Daily Roshni News

سورۃ المُلک — حصہ اوّل  (آیات 1 تا 10 کی تفصیلی تفسیر و فکری توضیح)

سورۃ المُلک — حصہ اوّل  (آیات 1 تا 10 کی تفصیلی تفسیر و فکری توضیح)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تمہید: نزولِ سورۃ اور اس کا پس منظر۔سورۃ المُلک مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی عظیم الشان سورت ہے۔ مکہ کا دور وہ دور تھا جب کفارِ قریش اپنی طاقت، مال، نسب، قبیلے اور ظاہری اقتدار کے گھمنڈ میں اندھے ہو چکے تھے۔ وہ رسولِ اکرم ﷺ کی دعوتِ توحید کو ٹھکرا رہے تھے، قیامت اور حساب کے منکر تھے اور زندگی کو محض دنیا کی وقتی لذت تک محدود سمجھتے تھے۔ ایسے ماحول میں یہ سورت نازل ہوئی تاکہ انسان کو یہ حقیقت بتائی جائے کہ **اصل بادشاہی کسی انسان، کسی سلطنت، کسی طاقت، کسی فوج یا کسی نظام کے پاس نہیں، بلکہ صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے۔**

یہ سورت قلبِ انسانی کو جھنجھوڑنے والی ہے۔ یہ انسان کے غرور پر ضرب لگاتی ہے، عقل کو بیدار کرتی ہے، ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے اور یہ اعلان کرتی ہے کہ جس رب نے زندگی اور موت بنائی، وہی رب جزا و سزا کا مالک بھی ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ یہ سورت عذابِ قبر سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سورۃ المُلک محض ایک فکری دعوت ہی نہیں بلکہ عملی نجات کا راستہ بھی ہے۔

آیت 1

“بڑی برکت والا ہے وہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔”

یہ پہلی آیت ہی پوری سورت کی بنیاد رکھ دیتی ہے۔ لفظ **برکت** محض خیر کے لیے نہیں آتا بلکہ ایسا دائمی خیر جو کبھی ختم نہ ہو، جو بڑھتا ہی جائے۔ اللہ کی ذات ایسی برکت والی ہے جس کی برکت نہ وقت کی قید میں ہے، نہ جگہ کی، نہ مخلوق کی محتاج۔

**بادشاہی کا مفہوم** صرف حکومت نہیں بلکہ مکمل اختیار، مکمل اقتدار، مکمل تصرّف، مکمل فیصلہ سازی اور مکمل حاکمیت ہے۔ کائنات کی ہر حرکت، ہر ٹھہراؤ، ہر زندگی، ہر موت، ہر سانس، ہر دھڑکن، ہر ستارہ، ہر سیارہ، ہر قطرۂ بارش، ہر ذرّۂ خاک — سب اسی بادشاہ کے اذن سے ہے۔

انسان اپنی چھوٹی سی حکومت، ادارے کا سربراہ بن کر، چند لوگوں پر اختیار پا کر خود کو کچھ سمجھنے لگتا ہے، جبکہ اصل سلطنت تو اسی کی ہے جو انسان کے دل کی دھڑکن کو بھی روک سکتا ہے اور جاری بھی رکھ سکتا ہے۔

یہ آیت انسان کے اندر یہ شعور پیدا کرتی ہے کہ: * اقتدار عارضی ہے * اختیار ادھورا ہے * طاقت محدود ہے * فیصلہ وقتی ہے جبکہ اللہ کی بادشاہی: * ازلی ہے * ابدی ہے

* لامتناہی ہے * ناقابلِ زوال ہے

آیت 2

“وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے، بہت بخشنے والا بھی۔”

یہ آیت انسانی زندگی کا مقصد واضح کر دیتی ہے۔ زندگی محض جینے کے لیے نہیں دی گئی، بلکہ **آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔** موت محض خاتمہ نہیں بلکہ ایک دروازہ ہے جو اگلے مرحلے کی طرف کھلتا ہے۔ یہاں زندگی اور موت دونوں کو **پیدا شدہ** کہا گیا ہے۔ یعنی موت کوئی حادثہ نہیں، کوئی اندھا دھند واقعہ نہیں، بلکہ اللہ کی تخلیق ہے۔ جیسے زندگی اللہ کی تخلیق ہے ویسے ہی موت بھی اس کی تخلیق ہے۔ انسان عام طور پر زندگی سے محبت کرتا ہے اور موت سے ڈرتا ہے، لیکن قرآن بتاتا ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے: **امتحان۔** یہ امتحان دولت کا بھی ہے، غربت کا بھی۔ صحت کا بھی ہے، بیماری کا بھی۔ اقتدار کا بھی ہے، محرومی کا بھی۔ عزت کا بھی ہے، رسوائی کا بھی۔ نوجوانی کا بھی ہے، بڑھاپے کا بھی۔

یہ آیت انسان کی نیت کو موضوع بناتی ہے: * بہتر عمل کرنے سے مراد زیادہ عمل نہیں * بہتر عمل سے مراد وہ عمل جو خالص نیت کے ساتھ ہو * وہ عمل جو اللہ کے حکم کے مطابق ہو * وہ عمل جو اخلاص سے کیا جائے

