Daily Roshni News

**سورۃُ المُرسَلات — حصہ اوّل (آیات 1 تا 15)**

**سورۃُ المُرسَلات — حصہ اوّل (آیات 1 تا 15)**

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )وحی کی گواہی، قیامت کا آغاز، اور جھٹلانے والوں کے لیے پہلی وارننگ*

تمہیدی کلمات:سورۃُ المُرسَلات قرآنِ مجید کی اُن جلالی سورتوں میں سے ہے جو دل کو ہلا دیتی ہیں، روح کو جھنجھوڑ دیتی ہیں اور انسان کو اُس انجام سے آنکھیں چار کرواتی ہیں جس سے وہ غفلت میں بھاگتا پھرتا ہے۔ یہ سورت مکی ہے، یعنی اُس دور کی نازل کردہ ہے جب مکہ کی فضا تکذیب، انکار، غرور، سرد مہری اور حق سے مسلسل بیزاری سے بھری ہوئی تھی۔ ایسے ماحول میں یہ سورت زوردار قسموں سے شروع ہو کر یکے بعد دیگرے کائناتی زلزلوں کی خبر دیتی ہے، اور پھر ایک ایسا جملہ بار بار دہراتی ہے جو قیامت کے دن کا مستقل نعرہ بنے گا:

**“تباہی ہے اُس دن جھٹلانے والوں کے لیے!”**

یہ حصہ اوّل (آیات 1 تا 15) دراصل پوری سورت کا دروازہ ہے۔ یہ وہ دروازہ ہے جس سے قدم رکھتے ہی انسان خود کو قیامت کے میدان میں کھڑا محسوس کرتا ہے۔ یہاں وحی کی سچائی کی قسم بھی ہے، قیامت کی حتمیت کا اعلان بھی، کائنات کی تباہ کن تبدیلیوں کی جھلک بھی، اور پھر پہلی شدید ترین وارننگ بھی۔

1۔ اللہ کی قسمیں — پیغام کی سچائی کا اعلان   *(آیات 1 تا 6)*

(الف) لگاتار بھیجے جانے والے پیغام رساں

سورۃُ المُرسَلات کی ابتدا نہایت پُرہیبت اور پُرمعانی قسموں سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ اُن چیزوں کی قسم کھاتا ہے جو **لگاتار بھیجی جاتی ہیں**۔ یہاں مفسرین نے متعدد معانی بیان کیے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو مسلسل اور پے در پے چلتی ہیں۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو وحی لے کر یکے بعد دیگرے نازل ہوتے ہیں۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ یہ دونوں معانی اپنی اپنی جگہ درست ہیں، کیونکہ کائنات میں اللہ کا نظام کسی ایک زاویے سے نہیں بلکہ ہمہ جہت طریقے سے چلتا ہے۔

یہ “لگاتار بھیجا جانا” دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ہدایت کبھی ایک لمحے کے لیے بھی منقطع نہیں ہوئی۔ انسان کی تاریخ میں کوئی ایسا دور نہیں گزرا جب وہ بغیر نبی، بغیر پیغام اور بغیر انتباہ کے چھوڑ دیا گیا ہو۔ یہ تسلسل خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے لیے حساب، جزا اور سزا ایک یقینی حقیقت ہے۔ اگر کوئی یومِ حساب نہ ہوتا تو یہ مسلسل نظامِ ہدایت بے معنی ہو جاتا۔

(ب) زوردار آندھیاں

پھر ارشاد ہوتا ہے اُن تیز اور زوردار ہواؤں کی قسم، جو جھکڑ بن کر چلتی ہیں۔ ہوائیں بظاہر نرم ہوتی ہیں، مگر جب اللہ کا حکم ہوتا ہے تو یہی ہوائیں بستیوں کو الٹ دیتی ہیں، سمندروں کو اُبال دیتی ہیں، جہازوں کو بے بس کر دیتی ہیں اور انسان کی طاقت کا غرور خاک میں ملا دیتی ہیں۔

یہ آندھیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ جس طاقت پر انسان کو فخر ہے وہ دراصل کچھ بھی نہیں۔ جو اللہ آج ہوا کو نرم رکھتا ہے، وہی کل اُسے طوفان بنا سکتا ہے۔ آج کا سکون کل کی تباہی بن سکتا ہے۔ اس لیے قیامت کی آندھیوں کو جھٹلانا انتہائی نادانی ہے، کیونکہ ہم روز چھوٹی سطح پر اُن کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

(ج) حق و باطل میں فرق کرنے والی قوت

پھر اللہ تعالیٰ اُن قوتوں کی قسم کھاتا ہے جو چیزوں کو الگ الگ کر دینے والی ہیں، جو حق کو باطل سے جدا کر کے رکھ دیتی ہیں۔ اس میں بھی دو پہلو جمع ہو جاتے ہیں:

  1. **کائناتی سطح پر:** ہوائیں بادلوں کو چھانٹتی ہیں، بارش کو تقسیم کرتی ہیں، موسموں کو جدا کرتی ہیں۔

  2. **روحانی سطح پر:** وحی اور قرآن وہ قوت ہیں جو حق اور باطل میں حد فاصل کھینچ دیتے ہیں۔ جو قرآن کے بعد بھی حق کو باطل اور باطل کو حق کہتا ہے، وہ دراصل اپنی عقل کا قتل کرتا ہے۔

(د) وحی کا نظام بطور دلیل

ان تمام قسموں کا اصل مقصد یہ جتلانا ہے کہ **جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے، وہ سچ ہے۔** یہ محض کوئی شاعری نہیں، کوئی وعظ نہیں، کوئی اخلاقی کہانی نہیں، بلکہ ایک فیصلہ کن اعلان ہے۔ اللہ اپنی مخلوق کی عظیم طاقتوں کو گواہ بنا کر یہ کہتا ہے کہ جس انجام کی خبر دی جا رہی ہے وہ لازماً واقع ہو کر رہے گا۔

یہاں وحی بطور دلیل سامنے آتی ہے۔ قرآن ہمیں صرف خبر نہیں دیتا، بلکہ اُس خبر پر گواہی بھی پیش کرتا ہے؛ آسمان، ہوا، فرشتے، نظامِ قدرت — سب اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ قیامت ایک اٹل حقیقت ہے۔

2۔ قیامت کا حتمی وقوع  *(آیات 7 تا 10 کے مفہوم میں)*

(الف) جس چیز کا وعدہ کیا جا رہا ہے، وہ لازماً ہو کر رہے گی

ان قسموں کے بعد ایک نہایت فیصلہ کن جملہ آتا ہے: **“یقیناً جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے، وہ ضرور واقع ہو کر رہے گی۔”**

یہاں نہ کسی شک کی گنجائش ہے، نہ کسی احتمال کی۔ قرآن کا اسلوب یہاں انتہائی دو ٹوک ہے۔ نہ کہا گیا کہ “شاید ہو”، نہ یہ کہ “ممکن ہے ہو”، بلکہ فرمایا کہ “ضرور ہو کر رہے گی”۔ یعنی قیامت کوئی مفروضہ نہیں، بلکہ ایک طے شدہ واقعہ ہے جو اپنے مقرر وقت پر ایسا ہی ظاہر ہو گا جیسے سورج طلوع ہوتا ہے۔

