں کی وجہ سے پورے جنگل میں پت جھڑ کا سلسلہ جاری تھا اس جنگل کے درمیان سے گزرے والی سڑک زرد اور سرخی مائل پتوں سے اٹی ہوئی تھی۔ جن ملکوں میں درختوں کی بہتات ہوتی ہے وہاں موسم بہارہی نہیں خزاں کاموسم بھی جاذب نظر اور پر کشش ہوتا ہے۔ لندن کے ایپنگ فاریسٹ کی طرح سارے یونائیٹڈ کنگڈم میں درختوں کے ہزاروں ذخیرے اور جنگلات موجود ہیں، فطرت سے محبت کرنے والے لاکھوں لوگ ان جنگلوں کی سیر کے لئے آتے ہیں۔ ان گھنے جنگلات میں پیدل چلنے والوں کے لئے راستے اور راہداریاں بھی بنی ہوئی ہیں۔ یہ جنگل پرندوں اور وائلڈ لائف کی محفوظ پناہ گاہیں بھی ہیں، درختوں کے ان ذخیروں میں ہزاروں طرح کے پرندے، حشرات الارض اور جانور پرورش پاتے ہیں۔جنگلات کے علاوہ یوکے میں بوٹینیکل گارڈنز کی بھی کمی نہیں ہے۔ لندن کے علاوہ مختلف شہروں میں (80) بوٹینیکل گارڈنز ہیں ان میں لندن کا سب سے بڑا اورمشہور کیو گارڈن ہے جو رائل بوٹینیکل گارڈن بھی کہلاتا ہے۔ رچمنڈ کے اس بے مثال کیو گارڈنز کے بارے میں دو برس پہلے میں نے ایک تفصیلی کالم لکھا تھا۔لندن کا چیلسی گارڈن بھی پھولوں اورپودوں سے محبت کرنے والوں کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے۔ یہاں ہر سال موسم بہار میں پھولوں کی نمائش کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، اس نمائش کودیکھنے کے لئے پورے ملک سے نفیس لوگ لندن آتے ہیں۔ انگریز لوگ پودوں اور پھولوں کو اُگانے اور کیاریاں بنانے والوں کو مالی نہیں باغبان کہتے ہیں جبکہ درخت کاٹنے اور ان کی چھنڈائی کرنے والے یہاں لکڑہارے نہیں ٹری سر جن کھلاتے ہیں۔ جنگل اور بوٹینیکل گارڈنز میرے لئے ہمیشہ دلچسپی کاباعث رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے آکسفورڈ یونیورسٹی گیا تو وہاں کے بوٹینیکل گارڈ نز کی سیر نے طبیعت کو سرشار کر دیا۔ ہلکی ہلکی بارش میں اس پر فضا مقام پرلگے ہوئے سکیڑوں اقسام کے اشجار کے درمیان پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے ایسا لگا کہ پورا باغ رم جھم سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔آکسفورڈ یو نیورسٹی کا یہ تاریخی باغ اس شہر کے ارتقا اور ترقی کا گواہ ہے۔ شہر کے وسط سے گزرنے والے چھوٹے سے دریا چرویل کے کنارے پر واقع اس بوٹینیکل گارڈن کو1621میں ہینری ڈین ور نے بنایاتھا اس اعتبارسے یہ برطانیہ کا قدیم ترین بوٹینیکل گارڈن ہے جس میں کئی صدی پرانے درخت ابھی تک ایستادہ ہیں۔

      انگریزوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی تاریخی عمارتوں، قدیم درختوں، نوادرات اور قدرتی ماحول کے تحفظ اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ انگریزوں نے ہر معاملے میں ایک ایسا نظام وضع کر رکھا ہے کہ حکومتوں اور انتظامیہ کے بدلنے کے باوجود ترقیاتی منصوبوں میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی ضابطوں، قوانین اور سسٹم کی بالا دستی بدستور قائم رہتی ہے۔پورے یو نائیٹڈ کنگڈم کے سیر سپاٹے اور یہاں کے پہاڑوں، پربتوں، جنگلوں، دریاؤں، جھیلوں، چراگا ہوں، وادیوں، ساحلوں، پارکوں اور باغات کے مشاہدے اور ان کی فطری رعنائیوں سے لطف اندوزہونے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو ملک اور قوم قدرت کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کی حفاظت اور اس کی مخلوقات کا خیال رکھتی ہے، خالق کائنات اُن پر اپنی نعمتوں اور برکتوں کے نزول کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔

      قدرت نے ہمیں بھی 78 برس پہلے ایک سر سبز، پھولوں اور پھلوں والا باغ عطا کیا تھا ہم نے اس باغ کے ساتھ کیاکیا، اس کو سنوارنے یا اجاڑنے میں ہمارا کیا کردار رہا ہے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں صرف اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

٭٭٭

Loading