Daily Roshni News

سورۃ المدّثِّر — نزول کا لمحہ: ایک کانپ دینے والی ابتدا

سورۃ المدّثِّر — نزول کا لمحہ: ایک کانپ دینے والی ابتدا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوز انٹرنیشنل )یہ وہ لمحہ تھا جب سکوت ٹوٹا…

یہ وہ گھڑی تھی جب خاموشی چیخ میں بدل گئی…

یہ وہ ساعت تھی جب زمین پر آسمان کی ذمہ داری اتری…

غارِ حراء کی تنہائی میں لرزتے ہوئے وجود پر جب پہلی وحی آئی، تو وہ صرف الفاظ نہیں تھے، وہ ایک انقلاب کا پہلا دھچکا تھا۔ رسولِ اکرم ﷺ خوف، حیرت، عظمت اور بوجھ کے احساس کے ساتھ گھر لوٹے۔ چادر اوڑھی، جسم کانپ رہا تھا، دل پر بھاری بوجھ تھا۔ اور پھر… اسی حالت میں **سورۃ المدّثِّر** نازل ہوئی۔ یہ سورۃ دراصل **نبوت کے اعلان کا پہلا عملی حکم** ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب اللہ فرماتا ہے: اب آرام کا وقت ختم… اب خلوت کا زمانہ تمام… اب خاموش عبادت نہیں، اب کھلی دعوت ہے۔

حصہ اوّل  (آیات 1 تا 18)

عنوان: *جب چادر ہٹائی گئی، اور ایک امت جاگنا شروع ہوئی*

آیت 1–2  **”يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ، قُمْ فَأَنْذِرْ”** اے چادر اوڑھنے والے! اٹھو اور خبردار کرو!

یہ خطاب صرف ایک فرد سے نہیں تھا۔ یہ خطاب پوری انسانیت کے لیے بیداری کی پہلی گھنٹی تھا۔ یہ پیغام صرف ایک نبی کے لیے نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے ہر داعی کے لیے تھا۔

“چادر” کیا تھی؟

یہ صرف جسم کی چادر نہیں تھی، یہ خوف کی چادر بھی تھی، یہ حیرت کی چادر بھی تھی، یہ ذمہ داری کے بوجھ کی چادر بھی تھی۔ اللہ نے فرمایا: اب چادر چھوڑ دو۔ اب خلوت سے نکل آؤ۔ اب دنیا کے اندھیروں میں چراغ بن کر کھڑے ہو جاؤ۔

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ: * حق جاننے کے بعد خاموش رہنا جرم ہے۔ * ایمان ذاتی راحت کے لیے نہیں، اجتماعی ہدایت کے لیے ہے۔ * جو حق دیکھ لے، اس پر لازم ہے کہ وہ اٹھے اور خبردار کرے۔

آیت 3 **”وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ”** اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔

یہ صرف “اللہ اکبر” کہنے کا حکم نہیں۔ یہ انسان کی پوری سوچ کو بدل دینے کا اعلان ہے۔ یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ: * جس کے دل میں اللہ بڑا نہ ہو، وہ کسی اور کو بڑا بنا لیتا ہے۔ * جو رب کو بڑا نہیں مانتا، وہ مال کو، اقتدار کو، نفس کو اور دنیا کو بڑا بنا لیتا ہے۔ * دعوت کی بنیاد “اللہ کی عظمت” ہے، دلیل نہیں۔ یہ آیت ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ: دعوت کا اصل ایندھن **عقیدۂ توحید** ہے، منطق نہیں۔

آیت 4 **”وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ”**  اور اپنے لباس کو پاک رکھو۔

یہاں صرف کپڑے کی صفائی مراد نہیں۔ یہ پورے کردار کی صفائی کا حکم ہے۔ * نیت پاک ہو * مقصد پاک ہو * ذرائع پاک ہوں * زبان پاک ہو * نظر پاک ہو * کمائی پاک ہو کیونکہ ناپاک ہاتھ سے دیا گیا پیغام کبھی دلوں کو پاک نہیں کر سکتا۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے: دعوت دینے والا جتنا خود پاک ہوگا، اس کی بات اتنی ہی وزنی ہوگی۔