(ب) انسانی انکار حقیقت کو نہیں بدل سکتا

انسان جب کسی حقیقت کو جھٹلاتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ شاید اس کے انکار سے وہ حقیقت باطل ہو جائے گی۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ کسی کے انکار سے سورج نے نکلنا نہیں چھوڑا، زمین نے گھومنا بند نہیں کیا، موت نے آنا ترک نہیں کیا۔ اسی طرح قیامت بھی کسی کے ماننے یا نہ ماننے کی محتاج نہیں۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے، اور اللہ کے فیصلے کسی انسان کے یقین یا انکار پر موقوف نہیں ہوتے۔

یہاں قرآن ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ **کفر، حقیقت کو نہیں بدلتا؛ کفر صرف انسان کے انجام کو بدل دیتا ہے۔** حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے، مگر انکار کرنے والا اپنا نقصان خود لکھ لیتا ہے۔

3۔ کائناتی نظام کی الٹ پھیر *(آیات 8 تا 11 کے مضامین)*

اب قرآن اچانک ہمیں مستقبل کے ایک ایسے منظر میں لے جاتا ہے جس کی ہیبت سے دل کانپ اُٹھتا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب کائنات کا پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

(الف) ستاروں کا مٹ جانا

ستارے جنہیں انسان صدیوں سے آسمان کی زینت سمجھتا آیا ہے، جن کی روشنی میں مسافر راستہ پاتے رہے، جنہیں شاعروں نے حسن کی علامت بنایا — وہ سب مٹ جائیں گے۔ ان کی روشنی بجھ جائے گی۔ آسمان اندھیرا ہو جائے گا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ جس چیز پر انسان نے ہمیشہ بھروسا کیا، وہ قیامت کے دن کسی کام کی نہ رہے گی۔

یہ ہمیں بتاتا ہے کہ جو چیز آج دائم نظر آتی ہے، وہ کل فانی ہو گی۔ اصل دوام صرف اللہ کے لیے ہے۔

(ب) آسمان کا پھٹ جانا

اسی منظر میں آسمان کے پھٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس آسمان کو ہم مضبوط چھت سمجھتے ہیں، جسے دیکھ کر ہمیں استحکام اور وسعت کا احساس ہوتا ہے — وہ ایک دن چاک ہو جائے گا۔ یہ اُس طاقت کے ٹوٹنے کی علامت ہے جسے انسان ناقابلِ شکست سمجھتا ہے۔

یہ منظر ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ جس چھت کے نیچے ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں، وہ بھی اللہ کے حکم کے سامنے بے بس ہے۔

(ج) پہاڑوں کا ریزہ ریزہ ہونا

پہاڑ جنہیں قرآن “میخیں” کہتا ہے — زمین کو تھامنے والی کیلیں — وہ روئی کے گالوں کی طرح اُڑ جائیں گے۔ انسان نے ہمیشہ پہاڑوں کو طاقت، ثبات اور استحکام کی علامت سمجھا۔ مگر قیامت کے دن وہ مٹی میں بدل جائیں گے، ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، اور یوں محسوس ہو گا جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔

یہ اس بات کی علامت ہے کہ دنیا میں جس چیز کو انسان مضبوط سمجھ کر سہارا بناتا ہے، وہ قیامت کے دن کسی کام کی نہ ہو گی۔

(د) رسولوں کا مقرر وقت پر جمع ہونا

پھر ایک نہایت عظیم منظر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: تمام رسولوں کو ایک مقرر وقت پر جمع کیا جائے گا۔

یہ وہ لمحہ ہو گا جب پوری انسانی تاریخ ایک میدان میں سمٹ آئے گی۔ آدم سے لے کر آخری نبی تک سب صف بستہ ہوں گے۔ ان کی قومیں سامنے ہوں گی۔ ہر رسول اپنی قوم کے بارے میں گواہی دے گا کہ اس نے پیغام پہنچایا تھا۔ اب یہ کوئی نظریاتی بات نہیں رہے گی بلکہ ایک عدالتی کاروائی ہو گی جس میں شہادتیں ہوں گی، گواہ ہوں گے اور پھر فیصلہ سنایا جائے گا۔

4۔ فیصلے کا دن  *(آیات 12 تا 14 کے مفاہیم)*

(الف) یومُ الفصل کا اعلان

یہ سب کچھ **کس دن کے لیے؟** جواب آتا ہے: **یومُ الفصل** — فیصلے کا دن۔

یہ صرف سزا کا دن نہیں، بلکہ فیصلہ کا دن ہے۔ یعنی یہ دن عدل کا بھی دن ہو گا۔ وہاں کسی پر ظلم نہیں ہو گا، کسی کی نیکی ضائع نہیں ہو گی، کسی کا جرم نظرانداز نہیں ہو گا۔ مکمل انصاف ہو کر رہے گا۔

دنیا میں فیصلے اکثر ادھورے رہ جاتے ہیں۔ طاقتور بچ نکلتا ہے، کمزور پس جاتا ہے۔ بے گناہ سزا پا جاتا ہے، مجرم باعزت بری ہو جاتا ہے۔ مگر یومُ الفصل وہ دن ہو گا جب کسی کی سفارش، کسی کا تعلق، کسی کی دولت، کسی کی چالاکی کچھ کام نہ آئے گی۔

(ب) تمام مقدمات کا حتمی فیصلہ

یہ وہ دن ہو گا جب انسان کے ہر عمل کا حساب ہو گا۔ نیتوں تک کا حساب ہو گا۔ دلوں کے راز کھول دیے جائیں گے۔ وہ تمام مقدمات جو دنیا میں فائلوں میں دب کر رہ گئے، وہ تمام آنسو جو کسی نے دیکھے نہیں، وہ تمام ظلم جو طاقت کے زور پر چھپا دیا گیا — سب کچھ اس دن سامنے آ جائے گا۔

یہاں قرآن ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ دنیا کا نظام اگرچہ بظاہر ناانصافی سے بھرا ہوا لگتا ہے، مگر آخرت کا نظام مکمل انصاف پر قائم ہے۔ یہی بات مظلوم کے دل کو تسلی دیتی ہے اور ظالم کے دل میں خوف پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔

5۔ پہلی بار تنبیہ  *(آیت 15)*

“تباہی ہے اُس دن جھٹلانے والوں کے لیے”

یہ وہ جملہ ہے جو اس سورت کی روح ہے۔ یہ ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ نہیں، بار بار آئے گا۔ مگر پہلی بار جب یہ کہا جاتا ہے تو اس کا اثر دل پر بجلی بن کر گرتا ہے۔

یہ محض ایک بددعا نہیں، بلکہ ایک **الہیٰ فیصلہ** ہے۔ اس میں صرف عذاب کا اعلان نہیں بلکہ محرومی، رسوائی، ناکامی اور ہمیشہ کی شکست کا اعلان ہے۔ یہ اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے حق کو پہچاننے کے باوجود جھٹلایا۔ جنہوں نے نشانیوں کو دیکھا مگر آنکھیں بند رکھیں۔ جنہوں نے وحی کو سنا مگر دل کے کان بند رکھے۔

یہ جملہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ: * کیا ہم بھی کہیں انہی جھٹلانے والوں میں شامل تو نہیں؟ * کیا ہم قرآن کو سن کر بھی اپنی زندگی نہیں بدل رہے؟ * کیا ہم قیامت کا اقرار زبانی تو کرتے ہیں مگر عملی زندگی میں اس کا کوئی اثر نہیں؟

