Daily Roshni News

**سورۃ الجُمُعہ — حصہ اوّل **

**سورۃ الجُمُعہ — حصہ اوّل **

**ابتدائی گفتگو: سورۃ الجُمُعہ کا تعارف**

سورۃ الجُمُعہ قرآنِ حکیم کی سورۃ نمبر 62 ہے، جو مدنی دور میں نازل ہوئی۔ یہ سورۃ اپنے نام، موضوعات، اور پیغام کے اعتبار سے ایک ایسی عظیم اور بنیادی تعلیم فراہم کرتی ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے اجتماعی نظام کو مضبوط کرتی ہے بلکہ روحانی و اخلاقی شعور کو بھی انتہائی باریک نکتوں کے ساتھ واضح کرتی ہے۔
مدنی سورتوں میں عمومی طور پر اجتماعی زندگی، سماجی اصلاح، حکومتی اصول، جماعت سازی، نظم و ضبط، اور امت کے اتحاد سے متعلق ہدایات ملتی ہیں۔ سورۃ الجُمُعہ بھی اسی سلسلے کی ایک نہایت اہم کڑی ہے۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے **رسول اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد** اور **امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں** ایسے انداز سے بیان کی ہیں کہ ہر مسلمان پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ قرآن اور نبی ﷺ کی تعلیمات پر صحیح بنیادوں پر قائم ہوئے بغیر کوئی بھی جماعت ترقی نہیں کر سکتی۔

سورۃ الجُمُعہ بنیادی طور پر تین بڑے موضوعات پر مشتمل ہے:
1. **بعثتِ محمدی ﷺ کا مقصد اور انسانی معاشرے کی تطہیر**
2. **یہودیوں کی غلط روش اور امتِ مسلمہ کا کردار**
3. **جمعہ کے دن کی عظمت، اس کی عبادات، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی تشکیل**
یہ سورۃ مسلمانوں کو اجتماعی شعور سکھاتی ہے، اعمال کی درستی، نیت کی پاکیزگی، اور اللہ و رسول کی اطاعت کے لازمی ہونے پر زور دیتی ہے۔

**شانِ نزول: سورۃ الجُمُعہ کیوں نازل ہوئی؟**

سورۃ الجُمُعہ مدینہ منورہ میں اس وقت نازل ہوئی جب مسلمان ایک منظم جماعت کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ نماز باجماعت کا نظام مستحکم تھا، اسلام کے پیغام کے لیے وفود آ رہے تھے، اور نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں **پہلا اجتماعی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی نظام قائم کر دیا تھا۔**
اسی دوران اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعہ کے دن کی اہمیت اور اس سے متعلق احکام سے روشناس کروایا۔ یہ سورۃ اس لیے بھی نازل ہوئی کہ مسلمانوں کو یہ بتایا جائے کہ:
* نبی ﷺ کی بعثت محض عربوں تک محدود نہیں
* قرآن کی تعلیم انسانیت کی فطرت سے ہم آہنگ ہے
* مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اللہ کے ذکر والے کاموں کو دنیاوی مشاغل پر ترجیح دیں
* یہود کی طرح کتاب کے وارث بن کر غفلت نہ کریں
* جمعہ کا خطبہ، نماز، اجتماع، اور ذکر اللہ کی طرف بلانے کا ذریعہ ہے

**حصہ اوّل — (آیات 1 تا 4)**

ہم حصہ اوّل میں چار بنیادی جہات پر بات کریں گے:
1. **بعثتِ رسول ﷺ کا عالمی مقصد**
2. **انسان کی تہذیب و تربیت کے چار ستون**
3. **جاهلیت کا دردناک انجام اور قرآن کی روشنی**
4. **امتِ مسلمہ کو دی جانے والی عظیم ذمہ داری**
ذیل میں آیت بہ آیت مکمل، تفصیلی، دل نشین اور جہان گیر بیان پیش کیا جا رہا ہے۔

**آیت 1: يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ** یہ سورۃ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے اعلان سے شروع ہوتی ہے۔ گویا مسلمانوں کو یہ حقیقت سمجھا دی گئی کہ:
* تم جن اعمال میں غفلت کرتے ہو
* جن معاملات میں دنیا کو دین پر ترجیح دیتے ہو
* جن امور میں کمزور پڑ جاتے ہو
* جہاں تمہاری نگاہیں مادہ پرستی کی طرف جھک جاتی ہیں
وہاں یہ بات ذہن نشین رکھو کہ **تمام کائنات اللہ کی تسبیح کر رہی ہے۔**

