Daily Roshni News

شعور کسی ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا۔تحریر۔۔۔ بلال شوکت آزاد

شعور کسی ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ڈگریوں کے بت اور علم کا بہتا دریا: کیا سچ بولنے کے لیے ’اسناد‘ کی بیساکھیاں ضروری ہیں؟ – بلال شوکت آزاد

ایک اعتراض متوقع تھا، بلکہ میں حیران تھا کہ ابھی تک یہ “اسناد کے پجاری” اور “علم کے ٹھیکیدار” میدان میں کیوں نہیں آئے۔

یہ وہ طبقہ ہے جو سمجھتا ہے کہ علم کوئی “جاگیر” ہے جس کے گیٹ پر ڈگریوں کے محافظ بٹھا دیے گئے ہیں، اور جس کے پاس “سرکاری کاغذ کا ٹکڑا” نہیں، اس پر “سوچنے” اور “بولنے” پر پابندی ہے۔

یہ اعتراض دراصل ان کی “Intellectual Insecurity” (علمی عدم تحفظ) کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

خیر آج ایک “محترم” (بظاہر ڈاکٹر، بباطن ایک فیک آئی ڈی) نے میری دیوار پر وہ اعتراض جڑ دیا جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔

فرماتے ہیں کہ

“یہ جینز، ڈی این اے اور ایمبریالوجی میڈیسن کی شاخیں ہیں، ہم ڈاکٹر ہو کر اس پر نہیں بولتے کیونکہ یہ ہماری اسپیشلٹی نہیں، حیرت ہے ایک عام رائٹر ان کا ماہر بنا ہوا ہے۔”

اس تبصرے کو پڑھ کر مجھے بے اختیار ہنسی بھی آئی اور اس قوم کی ذہنی غلامی پر رونا بھی۔

یہ اعتراض دراصل ایک قدیم منطقی مغالطے “Appeal to Authority” کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کا لب لباب یہ ہے کہ

“بات یہ مت دیکھو کہ کیا کہی جا رہی ہے اور اس کی دلیل کیا ہے، بس یہ دیکھو کہ کہنے والا کون ہے اور اس کی جیب میں سند کون سی ہے۔”

جنابِ والا! آپ کی یہ سوچ دراصل اس “کمپارٹمنٹلائزیشن” (Compartmentalization) کا نتیجہ ہے جس نے جدید دور میں “علم” (Knowledge) کا قتل کر دیا ہے۔

آپ لوگوں نے علم کو خانوں میں بانٹ دیا ہے, یہ بائیولوجی کا خانہ، یہ مذہب کا خانہ، یہ فلسفے کا خانہ, اور ہر خانے پر ایک چوکیدار بٹھا دیا ہے۔

حالانکہ کائنات خانوں میں نہیں بٹی ہوئی، حقیقت (Truth) ایک وحدت (Unity) ہے۔

جو جینز آپ کی مائیکروسکوپ کے نیچے ہیں، وہی جینز قرآن کی آیات کی تفسیر بھی ہیں اور وہی جینز انسانی عمرانیات کی بنیاد بھی۔

آپ نے فرمایا کہ

“ہم ڈاکٹر ہو کر نہیں بولتے۔”

تو میرے بھائی!

یہی تو آپ کا المیہ ہے، یہی تو اس امت کا المیہ ہے!

آپ ڈاکٹر نہیں ہیں، آپ محض “ٹیکنیشنز” (Technicians) بن کر رہ گئے ہیں جنہیں صرف یہ رٹایا گیا ہے کہ بخار کے لیے کون سی گولی دینی ہے اور پیٹ درد کے لیے کون سا شربت۔

آپ نے کبھی اس “مشین” (انسانی جسم) کے فلسفے پر غور ہی نہیں کیا جس کے آپ مکینک بنے پھرتے ہیں۔

اگر آپ لوگ بولتے، اگر آپ اپنی لیبارٹریوں سے نکل کر قرآن اور سائنس کے کنکشن پر تحقیق کرتے، تو آج میرے جیسے “عام رائٹر” کو یہ فرض ادا نہ کرنا پڑتا۔