یہ جملہ دراصل ہر دور کے انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے ہے۔ یہ کسی ایک نسل یا ایک قوم کے لیے مخصوص نہیں۔ یہ قیامت تک آنے والے ہر اُس شخص کے لیے ہے جو سچ کو جھٹلاتا ہے۔

مجموعی فکری تاثر (حصہ اوّل)

حصہ اوّل ہمیں پانچ بڑے فکری اور روحانی زلزلے عطا کرتا ہے:

  1. **وحی کی سچائی:** یہ محض ایک کتاب نہیں، بلکہ ایک الہیٰ اعلان ہے جس کی گواہی خود کائنات دے رہی ہے۔

  2. **قیامت کی قطعیت:** قیامت کوئی احتمال نہیں بلکہ ایک یقینی واقعہ ہے، جس کا وقت اللہ کے علم میں طے شدہ ہے۔

  3. **کائنات کی ناپائیداری:** ستارے، پہاڑ، آسمان — سب کچھ عارضی ہے۔ ہمیشہ کا ٹھکانا صرف آخرت ہے۔

  4. **عدلِ الہیٰ:** یومُ الفصل انصاف کا دن ہے، جہاں ہر مظلوم کو حق اور ہر ظالم کو سزا ملے گی۔

  5. **جھٹلانے والوں کا انجام:** جنہوں نے ان حقائق کو ٹھکرا دیا، ان کے لیے صرف تباہی ہے — وقتی نہیں، دائمی۔

یہ حصہ اوّل دراصل انسان کے اندر ایک فیصلہ برپا کرنے کے لیے نازل ہوا ہے:

یا تو وہ حق کو مان کر جھک جائے، یا انکار کی ضد پر قائم رہ کر اپنے انجام کا سامنا کرے۔ یہاں قرآن بحث نہیں کرتا، منت سماجت نہیں کرتا، بلکہ اعلان کرتا ہے — ایسا اعلان جو کائنات کے ذرّوں میں گونجتا ہے اور قیامت کے دن تک گونجتا رہے گا۔

**حصہ دوم (آیات 16 تا 35)**

*پچھلی قوموں کی ہلاکت، تخلیقِ انسان، زمین کی نشانیاں، اور منکروں کی بے بسی*

تمہیدی ربط (حصہ اوّل سے حصہ دوم تک)

حصہ اوّل میں قیامت کی حقیقت کو کائنات کی عظیم نشانیوں، وحی کی قسموں اور یومُ الفصل کے اعلان کے ذریعے دلوں میں اتارا گیا۔ اب حصہ دوم میں قرآن انسان کو اُس کے ماضی، اُس کی اپنی تخلیق، اُس کی زمین، اور پھر اُس کے انجام کی طرف عملی مثالوں کے ساتھ لے آتا ہے۔ گویا عقل کو جھنجھوڑنے کے بعد تاریخ کو گواہ بنایا جاتا ہے، پھر وجودِ انسانی کو دلیل بنایا جاتا ہے، اور آخر میں منکر انسان کی مکمل بے بسی کو عیاں کیا جاتا ہے۔

یہ حصہ دراصل ایک مکمل “احتسابی مکالمہ” ہے جو اللہ تعالیٰ انسان سے فرماتا ہے — ماضی کی تباہ شدہ بستیاں، انسان کے حقیر آغاز، زمین کی سخاوت، اور پھر قیامت کے دن کی خاموشی — سب کچھ ایک ہی تسلسل میں سامنے آتا ہے۔

1۔ سابقہ اقوام کی تباہی  *(آیات 16 تا 18)*

(الف) پہلے جھٹلانے والوں کا انجام

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ **کیا ہم نے پہلے والوں کو ہلاک نہیں کر دیا؟** یہ سوال دراصل سوال نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت کا اعلان ہے۔ یہ انسانی حافظے کو  جھنجھوڑنے کے لیے ہے۔ قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط، آلِ فرعون — یہ سب وہ نام ہیں جو صرف قصے نہیں، بلکہ عبرت کے زندہ عنوان ہیں۔

ان قوموں کی بربادی یوں نہیں ہوئی کہ اچانک کسی قدرتی حادثے کا شکار ہو گئیں، بلکہ ہر ایک کو پہلے واضح پیغام ملا، واضح رسول ملا، کھلی نشانیاں ملیں، مہلت ملی، بار بار سمجھایا گیا۔ پھر جب انکار ضد بن گیا، تکذیب عادت بن گئی، اور ظلم نظام بن گیا — تو عذاب آیا۔

یہ آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ کا عذاب جذبات میں آ کر نہیں آتا، بلکہ مکمل عدل، مہلت اور حجت کے بعد آتا ہے۔ اللہ کی سنت یہ نہیں کہ فوراً پکڑ لے، بلکہ پہلے سمجھاتا ہے، ڈھیل دیتا ہے، مہلت دیتا ہے، پھر جب بندہ خود فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ نہیں مانے گا — تب فیصلہ نافذ ہوتا ہے۔

(ب) بعد والوں کا بھی وہی راستہ

قرآن کہتا ہے کہ **پھر ہم بعد والوں کو بھی ان کے پیچھے لگا دیں گے۔** یہ ایک نہایت خوفناک قانون ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ محض قصہ نہیں، بلکہ اصول ہے۔ جو جو قومیں وہی روش اپناتی ہیں جو پچھلوں نے اختیار کی، ان کا انجام بھی وہی ہوتا ہے۔ زمانہ بدل جاتا ہے، لباس بدل جاتے ہیں، عمارتیں بدل جاتی ہیں، مگر جب کفر، تکذیب، ظلم اور سرکشی ایک جیسی ہو جاتی ہے تو انجام بھی بدلتا نہیں۔

یہ آیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ کا قانونِ سزا کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص نہیں تھا، بلکہ ایک دائمی قانون ہے۔ جو بھی اس دائرے میں قدم رکھے گا، وہ اسی انجام سے گزرے گا۔

(ج) اللہ کا اٹل قانونِ سزا

پھر فرمایا جاتا ہے: **ہم مجرموں کے ساتھ اسی طرح کیا کرتے ہیں۔** یہ جملہ اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ کا نظام نہ جذباتی ہے نہ بے اصول۔ یہ مضبوط، منظم اور عادلانہ نظام ہے۔ مجرم چاہے کسی بھی زمانے میں ہو، کسی بھی قوم سے تعلق رکھتا ہو، کسی بھی عہد میں ہو — جب وہ جرم کو ضد، سرکشی کو اصول اور انکار کو زندگی بنا لیتا ہے تو سزا کا قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔

یہ آیات ہمیں یہ سمجھاتی ہیں کہ تاریخ کے کھنڈرات گونگے نہیں، بلکہ بولتے ہیں۔ ویران بستیاں، مٹے ہوئے شہر، زیر زمین دبے ہوئے تمدن — سب یہ پیغام دیتے ہیں کہ اللہ کے قانون سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

2۔ انسان کی تخلیق کی یاد دہانی  *(آیات 20 تا 23)*

اب قرآن انسان کو اُس کی اپنی ذات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ تاریخ کی بڑی بڑی مثالوں کے بعد اب ایک نہایت ذاتی اور انقلابی دلیل پیش کی جاتی ہے:

