Daily Roshni News

غربت کی  15 حیران کرنے والی وجوہات۔

غربت کی  15 حیران کرنے والی وجوہات۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ہمارے معاشرے کے گریبان میں جھانکتی ہوئی ۱۵ بے رحم وجوہات، جو بتاتی ہیں کہ یہاں کا عام آدمی غربت کے دلدل سے کیوں نہیں نکل پاتا۔ یہ میٹھی باتیں نہیں، کڑوی گولیاں ہیں۔اس کو پڑھنے سے پہلے دل پر ہاتھ رکھ لیں۔

۱۔ “سرکاری نوکری” کا نشہ

پاکستانی نوجوان کی جوانی کے بہترین ۱۰ سال “سرکاری نوکری” کے انتظار میں گل سڑ جاتے ہیں۔ وہ پچیس ہزار کی پرائیویٹ نوکری یا چھوٹا کاروبار کرنے کو توہین سمجھتے ہیں اور ۳۰ سال کی عمر تک والدین کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں۔ نتیجہ؟ جب ہوش آتا ہے تب تک وقت اور عمر دونوں ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں۔

۲۔ دکھاوے کی شادیاں (امیروں کی نقل)

جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں، مگر شادی پر ۱۰ لاکھ کا کھانا اور ۵ لاکھ کا جہیز دینا “ناک” کا مسئلہ ہے۔ یہ قوم اپنی زندگی کی کل جمع پونجی صرف ۴ گھنٹے کی تقریب میں لوگوں کو کھانا کھلا کر برباد کر دیتی ہے، اور پھر اگلے ۵ سال قرضہ اتارتی رہتی ہے۔

۳۔ ڈگری زدہ جاہل

ہاتھ میں ماسٹرز کی ڈگری ہے مگر ایک پروفیشنل ای میل لکھنی نہیں آتی۔ ہمارے تعلیمی نظام نے صرف “نوکر” پیدا کیے ہیں، ہنر مند نہیں۔ ڈگری کو قابلیت سمجھنا سب سے بڑی بیوقوفی ہے، کیونکہ مارکیٹ ڈگری کو نہیں، “سکل” (Skill) کو پیسے دیتی ہے۔

۴۔ ایک کمائے، دس کھائیں

مشترکہ خاندانی نظام (Joint Family) کی یہ کڑوی سچائی ہے کہ اگر ایک بھائی کمانے لگ جائے تو باقی سب “پیر پسار” کر لیٹ جاتے ہیں۔ یہاں “Parasite” (مفت خورے) بننے کا رواج ہے، جس کی وجہ سے کمانے والا بھی کبھی امیر نہیں ہو پاتا کیونکہ اس کا پیسہ سرمایہ کاری میں نہیں، دوسروں کا پیٹ بھرنے میں لگ جاتا ہے۔

۵۔ کمیٹی کلچر (مردہ پیسہ)

پاکستانیوں کو انویسٹمنٹ سے ڈر لگتا ہے مگر “کمیٹی” ڈالنے کا شوق ہے۔ کمیٹی “مردہ پیسہ” (Dead Money) ہے۔ دو سال بعد جو ایک لاکھ ملے گا، مہنگائی کی وجہ سے اس کی قدر ۶۰ ہزار رہ چکی ہوگی۔ یہ بچت نہیں، اپنے پیسے کی قدر گرانے کا طریقہ ہے۔

۶۔ انا کا بت (میں یہ کام کروں گا؟)

“میں چوہدری کا بیٹا ہوں، میں ریڑھی لگاؤں گا؟”

اس جھوٹی انا نے لاکھوں گھر اجاڑ دیے۔ یہاں لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن کوئی چھوٹا کام شروع کرنے میں شرم محسوس کریں گے۔ یاد رکھیں، کام چھوٹا نہیں ہوتا، بندے کی سوچ چھوٹی ہوتی ہے۔

۷۔ صحت کی تباہی (خودکشی)