آپ کی خاموشی کوئی “عاجزی” نہیں ہے، یہ آپ کی “علمی بے حسی” اور “فکری بانجھ پن” ہے۔

آپ کو اپنی “اسپیشلٹی” کا طوق اتنا عزیز ہے کہ آپ نے سوچنے کا عمل ہی ترک کر دیا ہے۔

اور یاد رکھیے، تاریخ ان “اسپیشلسٹس” نے نہیں بنائی، تاریخ ان “Polymaths” (جامع العلوم شخصیات) نے بنائی ہے جنہوں نے دیواریں گرائیں تھیں۔

بو علی سینا طبیب بھی تھے، فلسفی بھی اور شاعر بھی۔ جابر بن حیان کیمسٹ بھی تھے اور صوفی بھی۔ اگر وہ آپ کے دور میں ہوتے تو آپ ان سے بھی کہتے کہ

“حکیم صاحب! آپ فلسفے پر کیوں بول رہے ہیں، یہ آپ کی اسپیشلٹی نہیں؟”

اب ذرا اس منافقت کا پردہ چاک کرتے ہیں جو اس اعتراض کے پیچھے چھپی ہے۔

جب کوئی لبرل، ملحد یا سیکولر دانشور, جس کے پاس نہ مدرسے کی سند ہوتی ہے، نہ حدیث کی ڈگری، اور نہ عربی گرامر کی شدھ بدھ, اٹھ کر قرآن کی آیات کی من مانی تشریح کرتا ہے، احادیث کو “عقل کے خلاف” کہہ کر رد کرتا ہے، اور اسلامی تاریخ پر ایسے تبصرے کرتا ہے جیسے وہ خود وہاں موجود تھا، تو اس وقت آپ کے یہ “ڈگری کے اصول” کہاں سو جاتے ہیں؟

تب تو آپ کہتے ہیں کہ

“یہ اظہارِ رائے کی آزادی ہے”،

“یہ اجتہاد ہے”،

“یہ تنقیدی سوچ ہے۔”

رچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins) ایک بائیولوجسٹ ہے، لیکن اس نے اپنی زندگی کی سب سے مشہور کتاب “God Delusion” (خدا کا وہم) لکھی جو کہ “تھیولوجی” (Theology) کا موضوع ہے۔

یوول نوح ہراری (Yuval Noah Harari) ایک مورخ ہے، لیکن وہ مستقبل، بائیولوجی اور ٹیکنالوجی پر بھاشن دیتا ہے۔

تب آپ لوگ تالیاں بجاتے ہیں کہ

“واہ! کیا وژن ہے۔”

لیکن جونہی ایک مسلمان، ایک موحد رائٹر، سائنس کی مستند کتابوں اور ریسرچ پیپرز کا مطالعہ کر کے، ان کا حوالہ دے کر، ان علوم کو اپنے رب کی کتاب کی تصدیق کے لیے استعمال کرتا ہے، تو آپ کو فوراً “اسپیشلٹی” کا درد اٹھنے لگتا ہے۔

یہ دوہرا معیار کیوں؟

کیا سائنس صرف ملحدوں کی جاگیر ہے کہ وہ اسے جیسے چاہیں استعمال کریں، اور مسلمان اس کے قریب بھی نہ جائے؟

جنابِ من!

میں کوئی ڈاکٹر یا سائنسدان ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، اور نہ ہی میں نے کبھی کہا کہ میں نے یہ ریسرچ خود اپنی لیبارٹری میں کی ہے۔

میں ایک “محقق” (Researcher) ہوں، ایک “طالبِ علم” ہوں، اور ایک “Communicator” ہوں۔

میرا کام یہ ہے کہ میں دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی، لائبریریوں اور انٹرنیٹ کے سرورز میں دبی ہوئی ان تحقیقات کو کھوج کر نکالوں جو “پیراسیتامول بیچنے والے ڈاکٹروں” کی نظروں سے اوجھل ہیں۔