اللہ تعالیٰ کو یہ نہیں دیکھنا کہ کون زیادہ مشقت کرتا ہے بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ کون زیادہ **اطاعت** کرتا ہے۔ پھر فرمایا: **وہ زبردست بھی ہے، بہت بخشنے والا بھی۔** یہ دونوں صفات ایک ساتھ ذکر ہوئیں: * زبردستی: تاکہ انسان اللہ کی طاقت سے بے خوف نہ ہو * بخشش: تاکہ انسان اللہ کے دربار سے ناامید نہ ہو

یہ ایمان کا توازن ہے: **خوف اور امید کے درمیان۔**

آیت 3

“وہی ہے جس نے سات آسمان ایک تہہ اوپر ایک تہہ بنائے، تو رحمان کی تخلیق میں کوئی بے ربطی نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ دوڑاؤ، تمہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے؟” یہاں انسان کو کائنات پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ سات آسمان محض عددی بات نہیں بلکہ کائناتی وسعت، تہ در تہ نظام اور حیرت انگیز ترتیب کی علامت ہیں۔

اللہ تعالیٰ انسان کو چیلنج دے رہا ہے: * نظر اٹھاؤ * غور کرو * تحقیق کرو * سوچو

* کھوج لگاؤ تمہیں کہیں بھی بے ترتیبی، بے مقصدیت، بدنظمی، یا اتفاق نظر نہیں آئے گا۔ یہ آیت سائنس پر نہیں بلکہ انسان کی عقل پر دستک دیتی ہے۔ دوربین ایجاد ہو یا خوردبین، سیاروں کی گردش دیکھی جائے یا ایٹم کے ذرات کا نظام، ہر جگہ ایک نہایت منظم، مربوط اور حکیمانہ ڈھانچہ نظر آتا ہے۔ یہ نظم اس بات کی دلیل ہے کہ: * اس کائنات کا کوئی خالق ضرور ہے * وہ خالق حکیم ہے * وہ خالق قدرت کاملہ رکھتا ہے * وہ خالق بے مقصد کچھ نہیں بناتا     یہیں سے انسان کے دل میں توحید کا بیج بویا جاتا ہے۔

آیت 4

“پھر بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ تھک ہار کر ناکام واپس آ جائے گی۔”

یہ آیت انسان کی ضد کو توڑتی ہے۔ انسان کہتا ہے شاید پہلی دفعہ نہ دیکھا ہو، دوبارہ دیکھ لیں۔ اللہ فرماتا ہے: * ایک بار نہیں * دو بار نہیں * بار بار دیکھو * ہر زاویے سے جانچو * ہر سطح پر پرکھو  آخر کار تمہاری نظر: * تھک جائے گی * عاجز ہو جائے گی * شکست کھا جائے گی * اور عاجزی کے ساتھ لوٹ آئے گی

یہ آیت سکھاتی ہے کہ انسان کی عقل اپنی بلندی کے باوجود محدود ہے، جبکہ اللہ کی صناعی لا محدود ہے۔

آیت 5

“اور بے شک ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں شیطانوں کے لیے پھینکے جانے والی چیزیں بنایا، اور ہم نے اُن کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔”

یہاں ستاروں کا ذکر دو زاویوں سے کیا گیا: 1. زینت کے طور پر 2. حفاظت کے نظام کے طور پر ستارے محض خوبصورتی کے لیے نہیں بلکہ ایک کونیاتی نظام کا حصہ ہیں۔ یہ آیت انسان کو یہ بھی بتاتی ہے کہ: * کائنات میں صرف مادی نظام نہیں * روحانی نظام بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہے * نیکی اور بدی کی کشمکش صرف زمین پر نہیں، عالمِ بالا میں بھی جاری ہے شیطان کا مقصد صرف انسان کو گمراہ کرنا نہیں بلکہ وہ خود بھی ایک مجرم ہے جس کے لیے سزا تیار ہے۔ یہ آیت انسان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ: * برائی وقتی ہے * شیطان مضبوط نہیں * اس کا انجام ہلاکت ہے

آیت 6

“اور جو اپنے رب کے ساتھ کفر کریں، اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے، اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔”

یہاں انجام کا اعلان ہے۔ یہ محض ڈراؤنی بات نہیں بلکہ ایک حتمی حقیقت ہے۔ جو اپنے رب کا انکار کرتا ہے: * وہ اپنی فطرت کا انکار کرتا ہے * وہ اپنے خالق سے بغاوت کرتا ہے * وہ حقیقت سے آنکھیں بند کرتا ہے

جہنم کو **بُرا ٹھکانا** کہا گیا کیونکہ: * وہاں نہ سکون ہے * نہ نیند * نہ موت کی  راحت * نہ کسی قسم کی امید

آیات 7 تا 8

جہنم کی آواز اور اس کا جوش

جب مجرم جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کی بھڑکنے کی آواز خود ایک عذاب ہو گی۔ وہ محض آگ نہیں بلکہ: * غضب کی آگ ہے * نفرت کی آگ ہے * عدل کی آگ ہے

یہ آگ اپنے اندر ڈالے جانے والوں کو نگلنے کے لیے بے تاب ہو گی۔ گویا جہنم خود اللہ کے عدل کی آواز بن جائے گی۔

