Daily Roshni News

اقبال اور غالب

اقبال اور غالب

” ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اقبال اور غالب میں اہم ترین فرق ان کے نقطہ ہاۓ نظر کا ہے۔ اقبال کا نقطۂ نظر اجتماعی اور سیاسی ہے اور غالب کا انفرادی اور غیر سیاسی۔ غالب جاگیردارانہ نظام کا پروردہ اور عہدِ انحطاط کا تربیت یافتہ ہے اور اقبال عصرِ بیداری کا آوردہ۔

غالب کے اشعار میں ندرتِ خیال اور بدعتِ اسلوب کی لا تعداد مثالیں مل سکتی ہیں لیکن بیداری کا پیغام نہیں مل سکتا وہ کسی سیاسی انقلاب کا نقیب ہر گز نہیں تھا۔ غالب انفرادیت کا نمائندہ ہے اور اس کے کلام میں فرد کی زبوں حالی اور پستی کی عکاسی ضرور ملتی ہے اس لۓ کہ اس کی زندگی باندازِ چکیدن سر نگونی میں گزری جس کا تعلق اقبال کی شاعری سے ہر گز نہیں۔

غالب کے عقائد و خیالات میں ہم آہنگی نہیں برخلاف اس کے اقبال کے یہاں زندگی کا ایک واضح تصور ملتا ہے اور اسکا نقطۂ نظر سائنٹفک ہے ۔ اقبال کا مطالعہ دوسرے شعراء کے مطالعہ سے مختلف طریقۂ کار چاہتا ہے ۔

غالب کو سمجھنے کے لۓ اس کے شخصی حالات یا زیادہ سے زیادہ ہندستان کی صد سالہ تاریخ کافی ہے لیکن اقبال کو سمجھنے کے لۓ ایک قوم کی تاریخ درکار ہے جو تیرہ صدیوں پر محیط ہے اور عرب کے ریگزاروں سے لیکر تقریباً دو تہائی کرۂ ارض پر پھیلی ہوئ ہے ۔ “

احمد جلیلی

تصورِ عشق

غالب

بیا کہ قاعدۂ اسماں بگردانیم

قضا بہ گردشِ رطلِ گراں بگردانیم

ز چشم ودل بتماشا تتمع اندوزیم

ز جان و دتن بہ مدارا زیاں بگردانیم

بگوشۂ بنشینیم و در فراز کنیم

بہ کوچہ برسرِ رہ پاسباں بگردانیم

اگر ز شحنہ بود گیر و دار نندیشیم

و گر ز شاہ رسد ارمغاں بگردانیم

اگر کلیم شود ہم زباں سخن نکنیم

و گر خلیل شود میہماں بگردانیم

گل افگینم و گلابے برہ گزر پاشیم

مے آوریم و قدح درمیاں بگردانیم

ندیم ومطرب و ساقی ز انجمن رانیم

بکاروبار ز نے کارواں بگردانیم

گہے بلابہ سخن با ادا بیا میزیم

گہے ببوسہ زباں در دہاں بگردانیم

نہیم شرم بیکسو و باہم آویزیم

بشوخی کہ رخِ اختراں بگردانیم

اقبال

فرصتِ کش مکش مدہ ایں دلِ بیقرار را

یک دو شکن زیادہ کن گیسوۓ تابدار را

از تو دروںِ سینہ ام برق تجلّی ، کہ من

با مہ و مہر دادہ ام تلخئ انتظار را

ذوقِ حضور در جہاں رسمِ صنم گری نہاد

عشق فریب می دہد جانِ امیدوار را

تا بفراغِ خاطرے نغمۂ تازہ زنم

باز بہ مرغ فزاردہ طائر مرغ غزار را

طبعِ بلند دادۂ بند ز پاۓ من کشا

تا بہ پلاسِ تودہم خلعتِ شہریار را

تیشہ اگر بہ سنگ زدایں چہ مقامِ گفتگو است

عشق بدوش می کشد ایں ہمہ کہسار را

جوش، سیلان، سرمستی اور غنائت کے عناصر دونوں غزلوں میں مشترک ہیں، دونوں کا موضوع بھی عشق ہے اور عشق سے پیدا ہونے والا گداز اور وفور بھی یکساں ہی ہے۔ ان ابتدائی مشابہتوں کے باوجود دونوں غزلوں کی فضا اور تاثر میں آسماں و زمین کا فرق ہے۔

غالب عیش کوشی پر آمادہ ہیں، وہ ضبط و احتیاط کے ہر بند کو توڑ کر دادِ عشرت دینا چاہتے ہیں ان کی ساری بلند بانگ، لذت اندوزیوں کے لۓ ایک خلوت مہیا کرنے پہ صرف ہوتی ہے ممکن ہے غالب کا مطمح نظر فی الواقع ہوس پرستی نہ ہو لیکن اس غزل سے ان کے عشق کی تہہ اور رخ کا پتہ تو چل ہی جاتا ہے

اس کے برعکس اقبال کا جذبۂ عشق ہوس کے ہر جذبہ سے پاک ، ایک لطیف و منزہ کیف ہے جس میں ولولے کے ساتھ متانت بھی ہے ۔ یہاں سرور شعور کے ساتھ ہم آہنگ ہے تخیل جنوں کے ساتھ نہایت اندیشہ بھی ہے۔ یہاں تخیل محض وسیع و رنگین نہیں رفیع وعمیق بھی ہے۔

موازنہ اقبال وغالب ڈاکٹر عبد المغنی

معارف  اکتوبر ، نومبر 1963ء

#allamaiqbalpoetry #allamaiqbal #کلیات_اقبال #مرزاغالب #mirzaghalib

Loading