**کائنات کی تسبیح — انسان کے لیے پہلا درس** “يُسَبِّحُ” فعلِ مضارع ہے، جس میں دوام اور استمرار پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ: * آسمان * زمین * سیّارے * چاند
* سورج * پہاڑ * دریا * پرندے * ہوائیں * درخت * حتیٰ کہ بےجان چیزیں سب کچھ اس کی تسبیح میں مصروف ہے۔
یہ تصور انسان کی روحانی دنیا میں ایک زلزلہ برپا کرتا ہے۔ انسان دیکھتا ہے کہ وہ اکیلا نہیں، بلکہ پوری کائنات ایک مخصوص نظم و ضبط کے ساتھ خالقِ کائنات کی اطاعت پر قائم ہے۔ انسان کے لیے یہ پیغام ہے: **اگر پوری کائنات اللہ کے نظام میں بندھی ہوئی ہے تو انسان اس نظام سے آزاد کیسے ہو سکتا ہے؟**

**الْمَلِكِ — اللہ بادشاہ ہے** یہ لفظ شاہی اقتدار، بے نیازی، اختیار، اور برتری کے ہر پہلو کو واضح کرتا ہے۔ * اس کا حکم نافذ ہے * اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں
* اس کے سوا کوئی مالک نہیں یہ اعلان مسلمانوں کے دل سے ہر خوف، ہر کمزوری اور ہر باطل طاقت کا دبدبہ ختم کرتا ہے۔

**الْقُدُّوسِ — پاکیزگی کا سرچشمہ** قدّوس کا مطلب ہے: * بے عیب * ہر نقص سے پاک
* ہر طرح کی کمزوری سے بالا * ہر ناپاکی سے منزّہ یہ صفات مسلمانوں کے دل و دماغ کو پاک کرتی ہیں۔ جو ذات پاک ہو، اس کی طرف بلایا گیا دین بھی پاک ہے، اس کا نبی بھی پاک، اس کی کتاب بھی پاک، اور اس کے اوامر بھی پاک ہیں۔

**الْعَزِيزِ — غالب، بلند** یہ صفت اعلان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ: * ہر باطل پر غالب
* ہر سازش پر غالب * ہر طاقت پر غالب * ہر دشمن پر غالب یہ اس بات کی مکمل ضمانت ہے کہ اللہ کا دین کبھی مٹ نہیں سکتا۔

**الْحَكِيمِ — حکمت والا** اس صفت میں انسان کے لیے اطمینان کا کامل پیغام ہے۔ جب اللہ کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں تو: * نماز میں حکمت * روزہ میں حکمت * جمعہ کے احکام میں حکمت * نبی ﷺ کی بعثت میں حکمت * کتاب کے نزول میں حکمت
خالصتاً وہی اصول انسان کو روحانی و اخلاقی کمال تک پہنچا سکتے ہیں۔

**آیت 2: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ، يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ، وَيُزَكِّيهِمْ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ…** یہ آیت سورۃ الجُمُعہ کا مرکزی محور ہے۔ یہ نبی ﷺ کی بعثت کا چار نکاتی مقصد بتاتی ہے: 1. **تلاوتِ آیات** 2. **تزکیۂ نفس** 3. **تعلیمِ کتاب**
4. **تعلیمِ حکمت** یہی چار اصول ہر دور کی اصلاح کے بنیادی ستون ہیں۔

**1 — تلاوتِ آیات: روح کی بیداری**
نبی کریم ﷺ لوگوں کو اللہ کے کلام سے روشناس کراتے تھے۔ یہ تلاوت محض آواز کا اتار چڑھاؤ نہیں بلکہ: * دلوں کو جلاتی * روح کو جگاتی * غفلت کو توڑتی * عقل کو بیدار کرتی * قلب کو اللہ سے جوڑ دیتی
قرآن کی تلاوت آج بھی اسی انداز میں انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔

**2 — تزکیہ: دل کی صفائی**
“يُزَكِّيهِمْ” انتہائی اہم فقرہ ہے۔ اس کا مطلب ہے: * نفس کی صفائی * خواہشات کی اصلاح
* اعمال کی پاکیزگی * برائیوں سے دوری * نیتوں کا خلوص
نبی ﷺ کی تمام تعلیمات کا مقصد انسان کی اندرونی دنیا کو پاک کرنا ہے۔ تزکیہ کے بغیر دین ناقص ہے۔

**3 — تعلیمِ کتاب: قانونِ الٰہی کی سمجھ**
نبی ﷺ نے امت کو قرآن کے الفاظ، احکام، فرامین، اصول اور پیغام سکھایا۔ امت کی ترقی قرآن کی تعلیم سے جڑی ہے۔

**4 — تعلیمِ حکمت: عمل کے راز**
“الحکمت” سے مراد ہے: * سنتِ رسول ﷺ * حکیمانہ فیصلے * سیرت کا اسوہ * عمل کے اسرار * شریعت کے مقاصد
کتاب بغیر حکمت کے ناقص ہے — حکمت بغیر کتاب کے بے بنیاد۔