آیت 9

جہنم کے داروغوں کا سوال اور مجرموں کا اعتراف

جہنم کے نگہبان سوال کریں گے: * کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ * کیا کسی نے تمہیں خبردار نہیں کیا تھا؟ * کیا تمہیں حق کی دعوت نہیں پہنچی تھی؟ مجرم اعتراف کریں گے: * ہاں، آیا تھا * خبردار بھی کیا گیا تھا * لیکن ہم نے جھٹلا دیا * ہم نے انکار کیا * ہم نے تکبر کیا * ہم نے مذاق اُڑایا

یہ اعتراف اس بات کا اعلان ہو گا کہ انسان اپنے انجام کا خود ذمہ دار ہے۔

آیت 10

عقل سے کام نہ لینے کا انجام

دوزخی کہیں گے: * اگر ہم سنتے * اگر ہم سمجھتے * اگر ہم عقل استعمال کرتے   تو آج ہم جہنم میں نہ ہوتے۔ یہ آیت انسان کو جھنجھوڑتی ہے کہ: * سب سے بڑی نعمت عقل ہے * اس عقل کو استعمال نہ کرنا سب سے بڑی تباہی ہے

یہ آیات انسان پر یہ حقیقت کھولتی ہیں کہ جہنم حادثہ نہیں بلکہ انتخاب کا نتیجہ ہے۔

حصہ اوّل کا مجموعی پیغام

اس حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ: * کائنات کی بادشاہی اللہ کے ہاتھ میں ہے * زندگی اور موت دونوں آزمائش ہیں * کائنات ایک مکمل نظم کے تحت چل رہی ہے * شیطان کی طاقت بھی محدود ہے * کفر کا انجام جہنم ہے * انسان کی نجات عقل کے درست استعمال میں ہے یہ دس آیات انسان کے اندر: * توحید کا یقین پیدا کرتی ہیں * آخرت کا خوف جگاتی  ہیں * دنیا کی حقیقت واضح کرتی ہیں * اور غرور کو توڑ کر عاجزی سکھاتی ہیں

سورۃ المُلک — حصہ دوم (آیات 11 تا 20 کی تفصیلی تفسیر و فکری توضیح)

گزشتہ حصے سے ربط

سورۃ المُلک کے پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی **مطلق بادشاہت، تخلیقِ کائنات کے نظم، زندگی و موت کی حقیقت، شیطانی نظام، اور کفر کے انجام** سے روشناس کرایا۔ اب دوسرے حصے میں انسان کے **باطنی اعمال، اس کے خوف و یقین، اس کے رزق، اس کی زمین پر حیثیت، اور اللہ کی قدرتِ کاملہ** کا تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ انسان صرف آسمان کی طرف نہیں بلکہ اپنے نفس کی طرف بھی دیکھے۔ یہ حصہ دراصل انسان کے اندر موجود **غرور، غفلت اور خودکفالت کے وہم** کو چکنا چور کرنے آیا ہے۔

آیت 11

“پس وہ اپنے گناہ کا اعتراف کریں گے، تو لعنت ہو دوزخیوں پر”

یہ آیت پہلے حصے کے انجام کو منطقی نتیجے تک پہنچاتی ہے۔ جہنم میں جانے والے لوگ: * کسی اور پر الزام نہیں رکھیں گے * کسی تقدیر کو موردِ الزام نہیں ٹھہرائیں گے * کسی رسول پر اعتراض نہیں کریں گے

بلکہ صاف اور واضح اعتراف کریں گے کہ: **یہ ہمارا اپنا جرم تھا۔** یہ اعتراف دراصل انسان کے اس جھوٹ کو توڑ دیتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے گناہوں کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ قیامت کے دن نہ: * ماحول کا بہانہ چلے گا * نہ والدین کا عذر * نہ معاشرے کا دباؤ * نہ شیطان کی سازش

ہر شخص اپنے جرم کا خود اقرار کرے گا، اور یہی اس کا سب سے بڑا عذاب ہوگا۔ یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ: * اصل تباہی گناہ نہیں * اصل تباہی گناہ پر اصرار ہے * اصل ہلاکت توبہ سے انکار ہے  دوزخیوں پر لعنت اس لیے ہے کہ انہیں عقل دی گئی، پیغام دیا گیا، مہلت دی گئی، مگر انہوں نے سب کو ٹھکرا دیا۔

آیت 12

“بے شک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں، ان کے لیے بخشش بھی ہے اور بڑا اجر بھی”

یہاں اللہ تعالیٰ جہنم کے انتہائی خوفناک منظر کے فوراً بعد جنت کے امیدواروں کا ذکر کر کے **خوف کے ساتھ امید کو بھی زندہ رکھتا ہے۔** یہ آیت ایمان کی ایک نہایت بلند ترین کیفیت بیان کرتی ہے: **غیب میں رہتے ہوئے خوف۔**

یہ وہ لوگ ہیں: * جو اللہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے * لیکن دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں * جو تنہائی میں بھی گناہ سے بچتے ہیں * جو کسی انسان کے سامنے نہ ہوں تب بھی اللہ سے ڈرتے ہیں * جو بند دروازوں میں بھی حرام سے رک جاتے ہیں

