صدائے جرس
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)دوسرے علوم کی طرح روحانیت بھی ایک علم ہے۔ کوئی بھی استاد اپنے شاگر د کو علم منتقل کرتا ہے۔
جس طرح دنیاوی علوم کا استاد کسی کو اپنا علم منتقل کرتا ہے اسی طرح روحانی استاد روحانی علوم کی ترسیل کا ذریعہ بنتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دنیاوی علوم میں استاد کی جو طرز فکر ہے اس سے آدمی کافی حد تک متاثر ہوتا ہے لیکن جب روحانی استادیار وحانی شاگرد کا تذکرہ آتا ہے تو اس میں شاگرد کو استاد کی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے۔
مثلاً ایک روحانی آدمی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا تو کل اللہ کے اوپر ہو اس کے اندر استغناء ہو، جب اچھے حالات ہوتے ہیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور جب وہ خراب حالات سے گزرتا ہے تو اللہ سے رجوع کرتا ہے، اللہ سے معافی مانگتا ہے، استغفار کرتا ہے۔ روحانی استاد کے یہ سب انداز بھی ان کے شاگردوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔
روحانیت ایک طرز فکر ہے اور روحانی علوم کا تعلق طرز فکر سے ہے اور وہ طرز فکر یہ ہے کہ روحانی آدمی کا ذہن ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ بندہ مخلوق ہے اور اللہ خالق ہے۔ جب بندہ اور اللہ کا تعلق استوار ہو جاتا ہے تو بندہ اپنے ہر عمل کو اللہ کی طرف موڑ دیتا ہے۔
مثلاً اگر وہ کھانا کھاتا ہے تو کھانا کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو وسائل مہیا کیے ، پہلے اچھا کھانا کھایا پھر یہ کہ اللہ نے مجھے اچھا ہاضمہ دیا، وہ مسلسل غور و فکر ، صبر وشکر کے اعمال سے یہ جان لیتا ہے کہ زندگی میں بندہ کا اپنا ذاتی عمل دخل کچھ نہیں ہے۔ بندہ کی یہ طرز فکر بن جاتی ہے کہ انسان در وبست اللہ کے تابع ہے اور جو بھی کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ کر رہا ہے اور جو بھی کچھ اس کو مل رہا ہے وہ اللہ کی طرف سے مل رہا ہے۔ اگر اللہ بارش نہ برسائے زمین نہ بنائے اللہ دھوپ نہ نکالے اللہ چاند نہ نکالے اللہ زمین میں پانی نہ پیدا کرے تو زمین میں کوئی چیز اگ ہی نہیں سکتی۔ آپ زمین نہیں بنا سکتے۔ آپ پانی نہیں بنا سکتے۔ آپ بیج نہیں بنا سکتے۔ اگر گیہوں کا بیج زمین سے ناپید ہو جائے تو بتائیں کون سی ایسی سائنس ہے جو بیج بنا دے گی۔ جو بھی چیز آپ استعمال کرتے ہیں وہ بہر حال قدرت کی پیدا کردہ ہو گی۔ ہم زمین کی پیداوار بڑھانے کے لئے کھاد استعمال کرتے ہیں اگر قدرت زمین میں وہ چیزیں پیدا نہ کرے جن سے کھاد بنتی ہے تو کھاد کیسے بن سکتی ہے ؟ مثلاً آپ اپنی مرضی سے پیدا بھی نہیں ہو سکتے۔
جب ہم غور کرتے ہیں اپنی زندگی پر زمین کی زندگی پر آئندہ مستقبل کے او پر ماضی کے اور اس کے سوا ہمیں کچھ نظر نہیں آتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے۔ مثلاً جب بچہ پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ماں باپ کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے۔ اگر ماں کے دل میں اللہ محبت نہ ڈالے تو بچہ کی پرورش ہی نہیں ہو سکتی۔ اگر اللہ ماں باپ کے دل سے محبت نکال لے تو کوئی بچہ پرورش نہیں پاسکتا۔ آپ جتنا بھی گہرائی میں تفکر کریں تو آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ انسان کچھ نہیں کر رہا ہے سب کچھ اللہ کا بنایا ہو ا نظام کر رہا ہے۔ جتنی بھی کائنات میں چیزیں ہیں اور جتنی بھی ایجادات اور ترقی ہوئی ہے، آدم سے لے کر اب تک اس میں وسائل ضرور زیر بحث آئیں گے۔ زمینی وسائل کو اگر آپ نظر انداز کر دیں تو کوئی ایجاد ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ خود چاہتے ہیں کہ نئی نئی ایجادات ہوں وہ خود دعوت دے رہے ہیں کہ سائنس دان وسائل استعمال کریں۔
غرض یہ کہ زمین پر کچھ بھی تخلیق ہو اللہ کے بنائے ہوئے وسائل سے ہی تخلیق ہوتی ہے۔ روحانی استاد جو علم منتقل کرتا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ کا اللہ تعالیٰ سے ایسار بط اور تعلق قائم ہو جائے کہ بندہ بہترین غذا کھائے، بہترین لباس پہنے، بہترین گھر میں رہے، بہترین خوشبو ، بہترین باغ لگائے۔ درختوں کے سائے میں طیور کی آوازیں سنے، ہو اسے جھومتے درختوں کے ساز سے لیکن ذہن اللہ سے ادھر ادھر نہ ہو۔
دنیاوی علوم اور روحانی علوم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ روحانی استاد اگر اس کو روحانیت آتی ہے تو مرید کو وہ طرز فکر منتقل کر دیتا ہے جس طرز فکر میں آپ کا اور اللہ کا ہر اور است تعلق قائم ہے۔ آپ کچھ بھی کریں، جہاں بھی جائیں آپ کا ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہٹے گا اور آپ کے اندر یہ طرز فکر منتقل ہو جائے گی تو ظاہر ہے آپ کو اللہ تعالیٰ سے جتنی قربت منتقل ہو گی اتنے ہی آپ اللہ کے دوست بن جائیں گے ، اللہ کے قریب ہو جائیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل ہو جائے تو یہ ساری زندگی جنت بن جائے گی۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2017
![]()

