صدائے جرس
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔صدائے جرس ۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)ایک شاگرد نے اُستاد سے پوچھا ” اللہ سے دوستی کس طرح کی جائے …. ؟
اُستاد نے شاگر دہی سے سوال کر ڈالا ” تم کسی سے دوستی کرنا چا ہو تو کیا کرو گے؟” شاگرد نے عرض کیا اس کے ساتھ حسن اخلاق کا برتاؤ کریں گے، اس کی خاطر مدارات کریں گے اس کا
خیال رکھیں گے “۔ اُستاد نے کہا اگر یہ سب کچھ نہیں کرو گے یا تمہیں اس کے مواقع نہیں ملیں گے پھر کیا ہو گا….؟ شاگرد نے عرض کیا ” ہو سکتا ہے کہ دوستی ختم ہو جائے“۔ اُستاد نے فرمایا ” دوستی اس وقت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے جب آدمی دوست کی دلچسپیوں کو قبول کرلے“۔ پھر اُستاد نے شاگرد سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کیا کرتے ہیں ؟“ شاگرد نے اپنی عقل اور تجربے کے مطابق بہت ساری باتیں کیں ۔ استاد نے قطع کلام کرتے ہوئے فرمایا ” مختصر بات یہ ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کے لیے وسائل تخلیق کرتا ہے اور بغیر کسی غرض کے مخلوق کی ضرورت کے تمام وسائل مخلوق کو مفت فراہم کرتا ہے۔ لہذا اللہ سے اگر دوستی کرنی ہے تو مخلوق کی بھلائی کے کام ستائش اور انعام کی توقع کے بغیر کرو“۔ استاد نے مزید تشریح فرماتے ہوئے پوچھا زمین کی
کیا ڈیوٹی ہے….؟ شاگرد نے عرض کیا زمین پر کھیتیاں لہلہاتی ہیں ۔ زمین درخت اگاتی ہے ۔ درختوں پر پھل لگتے ہیں۔ زمین انسان کو خوش کرنے کے لیے پھولوں میں رنگ آمیزی کرتی ہے “۔ اُستاد نے سوال کیا گائے اور زمین کا کیا رشتہ ہے ….؟” شاگرد نے عرض کیا گائے زمین پر گھاس چرتی ہے”۔
اُستاد نے فرمایا کہ کائناتی سسٹم یہ ہے کہ ہر شے دوسرے کی خدمت کرنے میں مصروف ہے، جب غیر اشرف مخلوق اللہ کی مخلوق کی خدمت کر رہی ہے تو انسان کا بھی فرض ہے کہ مخلوقات کی خدمت کرنے … قرآن پاک کی مختلف آیات میں ارشادِ باری تعالی ہے: ”ہماری نشانیوں پر غور کرو… تفکر کرو … اور عاقل بالغ با شعور، سمجھدار اور فہیم لوگ وہ ہیں جو ہماری نشانیوں پر غور کرتے ہیں“۔ مستفیض ہوتے
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں ظاہر ، حواس سے دیکھی جانے والی نشانیاں جن سے ہم ہر وقت رہتے ہیں وہ ہوا پانی، دھوپ اور رنگ ہیں۔ زمین میں نشو و نما اور نئی نئی چیزیں تخلیق کرنے کی صلاحیت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں سے ایسی ایسی چیزیں پیدا کیں جن چیزوں پر ناصرف یہ کہ نوع انسانی بلکہ زمین کے اوپر جتنی بھی مخلوق موجود ہے اس کی زندگی کا دارو مدار ہے۔
ہوا ایک ایسی نشانی ہے کہ جس سے زمین پر رہنے والا ایک متنفس بھی محروم نہیں ہے۔ پانی ایک ایسی نشانی ہے جو انسان کی زندگی کو فیڈ Feed نہ کرے تو زندگی ختم ہو جائے گی۔ ناصرف یہ کہ انسانی زندگی ختم ہو جائے گی۔ پورا سیارہ زندگی سے محروم ہو جائے گا۔ یہی حال دھوپ کا ہے۔ یہی حال چاندنی کا رختوں کے سر سبز و شاداب ہونے اور رنگ برنگے پھولوں کا ہے …. یہ ساری چیزیں براہ راست اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہیں۔ ان تخلیقات پر جب تفکر کیا جاتا ہے تو بجز اس کے کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ ان تمام تخلیقات سے اللہ تعالیٰ کا منشا اور مقصد یہ ہے کہ نوع انسانی کو فائدہ پہنچے، ایسا فائدہ کہ جس فائدہ کے پیچھے کوئی غرض، کوئی صلہ، کوئی مقصد کوئی لین دین اور کوئی کاروبار نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ کی ذات و صفات کا انکار کرتے ہیں اور برملا کفر کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ہوا ان کو بھی زندگی دے رہی ہے، پانی سے وہ بھی سیراب ہورہے ہیں۔ دھوپ میں جو حیا تین اور توانائی موجود ہے ان سے بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
نوع انسانی ہی نہیں بے شمار مخلوقات اللہ تعالیٰ کے اس مفت انعام سے مالا مال ہیں۔ اس مختصر سی تمہید سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سُنت یہ ہے کہ وہ جب وسائل تخلیق فرماتے ہیں تو مخلوق کو بلا تخصیص اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی طرف سے کسی صلہ یا ستائش کی غرض نہیں ہوتی۔ یہ ان کی شان کریمی ہے کہ انہوں نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق کو زندہ رکھنے کے لیے اتنے وسائل فراہم کر دئیے کہ فی الواقع مخلوق اس کا شمار بھی نہیں کر سکتی۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات پر روحانی نقطہ نظر سے اور قلبی مشاہدے کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیاء کی ساری تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ بندوں کی طرزِ فکر کو معبودِ حقیقی کی خوشی کے تابع کر دیا جائے۔ وہ لوگ جو راسخ فی العلم میں کہتے ہیں کہ یہ بات ہمارے یقین اور مشاہدے میں ہے کہ ہر بات ہر چیز مین جانب اللہ ہے۔ کائنات میں جو کچھ موجود ہے، جو ہو چکا ہے، ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے، اس کا براہ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے یعنی جس طرح اللہ تعالی کا ارادہ ہے اسی طرح اس چیز کا یا اس عمل کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ آج کی دنیا میں عجیب صورت حال ہے کہ ہر آدمی دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے، ہر آدمی دولت کے انبار اپنے گرد جمع کرنا چاہتا ہے اور یہ شکایت کرتا ہے کہ سکون نہیں ہے، سکون نہیں ہے. سکون کوئی عارضی چیز نہیں ہے۔ سکون تو ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو یقینی ہے اور جس کے اوپر کبھی موت واقع نہیں ہوتی۔ ایسی چیزوں سے جو چیزیں عارضی ہیں، فانی ہیں اور جن پر ہماری ظاہری آنکھوں کے سامنے لمحہ بہ لمحہ موت وارد ہوتی رہتی ہے ان سے ہر گز سکون حاصل نہیں ہو سکتا۔ جب کوئی بندہ فانی اور مادی چیزوں سے اپنے ذہن کو ہٹا کر حقیقی اور غیر فانی چیزوں میں تفکر کرتا ہے تو یہ تفکر اسے قدم بہ قدم چلا کر ایسی دنیا میں پہنچا دیتا ہے جہاں اس پر یہ راز منکشف ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات کی باگ ڈور ایک واحد ہستی کے ہاتھ میں ہے ….
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست 2025 ء
![]()