یہ خوف: * ڈر نہیں بلکہ شعور ہے * دہشت نہیں بلکہ یقین ہے * مجبوری نہیں بلکہ محبت کے ساتھ اطاعت ہے

ایسے لوگوں کے لیے دو عظیم انعامات بیان کیے گئے: 1. **مغفرت** — یعنی گناہوں کی مکمل معافی 2. **بڑا اجر** — یعنی ایسا اجر جو دنیا کے تمام تصورات سے بڑا ہے یہ آیت ایمان کی روح کو زندہ کر دیتی ہے کہ اصل عظمت ظاہری عبادت میں نہیں بلکہ باطنی خوف میں ہے۔

آیت 13

“تم اپنی بات خواہ آہستہ کہو یا بلند آواز سے، بے شک وہ سینوں کے بھید تک جاننے والا ہے”

یہاں انسان کے نفس پر سب سے گہری ضرب لگتی ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ: * بات چھپ جائے گی * نیت چھپ جائے گی * خیال پوشیدہ رہے گا * دل کی بات کسی کو معلوم نہ ہو گی لیکن اللہ اعلان کرتا ہے کہ: * آواز کا اونچا ہونا یا نیچا ہونا برابر ہے * زبان کی حرکت ہو یا نہ ہو * لفظ ادا ہوں یا نہ ہوں * خیال صرف دل میں ہو **اللہ سب جانتا ہے۔** یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ: * اللہ صرف اعمال نہیں دیکھتا * وہ نیتیں بھی دیکھتا ہے * وہ خیالات بھی جانتا ہے * وہ دل کے پوشیدہ وسوسوں کو بھی پہچانتا ہے

یہ شعور انسان کو ریاکاری سے بچاتا ہے، دکھاوے کو توڑتا ہے، اور اخلاص کی بنیاد رکھتا ہے۔

آیت 14

“کیا وہ جس نے پیدا کیا ہے، وہ نہ جانتا ہو؟ اور وہ تو باریک بینی سے کام لینے والا، خبر رکھنے والا ہے”

یہ آیت ایک فکری سوال ہے: * جو خالق ہے، کیا وہ مخلوق سے بے خبر ہو سکتا ہے؟

* جو بنانے والا ہے، کیا وہ نظام نہ جانتا ہو سکتا ہے؟ * جو وجود میں لانے والا ہے، کیا وہ دلوں کے راز نہ جانتا ہو سکتا ہے؟

یہ انسانی عقل کے لیے ایک فیصلہ کن دلیل ہے۔ دنیا کی ہر ایجاد کا بنانے والا اپنی چیز کے ہر پرزے سے واقف ہوتا ہے، تو: **کیا انسان کا خالق انسان کے دل کی دھڑکن سے بھی بے خبر ہو سکتا ہے؟**

یہ آیت انسان کی سائنسی غرور پر بھی ضرب لگاتی ہے۔ انسان جتنا علم حاصل کرتا جاتا ہے، اتنا ہی اسے اپنی جہالت کا احساس ہونا چاہیے، کیونکہ: * علم محدود ہے * تجربہ محدود ہے * نظر محدود ہے * عقل محدود ہے جبکہ اللہ: * باریک ترین چیز کو بھی  دیکھنے والا * ہر لمحے کی خبر رکھنے والا * ہر پوشیدہ پہلو کو جاننے والا ہے

آیت 15

“وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے نرم کر دیا، سو تم اس کے راستوں میں چلو پھرو اور اس کا رزق کھاؤ، اور اسی کی طرف دوبارہ لوٹنا ہے”

یہ آیت انسان کو اس کی زمینی حیثیت یاد دلاتی ہے۔ زمین کو “نرم” کہنے کا مطلب یہ ہے کہ: * زمین رہنے کے قابل بنائی گئی * زمین پر چلنا ممکن بنایا گیا * زمین سے رزق نکالنے کی صلاحیت عطا کی گئی * زمین کو مسخر کیا گیا

اگر زمین پتھر کی ایک ٹھوس دیوار ہوتی، اگر زمین میں زلزلے ہر لمحہ آتے، اگر زمین کا درجہ حرارت بے قابو ہوتا، تو انسان کا ایک دن بھی زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ یہ سب اللہ کی رحمت اور قدرت کی دلیل ہے۔ پھر حکم دیا: **زمین میں چلو پھرو، رزق تلاش کرو۔**

یہ اسلام کی وہ عظیم تعلیم ہے جو: * سستی کو رد کرتی ہے * کاہلی کو ناپسند کرتی ہے * محنت، تجارت، زراعت اور جدوجہد کی ترغیب دیتی ہے

لیکن فوراً یاد بھی کرایا: **اور اسی کی طرف دوبارہ لوٹنا ہے۔** یعنی: * زمین تمہاری مستقل رہائش نہیں * کاروبار تمہارا اصل مقصد نہیں * دولت تمہاری آخری منزل نہیں

* قبر تمہارا پہلا پڑاؤ ہے * پھر حساب، پھر جزا یا سزا

یہ آیت انسان کو دنیا میں سرگرم بھی رکھتی ہے اور آخرت کے لیے محتاط بھی۔

آیت 16

“کیا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے، پھر وہ اچانک لرزنے لگے؟”

