اللہ کی حدود کو نہ توڑیں، کیونکہ ان حدود کے باہر صرف “تباہی” ہے
تحریر۔۔۔بلال شوکت آزاد
ہالین(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔ تحریر۔۔۔بلال شوکت آزاد)ڈیجیٹل کوکین اور نسلوں کا جینیاتی قتل: پورن، خود لذتی اور دماغ کی بائیولوجیکل تباہی کاپوسٹ مارٹم! –
اکیسویں صدی میں انسانیت جس سب سے بڑے، خاموش اور مہلک ترین چیلنج سے نبرد آزما ہے، وہ صرف ایٹمی جنگ یا موسمیاتی تبدیلی نہیں، بلکہ وہ چھ انچ کی اسکرین کے ذریعے ہر بیڈ روم تک پہنچنے والی “پورنوگرافی” (Pornography) اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی “سیکس ایڈکشن” اور “خود لذتی” (Masturbation) کی وبا بھی ہے۔
ہم اسے محض ایک “اخلاقی برائی” یا “جوانی کی بھول” سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں، لیکن جدید میڈیکل سائنس، جینیات اور نیورو بائیولوجی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ عمل دراصل انسان کے “ہارڈ ویئر” (جسم) اور “سافٹ ویئر” (دماغ/روح) کو ہمیشہ کے لیے کرپٹ کر رہا ہے۔
یہ تحریر ان نوجوانوں کے لیے ایک “ریڈ الرٹ” ہے جو اپنی جوانی کو غسل خانے کی نالیوں میں بہا رہے ہیں، اور ان والدین کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے جو اپنے بچوں کو اسمارٹ فون دے کر بے فکر ہو چکے ہیں۔
آج ہم دیکھیں گے کہ کس طرح سائنس کی لیبارٹریز وہی بات ثابت کر رہی ہیں جو قرآن نے چودہ سو سال پہلے
“وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ”
(زنا کے قریب بھی مت جاؤ) کہہ کر سمجھا دی تھی۔
سب سے پہلے ہمیں دماغ کی “نیورو سرکٹری” (Neuro-circuitry) کو سمجھنا ہوگا۔
ہمارا دماغ ایک خاص کیمیکل پر چلتا ہے جسے “ڈوپامائن” (Dopamine) کہتے ہیں۔ یہ وہ کیمیکل ہے جو ہمیں جینے کا حوصلہ، خوشی اور تحریک (Motivation) دیتا ہے۔
قدرتی طور پر جب انسان محنت کرتا ہے، شکار کرتا ہے، یا نکاح کے بعد تعلق قائم کرتا ہے، تو ڈوپامائن مناسب مقدار میں خارج ہوتا ہے۔
لیکن پورنوگرافی کیا کرتی ہے؟
یہ دماغ پر ڈوپامائن کی ایسی “غیر فطری بمباری” کرتی ہے جس کا مقابلہ انسانی دماغ نہیں کر سکتا۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کی مشہور نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر ویلری وون (Dr. Valerie Voon) نے اپنی تحقیق “Neural Correlates of Sexual Cue Reactivity in Individuals with and without Compulsive Sexual Behaviours” (PLOS ONE, 2014) میں ثابت کیا کہ پورن کے عادی افراد کے دماغ کا اسکین بالکل اسی طرح نظر آتا ہے جیسے کسی “کوکین یا ہیروئن” کے عادی نشئی کا۔
یعنی پورن کوئی تفریح نہیں، یہ “بصری کوکین” (Visual Cocaine) ہے۔ جب ایک شخص مسلسل فحش مواد دیکھتا ہے، تو اس کا دماغ ڈوپامائن کے سیلاب میں ڈوب جاتا ہے۔
اس مسلسل سیلاب سے بچنے کے لیے دماغ اپنے Dopamine Receptors کو کم یا بند (Desensitize) کر دیتا ہے۔
نتیجہ؟
وہ شخص نارمل زندگی سے کٹ جاتا ہے۔ اسے بیوی کی محبت، دوستوں کی محفل، یا قدرتی مناظر میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔
وہ ایک “زندہ لاش” بن جاتا ہے جسے متحرک ہونے کے لیے اب ہر بار “پہلے سے زیادہ غلیظ اور سخت” مواد کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ وہی راستہ ہے جو DeltaFosB (\DeltaFosB) نامی پروٹین کی طرف جاتا ہے، جو دماغ میں جم کر انسان کی قوتِ ارادی کو ختم کر دیتا ہے۔
پھر بات کرتے ہیں جسمانی اور اینڈوکرائنولوجیکل (ہارمونز) تباہی کی۔
خود لذتی (Masturbation) کو لبرل حلقوں میں “نارمل” اور “صحت مند” کہا جاتا ہے، لیکن بائیولوجی کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔
جب ایک مرد انزال (Ejaculation) کرتا ہے، تو یہ محض پانی کا نکلنا نہیں ہے، بلکہ یہ جسم کے نچوڑ (Vital Essence) کا اخراج ہے۔
ایک بار کے عمل میں جسم سے Zinc, Magnesium, Calcium اور Phosphorus کی بھاری مقدار خارج ہوتی ہے۔
زنک (Zinc) وہ دھات ہے جو دماغی ارتکاز (Focus) اور یادداشت کے لیے ناگزیر ہے۔
جب کوئی نوجوان دن میں کئی بار یا ہفتے میں تواتر سے یہ عمل کرتا ہے، تو وہ اپنے دماغ کو “کنگال” کر رہا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ، ہارمونز کا ایک خطرناک کھیل شروع ہوتا ہے۔ انزال کے فوراً بعد جسم میں “Prolactin” نامی ہارمون کی سطح تیزی سے بڑھتی ہے۔
پرولیکٹن بنیادی طور پر ایک “عورتوں والا ہارمون” ہے جو دودھ پیدا کرنے اور سکون (سستی) لانے کا کام کرتا ہے۔ جب پرولیکٹن ہائی ہوتا ہے، تو مرد کا بنیادی ہارمون “Testosterone” دب جاتا ہے۔
مسلسل خود لذتی کرنے والے مردوں میں پرولیکٹن کی سطح مستقل اونچی رہتی ہے، جس کے نتیجے میں ان میں “نسوانیت”، “سستی”، “فیصلہ سازی کی کمی” اور “خوف” (Anxiety) پیدا ہوتا ہے۔
وہ مرد جو “الفا” (Alpha) بننے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، وہ اپنے ہی ہاتھوں “بیٹا” (Beta) بن جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں سے وہ “تیز” (Spark) ختم ہو جاتا ہے جو مردانگی کی نشانی ہے۔
کوانٹم فزکس اور سماجیات کے تناظر میں دیکھیں تو یہ تباہی اور بھی گہری ہے۔
کوانٹم میکانکس کا اصول ہے “The Observer Effect” یعنی دیکھنے والا جس چیز کو دیکھتا ہے، اس کے ساتھ ایک “کوانٹم تعلق” (Quantum Entanglement) قائم کر لیتا ہے۔
جب آپ اسکرین پر زنا، جبر، یا بے حیائی دیکھتے ہیں، تو آپ کے دماغ کے “Mirror Neurons” (جو دوسروں کی نقل کرتے ہیں) ایکٹیویٹ ہو جاتے ہیں۔
آپ لاشعوری طور پر وہی جذبات, وحشت، بے حسی، اور عورت کی تذلیل, اپنے اندر جذب کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ عمل آپ کی روح (Soul) کو آلودہ کر دیتا ہے۔ اسی کو قرآن نے “دل کا زنگ” کہا ہے۔
یہ محض محاورہ نہیں ہے؛ یہ “Spiritual Toxicity” ہے۔
جب آپ کا دماغ گندگی سے بھر جاتا ہے، تو آپ “نور” (Divine Light) کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں۔
آپ کو نماز میں خشوع نہیں ملتا، آپ کو دعا میں رونا نہیں آتا۔ یہ “روحانی بانجھ پن” دراصل اسی “بصری گندگی” کا شاخسانہ ہے۔
اب آتے ہیں اس موضوع کے سب سے خوفناک پہلو کی طرف: جینیات (Genetics) اور نسلوں کی بربادی۔
کیا آپ کا یہ تنہائی کا گناہ صرف آپ تک محدود ہے؟
ہرگز نہیں!
