ناول: فارس (آلِ نوح)
آخری حصہ(سرکش مہرہ)
رائٹر: زیاد اصغر زارون
(آلِ نوح کی اصل اور مکمل کہانی)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اس کہانی کا آغاز یافث کی کئی پشتوں بعد ہوتا ہے، جب اس کی نسل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جو باقی سب سے یکسر مختلف تھا۔ اس کی آنکھیں گول اور روشن تھیں، ناک چھوٹی، ہونٹ ایسے جیسے کسی نے باریک سی لکیر کھینچ دی ہو، اور رنگت دودھ جیسی سفید۔ لوگوں نے اس کی غیر معمولی صورت دیکھ کر اس کا نام نوحِ ثانی رکھ دیا۔
آلِ نوح کا ماننا ہے کہ وہ نوحِ ثانی کی اولاد ہیں، اور ان کے مطابق نوحِ ثانی دنیا کا پہلا فلاسفر تھا۔
وقت گزرا اور جب تمام قبیلوں کو پھیل جانے کا حکم ملا تو نوحِ ثانی بھی اپنے بچوں اور پوتوں کو لے کر ایک انجان سفر پر نکل پڑا۔
آلِ نوح کا کہنا ہے کہ یہ قافلہ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سفر کرتا رہا
نوحِ ثانی کا پوتا… جو قبیلے کا تیسرا جانشین تھا… اپنے قافلے کے ساتھ سفر میں رواں تھا کہ راستے میں اسے ایک عورت دکھائی دی۔ وہ جسامت میں بھاری تھی مگر چہرے پر ایسی عجیب سی رونق تھی جو نگاہ کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ تیسرا جانشین اس کے حسن کا اسیر ہوگیا۔ اس نے اپنے بزرگوں سے اجازت لی اور اسی انجان عورت سے شادی کر لی۔
شادی کو تیس برس گزر گئے مگر سفر بدستور جاری رہا۔ نہ منزل کا پتہ چلتا تھا، نہ ہی نسل آگے بڑھنے کی کوئی امید تھی۔ وہ اپنے آبا کی گدی کا واحد وارث تھا، مگر اولاد نہ ہونے کی پریشانی اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔
بالآخر تیس برس بعد امید کی ایک کِرن جاگی۔ وہ فربہ عورت امید سے ہوگئی۔ وقت پورا ہوا تو ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا… ایسا بچہ جس کی دونوں آنکھیں بند تھیں، مگر ماتھے کے عین وسط میں تیسری آنکھ کھلی ہوئی تھی… وہ آنکھ جو کبھی نہیں سوتی تھی۔ اس کا جسم آرام کرتا، لیکن اس کا شعور جاگتا رہتا تھا۔
بچے کے پیدا ہوتے ہی قبیلے پر عجیب و غریب مصیبتیں نازل ہونے لگیں۔ بیماری، قحط، حادثے… جیسے آسمان ان سے ناراض ہو۔
آخرکار نوحِ ثانی ایک نیک بزرگ کے پاس مشورے کے لیے گئے۔ وہاں جو انکشاف ہوا وہ ان کی روح تک لرزا گیا۔
اس عورت کا اصل روپ ایک ڈائن جادوگرنی تھا،
اور اس کا پیدا ہونے والا بیٹا وہ قہر تھا جو آنے والے زمانوں میں دنیا پر تباہی بن کر چھانے والا تھا۔
“تم چاہو بھی تو اسے ختم نہیں کر سکو گے،”
بزرگ کی بھاری آواز میں پیشگوئی کی گونج تھی۔
“یہ بچہ شیطان کا دوسرا روپ ہے… اور اس کا سایہ دنیا کو اندھیروں میں دھکیل دے گا۔”
نوحِ ثانی صدمے سے نڈھال واپس آیا۔ اس کی آنکھوں میں خوف کی وہ پرچھائیاں تھیں جو صرف سچائی کے کڑوے انکشاف کے بعد ہی اترتی ہیں۔ اس نے اپنے بیٹے کو سارا ماجرا بتا دیا۔ دونوں نے طویل سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ ڈائن جادوگرنی اور اس کے بچے کو فوراً ایک غار میں قید کر دیا جائے، تاکہ قبیلہ اس آنے والے قہر سے محفوظ رہ سکے۔
مگر فیصلے کی خبر ملتے ہی بچے کا باپ بغاوت پر اتر آیا۔ اسے روکنے کی ہر کوشش ناکام گئی اور آخرکار اسے بھی مجبوراً اسی غار میں قید کر دیا گیا۔ یوں قافلہ ایک سیاہ باب بند کر کے دوبارہ اپنی طویل مسافت پر روانہ ہوگیا۔
وقت گزرتا رہا۔ نوحِ سوم کی بیوی نے ایک اور بچے کو جنم دیا، مگر وہ اپنے بیٹے اور پوتے کے انجام پر شدید غم و غصے میں تھی، اور یہی غصہ اس کی خباثت کی وجہ بنا۔ وہ پردے کے پیچھے اپنی نئی نسل کو قبیلے کے خلاف بھڑکاتی رہی۔ اس نے انہیں ایک خفیہ نقشہ بھی تھما دیا، ایسا نقشہ جو صحیح سمجھ میں آتے ہی چھپے ہوئے غار تک لے جاتا تھا… وہی غار جہاں ڈائن اور اس کا بچہ قید تھے۔
لمبے سفر اور بے شمار موسموں کی مسافت کے بعد آخرکار قافلہ سمندر پار کر کے ایک سرسبز و شاداب جزیرے تک جا پہنچا۔ ٹھنڈی ہواؤں، میٹھے پانی کے چشموں اور گھنے درختوں نے تھکے ماندے قافلے کو چند لمحوں کی راحت بخشی۔ انہوں نے وہیں پڑاؤ ڈال دیا۔ مگر اسی جزیرے میں نوحِ ثانی کی طبیعت بگڑ گئی۔ بیماری نے اس کے جسم کو کمزور کر دیا اور قافلے نے مزید سفر ترک کر دیا۔
