Daily Roshni News

چنگیز خان اور مسلمانوں کے درمیان خونریز تصادم – ایک تاریخی داستان

چنگیز خان اور مسلمانوں کے درمیان خونریز تصادم – ایک تاریخی داستان

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تاریخ کے اوراق پر چند باب ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ چنگیز خان اور مسلمانوں کے درمیان لڑائیوں کی کہانی بھی انہی میں سے ایک ہے، جو 13ویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی اور کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ یہ باب نہ صرف خونریز تھا بلکہ انسانی صبر اور بہادری کی بھی داستان ہے۔ یہاں میں آپ کو وہ حقائق پیش کروں گا جو تاریخی دستاویزات اور معتبر ذرائع سے تصدیق شدہ ہیں، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ منگولوں کی لذتِ تسلط اور مسلمانوں کی مزاحمت کی کہانی کس طرح رقم ہوئی۔

چنگیز خان کا عروج اور مسلمانوں پر حملے کی ابتدا

تیموجن، جسے ہم آج چنگیز خان کے نام سے جانتے ہیں، نے 1206 میں منگول سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اس کی نظریں صرف سلطنت پر نہیں، بلکہ پوری دنیا پر اثرانداز ہونے والی طاقت پر تھیں۔ اس کی اولین بڑی تصادم خوارزم شاہی سلطنت کے ساتھ ہوئی، جو اس وقت وسطی ایشیا کے علاقے، ایران اور افغانستان میں ایک طاقتور مسلمان ریاست تھی۔ یاد رکھیں، یہ لڑائی مذہبی نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی مفادات پر مبنی تھی، مگر نتیجہ سب کے لیے خونریز اور دل دہلا دینے والا نکلا۔

حملے کی وجہ

1218 میں چنگیز خان نے خوارزم شاہ محمد دوم کے پاس ایک تجارتی قافلہ بھیجا، جو امن کی نیت سے تھا۔ لیکن خوارزم کے گورنر نے قافلے کو لوٹ لیا اور منگول سفیروں کو قتل کر دیا۔ یہ واقعہ چنگیز خان کے لیے ایک بہت بڑی توہین تھی۔ اس نے کہا کہ یہ “جنگ کی دعوت” ہے، اور اسی کے بعد خوارزم کی طرف منگول لشکر روانہ ہوا۔

خوارزم سلطنت پر حملے کی تفصیل (1219–1221)

چنگیز خان نے تقریباً 150,000–200,000 فوجیوں کے ساتھ خوارزم سلطنت پر حملہ کیا۔ منگول فوج گھوڑ سواروں، تیز رفتار حملوں اور پیچیدہ جنگی حکمت عملی میں ماہر تھی، جس نے مسلمانوں کے لیے خونریز مشکلات پیدا کیں۔

بخارا کا سقوط (1220): شہر کو گھیر لیا گیا، مسجدوں اور مدرسوں کو آگ لگا دی گئی، ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ تاریخی روایات کے مطابق، چنگیز خان نے بخارا کی جامع مسجد میں داخل ہو کر قرآن کی بے حرمتی کی، اور لوگوں سے کہا: “میں خدا کی طرف سے سزا ہوں۔”

سمرقند کا سقوط (1220): خوارزم کا دارالحکومت سمرقند بھی منگولوں کے رحم و کرم پر آیا۔ تقریباً 100,000 سے زائد لوگ مارے گئے، عورتیں اور بچے غلام بنا لیے گئے، اور شہر کی آبادی کو بکھیر دیا گیا۔

ارگنج (خوارزم کا پرانا دارالحکومت): یہاں سب سے زیادہ خونریزی ہوئی۔ منگولوں نے دریا کا رخ موڑ کر شہر کو ڈبو دیا، اور تقریباً ایک ملین لوگ ہلاک ہوئے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی قتل عام میں سے ایک تھی۔

دیگر شہر: مروی، ہرات، نیشاپور وغیرہ کو بھی تباہ کیا گیا۔ نیشاپور میں تو چنگیز خان نے اپنی بیٹی کے شوہر کی موت کا بدلہ لینے کے لیے پورے شہر کو مٹا دیا، یہاں تک کہ بلیوں اور کتوں کو بھی مار دیا گیا۔

مسلمانوں کے ساتھ سلوک

چنگیز خان مذہب کی بنیاد پر نہیں لڑتا تھا؛ وہ ہر مخالف کو یکساں طور پر کچلتا تھا۔ لیکن چونکہ خوارزم مسلمان سلطنت تھی، اس لیے مسلمانوں پر اثر سب سے زیادہ ہوا:

قتل عام: لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ تاریخی تخمینوں کے مطابق، صرف خوارزم حملے میں 2–4 ملین لوگ ہلاک ہوئے۔

غلامی: عورتیں اور بچے غلام بن گئے، جو منگول سلطنت میں تقسیم کیے گئے۔

تباہی: لائبریریاں جل گئیں، علماء قتل کیے گئے، اور علمی مراکز بشمول بخارا اور سمرقند تباہ ہو گئے۔

یہاں ایک پہلو مثبت بھی تھا: چنگیز خان نے کچھ مسلمانوں کو اپنی فوج میں شامل کیا، جیسے انجینئرز کو جنگی مشینوں کے لیے استعمال کیا۔ وہ مذہبی رواداری بھی رکھتا تھا اور مسلمانوں کو عبادت کرنے کی اجازت دیتا تھا، بشرطیکہ وہ مزاحمت نہ کریں۔

چنگیز خان کی موت اور بغداد کا سانحہ (1227–1258)

چنگیز خان 1227 میں انتقال کر گیا، لیکن اس کی سلطنت نے حملے جاری رکھے۔ اس کے پوتے ہلاکو خان نے 1258 میں بغداد پر حملہ کیا، جو عباسی خلافت کا دارالحکومت تھا۔ 13 دن کے محاصرے کے بعد، شہر تباہ ہوا، خلیفہ المستعصم قتل ہوا، اور تقریباً 200,000 سے 1 ملین مسلمان ہلاک ہوئے۔ دریائے دجلہ کا پانی کتب اور لاشوں سے کالا ہو گیا۔ یہ اسلامی تاریخ کا سب سے دردناک واقعہ ہے۔

مسلمانوں کی مزاحمت اور بدلہ

  1. جلال الدین خوارزم شاہ کی مزاحمت (1220–1231)

خوارزم کے بیٹے جلال الدین نے منگولوں کے خلاف گوریلا جنگ کی۔

پاروان کی جنگ (1221): 30,000 فوجیوں نے 50,000 منگولوں کو شکست دی۔ چنگیز خان نے خود اسے “شیر دل” کہا۔

سندھ کی جنگ (1221): سندھ دریا کے کنارے منگول فوج کو روکا، لیکن بعد میں ہندوستان کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی مزاحمت نے منگولوں کو کمزور کیا، اور اسے 1231 میں کردوں نے قتل کیا۔

  1. جنگ عین جالوت (1260)

ہلاکو کے بغداد تباہ کرنے کے بعد، منگول شام اور مصر پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن مملوک سلطان سیف الدین قطز اور بیبرس نے فلسطین میں 20,000 فوج کے ساتھ منگولوں کو شکست دی۔ یہ منگولوں کی پہلی فیصلہ کن شکست تھی، جس نے اسلامی دنیا کو بچایا۔

  1. دہلی سلطنت کی مزاحمت (13ویں صدی)

ہندوستان میں دہلی سلطنت نے متعدد منگول حملوں کو روکا۔

غیاث الدین بلبن (1266–1287): سرحدوں پر قلعے بنائے اور حملوں کو ناکام بنایا۔

علاؤالدین خلجی (1296–1316): 7 بڑے منگول حملے روکے، اور دہلی کو محفوظ رکھا۔

  1. منگولوں کا اسلام قبول کرنا – تہذیبی بدلہ

بعد میں کئی منگول خان مسلمان ہوئے، جیسے:

برکے خان (1257) نے اسلام قبول کیا اور ہلاکو خان سے جنگ کی۔

غازان خان (1295) نے ایران میں اسلام قبول کیا، اور منگول سلطنت کو اسلامی تہذیب میں ضم کر دیا۔

  1. تیمور لنگ کا دور (14ویں صدی)

تیمور لنگ نے منگول باقیات کو ختم کیا اور وسطی ایشیا میں مضبوط مسلمان سلطنت قائم کی، جو منگول تاریخ پر آخری ضرب تھی۔

نتیجہ اور سبق

چنگیز خان نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کی، مگر مسلمانوں نے مزاحمت، جنگی فتوحات اور تہذیبی اثر کے ذریعے بدلہ لیا۔ یہ بدلہ صرف تلوار کا نہیں بلکہ علم، ایمان اور حکمت کا بھی تھا، جس نے منگول سلطنت کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اسلامی دنیا کو زندہ رکھا۔ یہ تاریخ کا سبق ہے کہ ظلم کی سلطنت دیرپا نہیں ہوتی، اور حق ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

Loading