آیت 5 **”وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ”**  اور ہر طرح کی ناپاکی کو ترک کر دو۔

“رُجز” صرف بت نہیں، یہ ہر وہ چیز ہے جو اللہ سے دور کرے: * شرک * گناہ * ظلم

* فریب * ریا * تکبر * نفس پرستی   یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ: دعوت دینے والا اگر خود گندگی میں کھڑا ہو، تو وہ دوسروں کو کیسے پاک کرے گا؟

آیت 6 **”وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ”**  احسان جتا کر زیادہ حاصل کرنے کی خواہش نہ رکھو۔

یہ آیت داعی کی نیت کا بہترین پیمانہ ہے۔ یعنی: * تمہاری دعوت کے بدلے تم شہرت نہ مانگو * تمہاری محنت کے بدلے تم دنیا نہ مانگو * تمہاری قربانی کے بدلے تم واہ واہ نہ مانگو    یہ آیت اعلان کرتی ہے: جو اللہ کے لیے کرے، وہ مخلوق سے کچھ نہ مانگے۔

آیت 7 **”وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ”**   اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔

یہ پوری سورۃ کا سب سے بھاری جملہ ہے۔ کیونکہ اللہ جانتا تھا کہ: * گالیاں ملیں گی

* پتھر ملیں گے * طعنے ملیں گے * الزامات ملیں گے * دھمکیاں ملیں گی مگر فرمایا: یہ سب کچھ میرے لیے برداشت کرنا۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ: دعوت کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے، لیکن انجام جنت ہوتا ہے۔

آیت 8–10 قیامت کا پہلا لرزہ

صور پھونکا جائے گا… وہ دن سخت دن ہو گا… کافروں کے لیے آسان نہ ہو گا… یہاں اچانک لہجہ بدل جاتا ہے۔ اب گفتگو نبی سے ہٹ کر پوری انسانیت کی طرف ہو جاتی ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ: دعوت کا اصل موضوع **قیامت** ہے۔ کیونکہ جس کو آخرت کا یقین نہ ہو، وہ سیدھا نہیں ہو سکتا۔ یہ آیات انسان کے دل پر پہلا خوف طاری کرتی ہیں: ایک دن آنے والا ہے… جس دن کوئی سفارش کام نہ آئے گی… جس دن صرف اعمال بولیں گے۔

آیت 11–15 ایک خاص شخص کا ذکر (باطل کی علامت)

یہاں قرآن ایک ایسے انسان کا نقشہ کھینچتا ہے: * جسے مال دیا گیا * جسے بیٹے دیے گئے * جسے عزت ملی * جسے اقتدار ملا * جس کے لیے راستے ہموار کیے گئے پھر بھی وہ کہتا ہے: مجھے اور چاہیے۔ یہ انسان دراصل ہر زمانے کے **سرکش سرمایہ دار، متکبر رئیس اور مغرور حکمران** کی علامت ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ: نعمت شکر نہ لائے تو وہ رحمت نہیں، فتنہ بن جاتی ہے۔

آیت 16–18 حق کو پہچان کر رد کرنے کا جرم

یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کی باطنی حقیقت کھلتی ہے: * وہ سوچتا ہے * وہ تدبیر کرتا ہے * وہ منصوبہ بناتا ہے لیکن مقصد کیا؟ حق کو کیسے جھٹلایا جائے؟ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ: کفر اکثر جہالت سے نہیں، ضد سے پیدا ہوتا ہے۔

اس حصے کا مجموعی پیغام

اس پورے حصے میں اللہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ: * نبوت آرام کا راستہ نہیں، ذمہ داری کا اعلان ہے۔ * دعوت صرف زبان سے نہیں، کردار سے دی جاتی ہے۔ * اللہ کی بڑائی زندگی کا مرکز بنے تو خوف ختم ہو جاتا ہے۔ * پاکیزگی دین کی بنیاد ہے۔ * احسان جتانا دعوت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ * صبر کے بغیر کوئی داعی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ * قیامت کا یقین انسان کو جھکا دیتا ہے۔ * تکبر انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔

سورۃ المدّثِّر — حصہ دوم    (آیات 19 تا 38)

عنوان: *جب حق کے مقابلے میں ضد کھڑی ہوئی، اور جہنم کا دروازہ کھول دیا گیا*

آیت 19–20 **”فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ، ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ”** پس ہلاک ہو وہ، کیسی اس نے تدبیر کی! پھر ہلاک ہو وہ، کیسی اس نے تدبیر کی!

