بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )امام الانبیاء، خاتم النبیین و مرسلین، حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ
” لیْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ لَایَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ”
“میرا وقت میں اللہ کا ساتھ ہے جس میں کسی مُقَرَّب فِرِشتے یا مُرْسَل نبی کی گنجائش نہیں۔”
وقت، دہر، عصر، زمانہ، ٹائم، خلاء، فاصلہ یا زمان کیا ہے؟ دنیا کے بڑے بڑے فلسفی، دانشوروں ، علماء اور سائنسدانوں نے اس گتھی کو سلجھانے بہت کوششیں کیں لیکن ان کے تمام نظریات انے والے وقتوں میں خود بخود تبدیل ہوتے رہے اور کوئی بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا، آئنسٹائن، نیکولس، الکندی، چارلس، کلارک، بوعلی سیناء، آئزک نیوٹن سے لیکر سٹیفن ہاکنگ تک سینکڑوں عظیم لوگوں کے نام ہیں جنھوں نے وقت پر بہت کچھ لکھا اور کہا لیکن کوئی بھی وضاحت نہیں کر سکا بلکہ سٹیفن ہاکنگ نے مرنے قریب یہ بیان دیکر نوع انسانی کو حیران کردیا کہ وقت ایک لاحاصل اور نہ حل ہونے والا مسئلہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت کا تعلق مادے سے نہیں بلکہ الہامی طرزوں سے ہے، جب تک وحی اور الہامی طرز فکر کا حصول ممکن نہ ہو وقت یا عصر کو نہیں سمجھا جا سکتا۔
قران میں ترتیب کتابت کے مطابق 103 نمبر اور ترتیب نزول کے مطابق 13 نمبر سورہ بعنوان ” عصر ” کے نام سے موجود ہے جو کائنات اور وقت کی گھتیوں کو سلجھانے میں مددگار اور رہنمائی کرتی ہے اور اسکے اسرارورموز کا انکشاف بھی کرتی ہے۔ سورہ عصر کا شمار قرآن کی مختصر ترین سورتوں میں کیا جاتا ہے، لیکن روحانی علوم کے اندر معنی و مفہوم کے اعتبار سے یہ سورت بڑے بڑے تخلیقی فارمولوں اور بلند پایہ حقیقتوں کا انکشاف کرتی ہے, سورہ عصر تین آیات پر مشتمل ہے
1۔ والعصر 0 اس آیات میں وقت کی قسم کھائی گئی ہے اور قسم ہمیشہ اپنی بات کو سچا اور حقیقت پر مبنی ثابت کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے، اس آیت مبارکہ میں قسم کھانے والی ذات اللہ تعالٰی ہیں ، وقت، دہر، زمان یا زمانہ، خلاء یا اسپیس یا عصر ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں۔ دہر یا وقت کے اوپر کم و پیش 13 احادیث مبارکہ ہیں، ایک حدیث مبارکہ ہے “لا تسبوا الدهر فإن الله هو الدهر” زمانے کو برا نہ کہو بیشک آللہ ہی زمانہ ہے” سبھی احادیث مبارکہ میں مختلف زاویوں سے یہی مشترک بات دھرائی گئی ہے کہ زمانہ یا وقت اللہ ہے۔ گویا سورہ عصر میں اللہ تعالٰی نے اپنی قسم کھا کر دوسری آیت میں فرمایا کہ
اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(2) کہ بےشک انسان خسارے میں ہے، مادی دنیا میں خسارے یا نفع نقصان کا تعلق ہمیشہ مادے کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ روحانی علوم کی روشنی میں اگر کوئی شخص اللہ کی ذات و صفات سے دور اور ناواقف ہے وہ ہی خسارے میں جاتا ہے، تمام انبیاء کرام، علماء باطن اور مفسرین صاحبان اس بات پر متفق ہےکہ اگر انسان چار چیزوں کو اپنا لیتا ہے تو وہ وقت کی حقیقت کا ادراک حاصل کرکے کامیابی حاصل کر سکتا ہے اس کا فارمولا تیسری آیت میں بیان کیا گیا ہے
اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.0
اس آیت مبارکہ میں چار چیزوں درج ذیل ہیں
1۔ ایمان
2۔ اعمال صالح
3۔ حق کی وصیت
4۔ صبر کی وصیت
الہام اور تصوف کی رو سے ان چاروں چیزوں کا تجزیہ کرنا ضروری ہے
1۔ جن چیزوں کا اپ مشاہدہ کرکے حق الیقین حاصل کر لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جو کچھ آپ کے حواس میں منتقل ہوتا ہے وہی آپ کا ایمان کہلاتا ہے، مثلا اگر کوئی انسان انجینئرنگ کا علم حاصل کرلیتا ہے تو وہ انجینئرنگ میں ایمان یافتہ ہے، اگر کوئی شخص میڈیکل سرجری میں علم اور مشاہدہ رکھتا ہے تو وہ میڈیکل سرجری میں ایمان یافتہ ہے، اگر کوئی بندہ لکڑی، لوہے، الیکٹریکل، میکینکل، الیکٹرانکس کے علم میں میں مشاہدے اور مہارت رکھتا ہے تو وہ ان صلاحیتوں کے اندر ایمان یافتہ ہوگا، بلکل اسی طرح اگر کوئی سالک، بندہ یا انسان اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کا مشاہدہ و عرفان رکھتا ہے تو وہ اللہ تعالٰی کے اندر ایمان یافتہ کہلاتا ہے، گویا ایمان ایک ایسی صلاحیت ہے جس کا تعلق آپ کے حواس، علم اور مشاہدے کے ساتھ ہے،
2۔ جو بندہ جس صلاحیت کے اندر ایمان یافتہ ہوگا وہ اس صلاحیت کا استعمال اس کے قوانین اور فارمولوں کو سامنے رکھ کر جو بھی کام کرے گا وہ اس علم یا صلاحیت کے اعمال صالح کہلائیں گے، اگر کسی بندے سے اللہ تعالٰی کی صفات کا آظہار ہو اور وہ جو بھی کام کرے گا تو وہ روحانی اور قرآنی علوم کی روشنی میں اعمال صالح کہلاتے ہیں، اعمال صالح سے بندہ ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد ہو کر جنت کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے ۔
3۔ کوئی بھی بندہ جب کسی قسم کی بھی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے وہ چاہے مادی ہو یا روحانی اس وقت تک اسکا حق ادا تک نہیں کر سکتا جب تک اسکے طریقوں، قوانین اور مقداروں اور فارمولوں کے مطابق کام کو پورا نہ کرے اور ان کے مطابق زور دینا اور عمل درآمد کرانا ہی حق کی وصیت ہے، وصیت کا مطلب کسی کے بتائے ہوئےطریقے پر عمل کرنا ہے، روحانی علوم میں اللہ تعالٰی کی صفات کا اللہ تعالٰی کی مشیت، مرضی اور منشاء کے مطابق عمل میں لانا حق کی وصیت ہے۔
4۔ صبر ایک ایسی کیفیت ہے جسکا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے، یعنی آپ کسی چیز، صلاحیت، نعمت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ آپ کو نہیں مل رہی لیکن وہ آپ کے مستقبل میں موجود ہے، اسکے حصول کے لئے محنت، مجاہدہ و ریاضت، ہمت افزائی اور رہنمائی کرنا صبر کی وصیت ہے۔ مسلسل کوشش سے آپ اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کر لیتے ہیں تو دراصل اپ صبر کے مراحل سے گزریں ہیں، ان مراحل کے اندر رہنمائی صبر کی وصیت ہے کہلاتی ہے، بلکل اسی طرح جب کوئی سالک اللہ تعالٰی کی صفات و انوارات کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے حصول میں ریاضت و مجاہدات اور عبادات میں مگن ہو کر اور ان کے پورا ہونے کا انتظار کرتا ہے تو یہ صبر کی کیفیت کے علاوہ کچھ نہیں، اللہ کی صفات و تجلیات کے حصول میں رہنمائی کرنا دراصل