**آیت 3: وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ…**
یہ جملہ اعلان کرتا ہے کہ: **رسول ﷺ کی بعثت صرف عربوں تک نہیں تھی؛ بلکہ آنے والی نسلوں، تمام قوموں، تمام زبانوں، اور پوری انسانیت کے لیے تھی۔** نبی ﷺ کا پیغام عالمی ہے، دائمی ہے، ابدی ہے۔ اس آیت میں بعد والی امت کو بھی شامل کیا گیا ہے — یعنی ہم، آپ، اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمان۔

**آیت 4: ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ…**
یہ آیت اعلان کرتی ہے: * نبوت اللہ کا فضل * دین کا علم اللہ کا فضل * قرآن کی ہدایت اللہ کا فضل * ایمان اللہ کا فضل * جمعہ کی برکتیں اللہ کا فضل اور اللہ جسے چاہے یہ فضل عطا کرتا ہے۔ یہاں اللہ کی وسعتِ رحمت کا اعلان ہے۔

**مزید تفسیر: بعثتِ رسول ﷺ کا ہمہ گیر اثر**
نبی ﷺ کی آمد نے دنیا کے ہر شعبے میں انقلاب پیدا کیا: * اخلاق * عبادات * سماج
* سیاست * خاندان * تجارت * جنگ * معاشرت * عدالت * تعلیم * روحانیت
تمام نظام ایک ہی نقطے پر جمع ہو گئے:**انسان کو پاک کر کے اللہ کا بندہ بنانا۔**

**امت کی ذمہ داریاں — سورۃ الجُمُعہ کے مطابق**
1. قرآن کی تعلیم کو زندہ رکھنا
2. جمعہ کے دن کی عظمت کو قائم رکھنا
3. دنیا پر دین کو ترجیح دینا
4. اللہ کی یاد کو مرکزِ حیات بنانا
5. امت میں شعور، اتحاد اور نظم پیدا کرنا
6. نبی ﷺ کی سنت کو واجب العمل سمجھنا
7. تزکیۂ نفس پر مستقل محنت کرنا
یہی امت کی کامیابی کے حقیقی راستے ہیں۔

سورۃ الجُمُعہ — حصہ دوم

**(نبی کریم ﷺ کی بعثت کے مقاصد، علم کے وارثین، بنی اسرائیل کا انجام، اُمتِ محمدیہ کی ذمہ داری، اور جمعہ کے دن کا روحانی نظام)**

**تمہید — حصہ دوم کا بنیادی دائرہ**

حصہ اوّل میں ہم نے سورۃ الجمعہ کے ابتدائی مضامین کی تفصیل بیان کی تھی:
— اللہ کی پاکی — رسالتِ محمد ﷺ کا عالمی منصب — امتِ اُمّی کی تربیت — کتاب و حکمت کی تعلیم — سابقہ قوموں کا علمی زوال — اور اُن کا عبرتناک انجام
اب **حصہ دوم** میں ہم آگے بڑھتے ہوئے درج ذیل بڑے عنوانات کو تفصیل سے کھولیں گے:
1. **انسانی علم اور ذمہ داری**
2. **علم کے بوجھ اٹھانے والے اور اس بوجھ سے فرار کرنے والے انسان**
3. **بنی اسرائیل کی مثال اور اس کا انسانی نفسیات سے تعلق**
4. **رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا عالمی مقصد — تمام اقوام کے لیے ہدایت**
5. **امتِ مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داریاں**
6. **جمعہ کا تاریخی پس منظر، شرعی مقام، روحانی اثرات**
7. **دنیا کی تجارت، دل کا بکھراؤ، اور اذانِ جمعہ کی پکار**
8. **نماز جمعہ چھوڑنے کے اثرات (سماجی، روحانی، قلبی، تہذیبی)**
9. **آیات 9–11 کا گہرا تجزیہ**
10. **آج کی امت میں سورۃ الجمعہ کا اطلاق**
یہ حصہ مکمل طور پر ایک مربوط، طویل اور جامع تحریر ہے، جس کا ہدف قرآن کے ابدی پیغام کو آج کے انسان کے ذہن اور معاشرت سے جوڑنا ہے۔