یہاں قرآن اچانک ایک شدید، غضبناک اور لرزا دینے والے لہجے میں داخل ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ اس شخص کی **باطنی سازش** کو طشت از بام کر دیتا ہے، جو حق کو پہچان کر اسے دبانا چاہتا تھا۔ یہ کوئی عام سوچ نہیں تھی۔ یہ وہ سوچ تھی جو **ضد، انا، تکبر، حسد اور اقتدار کے خوف** سے جنم لیتی ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے قرآن کو سنا، اس کے دل پر اثر ہوا، اس کی آنکھوں میں چمک آئی، اس کی روح کانپی، مگر پھر اس نے اپنا دل زبردستی بند کر لیا۔ اس نے سوچا: اگر میں مان گیا تو میری سرداری ختم ہو جائے گی، اگر میں جھک گیا تو میرا غرور ٹوٹ جائے گا، اگر میں گواہی دے دوں تو میرا تخت ہل جائے گا۔ پس وہ **سوچنے بیٹھا**… نہ حق کے لیے، بلکہ حق کے خلاف۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان علم کے باوجود کافر ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ضد، عقل پر غالب آ جاتی ہے۔

آیت 21–23 **”ثُمَّ نَظَرَ، ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ، ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ”** پھر اس نے غور کیا، پھر تیوری چڑھائی اور منہ بنا لیا، پھر پیٹھ پھیر لی اور تکبر کیا۔

یہ چند آیات انسان کی **نفسیاتی تصویر کشی** کا ایسا زندہ نمونہ ہیں کہ جیسے قرآن کسی انسان کے اندر جھانک کر اس کے دل کی فلم بنا رہا ہو۔ یہ وہ لمحہ ہے: * جب انسان حق کو دیکھ کر چونکتا ہے * پھر اس کا نفس بیدار ہوتا ہے * پھر اس کے اندر کا شیطان بولتا ہے * پھر غرور اکڑتا ہے * پھر وہ پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے یہ وہ **اندرونی جنگ** ہے جو ہر ہٹ دھرم انسان کے دل میں لڑی جاتی ہے، اور افسوس کہ اکثر اس جنگ میں نفس جیت جاتا ہے اور سچ ہار جاتا ہے۔

آیت 24–25 **”فَقَالَ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ، إِنْ هَٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ”** پھر اس نے کہا: یہ تو بس وہی جادو ہے جو چلا آ رہا ہے۔ یہ تو ایک انسان کا کلام ہے۔

یہاں وہ فیصلہ کن جملہ بولا گیا جس نے اس شخص کو ہمیشہ کے لیے ہلاکت کے راستے پر ڈال دیا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں: * اس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ کلام بشر نہیں، * مگر اس کی زبان جھوٹ بول رہی تھی کہ یہ انسان کا کلام ہے۔ یہ وہ **لمحۂ سقوط** تھا جب اس نے: * نور کو جادو * وحی کو فریب * رب کے کلام کو انسانی ہنر

  کہہ دیا۔ یہ وہی الزام ہے جو ہر دور میں حق پر لگایا گیا: * کبھی کہا گیا کہ یہ شاعری ہے * کبھی کہا گیا کہ یہ دیوانگی ہے * کبھی کہا گیا کہ یہ جادو ہے جب دلیل نہ بچے تو الزام پیدا ہوتا ہے۔

