Daily Roshni News

اللہ میاں کے باغ کے پھول۔۔۔ بڑا آدمی۔۔۔   بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق

اللہ میاں کے باغ کے پھول

بڑا آدمی

بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق

بشکریہ ماہنانہ قلند شعور ستمبر 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ اللہ میاں کے باغ کے پھول۔۔۔ بڑا آدمی۔۔۔   بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق)اردو زبان کی ترقی میں ڈاکٹر مولوی عبدالحق ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی خواہش تھی کہ پاکستان میں اردو کو اہمیت دی جائے اور بچے اور بڑے شائستہ اردو میں بات کریں ۔ اردو زبان کے لئے خدمات کی وجہ سے انہیں بابائے اردو کا خطاب دیا گیا۔ اردو کے فروغ کے لئے کراچی میں وفاقی اردو سائنس کا لج قائم کیا جواب یونی ورسٹی بن چکا ہے ۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا مشہور قول ہے، پڑھنے سے پڑھنا ، لکھنے سے لکھنا اور بولنے سے بولنا آتا ہے۔“

. نام دیو ۔ مقبرہ رابعہ درانی  اورنگ آباد (دکن) کے باغ میں مالی تھا۔ مقبرہ کا باغ میری نگرانی میں تھا۔ میرے رہنے کا مکان بھی باغ کے احاطہ میں تھا۔ میں نے اپنے بنگلے کے سامنے چمن (باغ ) بنانے کا کام نام دیو کے سپر د کیا۔ میں اندر کمرے میں کام کرتا رہتا تھا۔ میری میز کے سامنے بڑی سی کھڑ کی تھی اس میں سے چمن صاف نظر آتا تھا ۔ لکھتے لکھتے کبھی نظر اٹھا کر دیکھتا، نام دیو کو ہمہ تن کام میں مصروف پاتا ۔ بعض وقت اس کی حرکتیں دیکھ کر تعجب ہوتا ۔ مثلاً کیا دیکھتا ہوں کہ نام دیو گملا صاف کر رہا ہے ۔ پھر پودا ڈال کر مٹی بھری ۔ حوض سے پانی لیا اور آہستہ آہستہ ڈالنا شروع کیا پانی ڈال کر ڈول (وضع ) درست کی اور ہر رخ سے پودے کو مڑ مڑ کر دیکھا ۔ پھر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر اسے دیکھنے لگا ، دیکھتا جاتا مسکراتا اور خوش ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی اور خوشی بھی۔

 کام اس وقت ہوتا ہے جب اس میں لذت آنے لگے ۔ بے مزا کام، کام نہیں بریگا ر ہے۔ اب مجھے اس سے دل چسی ہونے لگی ۔ یہاں تک کہ بعض وقت کام چھوڑ کر اسے دیکھا کرتا مگر اسے کچھ خبر نہ ہوتی کوئی دیکھ رہا ہے یا اس کے آس پاس کیا ہورہا ہے۔ وہ اپنے کام میں مگن رہتا۔

اس کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔ وہ پودوں اور پیروں ہی کو اپنی اولاد سمجھتا تھا اور اولاد کی طرح ان کی پرورش اور نگہداشت کرتا ۔ ان کو سر سبز اور شاداب دیکھ کر ایسا خوش ہوتا جیسے ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ وہ ایک ایک پودے کے پاس بیٹھتا، ان کو پیار کرتا ، جھک جھک کر دیکھتا اور ایسا معلوم ہوتا گویا اس سے چپکے چپکے باتیں کر رہا ہے! جیسے جیسے وہ بڑھتے ، پھولتے اور پھلتے ، اس کا دل بھی بڑھتا اور پھولتا تھا۔ ان کو تو انا دیکھ کر اس کے چہرہ پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ کبھی کسی پودے میں اتفاق سے کیڑا لگ جاتا یا کوئی اور روگ پیدا ہو جاتا تو اسے بڑی فکر ہوتی ۔ بازار سے دوائیں لاتا۔ باغ کے داروغہ یا مجھ سے کہہ کر منگواتا۔ دن بھر اسی میں لگا رہتا اور اس پودے کا ایسا خیال کرتا جیسے کوئی ہم درد اور نیک دل اپنے عزیز کا کرتا ہے۔ ہزار جتن کرتا اور اسے بچا لیتا۔ جب تک وہ تن درست نہ ہو جاتا، اسے چین نہ ۔ اس کے لگائے ہوئے پودے ہمیشہ پروان چڑھے اور کبھی کوئی پیٹر ضائع نہ ہوا۔ باغوں میں رہتے ہوئے اسے جڑی بوٹیوں کی شناخت ہوگئی تھی ۔ خاص کر بچوں کے علاج میں بڑی مہارت تھی۔ دور دور سے لوگ اس کے پاس بچوں کے علاج کے لئے آتے تھے ۔ وہ باغ میں سے جڑی بوٹیاں لا کر شفقت سے ان کا علاج کرتا۔