اپنے پوتے کی بغاوت کے بعد نوحِ ثانی نے اپنی اولاد کو سخت قوانین دے رکھے تھے۔
قوانین اتنے سخت کہ دلوں پر ہلچل مچ جائے۔
اس نے کہا تھا،
“میری اولاد میں سے جو کوئی میرے احکامات سے روگردانی کرے، اسے قتل کر دیا جائے۔ چاہے باپ ہو یا بیٹا… جو منکر ہو، وہ زندہ نہ رہے۔”
اس اعلان کے بعد قبیلے میں ایک انجانا خوف جنم لے چکا تھا،
وفاداری اور بغاوت کے بیچ صرف ایک باریک لکیر باقی رہ گئی تھی۔
اس نے اپنی اولاد کو ہمیشہ یہ سمجھایا تھا کہ وہ سب سے الگ، سب سے مضبوط اور سب سے برتر ہیں۔
انہیں حکم تھا کہ دنیا پر نظر رکھتے رہو، مگر دنیا کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہو۔
آلِ نوح ہمیشہ سے ڈیجل کے وجود اور اُس کی تباہ کاریوں سے واقف تھے، مگر فساس نے ڈیجل کی دادی کے نقشے کا راز سمجھ کر وہ گڑبڑ کر دی جس کا اندیشہ صدیوں سے تھا… اس نے ڈیجل کو آزاد کر دیا۔
کچھ ہی صدیوں میں، فساس کی مدد سے ڈیجل نے ایک خفیہ ریاست قائم کر لی۔
رفتہ رفتہ وہ ٹیکنالوجی، ہنر اور علم میں آلِ نوح سے بھی آگے نکل گیا۔
فساس، جب نوح کا عہدہ سنبھالنے میں کامیاب ہوا تو ڈیجل پوری طرح بےخوف ہوگیا۔
اب اس کے لیے ایک ہی خطرہ باقی تھا… آلِ نوح۔
مگر وہ بھی اس کے چنگل میں آ چکے تھے۔
صدیوں سے وہ شیطان اور فرشتے کا کھیل کھیلتے آرہے تھے…
مگر اس بار، پہلی مرتبہ، اُن کا پورا کھیل بگڑ چکا تھا۔
°°°°°°°°°°
شطرنج کے مہرے
ڈیجل اور فساس نوح صدیوں سے ایک ایسی شطرنجی بساط پر آمنے سامنے بیٹھے تھے جس کے مہرے انسان تھے اور چالیں تاریخ کے دھارے بدل دیتی تھیں۔ یہ کوئی عام جنگ نہیں تھی… یہ وہ معرکہ تھا جس کی جڑیں صدیوں، قوموں اور نسلوں میں پیوست تھیں۔
فساس کے نوح بننے سے پہلے… پارس حقیقی ہیرو تھا۔ وہ اور اس کے دو نائب آلِ نوح کی ڈھال تھے، دنیا کو پوشیدہ خطرات سے باخبر رکھتے اور ہر آنے والی آزمائش کا سینہ تان کر مقابلہ کرتے۔ ان کی ذمہ داری روشنی کی حفاظت تھی، مگر جب اقتدار فساس کے ہاتھ آیا تو جنگ کی نوعیت بدل گئی۔
فساس جانتا تھا کہ وہ یہ روایت بدل نہیں سکتا، نہ ہی اسے ختم کرنے کی طاقت رکھتا تھا۔ اسی مجبوری نے اسے ڈیجل کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنے پر مجبور کیا جس نے ایک مقدس فرض کو ایک کھیل کی صورت دے دی… ایسا کھیل جس میں زندگی اور موت محض چالوں کا حصہ تھیں۔
دونوں جانب سے تین تین پیادے بساط پر اتارے جاتے۔
اس تازہ بساط میں فساس کے مہرے پارس، جمانہ اور صفوان تھے، جبکہ ڈیجل کی طرف سے مسھو، کیرمیلا اور فارس کو چنا گیا تھا۔
فارس کا کردار خاص تھا، وہ بظاہر آلِ نوح کا حمایتی تھا لیکن درپردہ ڈیجل اسے اپنا تیسرا مکمل پیادہ بنانا چاہتا تھا، اسی لیے اسے مستقبل میں دھکیل دیا گیا تھا تاکہ وہ واپس آئے تو پوری طرح اس کے زیرِ اثر ہو۔
مگر اس خاموش جنگ کی ترتیب اس وقت بگڑ گئی…
جب پارس کو وقت سے پہلے ہی اپنے باپ کی حقیقت معلوم ہو گئی۔
وہ سچ جو تقدیر نے اس کے راستے میں بہت بعد رکھنا تھا، اچانک اس کے قدموں میں آ گرا۔ اسی لمحے بساط میں پہلی دراڑ پڑ گئی۔
اور پھر… بالکل اس گھڑی جب فارس واپس لوٹنے والا تھا… پارس پر وائرس کا حملہ ہوا۔
جیسے کسی نے پوری بساط کو ایک ہی وار میں الٹ دیا ہو۔
اب یہ کھیل ان دونوں کے قابو میں نہیں رہا تھا۔
کیونکہ جب پیادے اپنے اصل سے واقف ہو جائیں… کھیل ہمیشہ بے قابو ہو جاتا ہے۔
جب مسھو اپنی خفیہ لیب سے جان بچا کر بھاگ رہی تھی، تب ڈیجل نے خود فساس کو بھیجا تھا کہ وہ اسے زندہ حالت میں واپس لائے۔ دنیا کا کوئی گوشہ اب اس کے لیے محفوظ نہیں تھا، اسی لیے فساس اسے قیدی بنا کر برف انٹارکٹیکا لے آیا۔ اسے بخوبی علم تھا کہ یہاں فارس اور پارس چاہ کر بھی مسھو کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔
پارس کا مسھو کے وائرس سے بچ نکلنا، پھر اسے باآسانی ڈھونڈ لینا اور موت کے دہانے سے پلٹ آنا… یہ سب ایسے حیرت انگیز کارنامے تھے جنہوں نے ڈیجل کو حیران بھی کیا اور متاثر بھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے فیصلہ کیا کہ پارس اب صرف ایک مہرہ نہیں رہے گا… بلکہ اس کے اپنے گروہ کا حصہ بنے گا۔
انہی دنوں ڈیجل تک اشفاق کے قصے پہنچے تھے… ایک غیر معمولی ذہین نوجوان، جس نے زمین سے دوسرے سیاروں تک پہنچنے والے مخفی خلائی دروازے دریافت کر لیے تھے۔ یہ طاقت معمولی نہیں تھی اور اس طاقت کا اصل وارث ڈیجل خود کو سمجھتا تھا۔ اس نے ہر راستے سے اشفاق تک رسائی کی کوشش کی، مگر ہر بار ناکام لوٹا۔
لیکن ایک آخری راستہ باقی تھا۔
جیسے ہی کیرمیلا نے ڈیگولر وائرس ریلیز کیا، ڈیجل نے فساس کے ذریعے فارس تک ایک تہلکہ خیز پیغام پہنچایا،
اس کائنات میں صرف ایک شخص ہے جو انہیں بچا سکتا ہے… اور وہ ہے اشفاق۔
یہ چال کاریگر ثابت ہوئی۔ فارس نے اسے سچ سمجھا اور یوں اشفاق ان کے بچھائے جال میں آ گیا۔
جب پارس اور اس کی ٹیم نے کیرمیلا پر اچانک دھاوا بولا، تو ڈیجل نے فوراً فساس کو پکارا کہ وہ اسے بچا لے۔ لیکن اس بار فساس کی پکار اور حکم کو پارس نے پیروں تلے روند دیا۔ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر، ایک وار میں، پارس نے کیرمیلا کو جہنم واصل کر دیا۔
یہ وہ منظر تھا جس نے صدیوں پر محیط بساط کی بنیادوں میں دراڑ ڈال دی۔
صدیوں میں پہلی بار ایک پارس نے بغاوت کی تھی۔
تاریخ کا ہر پارس فساس کے حکم سے لرزتا تھا، اس کی مرضی کے آگے سر جھکا کر چلتا رہا۔ لیکن فارس کا بیٹا پارس مختلف تھا۔ نہ وہ جھکنے والا تھا، نہ ہی خوف اسے قابو میں رکھ سکتا تھا۔ اس کی قوت، اس کا غصہ اور اس کی حد سے بڑھتی ہوئی خود مختاری فساس کی گرفت سے پھسلتی جا رہی تھی۔
فساس نے پہلی بار محسوس کیا کہ اسے پارس سے خوف آنے لگا ہے۔
ایک ایسا خوف جو اس کے اصل چہرے سے جڑا تھا۔
اسے ڈر تھا کہ کہیں پارس اس لبادے میں چھپی حقیقت نہ دیکھ لے،
کہیں وہ مُلا کے روپ کے پیچھے چھپا ہوا سادھو نہ پہچان لے۔
اگر ایسا ہو گیا، تو فساس کی صدیوں کی حکمرانی ایک لمحے میں زمین بوس ہو جاتی۔
اسی لیے اس نے ایک بھیانک فیصلہ کر لیا،
پارس کو ڈیجل کے سپرد کرنا ہی واحد راستہ تھا۔
°°°°°°°°°°
ایک دن قبل:
(وہ وقت جب ڈیجل نے پارس سے رابطہ کر کے انٹارکٹیکا میں حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔)
“بہت اچھے… لگتا ہے کھیل کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔”
ڈیجل کی آواز میں جوش اور وحشت ایک ساتھ گھل رہی تھی۔ پارس کی بات اس کے دل کو بھا گئی تھی، اس لیے اس نے لمحہ بھر سوچے بغیر اتفاق کیا۔
“تم فوراً واپس آؤ… اور فساس کے پورے شہر کا صفایا کر دو۔ ایک بھی شخص زندہ نہیں بچنا چاہیے۔”
پارس نے لمحہ بھر توقف کیا، پھر پرسکون لہجے میں بولا،
“کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ سب کو قیدی بنا لیا جائے؟ ہمیں اکثر مزدوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔”
ڈیجل ہنس دیا، جیسے سامنے کھڑا شاگرد اس کی توقع سے کہیں زیادہ قابل نکل آیا ہو۔
“ٹھیک ہے… تمہارا ہر لفظ دانائی سے بھرا ہے۔ تمہارے ساتھ کام کر کے واقعی مزہ آ رہا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا… جو مزاحمت کرے… اس پر رحم نہ کرنا۔”
“جو حکم، میرے گریٹ ڈیجل۔ آپ کے ہر فرمان کی تعمیل ہوگی۔”
عکس کی سطح پر یہ آخری الفاظ لرز کر مدھم ہوئے اور رابطہ منقطع ہو گیا۔ لیکن ڈیجل اب تک خاموش بیٹھا سوچ رہا تھا۔ چہرے پر چھایا اطمینان لمحہ بہ لمحہ فکر میں بدل رہا تھا۔
آخر کار اس نے آہستہ سے سر اٹھایا۔
فساس کے اس پر بے شمار احسان تھے، وہ اسے یوں مٹا نہیں سکتا تھا۔
کم از کم… سنے بغیر نہیں۔
اسی خیال کے تحت اس نے تفتیش کے ارادے سے فساس کو کال ملائی۔
فساس کے بازو پر اچانک روشنی سی لپکی اور اس کے اوپر ڈیجل کا عکس ابھر آیا۔
“گریٹ ڈیجل…! میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟”
فساس نے عاجزی سے سر جھکاتے ہوئے پوچھا تھا۔
“بکواس بند کرو!”