روحانی اور الہامی طرزوں میں صبر کی وصیت ہے، جب تک اللہ تعالٰی کی کسی صفت کا انکشاف نہیں ہوتا سالک کا ذہن اللہ تعالٰی کی طرف مرکوز رہتا ہے اور وہ اسی انتظار میں رہتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کسی صفت کا اظہار ہو یہی صبر کی کیفیت اسکے کے اندر مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت کو بیدار کر دیتی ہے، صبر یا مستقبل کے علم کی رہنمائی صبر کی وصیت ہے، قران کریم کے مطابق اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں سے محبت کرتاہے، جب کسی سالک کو صلاحیت، صفت یا علم منتقل ہو جاتا ہے تو صبر کی کیفیت شکر میں تبدیل ہو جاتی ہے اور شکر ماضی کی کیفیت بن جاتی ہے گویا صبر اور شکر کی کیفیات مستقبل اور ماضی کے اندر داخل کرتی ہیں۔ اللہ شکر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن محبت وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہی کرتا ہے، اللہ کا محبت کرنا اور ساتھ ہونا الگ الگ صفات ہیں۔ صبر مستقبل کی کیفیت جبکہ شکر ماضی کی کیفیت ہے گویا اللہ تعالٰی کا بندے سے محبت کرکے ساتھ ہونا، بندے کو ماضی اور مستقبل یعنی ٹائم اینڈ اسپیس سے آزاد کر دیتا ہے۔ سائنس میں ٹائم اینڈ اسپیس کی اصطلاح اور روحانی علوم میں ٹائم اینڈ اسپیس یا زمان ومکان کا تصور دونوں بلکل الگ الگ ہیں عام طور پر جب ٹائم اینڈ اسپیس بولا جاتا ہے تو تصورات صحیح نہ ہونے سے ابہام پیدا ہو جاتا ہے جس سے حقیقت اور مفہوم واضح نہیں ہوتا، روحانی نقطہ نظر سے کائنات کے دو ہی اچزاء ہیں
1۔ زمان
2۔ مکان
کائنات کے جتنے بھی ظاہری اجزاء اور ان کی حالتیں ہیں وہ سب مکان، مادہ یا مٹریل ہے، اس علاوہ باقی زمان کہلاتا ہے، اگر تفکر کیا جائے تو سائنس اور روحانی علوم میں زمان کو ہی ٹائم، وقت، دہر، عصر، خلاء، فاصلہ یا زمانہ کہا جاتا ہے، زمان یا زمانہ پوری کائنات کے اندر ایک ہی ہے، زمان کو کھائے پینے یا سونے جاگنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ بےنیاز ہے، زمان نہ کسی کا باپ ہے، نہ کسی کا بیٹا ہے اور اس ایک جیسا کوئی دوسرا نہیں، زمان یا خلاء ہر چیز کےچاروں طرف محیط ہے، اول و اخر اور ظاہر و باطن یہی ہے، کائنات کی ہر حرکت یعنی زندگی اس کے اندر ہی قائم ہے، اس لئے زمان ہی حی القیوم ہے۔ صفت ربوبیت کے تحت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالٰی کی صفات کے اندر اتنا زیادہ قرب اور عروج حاصل ہےکہ کوئی بھی دوسرا وجود شامل نہیں ہو سکتا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ” رحمت اللعالمین کے مرتبے پر فائز ہو کر ربوبیت یعنی وقت میں پیوست ہوگئے ہیں اور یہی انکے فرمان کی وضاحت ہے کہ میرا وقت میں اللہ کا ساتھ ہے، جس میں کوئی فرشتہ، نبی یا رسول شامل نہیں ہوسکتا
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
سورہ عصر اللہ تعالٰی اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کی وسعتوں اور گہرائیوں کا انکشاف کرتی ہے اور الہام اور وحی کی طرزوں میں مراقبہ اور ارتکاز کرکے وقت، عصر، خلاء یا دہر کی ایسی حقیقتوں کا ادراک حاصل کر سکتے ہیں جہاں ابھی تک مادی سائنس نہیں پہنچ سکی۔
![]()