(الف) حقیر پانی سے پیدا کیا جانا

فرمایا گیا: **کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟** یہ سوال انسان کے تمام تکبر کو کچل دینے کے لیے کافی ہے۔ انسان جسے اپنی طاقت، علم، دولت اور اختیار پر ناز ہے — اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ اُس کی اصل کیا تھی۔ ایک ایسا قطرہ جسے خود انسان بھی ناپاک سمجھتا ہے، جسے دیکھ کر گھِن آتی ہے، جسے ضائع کر دیا جاتا ہے — اسی سے انسان وجود میں آیا۔

یہ یاد دہانی انسان کے غرور پر کاری ضرب ہے۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ خودبنیاد ہے، خودمختار ہے، کسی کا محتاج نہیں — اسے بتایا جاتا ہے کہ تیرا آغاز اتنا کمزور تھا کہ تُو خود اپنے وجود کا محافظ بھی نہ تھا۔

(ب) محفوظ ٹھکانے میں ٹھہرایا جانا

پھر فرمایا گیا کہ ہم نے اس پانی کو **ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا۔** یعنی ماں کے رحم میں۔ وہ جگہ جہاں نہ سورج کی تپش پہنچتی ہے، نہ سردی کا اثر ہوتا ہے، نہ بیرونی دنیا کی ہلچل۔ ایک ایسا اندھیرا گھر جس کے اندر روشنی کی ایک دنیا تخلیق پا رہی ہوتی ہے۔ یہ محافظ کون ہے؟ ماں نہیں، ڈاکٹر نہیں، دوا نہیں — بلکہ صرف اللہ کی قدرت۔ رحم کے اندر ہونے والی نشوونما کا ہر مرحلہ، ہر تبدیلی، ہر عضو کی تشکیل اللہ کی نگرانی میں ہوتی ہے۔ اگر اللہ ایک لمحے کے لیے بھی حفاظت نہ کرے تو پورا نظام درہم برہم ہو جائے۔

یہاں قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ جس ہستی نے تمہیں اُس ناتواں حالت میں محفوظ رکھا، وہی تمہیں قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔

(ج) ایک مقرر مدت تک پرورش

فرمایا گیا کہ ہم نے اسے **ایک مقرر مدت تک ٹھہرائے رکھا۔** یعنی حمل کا وقت، جو طے شدہ ہے۔ نہ ایک دن آگے، نہ ایک دن پیچھے۔ یہ مقرر مدت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ زندگی کا ہر مرحلہ اللہ کے ایک طے شدہ وقت کے تحت ہے۔ نہ انسان اپنی پیدائش کو ٹال سکتا ہے، نہ بڑھا سکتا ہے۔ یہی اصول موت پر بھی لاگو ہوتا ہے، اور یہی اصول قیامت پر بھی لاگو ہے۔ جس خدا نے حمل کے دن مقرر کیے، وہی موت کا دن بھی مقرر کرتا ہے، اور وہی قیامت کا دن بھی مقرر کر چکا ہے۔

(د) اللہ بہترین قدرت رکھنے والا ہے

پھر فرمایا گیا: **پس ہم نے خوب اندازے سے بنایا، اور ہم بہترین اندازے والے ہیں۔**

یہ اعلان اس حقیقت کو پختہ کرتا ہے کہ انسان کی تخلیق کوئی حادثہ نہیں، کوئی اتفاق نہیں، کوئی خودکار عمل نہیں — بلکہ ایک نہایت دقیق منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ انسان کے ہر عضو کا وزن، ہر رگ کا زاویہ، ہر آنکھ کی ساخت، ہر دل کی دھڑکن — سب کچھ ایک کامل نظام کے تحت ہے۔ جو ہستی انسان کو اس مہارت سے بنا سکتی ہے، اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے؟

3۔ زمین بطور عظیم نشانی *(آیات 25 تا 27)*

اب قرآن انسان کو اس زمین کی طرف متوجہ کرتا ہے جس پر وہ چلتا ہے، جس پر وہ گھر بناتا ہے، جس سے وہ رزق حاصل کرتا ہے، جس میں وہ اپنے مردہ دفن کرتا ہے۔ یہ زمین محض مٹی کا ڈھیر نہیں، بلکہ اللہ کی عظیم نشانی ہے۔

(الف) زندوں کا مسکن

فرمایا گیا: **کیا ہم نے زمین کو زندوں کے لیے جگہ نہیں بنایا؟** یہ زمین انسان کے لیے جائے قیام ہے۔ اسی پر اس کی زندگی رواں دواں ہے۔ اسی پر تمدن بنتے ہیں، شہر آباد ہوتے ہیں، کھیت لہلاتے ہیں، تجارتیں چلتی ہیں، بچے کھیلتے ہیں، بوڑھے سائے میں بیٹھتے ہیں۔

یہ سب کچھ ایک توازن کے ساتھ چل رہا ہے۔ نہ زمین اتنی سخت کہ کاشت ممکن نہ ہو، نہ اتنی نرم کہ چلنا دوبھر ہو۔ نہ اتنی گرم کہ جلادے، نہ اتنی سرد کہ منجمد کر دے۔ یہ اعتدال خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے پیچھے ایک حکیم ہستی کارفرما ہے۔

(ب) مردوں کی آغوش

فرمایا گیا: **اور مردوں کے لیے بھی۔** یعنی یہی زمین قبرستان بھی ہے۔ یہی زمین زندگی دیتی ہے اور یہی زمین مردوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ انسان کا آغاز بھی اسی مٹی سے ہوتا ہے اور انجام بھی اسی مٹی میں۔

یہ آیت ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ دنیا کا قیام عارضی ہے۔ یہ زمین ہمیں کچھ عرصہ کے لیے سنبھالتی ہے، پھر ہمیں اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ جس طرح ایک ماں بچے کو اپنی گود میں لیتی ہے، اسی طرح یہ زمین بھی انسان کو اُس کی موت کے بعد اپنی گود میں لے لیتی ہے۔

(ج) بلند پہاڑ

پھر فرمایا گیا کہ ہم نے اس زمین میں **اونچے اونچے پہاڑ گاڑے۔** یہ پہاڑ محض حسنِ فطرت نہیں، بلکہ زمین کے استحکام کا سبب بھی ہیں۔ یہ موسموں کو متوازن کرتے ہیں، ہواؤں کو روکتے ہیں، پانی کے ذخائر بناتے ہیں، اور زمینی پلیٹوں کو تھامے رکھتے ہیں۔

ان پہاڑوں کی ہیبت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جس خدا نے اتنے عظیم پہاڑ کھڑے کیے، وہ قیامت کے دن انہیں ریزہ ریزہ کرنے پر بھی قادر ہے، جیسا کہ حصہ اوّل میں بتایا گیا۔

(د) میٹھے پانی کے ذخائر

فرمایا گیا کہ ہم نے تمہیں **میٹھا پانی پلایا۔** پانی جس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ سمندر نمکین ہیں، مگر انسان کی ضرورت کے لیے پانی کو میٹھا بنایا گیا۔ بارشوں کا نظام، چشمے، نہریں، دریا — یہ سب ایک نہایت مہربانانہ بندوبست ہے۔

کیا انسان کبھی غور کرتا ہے کہ اگر سارا پانی نمکین ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا؟ یہ میٹھا پانی اللہ کی رحمت ہے، اور اس رحمت کے ذریعے اللہ انسان کو اپنی قدرت اور شفقت دونوں کا احساس دلاتا ہے۔