ڈیجل کی دھاڑ اس پرسکون فضا کو چیرتی ہوئی نکلی۔
“تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہماری سوسائٹی پر حملہ کروانے کی؟”
فساس کا رنگ یکدم اڑ گیا۔
“ک… کیا مطلب؟ کیا اینکر ویسٹ سوسائٹی پر حملہ ہوا ہے؟”
اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے قدموں تلے زمین کھینچ لی ہو۔
“زیادہ معصوم بننے کی کوشش مت کرو!” ڈیجل جھنجھلا اٹھا۔
“یہ حملہ تمہارے لوگوں نے کیا ہے۔ فارس اور اس کی ٹیم نے، کیا تم نے مجھے بے وقوف سمجھ رکھا ہے؟”
فساس نے گھبراہٹ کو نگلتے ہوئے فوراً کہا،
“اگر یہ حرکت واقعی انہوں نے کی ہے، تو میں انہیں اپنے ہاتھوں سے جہنم رسید کر دوں گا۔ آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں۔ میں نے صدیوں تک آپ کی خدمت کی ہے۔ میں آپ کو دھوکہ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیا میں نے آج تک کوئی قدم آپ کے خلاف اٹھایا ہے؟”
فساس کے آخری سوال پر ڈیجل لمحہ بھر کے لیے خاموش ہو گیا۔
اس کی نظروں میں غصے کی چنگاری سست پڑنے لگی… اور شک کی لکیریں گہری ہونے لگیں۔
“پارس اپنی پوری ٹیم کے ساتھ تمہاری قوم کے خاتمے کے لیے آرہا ہے۔ وہ تمہیں بھی مارنے کی کوشش کرے گا… لیکن تم اسے سنبھال لینا۔”
ڈیجل کی آواز میں خبردار کرنے والا وزن تھا۔
“مسھو اس کے ساتھ ہے۔ میں اسے ہدایت دے دوں گا کہ وہ تمہارے احکامات کو پارس کے احکامات پر فوقیت دے۔ یوں تم محفوظ رہو گے۔”
مسھو کا نام سنتے ہی فساس کے دل پر جیسے کسی نے تلوار چلا دی ہو۔
اس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
“ک… کیا؟” اس کی آواز کانپ گئی۔
“کیا اسے پتا چل گیا ہے کہ میں نے مسھو کو آزاد کر دیا تھا؟”
اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں۔
“نہیں، ابھی تک نہیں جانتا۔”
ڈیجل نے سرد لہجے میں جواب دیا۔
“مسھو اس کے ساتھ ماسک پہن کر رہتی ہے۔ اسے خبر نہیں کہ اس کے اپنے ہی سولجرز میں مسھو بھی شامل ہے۔”
فساس نے گہرا سانس لیا، جیسے ڈوبتا شخص پانی کی سطح پر آ گیا ہو۔
“پھر… ٹھیک ہے۔”
توقف کے بعد اس کی آواز بھاری ہو گئی۔
“کیا میری قوم کا خاتمہ ضروری ہے؟”
ڈیجل نے بغیر جھجک جواب دیا،
“پہلے ضروری نہیں تھا… لیکن اب ہے۔ اینکروسٹ سوسائٹی کی تباہی کے بعد ہمیں نئے گھر کی ضرورت ہے اور تمہاری قوم کا مسکن ہمارے لیے بہترین جگہ ہے۔”
فساس کے لب کپکپائے۔
“لیکن… میرے بیوی بچوں کا کیا ہوگا؟”
“انہیں فوراً وہاں سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر بھیج دو۔”
ڈیجل نے فیصلہ سنایا۔
“اشفاق ہماری قید سے فرار ہو چکا ہے۔ جلد یا بدیر تم بے نقاب ہو جاؤ گے۔ تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ اس جگہ سے نکل جاؤ۔”
فساس نے سر جھکا دیا، جیسے اپنی شکست خود تسلیم کر رہا ہو۔
“گریٹ ڈیجل کے حکم کی تعمیل ہوگی۔ آپ پارس کو بھیج دیں۔ تب تک میں یہاں کے حالات حملے کے لیے موافق بنا دیتا ہوں۔”
اسے آنے والے خطرے کا مکمل اندازہ ہو چکا تھا۔
لیکن اس کے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس کے بیوی بچے محفوظ رہیں۔
°°°°°°°°°°
رات کا سناٹا گہرا ہوتا جارہا تھا۔ شغدار بس اپنے کمرے کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ اچانک اس کے سامنے صفوان نمودار ہوا۔
ایک لمحے کو اس کا دل دھک سے رہ گیا، لیکن اگلے ہی لمحے اس نے بے اختیار صفوان کو گلے لگا لیا۔
“کہاں چلے گئے تھے تم؟ اور… پارس کہاں ہے؟”
اس کی آواز میں بے چینی اور محبت دونوں شامل تھے۔
صفوان کچھ دیر تک خاموشی سے اس کے گلے لگا رہا، جیسے الفاظ نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہو۔ پھر آہستہ سے الگ ہو کر قریبی صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے کی غیر معمولی سنجیدگی نے شغدار کو اور بھی بے چین کر دیا۔ وہ بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
شغدار نے دوبارہ نرمی مگر تشویش بھرے لہجے میں پوچھا،
“ہمیں لگا تھا کہ تم دونوں ڈیجل کی قید میں ہو… آخر ہوا کیا ہے؟”
صفوان نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہ ہو۔ اس کے بجائے وہ دھیمے مگر محتاط لہجے میں بولا،
“کیا فساس نوح ہماری گفتگو سن سکتے ہیں؟ کیا انہیں میرے یہاں آنے کا علم ہوجائے گا؟”
اس اچانک اور بے ربط سوال پر شغدار کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس نے فوراً نفی میں سر ہلایا،
“نہیں…! یہ میرا ذاتی گھر ہے۔ یہاں نہ کوئی نگرانی ہے، نہ فساس نوح کا کوئی عمل دخل۔ تم بلا خوف بات کر سکتے ہو۔”
صفوان نے ایک گہری سانس لی اور آہستہ سے اثبات میں سر ہلایا،
“ہممم…”
لیکن اس کے چہرے پر چھائی سنگین خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ شغدار کا اضطراب بڑھتا جارہا تھا،
لگ رہا تھا جیسے صفوان کسی نہایت خطرناک خبر کا بوجھ سینے میں دبائے بیٹھا ہے اور وہ لمحہ بس آنے ہی والا ہے جب سب کچھ بدل جائے گا۔
“تم مجھے پریشان کر رہے ہو، صفوان… آخر بات کیا ہے؟”
شغدار نے بے چینی سے پوچھا۔
صفوان نے پہلو بدلا،
“جو میں کہنے جا رہا ہوں… شاید آپ کو اس پر یقین نہ آئے۔ اور ممکن ہے کہ یہ بات آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔”
شغدار نے خاموشی سے اسے دیکھا، نگاہوں میں سوال بھی تھا اور خوف بھی۔
صفوان نے اس کی آنکھوں میں سیدھے دیکھتے ہوئے دھیمے مگر چبھتے لہجے میں کہا،
“آپ کے فساس نوح… غدار ہیں۔”
یہ لفظ شغدار کے ذہن پر دھماکے کی طرح پھٹ پڑے۔ اس کے چہرے کی پریشانی پل بھر میں غصے میں بدل گئی۔ وہ بھڑک اٹھا،
“تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟
تمہیں ہوش ہے کہ کیا کہہ رہے ہو؟ محترم نوح پر ایسا الزام؟ تمہاری جرأت کیسے ہوئی!”