یہ آیت انسان کے **جھوٹے تحفظ کے احساس** کو توڑتی ہے۔ انسان سمجھتا ہے:

* میرے پاس گھر ہے * میرے پاس دیواریں ہیں * میرے پاس طاقت ہے * میرے پاس ٹیکنالوجی ہے * میرے پاس فوج ہے لیکن اللہ فرماتا ہے: **کیا تم اس سے بے خوف ہو گئے ہو جو تمہارے نیچے کی زمین کو ہی تم پر الٹ دے؟**

یہ آیت انسان کو یاد دلاتی ہے کہ: * زلزلے ایک لمحے میں شہر مٹا دیتے ہیں * زمین ایک پل میں نگل لیتی ہے * طاقتور ترین عمارتیں مٹی بن جاتی ہیں * جدید ترین نظام ناکام ہو جاتے ہیں        یہ سب آسمانی اذن کے بغیر نہیں ہوتا۔

آیت 17

“یا تم اس ذات سے بے خوف ہو گئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تم پر پتھر برسانے والی آندھی بھیج دے؟ پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا”

یہ آیت آسمانی عذاب کی ایک اور شکل بیان کرتی ہے۔ یعنی عذاب صرف زمین کے نیچے سے نہیں بلکہ: * آسمان سے بھی آ سکتا ہے * ہواؤں کی صورت * آندھیوں کی صورت

* طوفانوں کی صورت * بارش کی تباہ کن شکل میں

یہ آیت انسان کو بتاتی ہے کہ: * قدرت کے خزانے کھلے ہیں * عذاب بھی زمین کے نیچے چھپا ہو سکتا ہے * اور آسمان سے بھی برس سکتا ہے

یہ تنبیہ انسان کو غرور سے جھکنے، تکبر سے توبہ کرنے، اور طاقت کے نشے سے نکلنے کا پیغام دیتی ہے۔

آیت 18

“اور بے شک جو لوگ ان سے پہلے تھے انہوں نے بھی جھٹلایا، تو میرا عذاب کیسا تھا”

یہ تاریخ کی گواہی ہے۔ قرآن انسان کو صرف مستقبل کے عذاب سے نہیں ڈراتا بلکہ ماضی کے واقعات سے بھی تنبیہ کرتا ہے: * قومِ نوح * قومِ عاد * قومِ ثمود * فرعون

* اصحابِ مدین یہ سب قومیں: * طاقتور بھی تھیں * مالدار بھی تھیں * ترقی یافتہ بھی تھیں * تنظیم رکھنے والی بھی تھیں

لیکن جب انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تو: * زمین ان پر الٹ دی گئی * سمندر میں غرق کر دیا گیا * آواز کے عذاب سے ہلاک کیے گئے * پتھروں کی بارش سے مٹائے گئے یہ آیت اعلان ہے کہ: **اللہ کا قانون بدلتا نہیں۔**

آیت 19

“کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا جو پر کھولے اور سمیٹتے ہیں؟ انہیں رحمان کے سوا کوئی نہیں تھامے رکھتا، بے شک وہ ہر چیز کو دیکھنے والا ہے”

اب انسان کو قدرت کی ایک نہایت نرم مگر گہری نشانی دکھائی جاتی ہے: **پرندے**۔

پرندہ: * بھاری جسم رکھتا ہے * لیکن فضا میں تیرتا ہے * ہوا کے بہاؤ میں قائم رہتا ہے

* اپنے پروں کو کھولتا اور سمیٹتا ہے

یہ سب محض طبیعی قوانین نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہے۔ اگر اللہ پرندے کو تھامنے والی قوت ایک لمحے کے لیے ہٹا دے تو وہ فوراً زمین پر گر پڑے۔ یہ آیت انسان کو سکھاتی ہے کہ: * تمہاری زندگی بھی اسی طرح معلق ہے * تم بھی اللہ کے سہارا دیے بغیر ایک لمحہ زندہ نہیں رہ سکتے * تمہارا سانس بھی اسی کے سہارے چل رہا ہے

یہ آیت غرورِ انسان کو انتہائی لطیف انداز میں خاک میں ملا دیتی ہے۔

آیت 20

“بھلا وہ کون سا لشکر ہے جو رحمان کے مقابلے میں تمہاری مدد کر سکے؟ کافر تو محض دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں”

یہ آیت انسان کے طاقت کے سارے سہارے توڑ دیتی ہے۔ انسان کہتا ہے: * میرے پاس فوج ہے * میرے پاس اتحادی ہیں * میرے پاس اسلحہ ہے * میرے پاس نظام ہے * میرے پاس ٹیکنالوجی ہے اللہ سوال کرتا ہے: **وہ کون سا لشکر ہے جو تمہیں میرے مقابلے میں بچا سکے؟** یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب انسان کے پاس نہیں۔ دنیا کی تمام طاقتیں، تمام سلطنتیں، تمام اتحاد، سب اللہ کے حکم کے سامنے بے بس ہیں۔