ایپی جینیٹکس کی جدید تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ باپ کا طرزِ زندگی اس کے اسپرم کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف پنسلوانیا کی مشہور تحقیق (Reference: Paternal stress exposure alters sperm microRNA content…, Rodgers et al., 2013) بتاتی ہے کہ جب باپ “ذہنی دباؤ” (Stress) کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے اسپرم میں موجود microRNA بدل جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پورن اور خود لذتی کا اسٹریس سے کیا تعلق؟
بہت گہرا تعلق ہے!
سیکس ایڈکٹ شخص ہمیشہ ایک “Cycle of Shame” (شرمندگی کے چکر) میں رہتا ہے۔
اسے گناہ کے بعد گلٹ ہوتا ہے، پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے، اور اپنی کمزوری پر غصہ آتا ہے۔
یہ مسلسل ذہنی دباؤ جسم میں Cortisol (اسٹریس ہارمون) کی بھرمار کر دیتا ہے۔
یہ ہائی کورٹیسول لیول خون کے ذریعے اس کے خصیوں (Testes) تک پہنچتا ہے اور وہاں بننے والے اسپرم کی “پروگرامنگ” کو بدل دیتا ہے۔
جب یہ شخص شادی کرتا ہے اور بچہ پیدا کرتا ہے، تو وہ بچہ پیدائشی طور پر “Hyper-anxious” (انتہائی گھبرایا ہوا) اور “Addiction-Prone” (نشے کی طرف مائل) ہوتا ہے۔
یعنی آپ نے اپنی “لذت” کی قیمت اپنے “بچے” کے ذہنی سکون سے چکائی ہے۔
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
اس کے علاوہ، پورنوگرافی دیکھنے والے افراد میں “Porn-Induced Erectile Dysfunction” (PIED) کی وبا پھیل رہی ہے۔ یہ ایک بائیولوجیکل اور نفسیاتی عارضہ ہے۔
جب دماغ اسکرین پر نظر آنے والی “پرفیکٹ اور مصنوعی” عورتوں کا عادی ہو جاتا ہے، تو اسے حقیقی زندگی کی نارمل عورت (بیوی) میں کشش نظر نہیں آتی۔ یہ “Coolidge Effect” کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
کولج ایفیکٹ کہتا ہے کہ نر ہمیشہ “نئی مادہ” کی طرف راغب ہوتا ہے، اور پورن انڈسٹری ہر سیکنڈ میں “نیا چہرہ” دکھا کر اس فطری جبلت کو ہائی جیک کر لیتی ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شادی کے بعد یہ مرد اپنی بیوی کے پاس جا کر جسمانی طور پر ناکام ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کا دماغ “اسکرین” کے بغیر سگنل ہی نہیں دیتا۔
یہ خاندانی نظام کی موت ہے، یہ طلاقوں کی بنیاد ہے، اور یہ نسل انسانی کے بقا کے نظام (Reproduction) کے خلاف سازش ہے۔
اب ذرا اسلام کی حکمت پر غور کریں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ نہیں کہا کہ
“زنا مت کرو”،
بلکہ فرمایا:
“وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ” (اس کے قریب بھی مت جاؤ)۔
“قریب جانے” سے کیا مراد ہے؟