صفوان کے چہرے پر نہ لرزش آئی نہ گھبراہٹ۔ اس کی سنجیدگی پہلے جیسی برقرار رہی۔
وہ پرسکون لہجے میں گویا ہوا،
“پارس اس وقت ڈیجل کی قید میں ہے… اشفاق بھی قید میں تھا۔ اور مجھے….مجھے تو صحرا میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اور…”
وہ لمحہ بھر کو رکا، پھر الفاظ نے تلوار کی طرح وار کیا،
“اشفاق نے اپنی آنکھوں سے ڈیجل اور فساس کو ایک ساتھ دیکھا تھا۔ وہ ہمیشہ سے ایک تھے، ایک ہی کشتی کے مسافر۔”
“ناممکن…!”
شغدار کے لب کپکپا اٹھے۔
“تم بکواس کر رہے ہو! ایسا ہو ہی نہیں سکتا!”
صفوان کے صبر کا پیمانہ بھی جیسے لبریز ہونے لگا تھا۔ اس کی آنکھوں میں غصے کے انگارے دہکنے لگے۔
“ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ غدار ہے۔ میں کوئی کہانی نہیں بنا رہا… جو کچھ ہوا ہے، وہ سچ ہے۔”
شغدار چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا۔ صفوان کی آنکھوں میں اٹل یقین اور پراعتمادی اسے اندر تک ہلا رہی تھی۔
بالآخر وہ دھیمے مگر تفتیشی انداز میں بولا،
“اگر وہ غدار ہوسکتے ہیں… تو میں بھی تو غدار ہوسکتا ہوں۔ کیا تمہیں اس بات کا خوف نہیں ہوا؟”
“نہیں…!”
صفوان نے مضبوطی سے سر نفی میں ہلایا۔
“آپ غدار نہیں ہیں۔ اگر آپ ہوتے… تو میں کبھی یہاں نہ آتا۔”
اس کے لہجے میں اتنا پختہ اعتماد تھا کہ شغدار چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہ کرسکا۔
“تو پھر چلو…”
شغدار آہستہ سے بولا،
“محترم فساس کی غداری ثابت کرو۔”
“مجھے ایک کمیونیکیشن ڈیوائس چاہیے۔”
صفوان نے سیدھے لہجے میں کہا۔
شغدار فوراً اٹھا، الماری کھولی اور ایک جدید ٹیب نما ڈیوائس نکال کر صفوان کے حوالے کردی۔ اس کے چہرے پر تجسس صاف دیکھا جا سکتا تھا۔
صفوان نے کچھ دیر ڈیوائس پر مخصوص کوآرڈینیٹس درج کیے، پھر اسے اپنے سامنے رکھ کر خاموشی سے انتظار کرنے لگا۔
شغدار کی نظریں مسلسل صفوان کی حرکات پر جمی تھیں۔ ہر گزرتا لمحہ اس پر بوجھ بن رہا تھا۔
فساس نوح جیسے مقدس رہنما پر غداری کا الزام… یقین کرنا ناممکن تھا اور صفوان کی زبان سے سن کر اسے جھٹلانا بھی مشکل تھا۔
چند لمحوں بعد ڈیوائس پر ویڈیو کال موصول ہوئی۔
“میرے قریب آجائیں۔”
صفوان نے اشارہ کیا۔ شغدار فوراً اس کے پاس بیٹھ گیا۔
کال کنیکٹ ہوئی تو اسکرین پر پارس کا سخت، سنجیدہ چہرہ نمودار ہوا۔ بیک گراؤنڈ سے واضح تھا کہ وہ کسی جہاز یا اسپیس شپ میں موجود ہے۔
“کیسے ہیں، شغدار صاحب؟” پارس نے رسمی سنجیدگی سے پوچھا۔
شغدار نے ضبط کرتے ہوئے غصے سے کہا،
“یہ صفوان کیا بکواس کر رہا ہے؟”
پارس نے ایک گہرا سانس لیا اور مسلسل سوالات کی بارش کردی، ہر سوال فساس کے کردار میں ایک نئی دراڑ ڈال رہا تھا،
“فساس صاحب کو کس نے بتایا کہ مسھو بھاگ کر کس جھیل میں ظاہر ہوگی؟
جیسے ہی کیرمیلا ہمارے قابو میں آئی… فساس کو فوراً خبر کیسے ہوگئی؟
اس نے کیرمیلا کو انٹارکٹیکا لانے کا حکم کیوں دیا؟
وہ اسے آخر کس کے کہنے پر بچا رہا تھا؟
اور جب اسے پتا چلا کہ میں ڈیجل کے بارے میں جان چکا ہوں… تو ہم غیر متعلقہ جگہوں پر اچانک ٹیلی پورٹ کیسے ہوگئے؟”
پارس اپنی بات ختم کرکے خاموش ہوگیا۔
کمرے میں سناٹا گہرا ہونے لگا۔
شغدار کے چہرے پر حیرت، انکار اور بے یقینی سب ایک ساتھ تیر رہے تھے
جبکہ صفوان کے چہرے پر وہی ازلی، اٹل سکون قائم تھا۔
پارس نے دھیمے مگر یقین سے بھرپور لہجے میں بات آگے بڑھائی،
“شک کو یقین میں بدلنے کے لیے یہی شواہد کافی تھے… لیکن اندھی عقیدت کی پٹی میری آنکھوں سے اس وقت گری، جب اشفاق نے بتایا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے ڈیجل اور فساس کو ایک ساتھ دیکھا ہے۔”
شغدار کے چہرے پر کشمکش کی پرچھائیاں گہری ہوتی گئیں۔
“میرے لیے یہ ماننا بہت مشکل ہے۔ اور اگر میں مان بھی لوں… تو بغیر ٹھوس ثبوت کے پورے شہر کو کیسے یقین دلاؤں؟ یہ ناممکن ہے۔”
“ڈیجل سمجھتا ہے کہ میں اس کا ساتھی بن چکا ہوں… کہ میں پوری طرح اس کے نظام کا حصہ بن گیا ہوں۔
اینکروسٹ سوسائٹی کے برباد ہونے کے بعد اب وہ اپنا نیا مسکن آپ کے شہر کو بنانا چاہتا ہے۔”
وہ لمحہ بھر کو رکا،
“اور اسی مقصد کے لیے وہ مجھے آپ کے شہر میں بھیج رہا ہے… اور میں واقعی آرہا ہوں۔”
شغدار کے دل میں خوف کی تیرتی لہر صاف محسوس ہوئی۔
“تمہارا ارادہ کیا ہے؟”
اس نے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے پوچھا۔
پارس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا،
“میں نے اسے منا لیا ہے کہ شہر کے لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ مزید یہ کہ میں نے اسے یقین دلا دیا ہے کہ اس کی مسکن گاہ پر حملے کا پورا منصوبہ فساس نے بنایا تھا۔
میرے ساتھ کچھ کمانڈوز ہوں گے… وہ سب میرے حکم کے تابع ہیں۔”
“نہیں… ہرگز نہیں!”