آیت 26–30

**”سَأُصْلِيهِ سَقَرَ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ، لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ، لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ، عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ”** میں جلد اسے سقر میں ڈال دوں گا۔ اور تم کیا جانو کہ سقر کیا ہے؟ وہ نہ باقی چھوڑے گی نہ چھوڑے گی۔ انسان کی کھال جلا دینے والی ہے۔ اس پر انیس فرشتے مقرر ہیں۔

یہاں اچانک منظر بدل جاتا ہے۔ اب زمین سے بات نہیں ہو رہی، اب آسمان سے جہنم کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ سقر کیا ہے؟ سقر جہنم کا وہ طبقہ ہے: * جو انسان کو جلاتا ہے * پھر زندہ کرتا ہے * پھر جلاتا ہے * پھر زندہ کرتا ہے یہ صرف آگ نہیں، یہ **حسرت، ندامت، ذلت اور بے بسی کی آگ** ہے۔ “نہ باقی رکھتی ہے، نہ چھوڑتی ہے”

یعنی: * نہ موت دے کر راحت فراہم کرتی ہے * نہ زندگی دے کر سکون عطا کرتی ہے

اور “کھال کو جلا دینے والی” — کیونکہ درد کا اصل مرکز انسان کی کھال ہے۔

انیس فرشتے

یہ کوئی علامتی عدد نہیں۔ یہ حقیقی، سخت گیر، بےرحم فرشتے ہیں جن پر جہنم کا انتظام ہے۔ یہ وہ فرشتے ہیں جن کے دل میں رحم نہیں، کیونکہ یہ **عدل کے فرشتے** ہیں، رحم کے نہیں۔

آیت 31 فرشتوں کی تعداد اور آزمائش

اللہ اس کی حکمت کو واضح فرماتا ہے کہ: * یہ تعداد کافروں کے لیے فتنہ ہے * اہلِ ایمان کے لیے یقین میں اضافہ * اہلِ کتاب کے لیے تصدیق یہاں ایک بہت بڑی حقیقت کھولی جا رہی ہے: کافر ہر چیز کا مذاق بناتا ہے مومن ہر چیز میں حکمت ڈھونڈتا ہے یہی فرق ہے۔

آیت 32–34 کائناتی شہادتیں

اب اللہ آسمان کی قسم کھاتا ہے: * چاند کی * رات کے پیچھے ہٹنے کی * صبح کے چمکنے کی یہ سب اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ: جس طرح رات کے بعد دن آتا ہے اسی طرح زندگی کے بعد حساب آئے گا۔ یہ کائنات ایک خاموش گواہ ہے مگر انسان اندھا بنا بیٹھا ہے۔

آیت 35–36 جہنم کی حقیقت

یہ جہنم کوئی معمولی چیز نہیں: * یہ بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے * یہ انسان کو خبردار کرنے والی ہے یہ ہمیں بتاتی ہے کہ: قیامت کوئی افسانہ نہیں، بلکہ سب سے بڑی حقیقت ہے۔

آیت 37 آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا اختیار

ہر انسان کے سامنے دو راستے کھلے ہیں: * چاہے تو آگے بڑھے * چاہے تو پیچھے ہٹے یہی **آزادیٔ ارادہ** ہے اور اسی پر امتحان قائم ہے۔

آیت 38 **”كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ”** ہر جان اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔

یہ اس حصے کی سب سے فیصلہ کن آیت ہے۔ کوئی: * کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا

* کوئی سفارش بغیر ایمان کے کام نہ آئے گی * کوئی رشتہ، کوئی نسبت، کوئی طاقت مدد نہ دے گی ہر انسان اپنی زندگی کی **خود رسید** ساتھ لے کر جائے گا۔

اس حصے کا جامع پیغام

یہ پورا حصہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ: * حق کو جان کر رد کرنا سب سے بڑا جرم ہے

* ضد انسان کو جہنم تک لے جاتی ہے * تکبر عقل کو اندھا کر دیتا ہے * قرآن پر الزام درحقیقت اپنی شکست کا اعلان ہے * جہنم محض آگ نہیں، انسان کے نفس کا انجام ہے