تنہائی (خلوت)، بد نظری، اور فحش مواد۔
اللہ کو معلوم تھا کہ انسان کا “نیورو بائیولوجیکل سسٹم” کیسا ہے۔
اللہ جانتا تھا کہ جب انسان “قریب” جاتا ہے (یعنی محرکات/Triggers کا سامنا کرتا ہے)، تو اس کا Prefrontal Cortex (عقل کا مرکز) بند ہو جاتا ہے اور Limbic System (جذبات/ہوس کا مرکز) کنٹرول سنبھال لیتا ہے۔
ایک بار جب ڈوپامائن کا چکر شروع ہو جائے، تو پھر رکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسی لیے اسلام نے “پہلے قدم” پر پہرہ بٹھایا۔ نظر جھکانے کا حکم (غضِ بصر) دراصل آپ کے دماغ کو “Visual Stimulation” سے بچانے کا طریقہ ہے تاکہ آپ کا ہارمونل توازن نہ بگڑے۔
تنہائی میں اجنبی عورت کے ساتھ بیٹھنے کی ممانعت دراصل آپ کے “Oxytocin” اور “Testosterone” کو غلط سمت میں فائر ہونے سے روکنے کی تدبیر ہے۔
یہ پابندیاں نہیں ہیں، یہ “Safety Protocols” ہیں جو آپ کے سافٹ ویئر کو وائرس سے بچاتے ہیں۔
حل کیا ہے؟
اگر آپ اس دلدل میں پھنس چکے ہیں، تو جان لیں کہ واپسی کا راستہ موجود ہے، مگر یہ آسان نہیں ہے۔
سائنس اسے “Neuroplasticity” کہتی ہے, یعنی دماغ کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود کو دوبارہ ٹھیک کر سکے۔ لیکن اس کے لیے “مکمل پرہیز” (Reboot) شرط ہے۔
90 دن کا چیلنج: نشے کے مریضوں کی طرح، آپ کو کم از کم 90 دن تک ہر قسم کے فحش مواد اور خود لذتی سے مکمل دور رہنا ہوگا۔ اس دوران آپ کا دماغ چیخے گا، آپ کو ڈپریشن ہوگا (Withdrawal Symptoms)، لیکن آہستہ آہستہ آپ کے Dopamine Receptors دوبارہ اگنا شروع ہوں گے۔
حقیقی زندگی میں واپسی: اسکرین چھوڑ کر ورزش، مطالعہ اور دوستوں میں وقت گزاریں۔ یہ آپ کے “فرنٹل کورٹیکس” کو دوبارہ مضبوط کرے گا۔
توبہ اور روحانیت: اور سب سے اہم، سچی توبہ۔ جب آپ ندامت کے ساتھ اللہ کے سامنے روتے ہیں، تو یہ صرف عبادت نہیں، بلکہ ایک “Therapeutic Process” ہے۔ رونا دماغ سے زہریلے کیمیکلز (ACTH) کو خارج کرتا ہے اور روح کو ہلکا کرتا ہے۔ یہ آپ کے “ضمیر” کو دوبارہ زندہ کرتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ جنگ صرف “اخلاقیات” اور “دینیات” کی نہیں، یہ “حیاتیاتی بقا” کی جنگ ہے۔
پورن انڈسٹری آپ کو “گاہک” بنا کر آپ کی نسلوں کو “ذہنی غلام” بنا رہی ہے۔
آپ کے جینز، آپ کے ہارمونز اور آپ کا دماغ خطرے میں ہے۔
اس سے پہلے کہ آپ کا ڈی این اے مکمل طور پر کرپٹ ہو جائے اور آپ ایک ایسی نسل کو جنم دیں جو اخلاقی اور جسمانی طور پر معذور ہو، اس فتنے سے نکل آئیں۔
خلوت ہو یا جلوت، اللہ کی حدود کو نہ توڑیں، کیونکہ ان حدود کے باہر صرف “تباہی” ہے، چاہے وہ دنیا کی ہو یا آخرت کی۔
#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
![]()