شغدار کی آواز میں گھبراہٹ اور غصہ ایک ساتھ لرز اٹھے۔
“انہیں شہر میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں… کبھی نہیں۔”
اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ شہر کی حفاظت اس کے لیے عقیدے کا درجہ رکھتی ہے… اور کسی بھی دشمن کمانڈو کے قدم اس سرزمین پر برداشت کرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔
پارس نے مضبوط مگر تسلی آمیز لہجے میں کہا،
“اگر میں نہ آیا تو کوئی اور آئے گا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ مجھے ہی آنے دیں۔
باقی پریشان مت ہوں… کمانڈوز کے تمام ہتھیاروں کا کنٹرول میرے ہاتھ میں ہوگا۔ میں انہیں کسی صورت خون خرابہ نہیں کرنے دوں گا۔ آپ دونوں نے بس ایک کام کرنا ہے۔”
شغدار کے چہرے پر تجسس ابھرا۔
“کیسا کام؟”
پارس نے آہستہ سے سمجھایا،
“بلٹ پروف جیکٹ پہن لیجیے گا… اور فساس کے بلکل قریب رہیے گا۔ جب اسے یقین ہوجائے گا کہ آپ دونوں مارے جا چکے ہیں تو میں باتوں ہی باتوں میں اس کی اصلیت اگلوا لوں گا۔ بس دھیان رہے… کسی کو بھی شک نہ ہو کہ آپ دونوں میرے منصوبے سے آگاہ ہیں۔”
شغدار نے فکر کے ساتھ اسے دیکھا،
“دھیان رکھنا پارس…! ہمارے لوگوں کو کسی مشکل میں مت ڈالنا۔”
پارس کے چہرے پر ہلکی سی پُراعتمادی جھلکی،
“آپ بالکل بے فکر رہیں۔ سب میری ذمہ داری ہے۔ آپ کے وقت کے مطابق ٹھیک صبح سات بجے ہم حملہ کریں گے۔ اور… ایک بات بہت اہم ہے۔”
وہ صفوان کی طرف متوجہ ہوا،
“کمانڈوز یا فساس کے سامنے یہ ظاہر نہ ہونے دینا کہ تم دونوں کی موت ڈرامہ تھی۔ مجھے واپس ڈیجل کے پاس جانا ہے… اور پلٹنے سے پہلے ایک بہت اہم کام ابھی باقی ہے۔ اس کام کے لیے ان کا اعتماد قائم رہنا ضروری ہے۔”
صفوان گھبرا کر بولا،
“کیسا کام؟”
اس کی آواز میں بے چینی تھی… جیسے اسے یقین ہو گیا ہو کہ پارس اب دلدل سے نکلنے کے بجائے پھر اسی اندھیرے میں قدم رکھ رہا ہے۔
پارس کے چہرے پر سنجیدگی کی ایک تہہ گہری ہو گئی،
“ابھی نہیں بتا سکتا… لیکن وہ کام میری آزادی اور زندگی دونوں سے زیادہ اہم ہے۔ اور جیسے ہی…”
وہ اچانک رکا۔ نظریں دروازے کی طرف اٹھ گئیں۔
چہرے پر ایک لمحے کو اضطراب چمکا۔
“کوئی آ رہا ہے… محتاط رہنا تم دونوں۔”
یہ کہہ کر اس نے فوراً کال کاٹ دی۔
شغدار کے چہرے پر بے یقینی، حیرت، پریشانی اور تجسس ایک ساتھ ہجوم کیے کھڑے تھے۔
دل ماننے پر آمادہ ہی نہیں تھا کہ تین صدیوں سے جسے وہ اپنا بادشاہ، اپنا رہنما سمجھتے آئے تھے… وہ کبھی ان کا تھا ہی نہیں۔
اور دماغ مسلسل اس کے برعکس دلائل دے رہا تھا۔
فضا جیسے بوجھل ہو گئی تھی، صورتحال ہر طرف سے الجھ کر اس کے گرد گھیرا بنا رہی تھی۔
وہ بمشکل زبان کھول سکا،
“کیا فارس کو اس بارے میں پتا ہے؟”
صفوان نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا،
“نہیں…! وہ تو آپ سے بھی زیادہ فساس کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ انہیں کسی منصوبے میں شامل نہیں کیا گیا۔”
پھر وہ آہستہ سے کھڑا ہوا،
“اور میں ابھی انہی کے پاس سے آرہا ہوں۔”
شغدار بھی فوراً کھڑا ہوگیا، اس کا لہجہ تشویش بھرا تھا،
“تمہارے علاوہ اور کون جانتا ہے فساس کے بارے میں؟”
“صرف اشفاق… لیکن اس نے بھی سب کچھ، ابھی راز میں رکھا ہے۔ جتنے کم لوگ جانیں، اتنا ہی بہتر ہے۔”
صفوان نے پُرسکون لہجے میں جواب دیا۔
شغدار نے گہری سانس کھینچی، جیسے کسی بڑے فیصلے کا بوجھ اپنے اندر اتار رہا ہو،
“صحیح کہا۔ خیر…! تم اب جاؤ۔ میں صبح پارس کے آنے سے دس پندرہ منٹ پہلے فساس کے پاس چلا جاؤں گا۔ تمہیں سگنل بھیج دوں گا، اس کے بعد تم بھی آجانا۔ فساس کو یہی لگنا چاہیے کہ ہم اتفاقاً وہاں موجود تھے۔”
صفوان نے اثبات میں سر ہلایا۔
اس کے چہرے پر ایک عجیب سا عزم تھا… اور اگلے ہی لمحے ہلکی چمک سی لپکی اور وہ وہیں سے ٹیلی پورٹ ہو کر غائب ہوگیا۔