یہ آیت کافروں کے بارے میں انتہائی فیصلہ کن بات کہتی ہے: **وہ دھوکے میں ہیں۔** وہ دھوکا یہ ہے کہ: * وہ اپنی طاقت کو اصل طاقت سمجھ بیٹھے ہیں * وہ اپنی دولت کو اصل حفاظت سمجھ بیٹھے ہیں * وہ اپنے سائنس کو اصل نجات سمجھ بیٹھے ہیں

حالانکہ: **اصل طاقت صرف اللہ کی ہے۔**

حصہ دوم کا جامع فکری خلاصہ

اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو درج ذیل عظیم حقائق سے روبرو کیا:

  1. انسان اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہے، کوئی اور نہیں

  2. غیب میں اللہ سے ڈرنے والے ہی اصل کامیاب ہیں

  3. اللہ انسان کی نیت، خیال اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے

  4. خالق اپنی مخلوق کے ہر راز سے واقف ہے

  5. زمین اللہ کی دی ہوئی سواری ہے، مالک نہیں

  6. رزق تلاش کرو مگر واپسی کو نہ بھولو

  7. زلزلہ، آندھی اور طوفان اللہ کے لشکر ہیں

  8. پچھلی قومیں تاریخ کا زندہ سبق ہیں

  9. پرندوں کی پرواز بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے

  10. کوئی فوج، کوئی طاقت، کوئی نظام اللہ کے مقابل کھڑا نہیں ہو سکتا

یہ حصہ انسان کے اندر سے:

* خودکفالت کا غرور توڑتا ہے

* دنیا پر اندھا اعتماد ختم کرتا ہے

* اللہ پر حقیقی توکل پیدا کرتا ہے

* آخرت کا یقین مضبوط کرتا ہے

سورۃ المُلک — حصہ سوم (آیات 21 تا 30 کی تفصیلی تفسیر و فکری توضیح)

تمہیدی ربط

سورۃ المُلک کے دوسرے حصے میں انسان کو اس کی باطنی حقیقت، زمین کی حیثیت، رزق کے نظام، آسمانی و زمینی عذاب کی تنبیہ، پرندوں کی مثال اور اللہ کے مقابل کسی لشکر کی بے بسی دکھائی گئی تھی۔ اب تیسرے اور آخری حصے میں اللہ تعالیٰ **ہدایت اور گمراہی کے نتائج، قیامت کے انکار کی نفسیات، ایمان والوں کا توکل، اور آخر میں پانی کی مثال کے ذریعے انسان کو اس کی بنیادی محتاجی** کا احساس دلاتا ہے۔ یہ حصہ دراصل پورے انسانیت نامے پر ایک فیصلہ کن مہر ہے۔

آیت 21

“بھلا وہ کون ہے جو تمہیں رزق دے اگر وہ اپنا رزق روک لے؟ بلکہ یہ سرکشی اور نفرت میں اور زیادہ بڑھ گئے ہیں”

یہ آیت انسان کی معاشی خودفریبی کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ: * رزق اس کی محنت سے آتا ہے * رزق اس کی تعلیم سے آتا ہے * رزق اس کے ادارے سے آتا ہے * رزق اس کی تجارت سے آتا ہے

قرآن سوال کرتا ہے: **اگر اللہ تم سے اپنا رزق روک لے تو کون ہے جو تمہیں رزق دے گا؟** یہ سوال انسان کے تمام سہارے توڑ دیتا ہے۔ دنیا کے تمام اسباب محض  **ذرائع** ہیں، اصل **رازق** صرف اللہ ہے۔ اگر اللہ: * بارش روک لے * زمین کی زرخیزی ختم کر دے * انسان کے جسم سے ہاضمہ چھین لے * عقل سے تدبیر کا نور اٹھا لے تو پورا معاشی نظام چند دن میں مفلوج ہو جائے۔

اس کے باوجود فرمایا: **یہ سرکشی اور نفرت میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔** یعنی یہ لوگ دلیل سمجھنے کے بجائے: * ضد میں بڑھ جاتے ہیں * تکبر میں اور اونچے ہو جاتے ہیں * حق سے نفرت کو اور گہرا کر لیتے ہیں

یہ انسان کی وہ نفسیات ہے جس میں اسے دلیل نہیں بلکہ انا عزیز ہوتی ہے۔

آیت 22

“بھلا وہ شخص جو منہ کے بل چل رہا ہو، زیادہ ہدایت پر ہے یا وہ جو سیدھا راستہ پر سیدھا چل رہا ہو؟”

یہ آیت ہدایت اور گمراہی کی نہایت واضح تمثیل ہے۔ منہ کے بل چلنے والا: * راستہ نہیں دیکھ سکتا * ٹھوکر پر ٹھوکر کھاتا ہے * ہر لمحہ گرنے کے خطرے میں ہوتا ہے

* صحیح سمت کا تعین نہیں کر سکتا

جبکہ سیدھا چلنے والا: * آگے بھی دیکھتا ہے * پیچھے بھی سمجھتا ہے * دائیں بائیں سے بھی باخبر ہوتا ہے * اعتماد سے منزل کی طرف بڑھتا ہے یہ مثال بتاتی ہے کہ:

* کافر صرف غلط عقیدہ نہیں رکھتا * بلکہ اس کی فکری سمت ہی الٹی ہو جاتی ہے * وہ حق کو دیکھتے ہوئے بھی انکار کرتا ہے * اور باطل کو جانتے ہوئے بھی اختیار کرتا ہے