4۔ قیامت کے دن مجرموں کی بے بسی *(آیات 28 تا 33)*

اب اچانک منظر بدل جاتا ہے۔ دنیا کی نعمتیں، زمین کی مہربانی، پانی کی مٹھاس — سب پیچھے رہ جاتے ہیں، اور قیامت کے میدان میں منکرین کی مکمل بے بسی کا منظر سامنے آ جاتا ہے۔

(الف) نہ بولنے کی طاقت

فرمایا گیا: **یہ وہ دن ہو گا جس میں وہ نہ بول سکیں گے۔** دنیا میں انسان بہت بولتا ہے۔ جواز پیش کرتا ہے، تاویلیں گھڑتا ہے، بات کو گھماتا ہے، حقیقت کو چھپاتا ہے۔ مگر قیامت کے دن زبان ساتھ نہیں دے گی۔ نہ جھوٹ چل سکے گا، نہ دلیل کا پردہ ہو گا۔

اس دن انسان کے اپنے اعضا گواہی دیں گے۔ ہاتھ بولیں گے، پاؤں بولیں گے، آنکھیں بولیں گی، کان بولیں گے — مگر اپنی زبان بند ہو گی۔ یہ سب سے بڑی سزا ہے کہ انسان سچ دیکھ رہا ہو، انجام سامنے ہو، مگر اپنا دفاع بھی نہ کر سکے۔

(ب) نہ عذر کی اجازت

پھر فرمایا گیا: **اور نہ انہیں عذر پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی۔** دنیا میں انسان کو موقع پر موقع ملتا ہے کہ وہ صفائی دے، معافی مانگے، تاویل کرے، پس و پیش کرے۔ مگر قیامت کے دن تمام مہلتیں ختم ہو چکی ہوں گی۔ وہ دن عمل کا نہیں بلکہ فیصلے کا دن ہو گا۔

یہ وہ لمحہ ہو گا جب انسان سمجھے گا کہ کاش! دنیا میں ہی توبہ کر لی ہوتی، کاش! وہ بہانے جو وہ دنیا میں بناتا رہا، چھوڑ دیے ہوتے۔

(ج) نہ دلیل پیش کرنے کا موقع

فرمایا گیا: **یہ دن فیصلہ کا دن ہے، جس میں ہم نے تمہیں اور پہلوں کو جمع کر دیا۔**

یہاں عدالت کا مکمل منظر کھینچ دیا گیا ہے۔ تمام انسان ایک میدان میں جمع ہوں گے۔ نہ کوئی بھاگ سکے گا، نہ کوئی چھپ سکے گا، نہ کوئی کسی کے پیچھے کھڑا ہو کر خود کو اوجھل کر سکے گا۔

یہاں نہ وکیل ہوں گے، نہ ثبوت گھڑنے کا موقع، نہ سفارشیں چلیں گی۔ صرف اعمال کا پلڑا ہو گا، اور عدل کا فیصلہ ہو گا۔

5۔ دوسری شدید تنبیہ *(آیت 28 اور اس کے بعد کا تکراری مفہوم)*

“تباہی ہے اُس دن جھٹلانے والوں کے لیے” یہ جملہ حصہ دوم میں ایک مرتبہ پھر گونجتا ہے۔ اس کی تکرار بتاتی ہے کہ یہ محض ایک وعظی فقرہ نہیں، بلکہ قیامت کی عملی آواز ہے۔ پہلی بار یہ جملہ کائنات کی الٹ پھیر کے بعد آیا تھا۔ اب دوسری بار یہ مجرموں کی بے بسی کے بعد آتا ہے۔ یعنی پہلے بتایا گیا کہ قیامت آئے گی، اب بتایا گیا کہ جب آئے گی تو جھٹلانے والے کس حال میں ہوں گے — اور پھر فیصلہ سنایا گیا: **تباہی ہے!** یہ تباہی صرف جسمانی نہیں ہو گی، بلکہ: * عزت کی تباہی * امید کی تباہی * مستقبل کی تباہی * ہمیشہ کی تباہی

یہ وہ تباہی ہو گی جس کے بعد کوئی صبح نہیں ہو گی، کوئی نیا موقع نہیں ہو گا، کوئی دوسرا امتحان نہیں ہو گا۔

فکری اور روحانی تجزیہ (حصہ دوم)

حصہ دوم ہمیں پانچ عظیم حقائق سے روشناس کراتا ہے:

1۔ تاریخ کا اصول

اللہ کی طرف سے قوموں پر عذاب کوئی افسانہ نہیں، بلکہ ایک زندہ قانون ہے جو ہر دور میں جاری رہا ہے۔

2۔ انسان کا آغاز

انسان کا آغاز انتہائی حقیر ہے، اس لیے اس کا تکبر بے بنیاد ہے۔

3۔ زمین کی رحمت

زمین انسان کے لیے زندگی بھی ہے اور قبر بھی — اس دوہری حقیقت کو سمجھنا انسان کے لیے بیداری کا ذریعہ ہے۔

4۔ قیامت کی بے بسی

قیامت کے دن انسان کا سب سے بڑا قہر یہ ہو گا کہ وہ بول بھی نہ سکے گا، صفائی بھی نہ دے سکے گا، اور بھاگ بھی نہ سکے گا۔

5۔ بار بار کی وارننگ

قرآن کا بار بار کہنا “تباہی ہے اُس دن جھٹلانے والوں کے لیے” اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ انسان کو آخری درجے تک متنبہ کرنا چاہتا ہے۔

حصہ دوم کا مجموعی پیغام

حصہ دوم ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ: * اگر تم تاریخ نہیں پڑھتے تو اپنے وجود کو تو پڑھ لو۔ * اگر اپنے وجود پر غور نہیں کرتے تو اپنی زمین پر تو غور کرو۔ * اگر زمین پر بھی غور نہیں کرتے تو کم از کم اپنے انجام پر تو غور کرو۔

انسان کے پاس انکار کے لیے اب کوئی علمی عذر باقی نہیں رہتا۔ قرآن نے تاریخ سے بھی دلیل دی، تخلیق سے بھی، زمین سے بھی، اور قیامت کے منظر سے بھی۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے: **کیا انسان اب بھی جھٹلائے گا؟**

**حصہ سوم (آیات 36 تا 50)**

*متقین کی نجات، جنت کی نعمتیں، منکرین کی آخری رسوائی، اور قرآن سے منہ موڑنے والوں کے لیے فیصلہ کن سوال*

تمہیدی ربط (حصہ دوم سے حصہ سوم تک)

حصہ دوم میں انسان کو اس کے انجام کے انتہائی خوفناک منظر تک لا کر کھڑا کر دیا گیا تھا: نہ زبان کام آ رہی تھی، نہ عذر، نہ دلیل، نہ فرار کی کوئی راہ۔ انسان مکمل بے بسی کے عالم میں اللہ کی عدالت کے حضور کھڑا تھا۔ وہاں سے اب حصہ سوم کا آغاز ہوتا ہے، جہاں پہلی مرتبہ اس تاریک، ہولناک اور لرزہ خیز منظر میں روشنی کی ایک کرن دکھائی جاتی ہے۔ یہ کرن اُن لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے دنیا میں جھٹلایا نہیں، مانا؛ سرکشی نہیں کی، جھکے؛ تکبر نہیں کیا، عاجزی اختیار کی؛ گناہ پر اصرار نہیں کیا، توبہ کی؛ خواہش کے پیچھے نہیں چلے، حکمِ الٰہی کے تابع رہے۔