**حِصّہ دوم (Part-2) —**

**1 — انسان، علم، اور ذمہ داری**
سورۃ الجمعہ ایک نہایت بنیادی نکتہ بیان کرتی ہے کہ **علم بوجھ بھی ہے اور نعمت بھی۔** جو شخص علم کو عمل کے ساتھ جوڑ لیتا ہے وہ نور بن جاتا ہے، اور جو شخص علم کو صرف حافظے میں قید کر لیتا ہے وہ تاریکی میں رہتا ہے۔ یہی بنیادی موضوع اُس تمثیل میں ظاہر ہوتا ہے جو سورۃ الجمعہ میں بنی اسرائیل کے لیے استعمال ہوئی: “مثلُ الَّذینَ حُمِّلُوا التَّوراة… پھر انہوں نے اس کو نہ اٹھایا…”
یہ جملہ قرآن کے سب سے بڑے اصولوں میں سے ایک ہے: **علم صرف کتابوں میں ہونے سے مکمل نہیں ہوتا، بلکہ دل میں اترے بغیر ادھورا رہتا ہے۔** آج کا مسلمان بھی اسی آزمائش سے گزر رہا ہے۔ مسجدوں میں درس، موبائل میں قرآن ایپس، گھروں میں کتابیں — مگر زندگی میں قرآن کی حکمت کم۔ یہ وہی فاصلہ ہے جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوا تھا۔ علم اگر سجدے میں نہ جھکے تو وہ غرور بن جاتا ہے۔ علم اگر اخلاق میں نہ ڈھلے تو وہ فساد بن جاتا ہے۔ علم اگر رشتوں میں آسانی نہ لائے تو وہ عذاب بن جاتا ہے۔ علم اگر انسان کو نرم نہ کرے تو وہ سنگ دل بنا دیتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے یہ مثال دینے میں سختی برتی تاکہ بعد میں آنے والی امتیں جاگ جائیں۔ علامہ اقبال نے بھی اسی نکتے کو پکڑتے ہوئے کہا تھا: “علم اگر ہو بے حضور، تو دل و نظر دونوں فاسق۔” سورۃ الجمعہ آیت در آیت یہ شعور پیدا کرتی ہے کہ: **تم پر علم کا امانت رکھا گیا ہے — اور ہر امانت قیامت میں کھل کر سامنے آئے گی۔**

**2 — علم کا بوجھ اُٹھانے والا اور اس سے بھاگنے والا انسان**

قرآن کے مطابق انسان تین طرح کے ہوتے ہیں:
1. **وہ جو علم کے ساتھ عمل کرتے ہیں** — یہ لوگ رہنمائی بن جاتے ہیں۔ — ان کی زندگی نور بن جاتی ہے۔ — ان کے سینے میں وہ کتاب روشن رہتی ہے جسے اللہ نے نازل کیا۔
2. **وہ جو علم رکھتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے** — یہ اپنا چراغ خود بجھا دیتے ہیں۔ — یہ ایسی کتاب رکھتے ہیں جو ان کی زندگی میں کھلے ہی نہیں۔ — یہ بوجھ اٹھاتے ہیں مگر چل نہیں سکتے۔
3. **وہ جو علم سے بھاگتے ہیں** — یہ مخلوق کے قریب مگر خالق سے دور رہتے ہیں۔ — یہ آسانیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں، عبادت سے بھاگتے ہیں۔ سورۃ الجمعہ ان تینوں اقسام کو سامنے لا کر کہتی ہے: **اے محمد ﷺ کی اُمت! تمہیں دوسری امتوں کی غلطیاں نہیں دہرانا۔**

**3 — “حُمِّلُوا التَّوراة” — بنی اسرائیل کی نفسیات**

قرآن بنی اسرائیل کا قصہ بیان نہیں کرتا صرف تاریخ بیان کرنے کے لیے۔ یہ اصل میں انسان کی نفسیات کھولتا ہے۔ **بوجھ اٹھانا** کیا ہے؟ یہ ہے:
— ذمہ داری — اطاعت — قربانی — نفس کا انکار — جہاد بالنفس — اپنی خواہشات پر علم کو ترجیح دینا
اور **بوجھ سے بھاگنا** کیا ہے؟ — کہ انسان چاہتا ہے کہ مذہب بس خوبصورت جملے ہوں — عبادت صرف جمعہ کی نماز تک محدود رہے — اخلاق صرف مجلس تک ہوں مگر گھر میں نہ ہوں — کتاب صرف درس کے وقت کھلے مگر عمل میں نہ آئے
یہی نفسیات بنی اسرائیل میں پیدا ہوئی۔ وہ علما تھے، حافظ تھے، پڑھنے والے تھے۔
مگر ان کے دلوں میں کتاب کی روح نہیں اتری۔
نتیجہ؟
وہ دنیا پرست بن گئے، دل سخت ہو گئے۔ سورۃ الجمعہ یہی آہستہ آہستہ اُمتِ مسلمہ کے سامنے رکھتی ہے کہ: **اگر تم نے قرآن کو عمل میں نہ اتارا تو تم بھی وہی بن جاؤ گے جس کی مثال بنی اسرائیل کے ذریعے دی گئی۔**