کبھی کسی دوسرے گاؤں والے بھی اسے علاج کے لئے بلائے جاتے ۔ بلا تامل چلا جاتا ۔ مفت علاج کرتا اور کبھی کسی سے کچھ نہیں لیتا تھا۔ وہ خود بھی بہت صاف ستھرا رہتا تھا اور ایسا ہی اپنے چمن کو رکھتا۔ اس قدر پاک صاف جیسے رسوئی کا چوکا (سل)۔ کیا مجال جو کہیں گھاس پھوس یا کنکر پتھر پڑا ر ہے۔ روشیں (وضع ) با قاعدہ، گملے درست ، سچائی اور شاخوں کی کانٹ چھانٹ وقت پر ، جھاڑ نا صبح شام روزانہ ۔ غرض سارے چمن کو آئینہ بنا رکھا تھا۔ باغ کے داروغہ ( عبد الرحیم خاں فینسی ) خود بھی کارگزار اور مستعد شخص ہیں اور دوسروں سے بھی کھینچی تان کر کام لیتے ہیں۔ اکثر مالیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنی پڑتی ہے ورنہ ذرا بھی نگرانی میں ڈھیل ہوئی، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے یا سائے میں جائیے۔ عام طور پر آدمی فطرتا کابل اور کام چور واقع ہوا ہے ۔ آرام طلبی ہم میں کچھ موروثی ہوگئی ہے ۔ لیکن نام دیو کو کبھی کچھ کہنے سننے کی نوبت نہ آئی۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کام میں لگا رہتا۔ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔

 ایک سال بارش بہت کم ہوئی ، کنوؤں اور بادلیوں پکا کنواں ) میں پانی برائے نام رہ گیا۔ باغ پرآفت ٹوٹ پڑی۔ بہت سے اور پیٹر تکلف ( برباد ہو گئے ۔ جو بیچ رہے وہ ایسے نڈھال اور مرجھائے ہوئے تھے جیسے دق کے بیمار لیکن نام دیو کا چمن ہرا بھرا تھا۔ وہ دور دور سے ایک ایک گھڑا پانی کا سر پر اٹھا کے لاتا اور پودوں کو سینچتا ۔ یہ وہ وقت تھا کہ قحط نے لوگوں اوسان خطا کر رکھے تھے اور انہیں پینے کو پانی مشکل سے میسر آتا تھا۔ یہ خدا کا بندہ کہیں نہ کہیں سے پانی لے ہی آتا اور پودوں کی پیاس بجھاتا۔ جب پانی کی قلت بڑھی تو اس نے راتوں کو بھی پانی ڈھونڈ ڈھونڈ کر لانا شروع کیا ۔ پانی کیا تھا یوں سمجھئے کہ آدھا پانی اور آدھی کیچڑ ہوتی تھی ۔ لیکن یہی گدلا پانی پودوں کے حق میں آب حیات تھا۔ میں نے اس بے مثل کارگزاری پر اسے انعام دینا چاہا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ شاید اس کا کہنا ٹھیک تھا کہ اپنے بچوں کے پالنے پوسنے میں کوئی انعام کا مستحق نہیں ہوتا۔ کیسی ہی تنگی ترشی ہو وہ ہر حال میں کرنا ہی پڑتا ہے۔ جب اعلیٰ حضرت حضور نظام کو اور تگ آباد کی خشک آب و ہوا میں باغ لگانے کا خیال ہوا تو یہ کام ڈاکٹر سید سراج الحسن ( نواب سراج یار جنگ بہادر مرحوم) ناظم تعلیمات کو تفویض ہوا۔