°°°°°°°°°°
حالیہ دن:
فارس، رباب اور نوال خاموشی سے گاڑی میں بیٹھے ایئرپورٹ سے نکل کر گھر کی طرف رواں دواں تھے۔ تینوں صفوان اور شغدار پر آئے طوفان سے یکسر بےخبر تھے۔ انہیں یہ اندازہ تک نہ تھا کہ بستی آلِ نوح پر کیسی قیامت ڈھائی جا رہی ہے، بچے، عورتیں، بوڑھے… ہر ایک کو بےدردی سے کاٹا جا رہا تھا اور وہاں کی فضا چیخوں سے لرز رہی تھی۔
مگر فارس کی سوچیں اس سب سے بہت دور تھیں۔ اس کے ذہن میں صرف پارس کا نام گھوم رہا تھا۔ پارس کی یاد کے ساتھ ہی آئزہ کا چہرہ جیسے زبردستی اس کے ذہن کے پردے پر ابھر آتا اور اس کے دل کی تکلیف کو دوچند کر دیتا۔ شدید ذہنی کرب نے اسے یکدم خاموش کر دیا۔ آنکھوں میں تیرتی نمی آہستہ آہستہ باہر آنے کو بےتاب تھی۔
نوال نے سب سے پہلے اس کی آنکھوں کی نمی دیکھی۔
“کیا ہوا انکل؟ کوئی پریشانی ہے کیا؟” اس نے نرمی اور ہمدردی سے پوچھا۔
فارس پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا،
“پارس کی جدائی سے بڑی پریشانی اور کیا ہو سکتی ہے؟”
نوال کے پاس اس دکھ کا کوئی جواب نہیں تھا۔ نہ حوصلہ دینے کے الفاظ تھے اور نہ ہی اتنی ہمت کہ پارس کی غداری پر افسوس کا اظہار کر سکے۔ وہ خاموشی سے سر جھکا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
اس کے بعد سارے راستے پر گہری خاموشی چھائی رہی، ایسی خاموشی جو اندر کے شور کو اور بھی بڑھا دیتی ہے۔
°°°°°°°°°°
دروازے پر بیل کی آواز گونجی تو البیلا گھبراہٹ میں لپکتے ہوئے دروازے تک آئی۔
“کون ہے؟” اس نے دروازہ کھولنے سے پہلے سوال کیا۔
“بیٹا، دروازہ کھولو…”
فارس کی آواز پہچانتے ہی البیلا نے فوراً کنڈی گھما دی۔ دروازہ کھلا تو سامنے فارس کے ساتھ نوال، رباب اور اشفاق خاموش کھڑے تھے۔ چاروں کے چہروں پر تھکن، صدمہ اور گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ بغیر کچھ کہے اندر داخل ہوگئے۔
فارس کی آواز سن کر جمانہ کمرے سے تقریباً دوڑتی ہوئی باہر آئی۔
“بابا…! آگئے آپ؟ پارس کہاں ہے؟”
اس کے لہجے میں خوشی اور بےصبری صاف جھلک رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ پارس بھی ساتھ آیا ہوگا اور شاید سرپرائز دینے کے لیے باہر دروازے کے پیچھے چھپا کھڑا ہوگا۔
“پارس نہیں آیا…”
فارس نے نظریں چرا کر، ہونٹ بھینچتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
“آپ مذاق کر رہے ہیں نا؟”
جمانہ نے ایک نظر فارس پر ڈالی، پھر فوراً دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بولی،
“مجھے پتا ہے وہ باہر کھڑا ہے… بس ایک منٹ، میں اسے لے کر آتی ہوں۔”
وہ ہنستی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی۔ یہ تو مککن ہی نہیں تھا کہ اشفاق کو آزاد کروا لیا جاتا اور پارس کو پیچھے چھوڑ دیا جاتا۔
لیکن اگلے ہی لمحے فارس کی آواز گونجی… سخت، کڑوی اور ٹوٹتی ہوئی،
“کیا میں بکواس کر رہا ہوں؟”
جمانہ کے قدم یکدم رک گئے۔ وہ پتھرائی ہوئی کھڑی رہ گئی۔
پہلی بار فارس نے اس سے اتنے سخت لہجے میں بات کی تھی۔
پارس کی آمد کا اس کا مضبوط یقین… پل بھر میں ریت کی طرح بکھر گیا۔
“نہیں آئے گا پارس…!”
فارس کی آواز بھرا گئی، جیسے گلے میں کوئی کڑوا گھونٹ اٹک گیا ہو۔
“اس نے ڈیجل سے ہاتھ ملا لیا ہے… کُتا بن گیا ہے وہ ڈیجل کا!”
یہ کہتے ہی اس کی آنکھوں سے بےقابو آنسو بہہ نکلے۔
جمانہ نے صدمے، حیرت اور بےیقینی میں سب کے چہروں کو باری باری دیکھا۔
“وہ نہیں آئے گا… کبھی واپس نہیں آئے گا…”
فارس کی چیخ نما آواز کمرے میں گونج گئی۔
“میں نے… میں نے پارس کو کھو دیا ہے!”
وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
اشفاق نے فوراً آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا اور صوفے پر بٹھا دیا، مگر فارس کے ضبط کا بند ٹوٹ چکا تھا۔
“بیس سال… بیس سال میں اس سے دور رہا….”