* کائنات قیامت کی سچی گواہ ہے * ہر انسان اپنے اعمال کے ساتھ اکیلا کھڑا ہو گا

سورۃُ المدّثِّر – حصہ سوم  (آیات 39 تا 56)

عنوان: *جب مجرم بولیں گے، جب جنتی سوال کریں گے، اور جب انسان کے پاس کوئی بہانہ باقی نہ رہے گا*

تمہید: اب پردہ اٹھتا ہے

سورۃ المدّثِّر کے پہلے حصے میں **دعوت کا آغاز** ہوا، دوسرے حصے میں **تکذیب کی نفسیات اور جہنم کا اعلان** ہوا، اور اب تیسرے حصے میں **انجام سامنے رکھا جا رہا ہے**۔ یہ وہ مقام ہے جہاں: * فلسفہ خاموش ہو جاتا ہے * دلیل ختم ہو جاتی ہے

* صرف **اعمال بولتے ہیں** * اور صرف **انسان خود بولتا ہے** یہ حصہ دراصل انسان کے سامنے اس کا **عدالتی بیان** رکھ دیتا ہے۔

آیت 39 **”إِلَّا أَصْحَابَ الْيَمِينِ”** سوائے دائیں ہاتھ والوں کے۔

یہاں ایک بہت بڑا استثنا کیا گیا۔ پچھلی آیت میں فرمایا گیا تھا: ہر نفس اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔ اب فرمایا: مگر دائیں ہاتھ والے اس سے مستثنیٰ ہیں۔

اصحابُ الیمین کون ہیں؟

یہ وہ لوگ ہیں: * جن کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے * جن کی زندگی کا رخ اللہ کی طرف تھا * جنہوں نے گناہ کیے مگر رب کی طرف پلٹتے رہے * جنہوں نے دل ٹوٹا تو سجدہ کیا * جنہوں نے دنیا کمائی مگر آخرت نہ بھولے یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں: جنہوں نے اپنی آزادیِ ارادہ کو **ہدایت کے لیے استعمال کیا**۔

آیت 40–41 **”فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ، عَنِ الْمُجْرِمِينَ”** وہ جنتوں میں ہوں گے، اور مجرموں کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہوں گے۔

یہ منظر انتہائی حیران کن ہے۔ ایک طرف: * ٹھنڈی ہوائیں * نہ ختم ہونے والی نعمتیں

* امن، سکون، نور، راحت اور دوسری طرف: * بھڑکتی آگ * زنجیریں * چیخیں

* حسرتیں جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے: تم کیسے یہاں پہنچے؟ یہ سوال تضحیک کے لیے نہیں، بلکہ **حقیقت کے اعتراف کے لیے** ہوگا۔

آیت 42–43 **”مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ، قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ”** کیا چیز تمہیں سقر میں لے گئی؟ وہ کہیں گے: ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے۔

یہ جواب انسان کے دل کو چیر دیتا ہے۔ جہنم کی پہلی وجہ: ہم نمازی نہ تھے۔ یہاں کوئی یہ نہیں کہتا: * ہم سود خور تھے * ہم قاتل تھے * ہم زانی تھے * ہم شرابی تھے بلکہ سب سے پہلے اعتراف یہ ہے: ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ کیونکہ نماز: * ایمان کی پہچان ہے * بندگی کی مہر ہے * اور رب سے تعلق کی زنجیر ہے جس کا رب سے تعلق ٹوٹے، اس کا ہر تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔

آیت 44 **”وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ”** اور ہم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔

نماز کے بعد دوسرا جرم: ہم انسانوں کا خیال نہ رکھتے تھے۔ یہاں قرآن انسانیت کا ایک ابدی اصول بیان کرتا ہے: جو رب سے جڑا نہ ہو، وہ بندوں سے بھی کٹا رہتا ہے۔ عبادت اور خدمت کا تعلق لازم و ملزوم ہے۔ نماز انسان کو عاجز بناتی ہے، اور عاجزی انسان کو رحم سکھاتی ہے۔

آیت 45 **”وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ”** اور ہم بےہودہ بحثوں میں پڑے رہتے تھے۔