ہم وہ قوم ہیں جو ۴۰ سال کی عمر تک تیل اور چینی ٹھونس کر اپنا جسم برباد کرتے ہیں اور پھر ۵۰ سال کی عمر کے بعد اپنی ساری کمائی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو دے دیتے ہیں۔ صحت کو نظر انداز کرنا غربت کا سیدھا راستہ ہے۔

۸۔ شارٹ کٹ کی تلاش

ہمیں امیر بننا ہے، لیکن محنت کے بغیر۔ کبھی ڈبل شاہ، کبھی کرپٹو کے فراڈ اور کبھی لاٹری۔ پاکستانی قوم پروسیس (Process) پر یقین نہیں رکھتی، اسے “معجزہ” چاہیے۔ اور معجزے کے انتظار میں نسلیں غریب رہ جاتی ہیں۔

۹۔ الزام تراشی (Victim Mentality)

“حکومت خراب ہے، نواز شریف کھا گیا، عمران خان نے کیا کر لیا، فوج نہیں چھوڑتی۔۔۔”

یہ وہ چُورن ہے جو ناکام لوگ روز بیچتے ہیں۔ یہ ماننے کے بجائے کہ “میں نالائق ہوں”، وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سسٹم پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

۱۰۔ ادھار پر عیاشی

ہم وہ لوگ ہیں جو “آئی فون” قسطوں پر لیتے ہیں تاکہ ان لوگوں کو متاثر کر سکیں جو ہمیں پسند بھی نہیں کرتے۔ غیر ضروری چیزوں (Liabilities) کے لیے قرض لینا مالی خودکشی ہے، جو یہاں کا ہر دوسرا بندہ کر رہا ہے۔

۱۱۔ سیکھنا بند (The Know-it-all)

ڈگری ملتے ہی کتاب بند۔ پاکستانی اوسطاً سال میں ایک کتاب بھی نہیں پڑھتا۔ جب آپ اپنے دماغ پر انویسٹ کرنا بند کر دیتے ہیں، تو آپ کی جیب خود بخود خالی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

۱۲۔ اولاد بطور انشورنس پالیسی

غربت کی ایک بڑی وجہ “بے تحاشا بچے” ہیں۔ غریب آدمی بچے اس لیے پیدا کرتا ہے کہ “یہ بڑے ہو کر کمائیں گے”۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ وسائل کے بغیر پلنے والے بچے “سرمایہ” نہیں، معاشرے اور والدین پر “بوجھ” بنتے ہیں۔

۱۳۔ رسک فوبیا (Risk Aversion)

“پیسہ ڈوب نہ جائے”۔ اس ڈر سے لوگ پیسہ بینک میں سڑنے دیتے ہیں یا پلاٹ لے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ کاروبار کرنے کا، رسک لینے کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔ اور جو رسک نہیں لیتا، وہ کبھی ترقی نہیں کرتا۔

۱۴۔ حاسدانہ رویہ

امیر آدمی کو دیکھ کر یہ سیکھنے کے بجائے کہ “یہ کیسے امیر ہوا؟”، ہم کہتے ہیں “ضرور حرام کا کمایا ہوگا۔” امیروں سے نفرت کر کے آپ کبھی امیر نہیں بن سکتے، کیونکہ لاشعوری طور پر آپ وہ بننا ہی نہیں چاہتے جسے آپ برا سمجھتے ہیں۔

۱۵۔ وقت کا قتلِ عام

چائے کے ڈھابوں پر گھنٹوں سیاست پر بحث، ٹک ٹاک پر اسکرولنگ اور فضول محفلیں۔ غریب آدمی کے پاس پیسے کے علاوہ سب سے قیمتی چیز “وقت” ہوتی ہے، اور وہ اسی کو سب سے زیادہ بے دردی سے ضائع کرتا ہے۔

اپنی بدحالی کا ملبہ حکومت یا تقدیر پر ڈالنا بند کریں، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی جیب خالی نہیں بلکہ آپ کا دماغ بنجر ہے۔ جب تک آپ اپنی ”جھوٹی انا“ اور ”سستی“ کا جنازہ نہیں نکالیں گے، غربت آپ کی نسلوں کو اسی طرح چاٹتی رہے گی۔

Loading