**4 — رسالت محمد ﷺ کا عالمی مقصد**

آیت بڑا جامع بیان دیتی ہے: “…وَآخَرینَ مِنهُم لَمّا یلْحَقوا بِهِم…” یعنی رسول اللہ ﷺ کی بعثت صرف عربوں کے لیے نہیں، بلکہ **وہ تمام قوموں کے لیے ہیں جو ابھی ان سے نہیں ملیں۔** یہ آیت اس امت کو تین بڑے منصب دیتی ہے:
1. **دعوت کا عالمی دائرہ** اسلام کا پیغام کسی نسل، کسی زبان، کسی خطے تک محدود نہیں۔
2. **قرآن کی حکمت کو دنیا تک پہنچانا** یعنی قرآن کا نور پوری انسانیت کا حق ہے۔
3. **رسول اللہ ﷺ کی رحمت کو آگے منتقل کرنا** یعنی امت خود بھی رحمت بنے — نرم، وسیع دل، تحمل، اور انسانیت دوست۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ محمد ﷺ “قیامت تک آنے والے انسانوں” کے نبی ہیں۔

**5 — امت کی اجتماعی ذمہ داریاں**
سورۃ الجمعہ امت کو تین فرائض دیتی ہے:
**(1) تعلُّم — قرآن کو سیکھنا** علم کے بغیر امت اندھی ہو جاتی ہے۔
**(2) تزکیہ — دل کو پاک کرنا** ذہن اور دل کے بغیر عمل ریاکاری بن جاتا ہے۔
**(3) تبلیغ — قرآن کو آگے پہنچانا** امت اگر خاموش ہو جائے تو دنیا رہنمائی کھو دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سورۃ الجمعہ آیت آیت یہ احساس دیتی ہے کہ: **مسلمان صرف نماز پڑھنے والا انسان نہیں؛ وہ نور پہنچانے والا چراغ ہے۔**

**6 — جمعہ کا مقام، تاریخ، اور روحانی نظام**
اب ہم اس حصہ کی اصل بنیاد یعنی آیات 9 سے 11 کی طرف بڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے: “یٰاَیُّهَا الَّذینَ آمَنوا إذا نُودِی للصَّلاة…” یہ وہ آیت ہے جو جمعہ کی پوری فقہ، پوری روحانیت اور پوری تاریخی اہمیت کو جمع کرتی ہے۔

❖ جمعہ کیوں فرض ہوا؟

1. **امت میں اجتماع پیدا کرنے کے لیے**
2. **ہفتے میں ایک بار معاشرتی نظم قائم کرنے کے لیے**
3. **دلوں کی صفائی، دعوت، وعظ، تعلیم اور اجتماعی تربیت کے لیے**
4. **مسلمانوں کے درمیان وحدت قائم رکھنے کے لیے**
❖ جمعہ کا دن امت کا ہفتہ وار عید ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “جمعہ کا دن مسلمانوں کی عید ہے۔” ہر عید اجتماع کا دن ہوتا ہے۔ اور اجتماع امت کو زندہ رکھتا ہے۔

**7 — اذانِ جمعہ کی پکار اور دنیا کی تجارت کے فتنے**

سورۃ الجمعہ انتہائی گہرا منظر بیان کرتی ہے: اذان ہو جائے تو **فوراً** دنیا چھوڑ دو
اور اللہ کی طرف بھاگو۔ یہاں قرآن کے الفاظ بہت مضبوط ہیں: “فاسعوا” — یعنی جلدی کرو، توجہ کے ساتھ، دل کے ساتھ، یکسوئی کے ساتھ۔
یہاں اللہ دلوں کو جانچتا ہے: — کون ہے جو کاروبار چھوڑ دیتا ہے؟ — کون ہے جو دنیا سے نکل کر مسجد کی طرف جاتا ہے؟ — کون ہے جو اللہ کی پکار پر لبیک کہتا ہے؟ — کون ہے جو دنیا کو ترجیح دیتا ہے؟ یہ آیت بتاتی ہے کہ جمعہ **وفاداری کا ٹیسٹ** ہے۔

**8 — جمعہ چھوڑنے کے اثرات**

1. **قلبی زوال** دل سخت ہو جاتا ہے۔
2. **روحانی بے برکتی** ہفتے بھر کی عبادت اثر کھو دیتی ہے۔
3. **معاشرتی بکھراؤ** امت کا اجتماع ٹوٹ جاتا ہے۔
4. **اخلاقی گراوٹ** وعظ سننے سے دوری انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔
5. **دنیا کی محبت میں اضافہ** تجارت، کاروبار، خواہشات غالب آ جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے سخت الفاظ فرمائے: “جو لوگ جمعہ چھوڑ دیتے ہیں، اللہ ان کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔”