یہ حصہ دراصل دو متضاد انجاموں کا آخری اعلان ہے: ایک طرف **متقین کی کامیابی**

اور دوسری طرف **منکرین کی ہمیشہ کی رسوائی**

اور ان دونوں کے بعد پورے قرآن کی طرف آخری فیصلہ کن سوال پھینک دیا جاتا ہے:

**اگر اس کے بعد بھی نہ مانو، تو پھر کون سی بات تمہیں ہدایت دے گی؟**

1۔ متقین کی کامیابی کا اعلان *(آیات 41 تا 43 کے مضامین)*

(الف) “یقیناً متقی لوگ سایوں اور چشموں میں ہوں گے”

جب منکروں کی خاموشی، ذلت اور خوف کا منظر ختم ہوتا ہے، تو اچانک قرآن کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ سختی کے بعد نرمی، ہیبت کے بعد رحمت، گرجنے کے بعد تسلی۔ فرمایا جاتا ہے: **“یقیناً متقی لوگ سائے اور چشموں میں ہوں گے۔”**

یہ جملہ خود اپنے اندر ایک مکمل دنیا سمیٹے ہوئے ہے۔ دنیا میں متقی لوگ اکثر سختی، آزمائش، تنگی، تنہائی اور مخالفت سے گزر کر آگے بڑھتے ہیں۔ ان پر کبھی طعنے پڑتے ہیں، کبھی رزق میں تنگی آتی ہے، کبھی اپنوں کی بے رُخی سہنی پڑتی ہے، کبھی معاشرے کی طنز اور استہزاء کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر قیامت کے دن ان کے لیے سب سے پہلا انعام **سایہ** ہو گا۔

یہ کوئی معمولی چیز نہیں۔ قیامت کے دن جب سورج سروں کے بالکل اوپر ہو گا، جب زمین تپتی ہوئی ہوگی، جب پسینے میں ڈوبے ہوئے انسان اپنے اپنے اعمال کے بوجھ تلے ہانپ رہے ہوں گے — اُس دن سایہ ملنا سب سے بڑی نعمت ہو گی۔ یہ سایہ محض جسمانی نہیں بلکہ: * خوف سے سایہ * رسوائی سے سایہ * گرمی سے سایہ

* گھبراہٹ سے سایہ * تنہائی سے سایہ

یعنی متقی لوگ ہر اعتبار سے امن میں ہوں گے۔

(ب) چشموں کا ذکر — روحانی اور جسمانی تسکین

پھر فرمایا گیا کہ وہ **چشموں میں ہوں گے**۔ چشمہ ہمیشہ سے زندگی، ٹھنڈک، پاکیزگی، راحت اور تسلسل کی علامت رہا ہے۔ یہ ٹھہرا ہوا پانی نہیں جو سڑ جائے، بلکہ بہتا ہوا پانی ہے جو تازگی اور حیات دیتا ہے۔ یہ جنت کے چشمے ہوں گے:

* کبھی دودھ کے چشمے * کبھی شہد کے چشمے * کبھی شرابِ طہور کے چشمے

* کبھی خالص پانی کے چشمے

یہ صرف پیاس بجھانے کے لیے نہیں ہوں گے بلکہ روح کو ہمیشہ کے لیے سکون دینے کے لیے ہوں گے۔

دنیا میں متقی لوگ اکثر اپنی خواہشوں کو روکتے رہے، ناجائز لذتوں سے بچتے رہے، اپنی آنکھوں کو حرام سے بچاتے رہے، اپنی زبان کو گناہ سے روکتے رہے، اپنے دل کو کینہ، حسد اور غرور سے پاک رکھتے رہے — اب ان سب کا صلہ انہیں ایسی نعمتوں کی صورت میں ملے گا جن میں نہ کمی ہو گی، نہ خوف، نہ زوال۔

2۔ پاکیزہ رزق  *(آیات 42 تا 44 کے مفاہیم)*

(الف) پسند کے پھل

فرمایا گیا: **“اور وہ پھل پائیں گے جو وہ چاہیں گے۔”** یہ جملہ انسانی فطرت کو چھو لیتا ہے، کیونکہ انسان کی سب سے بڑی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اسے وہ ملے جو وہ چاہتا ہو۔ دنیا میں تو انسان بہت کچھ چاہتا ہے مگر ہر خواہش پوری نہیں ہوتی۔ کبھی مناسب وسائل نہیں ہوتے، کبھی صحت ساتھ نہیں دیتی، کبھی حالات مخالف ہو جاتے ہیں، کبھی موت آ کر تمام خواہشوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔

لیکن جنت کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں **چاہنا اور پا لینا ایک ہی لمحے میں جمع ہو جائیں گے۔** نہ انتظار ہو گا، نہ محنت کی تھکن، نہ محرومی کا ڈر۔ جنت کے پھل کوئی موسم کے پابند نہیں ہوں گے۔ نہ گرمی کا انتظار، نہ سردی کی رکاوٹ۔ جو چاہا، جیسے چاہا، جب چاہا — وہ فوراً سامنے ہو گا۔ یہ اس بات کا بھی اعلان ہے کہ متقی لوگوں کی دنیا بھر کی جائز مگر پوری نہ ہونے والی خواہشیں وہاں پوری کر دی جائیں گی۔

(ب) اطمینان کے ساتھ کھانا پینا

فرمایا گیا: **“اطمینان کے ساتھ کھاؤ اور پیو، یہ تمہارے اعمال کا بدلہ ہے۔”** یہاں “اطمینان” کا لفظ نہایت گہرا ہے۔ دنیا میں انسان کھاتا بھی ہے تو فکروں کے ساتھ:

* کبھی بیماری کا خوف * کبھی قلت کا ڈر * کبھی حرام و حلال کی آمیزش * کبھی دل کی بے چینی

لیکن جنت میں کھانا اور پینا صرف جسمانی ضرورت کا پورا ہونا نہیں ہو گا بلکہ کامل اطمینان کے ساتھ ہو گا۔ وہاں نہ بیماری ہو گی، نہ ڈر، نہ رزق کے ختم ہونے کا خوف، نہ کسی اور کے حسد کا خدشہ۔ یہ کھانا دنیا کی غذا کی طرح محض چند لمحوں کی لذت نہیں دے گا بلکہ ہر نوالہ دائمی راحت بن جائے گا۔

(ج) اعمال کا مکمل صلہ

یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ: **“یہ تمہارے اعمال کا بدلہ ہے۔”**

یعنی یہ سب کچھ کسی سفارش سے نہیں، کسی تعلق سے نہیں، کسی امتیازی سلوک سے نہیں — بلکہ خالص اعمال کے بدلے میں مل رہا ہے۔ متقی لوگوں نے دنیا میں:

* حلال کے لیے صبر کیا * حرام سے بچنے میں مشقت برداشت کی * نماز کی پابندی کی

* روزے کی شدت جھیلی * صدقے دیتے ہوئے اپنی خواہشات کو کاٹا  * ظلم کے بدلے درگزر کیا * غصے کے وقت اپنے نفس کو روکا * تکلیف میں بھی شکر کیا

اب یہ سب کچھ انہیں ایک ایک کر کے لوٹایا جا رہا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔

3۔ نیکی کرنے والوں کی شان *(آیات 44 کے مفہوم کی روح)*

قرآن یہاں ایک نہایت جامع جملہ بھی ارشاد فرماتا ہے کہ: **“یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔”** یہ جملہ دراصل صرف متقی لوگوں کے لیے نہیں بلکہ ہر اُس انسان کے لیے کھلا ہوا وعدہ ہے جو نیکی کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہ اللہ کا ایک عمومی قانون ہے، جو دنیا میں بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے اور آخرت میں اپنی مکمل شکل میں ظاہر ہو گا۔

دنیا میں نیکی کا بدلہ کبھی سکون کی صورت میں ملتا ہے، کبھی عزت کی صورت میں، کبھی کسی مشکل کے آسان ہو جانے کی صورت میں۔ مگر آخرت میں یہ بدلہ اپنی کامل شکل میں ظاہر ہو گا، جہاں نہ کوئی نقصان باقی رہے گا، نہ کوئی حسرت۔ یہاں یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں معیار: * دولت نہیں * نسب نہیں * شہرت نہیں * طاقت نہیں بلکہ معیار صرف ایک ہے: **نیکی اور تقویٰ۔**

4۔ منکرین کو آخری جھڑکی *(آیات 45 اور اس کے بعد کے مضامین)*

اب قرآن ایک بار پھر لہجہ بدلتا ہے۔ رحمت کے بعد اچانک پھر ہیبت۔ روشنی کے بعد پھر اندھیرا۔ متقین کی نعمتوں کے فوراً بعد منکرین کے لیے آخری جھڑکی دی جاتی ہے۔

(الف) دنیا میں تھوڑی سی مہلت

فرمایا جاتا ہے: **“کھاؤ، پیو، اور تھوڑا فائدہ اٹھا لو، یقیناً تم مجرم ہو۔”** یہ جملہ دنیا میں رہنے والے منکروں کے لیے ایک نہایت فیصلہ کن اعلان ہے۔ گویا انہیں صاف الفاظ میں کہہ دیا گیا: تم جو چاہو کھالو، جو چاہو پی لو، جس طرح چاہو عیش کر لو، تمہاری یہ مہلت بہت تھوڑی ہے۔

یہ اللہ کی طرف سے طنزیہ اجازت نہیں بلکہ آخری مہلت ہے۔ جسے وہ مہلت سمجھ لے، وہ بچ جائے گا۔ جو اسے ڈھیل سمجھ کر مزید سرکشی میں ڈوب جائے گا، وہ خود اپنے لیے ہلاکت لکھ لے گا

دنیا کی یہ زندگی بظاہر بڑی لگتی ہے، مگر قیامت کے مقابلے میں وہ محض چند لمحوں جیسی ہے۔ انسان یہاں کئی دہائیاں گزار دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید یہی اصل زندگی ہے۔ حالانکہ قرآن کی نگاہ میں یہ اصل زندگی کے مقابلے میں صرف ایک گزرگاہ ہے۔

(ب) مگر انجام ناقابلِ فرار

منکرین کے لیے اس مہلت کے ساتھ ہی واضح کر دیا جاتا ہے کہ تمہارا انجام ناقابلِ فرار ہے۔ نہ تم اللہ سے چھپ سکتے ہو، نہ اس کی گرفت سے بھاگ سکتے ہو، نہ موت کو ٹال سکتے ہو، نہ قیامت کو روک سکتے ہو۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کے اس اسلوب میں ایک عجیب سی تلخی اور درد جمع ہے۔ یہ تلخی نفرت کی نہیں بلکہ شفقت کے آخری اظہار کی تلخی ہے۔ جیسے کسی کو آخری بار زور سے جھنجھوڑ کر کہا جائے کہ اب بھی سنبھل جا، ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔

5۔ تیسری اور حتمی تکرار *(آیت 45 اور 47 کے مفہوم کی گونج)*

“تباہی ہے اُس دن جھٹلانے والوں کے لیے”

اس حصہ میں یہ جملہ تیسری بار پوری قوت کے ساتھ گونجتا ہے۔ اور یہ آخری تکرار اس بات کی علامت ہے کہ اب کوئی عذر، کوئی تاویل، کوئی بہانہ باقی نہیں رہا۔

پہلی بار یہ جملہ کائنات کی تباہی کے بعد آیا تھا۔ دوسری بار مجرموں کی بے بسی کے بعد آیا تھا۔ اور اب تیسری بار یہ جملہ متقین کی کامیابی کو دکھانے کے بعد آتا ہے۔

یعنی اب دونوں انجام صاف صاف سامنے رکھ دیے گئے: * نجات بھی دکھا دی * ہلاکت بھی دکھا دی اب اگر کوئی پھر بھی نہ مانے تو وہ دراصل خود اپنے لیے تباہی کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ جملہ گویا ہر منکر کے نام ایک آخری خط ہے، جس پر فیصلہ کی مہر لگ چکی ہے۔

6۔ قرآن سے منہ موڑنے والوں سے آخری سوال *(آیت 50)*

آخر میں سورۃُ المُرسَلات ایک ایسا سوال کرتی ہے جس کا جواب قیامت تک کوئی انسان نہیں دے سکتا: **“پھر اس کے بعد وہ کون سی بات ہے جس پر وہ ایمان لائیں گے؟”** یہ سوال قرآن کی طرف سے ایک کھلا ہوا چیلنج ہے۔ گویا اللہ فرماتا ہے: اگر تم نے اس قرآن کو سن کر بھی نہیں مانا، اگر یہ دل ہلا دینے والی آیات بھی تمہیں نہیں جھکا  سکیں، اگر قیامت کے یہ مناظر بھی تمہیں بیدار نہیں کر سکے، اگر تاریخ کی برباد شدہ قومیں بھی تمہیں عبرت نہ دے سکیں، اگر تمہاری اپنی تخلیق بھی تمہیں عاجزی نہ سکھا سکی، تو پھر بتاؤ… **کون سی بات تمہیں ایمان پر لائے گی؟**

اس سوال میں ایک عجیب سا قہر بھی ہے اور ایک عجیب سا درد بھی۔ یہ سوال دراصل انسان کے دل پر آخری دستک ہے۔ اگر اس دستک پر بھی دروازہ نہ کھلا، تو پھر دروازہ ہمیشہ کے لیے بند سمجھا جائے گا۔ یہ آیت دراصل اس حقیقت کو ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیتی ہے کہ قرآن آخری حجت ہے۔ اس کے بعد کوئی نیا کلام، کوئی نئی دلیل، کوئی نیا پیغام نہیں آئے گا جو اس سے بڑھ کر ہو۔

سورۃُ المُرسَلات (حصہ سوم) کا وجدانی اثر

یہ حصہ پڑھتے ہوئے ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ انسان بیک وقت دو متضاد مناظر دیکھتا ہے: ایک طرف: * سایہ * چشمے * پھل * اطمینان * صلہ * کامیابی

دوسری طرف: * مہلت * غفلت * جرم * انجام * تباہی * حسرت

یہ تقابل انسان کے دل میں ایک اندرونی جنگ پیدا کر دیتا ہے۔ انسان خود سے سوال کرنے لگتا ہے: میں کس طرف جا رہا ہوں؟ میرا انجام کس انجام سے ملتا ہے؟ کیا میں متقیوں کے راستے پر ہوں یا جھٹلانے والوں کے؟ یہی قرآن کا اصل مقصد ہے۔ وہ کہانی نہیں سناتا، وہ فیصلہ کرواتا ہے۔ وہ محض معلومات نہیں دیتا، وہ انسان کو اس کی زندگی کے بنیادی سوال کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے۔