یہ آیت آج کے انسان کے لیے خاص طور پر آئینہ ہے۔ وہ لوگ: * دین کا مذاق اڑاتے  تھے * ہر سچی بات پر طنز کرتے تھے * باطل محفلوں میں بیٹھتے تھے * لغویات میں اپنی زندگیاں ضائع کرتے تھے یہ وہ لوگ تھے جن کے پاس وقت تھا، مگر رب کے لیے وقت نہ تھا۔

آیت 46 **”وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ”** اور ہم روزِ جزا کو جھٹلایا کرتے تھے۔

یہ آخری اور سب سے گہری وجہ بتائی گئی: اصل جڑ: ہم قیامت کو نہیں مانتے تھے۔ قیامت کا انکار ہی وہ بیج ہے جس سے ہر گناہ کا درخت اگتا ہے۔ جسے یہ یقین ہو کہ مجھے حساب دینا ہے، وہ ظلم کرنے سے پہلے کانپتا ہے۔ اور جسے یہ یقین نہ ہو، وہ سب کچھ کر گزرتا ہے۔

آیت 47 **”حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ”** یہاں تک کہ ہمیں یقین (موت) آ پہنچی۔

یہ وہ لمحہ ہے جہاں انسان کہتا ہے: ہم نے جان بوجھ کر غفلت میں زندگی گزاری، اور ہوش تب آیا جب آنکھیں بند ہونے لگیں۔ موت اس دنیا کی سب سے سچی دلیل ہے۔ جسے وہ بھی مان لیتے ہیں جو زندگی بھر قیامت کو جھٹلاتے رہے ہوتے ہیں۔

آیت 48 **”فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ”** اب انہیں کسی کی شفاعت فائدہ نہ دے گی۔

یہ شفاعت کے تصور کی آخری سرحد ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا: * شفاعت وہاں ہوگی جہاں ایمان ہوگا * جس کے پاس ایمان کا بیج ہی نہ ہو،  وہ شفاعت کے سائے میں بھی نہیں آئے گا یہ آیت ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ: یہاں جو کچھ کر لیا گیا، وہیں فیصلہ ہو چکا۔ آخرت میں کوئی نیا موقع نہیں دیا جائے گا۔

اب منظر بدلتا ہے: انسان اور قرآن

اب قرآن جہنم کے بیان سے ہٹ کر انسان کی **نفسیاتی حالت** دکھاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ جہنم میں گئے، نہ جنت میں، بلکہ ابھی دنیا میں ہیں — مگر قرآن سے بھاگ رہے ہیں۔

آیت 49–50 **”فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ، كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ”** انہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں؟ ایسے بھاگ رہے ہیں جیسے بدکے ہوئے گدھے ہوں۔

یہ مثال قرآن کی سب سے شدید مثالوں میں سے ہے۔ یہ لوگ: * جیسے ہی قرآن کی بات آتی ہے، * جیسے ہی آخرت کا ذکر ہوتا ہے، * جیسے ہی نصیحت سنائی جاتی ہے،

  ایسے بھاگتے ہیں جیسے کسی نے آگ دکھا دی ہو۔ یہ کوئی لاعلم لوگ نہیں، یہ جاننے والے لوگ ہوتے ہیں، مگر **بھاگنے والے** ہوتے ہیں۔

آیت 51 **”فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ”** جیسے وہ کسی شیر سے بھاگ رہے ہوں۔

یہاں قرآن کہتا ہے: جنہیں قرآن سے ڈر لگتا ہے، دراصل وہ **شیر سے نہیں، بلکہ اپنے ضمیر کی دھاڑ سے بھاگ رہے ہیں۔**

آیت 52 **”بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُؤْتَىٰ صُحُفًا مُّنَشَّرَةً”** بلکہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دے دیے جائیں۔

یعنی: یہ لوگ شرطیں لگاتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں: * اگر ہمیں فرشتے نظر آ جائیں * اگر ہمیں آسمان سے نامہ آ جائے * اگر ہمیں براہِ راست پیغام ملے یہی تکبر ہے، یہی ضد ہے، یہی بہانہ سازی ہے۔