میں Nature, PubMed, اور Science Direct کے ان آرٹیکلز کو پڑھتا ہوں جنہیں پڑھنے کی زحمت آپ جیسے “کوالیفائیڈ” لوگ نہیں کرتے، اور پھر میں ان مشکل سائنسی حقائق کی “سلائی” (Synthesis) کرتا ہوں تاکہ ایک عام آدمی کو سمجھ آ سکے کہ اس کا رب کتنا عظیم ہے اور اس کا دین کتنا سچا ہے۔

میں “علم تخلیق” نہیں کر رہا، میں “علم تقسیم” کر رہا ہوں، اور علم بانٹنے کے لیے ڈگری کی نہیں، “فہم” اور “حوالے” کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر میری دی ہوئی دلیل میں، میرے دیے گئے حوالے میں کوئی غلطی ہے تو اس پر بات کریں، سائنس لائیں، منطق لائیں، میں سر جھکا دوں گا۔

لیکن اگر آپ کے پاس دلیل کا جواب نہیں ہے، تو یہ “اتھارٹی کا کارڈ” کھیل کر آپ اپنی شکست کا اعلان کر رہے ہیں۔

آپ کہتے ہیں کہ

“ایسا پاکستان میں ہی ممکن ہے۔”

جی ہاں!

کیونکہ پاکستان میں ہی ایسے “کاغذی شیر” بستے ہیں جو خود کچھ کرتے نہیں اور جو کر رہا ہو اس کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔

مغرب میں ایک ہائی اسکول کا بچہ بھی اگر کوانٹم فزکس پر تھیوری پیش کرے تو اسے سنا جاتا ہے، اس کی ڈگری نہیں دیکھی جاتی، اس کا “ڈیٹا” دیکھا جاتا ہے۔

علم ایک بہتا ہوا دریا ہے، یہ کسی ادارے کی ملکیت نہیں ہے۔

آج کے دور میں “انفارمیشن” انگلی کی پوروں پر ہے۔

میں اگر 50 ریسرچ پیپرز پڑھ کر ایک نتیجہ اخذ کرتا ہوں، تو وہ اس “ڈاکٹر” کی رائے سے زیادہ مستند ہے جس نے ایم بی بی ایس کے بعد کتاب کھول کر نہیں دیکھی۔

میری اسناد؟

میری اسناد وہ “لنکس” (Links) اور “حوالہ جات” (References) ہیں جو میں ہر تحریر کے ساتھ دیتا ہوں۔

میرا استاد کوئی “ٹیکنیشن” نہیں، بلکہ وہ “کتب خانے” اور “انٹرنیٹ” ہیں جہاں انسانیت کا شعور محفوظ ہے۔

میں تقابلِ ادیان، تقابلِ علوم اور تاریخ کا وہ ادنیٰ طالبعلم ہوں جو جانتا ہے کہ سچائی بکھری ہوئی ہے اور اسے جوڑنا ہی اصل عبادت ہے۔

میرا مشن کاؤنٹر پروپیگنڈا (Counter Propaganda) ہے، میرا مقصد اس “لبرل بیانیے” کو توڑنا ہے جس نے ہماری نسلوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیا ہے۔

اور یہ کام میں اللہ کی رضا کے لیے کرتا رہوں گا، چاہے آپ جیسے “اسپیشلسٹ” کتنے ہی منہ بسورتے رہیں۔

یاد رکھیے!

“رَھِے گا نَام اللّٰہُ کَا”

اور اللہ کا نام صرف تسبیح کے دانوں پر نہیں رہے گا، بلکہ اب یہ ڈی این اے کے ہیلکس (Helix) پر، کوانٹم فیلڈز کی لہروں میں اور نیورونز کی فائرنگ میں بھی گونجے گا۔

آپ اپنی ڈگریاں سنبھال کر رکھیں، ہم اپنے “دلائل” کے ساتھ میدان میں کھڑے ہیں۔ یہ جنگ کاغذ کے ٹکڑوں کی نہیں، “شعور” کی ہے، اور شعور کسی ڈگری کا محتاج نہیں ہوتا۔

#سنجیدہ_بات

#آزادیات

#بلال #شوکت #آزاد

Loading