سلسلہ عظیمیہ کا پیغام تعلیمات اور تربیتی نظام
تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پیشکش ۔۔۔انجنیئر سہیل احمد عظیمی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سلسلہ عظیمیہ کا پیغام تعلیمات اور تربیتی نظام۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی)انسان کی اصل کامیابی اپنے باطن کی تعمیر اور روحانی شعور کے ارتقاء میں مضمر ہے۔ قرآن پاک کی آیات میں غور و فکر اور حضور نبی اکرم کے
ارشادات کی روشنی وہ ذریعہ ہے جس من عظیم کا پیغام کے ذریعے انسان اپنی ذات کو پہچانتا اور اپنے رب کی معرفت حاصل کرتا تعلیمات اور تربیتی نظام ہے۔ روحانی تربیت انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور باطن کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کے سربراہ ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی نے اس مقصد کے پیش نظر ایک چھ ماہی تربیتی نصاب ترتیب دیا ہے۔ اس نصاب کا مقصد عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اراکین کو سلسلہ عظیمیہ کے پیغام ، تعلیمات اور تربیتی نظام سے آگہی فراہم کرنا ہے۔
اس نصاب کو بین تیمیہ کے شعبہ تربیت کے نگراں انجینئر سہیل احمد عظیمی آن لائن لیکچرز کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ اس نصاب کا پہلا حصہ 12 لیکچرز پر مشتمل ہے۔ روحانی ڈائجسٹ اپنے علم دوست قارئین کے لیے ان لیکچر ز کی تشخیص قسط وار مضامین کی شکل میں کر رہا ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کا نصب العین اور تعلیمات
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات سے آگہی کے لئے شعبہ تربیت کی طرف سے بارہ لیکچر ز پر مبنی ایک تربیتی کورس کا آغاز کیا گیا ہے۔ آج اس سلسلے کا دوسرا ٹیچر ہے جس کا عنوان ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کا نصب العین اور تعلیمات اس موضوع پر آج ہماری گفتگو کا مقصد ہماری زندگی کے اعلیٰ اہداف، ہماری روحانی تربیت اور اللہ سے تعلق کے مراحل کو واضح کرنا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کو بیان کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ سلسلے کے نصب العین اور علم کے حوالے سے کچھ بات کی جائے۔
نصب العین سے مراد وہ بلند اور واضح مقصد یا ہدف ہوتا ہے، جس کے لئے کوئی انسان یا کوئی ادارہ اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرنا چاہتا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے فرد یا ادارے کی خواہش ، سوچ اور کوششیں مرکوز ہو جاتی ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کا نصب العین اس کائنات کے خالق اور مالک اللہ وحد ولا شریک کی معرفت اور اللہ کی قربت کے لئے نوع انسانی کو علمی اور عملی رہنمائی فراہم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں پہلے علم کی تعریف یعنی Definition کو سمجھنا ضروری ہے۔
کسی وجود، شے یا معاملے کے بارے میں جاننا علم ہے۔ کسی وجود یا شے کی صفات کو سمجھنا، اس چیز کے دوسری اشیاء کے ساتھ تعلق سے واقفیت حاصل کرنا یا کسی معاملے کی بنیاد کو جان لینا علم ہے۔
حصول علم کے بڑے ذرائع دو ہیں، ایک ظاہری حواس خمسه ، علم کے اس ذریعہ کا مرکز دماغ (Brain) ہے۔ دوسرا باطنی حواس اس کا مرکز فواد یا قلب ہے۔
علم کے دو بڑے شعبے ہیں، علم حصولی اور علم حضوری
سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم بر خیاء نے علم کو روشنی قرار دیا ہے۔ اپنی تصنیف لوح و قلم کے صفحہ 153 پر آپ فرماتے ہیں: در اصل روشنی ہی کا نام علم ہے۔
مرتبه احسان
ایک دن نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام مسجد نبوی میں اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے ، ایک صاحب وہاں آئے اور آپ کے سامنے اگر بیٹھ گئے۔ انہوں نے تین سوالات کیے۔
پہلا سوال یہ تھا کہ اسلام کیا ہے۔۔؟ دوسرا سوال تھا ایمان کیا ہے ….؟ نبی کریم نے دونوں سوالات کے جواب مرحمت فرمائے ، پھر انہوں نے تیسر اسوال کیا ، احسان کیا ہے….؟
مخبر صادق سرور کائنات علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا، احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر گو یا اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہ دیکھ سکے تو اللہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے۔
ان صاحب کیا آپ نے بیچ فرمایا اور وہاں سے چلے گئے۔ نبی کریم نے صحابہ سے فرمایا، یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔
اس حدیث کو حدیث جبرائیل کہا گیا ہے۔ حدیث جبرائیل سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دین کی تعلیمات کے تین حصے ہیں۔ یہ تینوں اپنی جگہ اہم ہیں۔ اسلام اور ایمان کی طرح احسان کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ حدیث جبرائیل میں احسان کی تشریح سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عبادت الہی میں مقصد کو شامل کرنا کتنا اہم ہے۔ عبادت کے زیادہ شمرات اس وقت ملتے ہیں جب انسان اس کے مقصد کو بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ عبادت الہی میں اللہ کی حضور اکا احساس ایک عابد کو احسان کی منزل تک پہنچاتا ہے۔
حدیث جبرائیل کے مطابق عبادت کا کمال یہ ہے کہ انسان کے ذہن سے یہ خیال بھی محو نہ ہو کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ جب انسان اس کیفیت کو پالیتا ہے تو اللہ کا تصور اس کے شعور اور تحت الشعور دونوں میں اپنا مقام بنا لیتا ہے۔ یہ کیفیات ہو جانے سے عابد کا وجود انوارانسی سے منور ہو جاتا ہے۔ قلندر بابا اولیاء حدیث جبرائیل کے حوالے سے کتاب لوح و قلم کے صفحہ 172 پر فرماتے ہیں: اس ارشاد کی تفصیل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں وظیفہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہئے۔“ اہل تصوف احسان کی نسبت پانے کے لئے شعوری اور ارادی کو ششیں کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے خیال کی اپنے قلب اور ذہن میں مسلسل موجود گی کو یقینی بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ اس کے لئے ذکر اور فکر سے بھی مدد لی جاتی ہے۔ مراقبہ انہی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ مراقبہ کی مشق کے ذریعے تعلق باللہ کا احساس قلب و ذہن میں جاگزیں ہو جاتا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کے تربیتی نظام اور تعلیمات میں دوسری باتوں کے علاوہ مراقبہ کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ قلندر بابا اولیاء کے قائم کردہ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کے بنیادی مقاصد اس طرح ہیں: اللہ کی وحدانیت کو سمجھنا اور توحید پر ایمان کی جنگی کا اہتمام کرنا۔ قرآن پاک اور حضرت محمد رسول الله ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ تعالی کی صفات سے آگہی حاصل کرنا، اللہ کی مشکیت کو سمجھنے کے لئے قرآن پاک میں اور حضرت محمد رسول ﷺکی تعلیمات میں غور و فکر کرنا۔ ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ راہ سلوک کا مسافر اپنے باطن سے واقف ہو ، اللہ تعالی سے اس کا تعلق قائم ہو اور وہ اللہ کا تابع دار ، وفادار ، عبادت گزار بن جائے۔ سلوک کی راہ پر گامزن ہو کر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں خیر و فلاح کی طرف پیش قدمی کرتا
رہے اور آخرت میں نجات کا امید وار بنے۔ ان اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقی تربیت ، علم کی طلب ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پہچان کر ان حقوق کی ادائی کی کوشش، اپنی مادی اور روحانی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ آگہی اہم ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات انسان کو اس کے خالق کی طرف اور انسان کی اصل، یعنی روح کی طرف
متوجہ کرتی ہیں۔ یہ تعلیمات بندے کے دل میں اللہ سے محبت کو بیدار کرتی ہیں اور بندے کو اللہ کے قرب کی ترغیب دیتی ہیں، حضرت محمد ﷺ کے عشق کے جذبات کو بیدار کرتی ہیں اور طالب علم میں اللہ کی قربت کی خواہش ابھارتی ہیں۔ اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر اور اللہ کی قربت پانے کے لئے نبی آخر حضرت محمد ﷺ کی نسبت، سلسلہ عظیمیہ کے رکن کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات راہ سلوک کے مسافر کے دل میں آخرت میں جواب دہی کے یقین کو مسلکم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ عرفان الٹی کے مختلف درجات اور مختلف دائرے ہیں۔ ہر درجہ اور ہر دائرہ عرفان الہی کے علوم کا ایک باب ہے۔ ان درجات کی تفہیم قرآن پاک کی
آیات کے ذریعے با آسانی ہو سکتی ہے۔
من عرفه نفسه فقد عرف ربہ کےمصداق پہلے عرفان نفس بعد ازاں عرفان الہی کے لئے اولیاء اللہ نے قرآن پاک کی آیات اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں لائحہ عمل ترتیب دیئے ہیں۔ سلسلہ عظیمیہ کے نصب العین میں عرفان السی کا ذکر کئی لحاظ سے توجہ طلب ہے۔ قرآن پاک کی سورہ ظلم السعدوہ کی آیت نمبر 53میں ارشاد ہوتا ہے:
ترجمہ: “ہم انہیں عنقریب انفس و آفاق میں
اپنی نشانیاں دکھائیں گے ( ان مشاہدات سے) ان پر حق واضح ہو جائے گا۔ “
سورہ انبیاء کی آیت نمبر 10 میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ: “لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ذکر ہے ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ہوں ۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر2025
![]()

