آپ بیتی
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ آپ بیتی۔۔۔ قسط نمبر2 )مزاج کی سنجیدگی سب کو حیرت زدہ کیے رکھتی تھی۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ ہر کام پوری ذمہ داری اور خوش اسلوبی سے ادا کیا کرتا۔ کبھی کسی کام کے لیے نہ کہنا تو جیسے اس کے مزاج میں تھا ہی نہیں۔ وہ اکثر خاموش رہتا بات کبھی کبھی ہی کیا کرتا۔ غصے والا نہیں تھا، مگر سنجیدہ مزاج تھا۔
جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا تھا مجھ پر اس بچے کا پر اسرار مزاج واضح ہوتا جاتا تھا، ایک دن باتوں ہی باتوں میں سکندر کی ماں نے اپنے ذاتی معاملات سے مجھے باخبر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے سسرالی جنونی فطرت کے لوگ ہیں، خصوصاً ان کی خواتین جن میں سے ایک نند اور جیٹھائی بہت ہی ظالم اور بے رحم خواتین ہیں۔ ان خواتین نے اپنے مردوں کے کان بھر بھر کے خاندان میں کئی نو بیاہتا جوڑوں کے گھر اجاڑے ہیں۔ انہوں نے کئی نوجوانوں کے روزگار بھی تباہ کروائے ہیں۔ ان خواتین نے بعض گھرانوں میں اولاداور والدین میں شدید لڑائیاں کروائی ہیں۔
سکندر کا والد اپنے خاندان میں ہونے والی ان کارروائیوں کو دیکھ رہا تھا، جب ان خواتین کا رخ اس کے گھر کی طرف ہوا تو وہ ان سے اچھنے کے بجائے اپنی بیوی اور بیٹے کو لے کر کراچی میں آکر آباد ہو گیا۔ وہ سکندر کو پڑھالکھاکر کسی لائق بنانا چاہتا تھالیکن انہیں گزر اوقات میں بہت مشکلات تھیں۔ اسی بہانے قدرت کا کرم ہوا کہ میرے گھر والوں نے سکندر کی تعلیم اور کھانے پینے کے اخراجات اپنے ذمے لے لیے۔
میرے والدین نے سکندر کی ذمہ داری تو لے لی لیکن خود ہمارے گھر کے حالات وقت کے ساتھ ساتھ ابتر ہوتے جارہے تھے۔ پہلے والد کا انتقال، معاشی تنگی پھر ماں کی دمے کی مہلک بیماری نے ہم سب کے حوصلے پست کر دیے۔ کسی بھی طرح سے ہم سب بہن بھائی مل کر گرہستی کی گاڑی کو صیح رہے تھے۔ ہم کل پانچ بہن بھائی تھے۔ چار بہنیں اور ایک بھائی۔ ہم سب میں ایک دوسرے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کا جذبہ تھا۔
لیکن ہم نے یہ محسوس کیا کہ ہماری کسی نہ کسی طرح غیب سے مدد ہو جاتی تھی۔ معاشی نقلی کے باوجود ہمارا کوئی ضروری کام رکا نہیں۔ ایک بات میں نے یہ نوٹ کی سکندر کے خاندان میں جن لوگوں نے بھی اس کے والدین کے ساتھ برا سلوک کیا وہ سب کسی نہ کسی قدرتی آفت یا مصیبت میں پھنے۔ مکافات عمل کا شکار ہوئے۔
وقت گزرتا رہا۔ اپنے والدین کے انتقال کے بعد ہم بہنیں اور بھائی اپنی زندگی کی گاڑی کسی طرح چلاتے چلاتے کا میابیوں کی راہ پر گامزن ہوتے گئے۔ سکندر بھی ہمارے گھر کے ایک فرد کی طرح تھا۔ وہ مشکل دنوں میں بھی ہمارے ساتھ رہ کر حصول تعلیم میں مصروف رہا۔ اس نے انٹر میڈیٹ کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا تھا۔ اب وہ انجینئر نگ اور یونیورسٹی میں داخلے کی تیاریاں کر رہا تھا۔
ایک دن میں نے سکندر سے پو چھا۔ ہمارے والدین گاؤں میں رہتے تھے۔ تمہاری والدہ نے مجھے بتایا تھا کہ اپنے خاندان کے بعض افراد کے شر سے بچنے کے لیے ہمارے والد تم دونوں کو لے کر کراچی آگئے تھے۔
سکندر نے کہا۔ جی۔
میں نے کہا سکندر مناسب سمجھو تو گاؤں کے بارے میں کچھ بتاؤ۔
اس نے کہا۔ ہمارے خاندان میں لوگوں کے گھر اجاڑ نے والے اور دیگر طریقوں سے شریف لوگوں کو پریشان کرنے والے مردوں اور خواتین کو قدرت کی طرف سے سخت سزائیں ملیں۔ میں نے اس کی بات سن کر کہا کہ چلو یہ تو ہوا لیکن ہمارے معاشرے میں تو بہت سے مجرم دندناتے پھر رہے ہیں۔ انہیں تو کچھ نہیں ہوا۔ صرف تمہیں دکھ دینے والے ہی مکافات عمل کا نشانہ کیوں بنتے ہیں۔
ہاں یہ بات ٹھیک ہے۔ جس نے بھی ہمارے اوپر ظلم کیا چند برسوں بعد وہ بر باد ہو گیا“۔
ہاں لیکن تمہارے اوپر ظلم کرنے والے ہی سزا کا نشانہ کیوں بنے….؟
میں آپ کو بتاتا ہوں۔ ہم شمالی علاقے کے ایک سر سبز و شاداب پہاڑی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ ہمارے گھر میں غربت کا ڈیرہ تھا، اسی لیے میری ماں کو گزارے کے لیے ہم بچوں سمیت کھیتوں میں کام کرناپڑتا۔
ایک دن میں کھیتوں میں کام کر رہا تھا۔ ہوائی کرتے کرتے دھیان ہی نہ رہا۔ مجھے اچانک ایک ٹھو کر لگی، میرا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ تھوڑی دیر کے لیے تو مجھے کچھ ہوش نہ رہا پھر مجھے محسوس ہوا کہ میں کسی کنویں یا غار کے قریب ہوں اس جگہ چار راستے اندر جارہے تھے۔ قریب سے جیسے کسی کے سسکنے کی سی آواز آرہی تھی، میں نے اس آواز کا تعاقب کیا، ایک عجیب سانور کا بالہ سا تھا جو میری رہنمائی کرتا ہوا اس سرے تک لے گیا اور جہاں وہ بالہ لڑکا، میں بھی وہیں رک گیا اور اس کے بعد ایک خوفناک منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا، کئی مرد جن میں زیادہ مقامی اور کچھ انگریز تھے سب ہی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ان کے اعضاء جھلسے ہوئے اور کئی کے اعضاء تو کٹے ہوئے بھی تھے۔
میں نے وہاں رک کر انہیں اس ظلم سے نجات دلانے کا سوچا، مگر جوں ہی میں ان کے نزدیک گیا تو وہاں ایک روشنی کا جما کا سا ہوا ۔ مجھے ایک آواز آئی یہ لوگ خود اپنے کیے کی سزا بھگت رہے ہیں۔“ وہاں مجھے ایک آواز آئی کہ ” یہ وہ ظالم لوگ ہیں جو اپنے محکوموں پر ناحق ظلم ڈھاتے تھے “۔ یہ سب دیکھ کر میری حالت غیر ہو گئی۔ میں ڈر۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2025
![]()