ڈاکٹر صاحب کا ذوق باغ بانی مشہور تھا۔ مقبرہ رابعہ درانی اور اس کا باغ جو اپنی ترتیب وتعمیر کے اعتبار سے مغلیہ باغ کا بہترین نمونہ ہے ، مدت سے ویران اور سنسان پڑا تھا، وحشی جانوروں کا مسکن تھا اور جھاڑ جھنکاڑ سے بھرا پڑا تھا، آج ڈاکٹر صاحب کی بدولت سرسبز و شاداب اور آباد نظر آتا ہے ۔ اب دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے اور سیر و تفریح سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو آدمی پر کھنے میں کمال تھا ۔ وہ نام دیو کے قدردان تھے۔ اسے مقبرہ سے شاہی باغ میں لے گئے ۔ شاہی باغ آخر شاہی باغ تھا۔ کئی کئی نگران کار اور بیسوں مالی ، اور مالی بھی کیسے کیسے ٹوکیو سے جاپانی ، تہران سے ایرانی اور شام سے شامی آئے تھے ۔ ان کے بڑے ٹھاٹ تھے ۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی اختراع تھی۔ وہ شاہی باغ کو حقیقت میں شاہی باغ بنانا چاہتے تھے ۔ یہاں بھی نام دیو کا وہی رنگ تھا۔ اس نے فن باغ بانی کی کہیں تعلیم پائی تھی اور نہ اس کے پاس کوئی سند یا ڈپلوما تھا۔ البتہ کام کی دھن تھی ، کام سے سچالگاؤ تھا اور اسی میں اس کی جیت تھی ۔ شاہی باغ میں بھی اس کا کام مہا کاج (شاہ کا ر ) رہا ۔ دوسرے نالی لڑتے جھگڑتے ، یہ کسی سے لڑتا جھگڑتا نہیں تھابس وہ تھا اور اس کا کام۔

 ایک دن نہ معلوم کیا بات ہوئی کہ شہد کی مکھیوں کی یورش ہوئی ۔ سب مالی بھاگ بھاگ کر چھپ گئے ۔ نام دیو کو خبر بھی نہ ہوئی کیا ہو رہا ہے۔ وہ برابر اپنے کام میں لگا رہا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ قضا سر پر کھیل رہی ہے ۔ مکھیوں کا غضب ناک جھلڑ ( غول ) اس غریب پر ٹوٹ پڑا۔ اتنا کاٹا کہ بے دم ہو گیا۔ آخر اسی میں جان دے دی۔ میں کہتا ہوں کہ اسے شہادت نصیب ہوئی۔ وہ سادہ مزاج بھولا بھالا اور منکسر مزاج تھا۔ اس کے چہرہ پر بشاشت اور لبوں پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی ۔ چھوٹے بڑے ہر ایک سے جھک کر ملتا ۔ غریب تھا اور تنخواہ بھی کم تھی ، اس پر بھی بساط سے بڑھ کر اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرتا رہتا تھا۔ کام سے عشق تھا اور آخر کار کام کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ گرمی ہو یا جاڑا ، دھوپ ہو یا سایہ، وہ دن رات برابر کام کرتا رہا لیکن اسے کبھی یہ خیال نہ آیا کہ میں بہت کام کرتا ہوں یا میرا کام دوسروں سے بہتر ہے۔ اسی لئے اسے کبھی اپنے کام پر فخر یا غرور نہ تھا۔ وہ یہ باتیں جانتاہی نہ تھا۔ اسے کسی سے بیر تھا نہ جلا پا۔ وہ سب کو اچھا سمجھتا اور سب سے محبت کرتا تھا۔ وہ غریبوں کی مدد کرتا، وقت پر کام آتا، آدمیوں، جانوروں ، پودوں کی خدمت کر تا لیکن اسے کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ وہ کوئی نیک کام کر رہا ہے۔ نیکی اسی وقت تک نیکی ہے جب تک آدمی کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کوئی نیک کام کر رہا ہے۔ جہاں اس نے یہ سمجھنا شروع کیا، نیکی نیکی نہیں رہتی۔ جب کبھی مجھے نام دیو کا خیال آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ نیکی کیا ہے اور بڑا آدمی کسے کہتے ہیں ۔ ہر شخص میں قدرت نے کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے۔ اس صلاحیت کو درجہ کمال تک پہنچانے میں

ساری نیکی اور بڑائی ہے۔ درجہ کمال تک نہ کبھی کوئی پہنچا ہے نہ پہنچ سکتا ہے لیکن وہاں تک پہنچنے کی کوشش میں آدمی انسان بنتا ہے۔ یہ سمجھو کندن ہو جاتا ہے۔

حساب کے دن جب اعمال کی جانچ پڑتال ہوگی خدا پوچھے گا کہ میں نے جو استعداد تجھ میں ودیعت کی تھی ، اللہ کے بندوں کو اس سے کیا فیض پہنچایا۔ اگر نیکی اور بڑائی کا یہ معیار ہے تو نام دیو نیک بھی تھا اور بڑا بھی۔

بشکریہ ماہنامہ  قلندر شعور ستمبر2019

Loading