اس کی ہچکیوں میں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی بازگشت تھی۔
“پارس کی حفاظت کے لیے دور رہا… مجھے یقین تھا کہ میں اسے بچا لوں گا… مجھے یقین تھا کہ وہ نہیں مرے گا… کہ میں اسے کبھی مرنے نہیں دوں گا!”
ہر لفظ دل چیر دینے والا تھا۔
اولاد کے غم نے فارس کو اندر تک توڑ دیا تھا۔
اچانک اس نے آنسو پونچھے اور چہرے پر ایک عجیب، خوفناک سا جلال اتر آیا۔
“مگر اب… اب میں اسے نہیں بچاؤں گا۔”
اس کے لہجے میں درد نہیں، پتھر جیسی سختی تھی۔
“بلکہ میں ہی اسے جہنم رسید کروں گا۔ اپنے ہاتھوں مار ڈالوں گا اس شیطان کو!”
یہ کہہ کر وہ جھٹکے سے اٹھا اور تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
پارس کتنا بھی غلط کیوں نہ ہو جاتا… جمانہ کے لیے وہ ہمیشہ ایک فرشتہ تھا۔
وہ اس کی موت کے تصور سے بھی ٹوٹ جاتی تھی، مگر ساتھ ہی وہ فارس کے ارادے کو بھی جانتی تھی… اس کے غصے کی آخری حد کو بھی۔
چہرے پر دہشت لئے وہ بھی فوراً کمرے کی طرف لپکی۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ اندر سے بند کیا، ٹیلی پورٹڈ گلاسز پہنے اور کلائی پر موجود گھڑی کی اسکرین فعال کی۔
بستی آلِ نوح کی لوکیشن سیٹ کرتے ہی
ایک نیلی چمک ابھری،
اور اگلے لمحے جمانہ ٹیلی پورٹ ہو کر انٹارکٹیکا پہنچ چکی تھی۔
°°°°°°°°°°
انٹارکٹیکا
ہر طرف انسانی لاشے بکھرے پڑے تھے۔
خون اس طرح پھیلا ہوا تھا جیسے پوری بستی پر خونی بارش برس چکی ہو۔
بچے، عورتیں، بوڑھے… سب ایسے پڑے تھے جیسے زندگی یک دم ان کے جسموں سے چھین لی گئی ہو۔
حفاظتی دستہ، جو کبھی ایک مضبوط دیوار سمجھا جاتا تھا، ہتھیاروں سمیت ایسے بکھرا پڑا تھا جیسے کسی بے رحم طوفان نے سوکھے پتوں کو ادھیڑ کر زمین پر پھینک دیا ہو۔
یہ منظر… یہ قیامتِ صغریٰ…
جمانہ کی برداشت سے کہیں زیادہ تھا۔
دل دہلانے والی خاموشی میں کھڑی وہ سانس لینا تک بھول گئی۔ اس کے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے تھے، مگر خوف کا زہر پورے جسم میں پھیل چکا تھا۔
پل بھر میں وہ وہیں سے ٹیلی پورٹ ہوکر واپس گھر پہنچی۔
جیسے ہی موجودگی بدلی، وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔
چند لمحے پہلے ہی تو وہ گئی تھی،
البیلا چائے بنانے کی خاطر کچن میں تھی اور طلال مہمانوں کے ساتھ پرسکون لہجے میں گفتگو کر رہا تھا۔
مگر جمانہ کی دہشت بھری چیخ نے پورے گھر کا سکون چکنا چور کر دیا۔
“بابا…! بابا…! غضب ہوگیا بابا!”
وہ ہذیانی کیفیت میں چیخ رہی تھی، سانس پھولی ہوئی، آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی۔
اس آواز نے سب کو جھنجوڑ کر رکھ دیا،
اور کمرے میں غم سے ٹوٹا بیٹھا فارس، جیسے کسی نے اس کے دل میں خنجر گھونپ دیا ہو، بجلی کی سی تیزی سے باہر نکلا۔
“کیا ہوا جمانہ؟”
نوال اور رباب یک دم اس کے اردگرد جمع ہوگئیں۔ جمانہ کا پورا وجود لرز رہا تھا، سانس بے ربط، آنکھیں دہشت سے پھیلی ہوئی۔
“وہ… وہ… وہاں… سب مر گئے…”
اس کی آواز ٹوٹ رہی تھی، الفاظ پوری طرح زبان ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
“سب کو مار دیا… سب کو… کوئی بھی نہیں بچا…”
فارس بھی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس کے پاس آ گیا۔
“کیا ہوا؟ کون مارا گیا؟ صاف صاف بتاؤ!”
اس کے لہجے میں خوف اور بےبسی گھل چکی تھی۔
“وہ… وہ آلِ نوح… وہاں بستی میں…”
جمانہ کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
“سب کو… سب کو مار دیا کسی نے… ایک بھی نہیں بچا…!”
فارس کے لیے یہ الفاظ قیامت سے کم نہ تھے۔
یوں لگا جیسے کسی نے اس کی چھاتی چیر کر دل انگارہ کر دیا ہو۔
وہ اچانک لڑکھڑایا، پھر پلٹا اور دیوانہ وار بیرونی دروازے کی طرف بھاگ پڑا۔
اشفاق، رباب اور نوال… سب اس کے پیچھے دوڑتے گئے۔
فارس کا رخ سیدھا خفیہ ہال کی طرف تھا۔
اس کے ذہن میں بس ایک ہی خیال تھا، انٹارکٹیکا واپس جانا ہوگا… ابھی، اسی وقت۔
لیکن مسئلہ سنگین تھا…
ان کے پاس صرف دو ٹیلی پورٹڈ گھڑیاں باقی تھیں۔
ایک صفوان لے گیا تھا اور دوسری اس وقت جمانہ کے پاس تھی۔
اب انٹارکٹیکا پہنچنے کا واحد راستہ ٹیلی پورٹڈ مشین تھی جو ہال میں خاموش کھڑی تھی۔
فارس تیز قدموں سے ہال میں داخل ہوا، جیسے وقت اس کے ہاتھوں سے پھسل رہا ہو اور ہر گزرتا لمحہ اس کے پیاروں کی لاشوں کا بوجھ بن کر اس کے دل پر گر رہا ہو۔
°°°°°°°°°°
جاری ہے…
#زائپس #ZIPES #زیاداصغرزارون
![]()