**9 — آیت 11 — مسلمانوں کا تاریخی واقعہ اور ہمارے آج کا حال**

سورۃ الجمعہ کا آخری منظر بڑا دلچسپ مگر عبرتناک ہے: نبی کریم ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ اسی وقت قافلے کی آواز آئی۔ لوگوں کی توجہ تجارت کی طرف ہوئی۔ کچھ لوگ خطبہ چھوڑ کر قافلے کی طرف چلے گئے۔ مسجد میں صرف چند صحابہ رہ گئے۔ قرآن نے اس رویے کو اصولی زبان میں تنبیہ کے طور پر بیان کیا: “وَإِذا رَأَو تِجارَةً أو لَهْوًا انفَضّوا إليها…” یہ آیت **امت کے کمزور پہلو** کو ظاہر کرتی ہے:
**دنیا ہمیشہ دل کو کھینچتی ہے۔ تجارت ہمیشہ مذہب سے لڑتی ہے۔** آج بھی یہی ہوتا ہے: — موبائل — سوشل میڈیا — کاروبار — میٹنگز — دوکان — دنیا کے مطالبات
یہ سب خطبہ جمعہ کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے: **“اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ تجارت سے بہتر ہے۔”** یہ جملہ ایمان کی بنیاد ہے۔

**10 — سورۃ الجمعہ کا آج کی امت پر اطلاق**

سورۃ الجمعہ ہمیں بہت بڑا پیغام دیتی ہے:
1. **قرآن کو علم اور عمل دونوں میں زندہ رکھو۔**
2. **جمعہ کو امت کی اجتماعی روح سمجھو۔**
3. **دنیا کو اللہ کی پکار پر قربان کرنا سیکھو۔**
4. **رسول اللہ ﷺ کے علم اور ادب کے وارث بنو۔**
5. **بنی اسرائیل کی غلطیاں نہ دہراؤ۔**
6. **اپنے دل اور معاشرے کا تزکیہ کرو۔**
7. **جمعہ کو صرف ایک نماز نہیں بلکہ تربیت کا دن سمجھو۔**
سورۃ الجمعہ کا مرکزی پیغام یہ ہے:
**“ایمان والو! تم پر قرآن کا بوجھ رکھا گیا ہے — اسے اٹھاؤ، جیو، پھیلاو، اور دنیا کو دکھاؤ کہ محمد ﷺ کی امت دنیا کے لیے رحمت ہے۔”**

**سورۃ الجمعہ — حصہ سوّم (Part-3) *

**تعارفِ حصہ سوم**

سورۃ الجمعہ کا تیسرا اور آخری حصہ دراصل اس سورت کے پیغام کا نقطۂ کمال ہے۔ یہاں سے گفتگو صرف نصیحت، اخلاق یا عمومی ہدایت تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورے اسلامی سماج، اجتماعی نظم، امت کی ذمہ داری، نبی کریم ﷺ کی اطاعت، دین کی حامل اُمت کی خصوصیات اور باطنی بیماریوں کے علاج تک وسیع ہوجاتی ہے۔ یہ حصہ ایک ایسا روحانی و فکری دروازہ ہے جو انسان کو اپنے شب و روز کا محاسبہ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
یہ حصہ مومن کے اندر **تعظیمِ رسول، اجتماعی شعور، دنیا کے دھوکے سے بچاؤ، اصل کامیابی کے تصور، تبلیغی ذمہ داری، اور قلبی خشیت** جیسی اقدار کو تازہ کرتا ہے۔ اس حصے میں اللہ تعالیٰ انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ اصل خسارہ محض دنیا میں مشغول ہوجانا ہے، اور اصل فلاح وہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ کے ذریعے قیامت تک کے انسانوں کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔

**(1) “اذَا نُودِیَ لِلصّلٰوةِ مِن یَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا…” — اجتماعی اطاعت کی معراج**
اس حصے کی پہلی توجہ دلانے والی آیت جمعہ کے حکم سے آغاز کرتی ہے۔

**۱) نمازِ جمعہ—عبادت نہیں بلکہ نظامِ امت کا ستون**

جمعہ محض نماز نہیں؛ یہ دراصل امت کے وجود کی علامت ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں پوری امت کو ایک مرکزیت میں لایا جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ:
**جب جمعہ کی اذان ہو جائے، تو “فَاسعَوا”—جلدی کرو، لپکو، توجہ دو، دنیاوی مشاغل چھوڑ دو۔** اس حکم میں تین حکمتیں ہیں:
1. **مرکزیتِ امت:** اللہ چاہتا ہے کہ ایک ہفتے میں ایک دن تو ایسا ہو جہاں امت ایک قیادت، ایک خطبہ، ایک پیغام، ایک اجتماع کی صورت میں جمع ہو۔
2. **تربیت و تزکیہ کا ہفتہ وار نظام:** ہر جمعہ انسان کے دل کے زنگ کو صاف کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ گناہوں کو دھو دیتا ہے جب تک کبیرہ گناہوں سے اجتناب ہو۔
3. **دنیاوی کاروبار سے انقطاع:** قرآن فرمان دیتا ہے: **“وَذَرُوا البَیعَ”— خرید و فروخت چھوڑ دو۔** یعنی دین دنیا پر مقدم ہو، اور یہ فیصلہ صرف زبان سے نہیں بلکہ عملی طور پر ہونا چاہیے۔