ایمان انسان کو: * سیدھی فکر * سیدھا کردار * سیدھی زندگی * اور سیدھی موت عطا کرتا ہے  جبکہ کفر انسان کو فکری اندھے پن میں مبتلا کر دیتا ہے۔

آیت 23

“کہہ دو، وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، اور تمہیں کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے، مگر تم شکر کم ہی کرتے ہو”

یہ آیت انسان کی تخلیق اور نعمتوں کی بنیاد بیان کرتی ہے: 1. **کان** — سننے کے لیے 2. **آنکھیں** — دیکھنے کے لیے 3. **دل** — سمجھنے، فیصلہ کرنے اور ایمان لانے کے لیے

یہ تینوں اللہ کی عظیم نعمتیں ہیں۔ انسان کے پاس اگر: * کان ہوں لیکن وہ حق نہ سنے

* آنکھیں ہوں مگر نشانیوں کو نہ دیکھے * دل ہو مگر وہ سخت ہو جائے  تو وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ کی مانند ہو جاتا ہے۔

فرمایا: **تم شکر کم ہی کرتے ہو۔** یعنی: * نعمتیں بہت ہیں * شکر کم ہے * عطائیں بے شمار ہیں * مگر شکر گزار تھوڑے ہیں

یہ آیت انسان کو یہ یاد دلاتی ہے کہ شکر محض زبان سے “الحمد للہ” کہہ دینے کا نام نہیں بلکہ: * فرمانبرداری * احکام کی پابندی * اور گناہوں سے پرہیز بھی شکر ہی کی شکلیں ہیں۔

آیت 24

“کہہ دو، وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا، اور اسی کی طرف تم سب جمع کیے جاؤ گے”

یہ آیت انسان کے **آغاز اور انجام** کو ایک ہی جملے میں بیان کر دیتی ہے۔

 آغاز: * زمین میں پھیلایا گیا * نسل در نسل وجود دیا گیا * قومیں بنائی گئیں * سلطنتیں قائم ہوئیں

انجام: * سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے * کوئی قبر میں نہیں رہے گا * کوئی مٹی میں گم نہیں ہو پائے گا * کوئی تاریخ میں چھپ نہیں سکے گا

سب کو ایک دن: * میدانِ حشر میں * اللہ کے سامنے * حساب کے لیے حاضر ہونا ہے

یہ آیت انسان کو دنیا کے عارضی پھیلاؤ کے مقابل آخرت کی حتمی واپسی یاد دلاتی ہے۔

آیت 25

“اور وہ کہتے ہیں: یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو؟”

یہ کافروں کا طنزیہ سوال ہے۔ یہ سوال درحقیقت: * حق کی تلاش نہیں * بلکہ تمسخر

* استہزاء * اور انکار کی ضد ہے یہ لوگ کہتے تھے: * اگر قیامت سچی ہے تو ابھی کیوں نہیں آتی؟ * اگر عذاب سچا ہے تو ہمیں ابھی کیوں نہیں گھیر لیتا؟ یہ وہی نفسیات ہے جو ہر دور کے منکروں میں پائی جاتی ہے۔ وہ وقت کے نہ آنے کو جھوٹ کی دلیل سمجھتے ہیں، حالانکہ: **تاخیر، انکار کی دلیل نہیں، رحمت کی دلیل ہے۔**

آیت 26

“کہہ دو، اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے، میں تو صرف واضح طور پر ڈرانے والا ہوں”

یہ آیت رسول کی ذمہ داری کو واضح کرتی ہے: * رسول وقت کا مالک نہیں * رسول عذاب کا فیصلہ کرنے والا نہیں * رسول قیامت کا وقت جاننے والا نہیں * رسول صرف پیغام پہنچانے والا ہے یہ انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ: * دین کا کام تاریخوں میں الجھنا نہیں * اصل کام تیاری کرنا ہے * قیامت کب آئے گی، یہ کم اہم ہے * قیامت کے لیے ہم تیار ہیں یا نہیں، یہ اصل سوال ہے

آیت 27

“پھر جب وہ اس (عذاب) کو قریب دیکھ لیں گے تو انکار کرنے والوں کے چہرے بگڑ جائیں گے، اور کہا جائے گا: یہی ہے وہ چیز جس کا تم مطالبہ کرتے تھے”

یہ قیامت یا عذاب کے منظر کا نہایت ہیبت ناک نقشہ ہے۔ وہ لوگ جو: * دنیا میں ہنستے تھے * مذاق اڑاتے تھے * چیلنج دیتے تھے * قیامت کو جھٹلاتے تھے جب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے تو: * ان کے چہرے سیاہ پڑ جائیں گے * ان کی مسکراہٹ ختم ہو جائے گی * ان کی زبانیں گنگ ہو جائیں گی * ان کی آنکھیں خوف سے پھٹ جائیں گی

اور تب ان سے کہا جائے گا: **یہی ہے وہ جس کی تم ضد کرتے تھے۔** یہ لمحہ پچھتاوے کا ہو گا، لیکن ایسا پچھتاوا جو کسی کام نہ آئے گا۔