آیت 53 **”كَلَّا بَل لَّا يَخَافُونَ الْآخِرَةَ”** ہرگز نہیں، بلکہ یہ آخرت سے ڈرتے ہی نہیں۔

یہ آخری تشخیص ہے۔ اصل مرض: آخرت سے خوف کا نہ ہونا۔ جس دل میں آخرت کا خوف نہ ہو: * وہ کسی کا حق نہیں مارتا تو محض حادثہ ہوتا ہے * وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا تو محض مصلحت ہوتی ہے

آیت 54–55 **”كَلَّا إِنَّهُ تَذْكِرَةٌ، فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ”** ہرگز نہیں، بے شک یہ ایک نصیحت ہے۔ پس جو چاہے اسے یاد رکھے۔

یہاں قرآن خود اپنا تعارف کراتا ہے: یہ: * زبردستی مسلط نہیں کیا گیا * جبر کے ساتھ نہیں دیا گیا * بلکہ **نصیحت** کے طور پر بھیجا گیا ہے یعنی: ہم نے راستہ دکھا دیا، اب اختیار تمہارے پاس ہے۔

آیت 56 (سورت کی آخری آیت) **”وَمَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَىٰ وَأَهْلُ الْمَغْفِرَةِ”** اور وہ یاد نہیں رکھتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ وہی تقویٰ کا اہل ہے اور وہی بخشنے والا ہے۔

یہ پوری سورت کا سب سے گہرا اور فیصلہ کن اختتام ہے۔ اس آیت میں **دو عظیم حقیقتیں** ہیں:

(1) ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے تم چاہو، کوشش کرو، دروازہ کھٹکھٹاؤ، مگر: جب تک اللہ چاہے گا نہیں، دل نہیں کھلے گا۔ یہ انسان کو: * غرور سے بچاتی ہے * خود پسندی سے بچاتی ہے * اور یہ احساس دلاتی ہے کہ   ہدایت کوئی انسان کی ذاتی ملکیت نہیں۔

(2) اللہ تقویٰ کا بھی اہل ہے اور مغفرت کا بھی    یہ قرآن کا حسن اختتام ہے۔ یعنی: وہ سختی کا بھی مستحق ہے اور وہی معافی کا بھی مستحق ہے وہ: * سزا دیتا ہے تو عدل کے ساتھ * اور معاف کرتا ہے تو بے حساب یہ آیت گناہ گار کو بھی امید دیتی ہے

اور سرکش کو بھی ڈراتی ہے۔

حصہ سوم کا جامع نچوڑ

یہ پورا حصہ ہمیں یہ ابدی حقائق سکھاتا ہے:

  1. جہنم میں جانے والے خود اپنے جرم قبول کریں گے

  2. سب سے پہلے اعتراف نماز ترک کرنے کا ہوگا

  3. عبادت اور خدمتِ خلق کا گہرا تعلق ہے

  4. قیامت کا انکار ہر گناہ کی جڑ ہے

  5. موت ہر منکر کو خاموش کر دیتی ہے

  6. ایمان کے بغیر شفاعت بے فائدہ ہے

  7. قرآن سے بھاگنے والے دراصل اپنے ضمیر سے بھاگتے ہیں

  8. ہدایت زبردستی نہیں آتی

  9. آخرت کا خوف نہ ہو تو کوئی ایمان باقی نہیں رہتا

  10. اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے

  11. اللہ ہی سب سے بڑا معاف کرنے والا ہے

سورۃ المدّثِّر کا حتمی پیغام (تینوں حصوں کا مجموعی خلاصہ)

یہ سورت انسان کو چار دائروں میں گھما کر حقیقت کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے:

  1. **ذمہ داری کا دائرہ** اٹھو، خبردار کرو، صبر کرو

  2. **تکذیب کا دائرہ** ضد، تکبر، قرآن پر الزام

  3. **انجام کا دائرہ** جہنم، سقر، اعمال کی قید

  4. **امید کا دائرہ** اللہ اہلِ مغفرت ہے

Loading