**۲) جمعہ کی اذان کے وقت دنیا چھوڑنے کا فلسفہ**

یہاں اللہ تعالیٰ انسان کو ایک نفسیاتی نکتہ سکھا رہا ہے: **انسان کی اصل غلامی اس کی ترجیحات سے ثابت ہوتی ہے۔** اگر اللہ کی اذان اسے بُلا رہی ہو اور وہ پھر بھی دکان، شاپنگ، بزنس، مفاد، دنیا کی ریس میں لگا رہے— تو اس کا دل کس چیز کا غلام ہے؟ جمعہ دنیا کو چھوڑ کر رب کی طرف پلٹنے کی تربیت ہے۔

**(2) “فَإِذَا قُضِیَتِ الصّلٰوةُ فَانتَشِرُوا فِی الأرض…” — اسلام کا توازن**

اسلام دنیا کو چھوڑنے کی تعلیم نہیں دیتا۔ نماز مکمل ہو جائے تو فرمایا: **“زمین میں پھیل جاؤ”** یعنی کام کرو، کماؤ، تجارت کرو، محنت کرو۔

**۱) عبادت اور دنیا میں توازن — اسلامی تہذیب کا جوہر**
اسلام وہ دین ہے جس میں: * مسجد بھی ہے * مارکیٹ بھی * روحانیت بھی * جہاد بھی
* اخلاق بھی * سیاست بھی
نماز کا اثر یہ ہونا چاہیے کہ انسان جب مسجد سے نکلے تو دنیا میں کام کرتے ہوئے بھی دل اللہ کے ساتھ رہے۔

**۲) “وَابتَغوا مِن فَضلِ الله”—رزق طلب کرنا عبادت ہے**

قرآن رزق کی تلاش کو **فضلِ الٰہی کی تلاش** کہتا ہے۔ یعنی روزی کمانا بھی عبادت کا حصہ ہے—اگر اس کا مقصد حلال، پاکیزہ اور امت کی خدمت ہو۔

**۳) مسلمان کی مارکیٹ—ایمان کی پہچان**

سورۃ الجمعہ انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ: * مسلمان جب بازار جاتا ہے تو **جھوٹ نہیں بولتا** * **ملاوٹ نہیں کرتا** * **دھوکہ نہیں دیتا** * **نقلی چیز اصلی کہہ کر نہیں بیچتا** * **وقت کی پابندی کرتا ہے** * **معاہدے پورے کرتا ہے**
اسلام میں معیشت اخلاق کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

**(3) “واذکروا الله کثیراً…” — کثرتِ ذکر کا اجتماعی تصور**

جمعہ کے بعد دنیا میں بکھر جانا ہو مگر دل اللہ کے ذکر سے خالی نہ ہو۔ اس حصے میں یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ وہ شخص کامل مسلمان ہے جو دنیا میں رہ کر بھی اپنے رب کو نہیں بھولتا۔

**ذکر کی تین سطحیں:**

1. **زبان کا ذکر:** تسبیح، تہلیل، تکبیر، استغفار۔
2. **دل کا ذکر:** گناہ سے رکنے میں مدد، نیتوں کی اصلاح۔
3. **عمل کا ذکر:** انسان کے معاملات ایسے ہوں کہ دیکھ کر لوگ کہیں: “یہ اللہ والا ہے۔”

**(4) “قُل ما عِندَ اللهِ خَیرٌ مِنَ اللَّهوِ وَمِنَ التِّجارَة…” — دنیا کا دھوکہ**

ابھی جمعہ کے حکم کے فوراً بعد اللہ انسان کو ایک اہم سبق دیتا ہے:
**۱) مال اور دنیاوی سرگرمی سب فانی ہیں** یہ حصہ انسان کو دو دھوکے یاد دلاتا ہے: * **لہو**: کھیل، مشغلے، وقت ضائع کرنے والی مصروفیات * **تسلسلِ تجارت**: مفاد کی دوڑ، مال کی دھن، کاروباری مقابلہ قرآن کہتا ہے: **“جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے۔”** یہاں *بہتر* کا مطلب صرف ثواب نہیں— بلکہ “پائیدار اور مستقل فائدہ” بھی ہے۔

**۲) دل کی دنیا کو پاک کرنے کی دعوت**

انسان کو یہ سورت یہ بتاتی ہے کہ: * دنیا انسان کا مقصد نہ بنے * کاروبار زندگی ہو، مقصد نہیں * کھیل تفریح ہو، اصولِ زندگی نہیں * انسان ہر فیصلے میں آخرت کو بھی سامنے رکھے