آیت 28

“کہہ دو، اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کر دے یا ہم پر رحم کرے، تو کافروں کو دردناک عذاب سے کون بچا سکتا ہے؟”

یہ آیت نبی اور اہلِ ایمان کے بارے میں کافروں کی ایک غلط فہمی کا رد ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ: * اگر نبی مر جائیں تو دعوت ختم ہو جائے گی * اگر اہلِ ایمان ختم ہو جائیں تو حق ختم ہو جائے گا اللہ فرماتا ہے: * مان لو نبی بھی دنیا سے چلے جائیں * مان لو اہلِ ایمان بھی فوت ہو جائیں * مان لو اللہ ہم پر رحم کرے یا ہمیں لے جائے **لیکن یہ بتاؤ کہ تمہیں اللہ کے عذاب سے کون بچائے گا؟**

یہ آیت بتاتی ہے کہ: * اسلام کسی فرد کا محتاج نہیں * حق کسی شخص کے جینے مرنے کا غلام نہیں * اصل مسئلہ تمہارا اپنا انجام ہے

آیت 29

“کہہ دو، وہی رحمان ہے، ہم اسی پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے اسی پر بھروسا کیا ہے، سو عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون کھلی گمراہی میں ہے”

یہ ایمان والوں کا اعلانِ توکل ہے۔ ہم: * رحمان پر ایمان رکھتے ہیں * اسی کو کارساز مانتے ہیں * اسی سے مدد مانگتے ہیں * اسی پر ہر حال میں بھروسا کرتے ہیں

یہ جملہ ایمان کا خلاصہ ہے: * ایمان کا مطلب صرف مان لینا نہیں * ایمان کا مطلب اللہ پر مکمل اعتماد ہے * خواہ حالات جیسے بھی ہوں * خواہ اسباب ہوں یا نہ ہوں

پھر فرمایا: **عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون ہے۔** یعنی:

* آج حق و باطل کا فرق تمہیں نہیں لگ رہا * لیکن کل میدانِ حشر میں سب واضح ہو جائے گا * آج تم ہنس رہے ہو * کل حقیقت تم پر ہنسے گی

آیت 30

“کہہ دو، اگر تمہارا پانی زمین میں گم ہو جائے تو کون ہے جو تمہارے لیے بہتا ہوا پانی لے آئے؟”

یہ سورۃ المُلک کی آخری اور سب سے زوردار دلیل ہے۔ اللہ نے انسان کو کائنات کی وسعتوں سے گھما کر اب اس کی سب سے بنیادی ضرورت پر لا کھڑا کیا ہے: **پانی**۔

پانی کے بغیر: * زندگی کا وجود نہیں * کھیتی ممکن نہیں * جانور نہیں * انسان نہیں

* تہذیب نہیں * تمدن نہیں

اللہ سوال کرتا ہے: **اگر تمہارا پانی زمین میں جذب ہو جائے، ختم ہو جائے، خشک ہو جائے، تو کون ہے جو تمہیں دوبارہ پانی لا دے؟** اس سوال کا کوئی جواب انسان کے پاس نہیں۔ نہ سائنس کے پاس، نہ ٹیکنالوجی کے پاس، نہ فوج کے پاس، نہ حکمرانوں کے پاس۔

یہ آیت انسان کو یہ آخری پیغام دیتی ہے کہ: * تم ایک گھونٹ پانی کے لیے بھی اللہ کے محتاج ہو * تم اپنی بقا کے ہر لمحے میں اللہ کے محتاج ہو * تمہاری ساری ترقی، ساری طاقت، سارا غرور ایک قطرے کے سامنے بے بس ہے

حصہ سوم کا جامع فکری خلاصہ

اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر یہ حقائق کھول دیے:

  1. رزق کا مالک صرف اللہ ہے

  2. ہدایت اور گمراہی کا فرق دن کی روشنی کی طرح واضح ہے

  3. کان، آنکھیں اور دل اللہ کی امانت ہیں

  4. زمین میں پھیلاؤ کے بعد سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے

  5. قیامت کا مذاق اڑانے والے ایک دن اسے حقیقت بنتے دیکھیں گے

  6. رسول کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا ہے

  7. عذاب جب آئے گا تو پچھتاوا بے فائدہ ہو گا

  8. اللہ پر توکل ہی ایمان کی اصل روح ہے

  9. گمراہی اور ہدایت کا فیصلہ آخرت میں کھل کر ہو جائے گا

  10. پانی کے ذریعے انسان کی کامل محتاجی کا اعلان کیا گیا ہے

سورۃ المُلک کا آخری پیغام

سورۃ المُلک انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ: * بادشاہ صرف اللہ ہے * زندگی امتحان ہے

* موت دروازہ ہے * قبر پہلا پڑاؤ ہے * قیامت حتمی حقیقت ہے * اور نجات صرف ایمان، عملِ صالح اور توکل میں ہے

یہ سورت انسان کو:

* غرور سے نکال کر عاجزی کی طرف * دنیا سے نکال کر آخرت کی طرف * غفلت سے نکال کر بیداری کی طرف * اور خود پرستی سے نکال کر خدا پرستی کی طرف لے آتی ہے

Loading