حصہ سوم کا مجموعی پیغام

حصہ سوم ہمیں یہ فیصلہ کن حقائق عطا کرتا ہے:

  1. **تقویٰ سب سے بڑی کامیابی ہے:** دنیا میں چاہے متقی کو نقصان نظر آئے، مگر آخرت میں وہی سب سے بڑا کامیاب ہے۔

  2. **جنت کا انعام اعمال کے بدلے میں ہے:** وہاں کوئی ناانصافی نہیں، ہر چیز عدل کے مطابق ہو گی۔

  3. **دنیا کی مہلت بہت تھوڑی ہے:** منکر چاہے کتنا ہی عیش کر لے، یہ سب چند لمحوں سے زیادہ نہیں۔

  4. **جھٹلانے والوں کے لیے آخری فیصلہ آ چکا ہے:** تین بار “تباہی ہے” کہہ کر گویا آسمانی عدالت نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

  5. **قرآن کے بعد کوئی دلیل باقی نہیں رہتی:** اگر اس کے بعد بھی کوئی نہ مانے تو وہ خود کو ہدایت سے محروم کرنے والا ہے۔

سورۃُ المُرسَلات کا مکمل خلاصہ (تینوں حصوں کی روشنی میں)

سورۃُ المُرسَلات دراصل ایک مکمل قیامتی بیانیہ ہے، جس میں: * ابتدا میں کائنات کو گواہ بنا کر قیامت کی گواہی دی گئی۔ * پھر تاریخ، تخلیق اور زمین کی نشانیاں پیش کی گئیں۔

* پھر مجرموں کی بے بسی دکھائی گئی۔ * پھر متقین کی کامیابی کا منظر کھینچا گیا۔

* اور آخر میں قرآن کے بعد کسی اور دلیل کے انکار کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔

یہ سورت انسان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ:

* قیامت کوئی دور کی افسانوی بات نہیں، بلکہ وہ لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی ہے۔

* تمہاری پیدائش ہی اس بات کی دلیل ہے کہ تم دوبارہ پیدا کیے جا سکتے ہو۔

* تمہاری زمین خود تمہاری زندگی اور موت کی گواہ ہے۔

* تمہارا ہر عمل محفوظ ہے، اور اس کا فیصلہ آ کر رہے گا۔

* تمہارے سامنے دو راستے ہیں: نجات یا ہلاکت۔

* اور تم ہر لمحہ خود اپنے انجام کا انتخاب کر رہے ہو۔

**سورۃُ المُرسَلات — آج کے دور میں عملی اطلاق (مختصر رہنمائی)**

سورۃُ المُرسَلات صرف قیامت کی خبر ہی نہیں دیتی بلکہ ہمارے آج کے طرزِ زندگی کو درست کرنے کا واضح راستہ بھی دکھاتی ہے۔ اگر ہم اسے آج اپنی زندگی میں نافذ کریں تو ہمارا ایمان، کردار اور انجام تینوں سنور سکتے ہیں۔

1۔ قیامت کے یقین کو زندگی کا مرکز بنائیں

اس سورۃ کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ **قیامت ایک اٹل حقیقت ہے۔** آج اس کا عملی اطلاق یہ ہے کہ: * ہر فیصلہ یہ سوچ کر کریں کہ کل اس کا حساب دینا ہے۔ * گناہ سے پہلے یہ احساس ہو کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ * نیکی کو معمولی نہ سمجھیں، کیونکہ ہر نیکی محفوظ ہو رہی ہے۔

2۔ تاریخ سے عبرت، نہ کہ محض معلومات

پچھلی قوموں کی تباہی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ: * تکبر، ظلم اور حق کا انکار بالآخر تباہی لاتا ہے۔ * کوئی قوم ٹیکنالوجی، طاقت یا دولت کے بل پر اللہ کے قانون سے نہیں بچ سکتی۔   آج ہمیں اپنی اجتماعی زندگی میں: * ظلم کے خلاف کھڑا ہونا * حق کا ساتھ دینا

* اور باطل نظام سے فکری لاتعلقی اختیار کرنا چاہیے۔

3۔ اپنی تخلیق پر غور، غرور سے نجات

انسان کو حقیر پانی سے پیدا کیے جانے کی یاد دہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ: * غرور، انا اور خودپسندی ایمان کے دشمن ہیں۔ * عاجزی، شکر اور انکساری مومن کی پہچان ہیں۔   آج اس کا عملی تقاضا یہ ہے کہ: * ہم اپنی صلاحیتوں پر فخر کے بجائے شکر کریں۔

* دوسروں کو حقیر نہ سمجھیں۔

4۔ زمین سے فائدہ بھی، احساسِ ذمہ داری بھی

زمین کو زندوں کا مسکن اور مردوں کی آغوش کہا گیا ہے، اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ: * ہم اس دنیا کے مستقل مالک نہیں، عارضی مسافر ہیں۔ * ماحول، وسائل اور نعمتوں کا غلط استعمال دراصل ناشکری ہے۔   آج ہمیں: * فضول خرچی سے بچنا چاہیے،

* وسائل کو امانت سمجھنا چاہیے، * اور زمین کے ساتھ ظلم بند کرنا چاہیے۔

5۔ متقین کی کامیابی کو اپنا ہدف بنائیں

جنت کے سائے، چشمے اور پھل صرف ان کے لیے ہیں جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔

لہٰذا آج ہمیں: * حلال کو اختیار کرنا، * حرام سے بچنا، * نماز، روزہ اور حق العباد کی پابندی کرنا، * اور اخلاق کو اپنی زندگی کا معیار بنانا چاہیے۔

6۔ دنیا کی مہلت کو آخری موقع سمجھیں

“کھاؤ پیو اور فائدہ اٹھالو” دراصل ایک تنبیہ ہے، اجازت نہیں۔ آج ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ: * زندگی کی ہر سانس مہلت ہے، * موت کسی بھی لمحے آ سکتی ہے، * توبہ کو مؤخر کرنا سب سے بڑا خسارہ ہے۔

7۔ قرآن کو آخری حجت مان کر جینا

سورۃ کے آخری سوال کا خلاصہ یہ ہے: **اگر قرآن کے بعد بھی نہ مانا جائے تو پھر ہدایت کہاں سے آئے گی؟** آج اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ: * قرآن کو صرف تلاوت کی کتاب نہ سمجھا جائے، * بلکہ اسے ضابطۂ حیات بنا کر اپنایا جائے، * اور اپنے فیصلوں کو قرآن کے تابع کیا جائے۔

مختصر خلاصہ

سورۃُ المُرسَلات ہمیں آج کے دور میں یہ سکھاتی ہے کہ: * قیامت کو حقیقت سمجھ کر جیو، * غرور چھوڑ کر عاجزی اختیار کرو، * دنیا کو عارضی سمجھ کر آخرت کی تیاری کرو، * اور قرآن کو اپنی زندگی کا حقیقی رہنما بنا لو۔ یہی اس سورۃ کا آج کے انسان کے لیے سب سے بڑا عملی پیغام ہے۔

Loading