**(5) پچھلی امت کے علما کی مثال — “مَثَلُ الَّذینَ حُمِّلُوا التَّوراة…”**

یہ حصہ ایک عظیم اصول پیش کرتا ہے۔ یہودی علما کو تورات دی گئی مگر انہوں نے اس کی ذمہ داری پوری نہ کی۔
**۱) علم کے ساتھ ذمہ داری بڑھتی ہے**
قرآن فرماتا ہے کہ جو لوگ کتاب کے وارث بنائے جائیں مگر اس پر عمل نہ کریں، وہ ایسے ہیں جیسے: **“گدھا جس پر کتابیں لدی ہوں”** یعنی وزن تو اٹھا رہا ہو مگر فائدہ نہ ہو۔ یہ تشبیہ صرف یہودیوں کے لیے نہیں— بلکہ امتِ محمد ﷺ کو خبردار کرنے کے لیے ہے۔

**۲) آج کے مسلمانوں پر اطلاق**

یہ کسی فرد یا فرقے پر تنقید نہیں— بلکہ پوری امت کے لیے وارننگ ہے: * اگر قرآن پڑھا جائے مگر عمل نہ ہو * اگر علما دنیا کے پیچھے لگ جائیں * اگر منبر و محراب ذاتی مفاد کیلئے استعمال ہوں * اگر دین کی نصیحت تبدیل ہو جائے، مگر رسمیں باقی رہیں تو امت بھی اسی انجام کا شکار ہو سکتی ہے۔

**(6) “یَا أَیُّهَا الَّذینَ هَادُوا…” — یہودیوں کو چیلنج**

قرآن کہتا ہے: **اگر تم سمجھتے ہو کہ آخرت صرف تمہارے لیے ہے تو موت کی آرزو کرو۔**

**۱) موت سے بھاگنے والے لوگ**
اصل ایمان وہ ہے جو موت کو انجام نہیں بلکہ ملاقاتِ رب سمجھتا ہے۔ یہودی موت سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے اعمال میں سچے نہیں۔

**۲) امتِ محمد ﷺ کے لیے سبق**

جو شخص اللہ سے ڈرے، اسے موت سے خوف نہیں ہوتا— بلکہ نیکی کے ساتھ ملاقات کی امید ہوتی ہے۔

**(7) “قُل إِنَّ المَوتَ الَّذی تَفِرّونَ مِنهُ…” — موت سے فرار کا انجام**

اس حصے کی آخری آیت انسان پر خوف کی چادر نہیں ڈالتی— بلکہ حقیقت سمجھاتی ہے:

**۱) موت سے بھاگنا ممکن نہیں**

کوئی شخص: * دولت کے حصار میں * شہرت کے پیچھے * علاج کے بھاری خرچے کر کے * سفر بدل کر * حفاظت کی تدبیریں کر کے موت سے نہیں بچ سکتا۔

**۲) تین منزلیں ضرور پیش آئیں گی:**

1. **موت:** ہر انسان کا پہلا دروازہ
2. **قبروبرزخ:** روح کے امتحان کا وقت
3. **قیامت:** انجامِ ابدی

**۳) موت کو یاد رکھنا زندگی بہتر بناتا ہے**

موت کا خوف انسان کو: * گناہ سے بچاتا ہے * تکبر سے روکتا ہے * ظلم سے دور رکھتا ہے * عاجزی سکھاتا ہے * نیکی کی طرف راغب کرتا ہے

**(8) سورۃ الجمعہ کا مجموعی روحانی اثر**

حصہ سوم میں پورا پیغام سمیٹا گیا ہے: * جمعہ کی اہمیت * اجتماعیت * اطاعتِ رسول
* دنیاوی مشاغل سے نجات * آخرت کا یقین * موت کا احساس * علم کے وارثین کی ذمہ داری * امت کی اصلاح
یہ حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ جو امت نمازِ جمعہ کی قدر کرے، دنیا کو محدود سمجھے، یادِ خدا میں دل لگائے، اور اپنے نبی ﷺ کی ہدایت کے راستے پر چلے— وہ کبھی تباہ نہیں ہوتی۔

**اختتامیہ**

سورۃ الجمعہ کا حصہ سوم دراصل ایک ایسا روحانی دستور ہے جو: * فرد کی اصلاح بھی کرتا ہے * خاندان کا نظام بھی بناتا ہے * معاشرت کا توازن بھی قائم کرتا ہے * امت کے عروج کے اصول بھی واضح کرتا ہے * اور آخرت کی کامیابی کا راستہ بھی دکھاتا ہے یہ حصہ ہمیں بتاتا ہے کہ **ایک مومن کی زندگی جمعہ سے شروع ہوکر جمعہ پر ختم نہیں ہوتی**— بلکہ اس کی ہر گھڑی اللہ کی اطاعت میں بسر ہونا چاہیے۔

Loading