Daily Roshni News

سورۃ الغاشیہ – حصہ اوّل (آیات 1 تا 7)

سورۃ الغاشیہ – حصہ اوّل (آیات 1 تا 7)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)قیامت کی ہولناکی، چہرے، محنت کی حقیقت، اور جہنم کے پہلے مناظر۔یہ سورت انسان کو **غفلت کی نیند سے جھنجھوڑنے** کے لیے نازل ہوئی ہے۔ سورۃ الغاشیہ کا پہلا حصہ انسان کے سامنے وہ پردہ اٹھاتا ہے جس کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت کو دیکھ کر عقل کانپ اٹھتی ہے، دل لرز جاتا ہے اور روح چیخ اٹھتی ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جہاں قرآن انسان سے پوچھتا ہے: **کیا تم پر وہ چھا جانے والی خبر آئی؟**

**تمہیدی پس منظر (شانِ نزول کا خلاصہ)**

سورۃ الغاشیہ مکی دور کی سورت ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب: * لوگ قیامت کو مذاق سمجھتے تھے * حساب کو افسانہ کہتے تھے * نبی کریم ﷺ کی دعوت کو جھٹلاتے تھے * دنیا کی چمک آنکھوں پر پردہ ڈال چکی تھی ایسے وقت میں اللہ نے یہ سورت نازل فرمائی تاکہ: * انسان کو آخرت کی حقیقت دکھائی جائے * غرور ٹوٹے * دل جاگے * اور ضمیر زندہ ہو

**آیت 1: هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ** **“کیا تمہیں وہ چھا جانے والی خبر پہنچی ہے؟”**

یہ سوال نہیں، **جھٹکا ہے**۔ یہ محض اطلاع نہیں، **انتباہ ہے**۔ یہ جملہ کانوں سے نہیں، **روح سے ٹکراتا ہے۔**

**“الغاشیہ” کا مفہوم**  “غاشیہ” کا مطلب ہے:

* وہ چیز جو ہر طرف سے گھیر لے * جو پوری طرح ڈھانپ لے * جس سے بچنے کا کوئی راستہ نہ ہو قیامت کو “غاشیہ” اس لیے کہا گیا کہ: * وہ ہر انسان کو گھیر لے گی

* کوئی رئیس، کوئی غلام، کوئی بادشاہ، کوئی مزدور—کوئی بھی اس سے باہر نہ ہوگا

**آج کے انسان کے لیے پہلا سوال**

قرآن تم سے پوچھ رہا ہے: کیا تم نے اس دن کے بارے میں سنجیدگی سے کبھی سوچا؟ آج انسان: * حادثے کی خبر سنتا ہے * اسٹاک مارکیٹ کی خبر سنتا ہے * سیاست کی خبر سنتا ہے * مگر قیامت کی خبر سن کر بھی بے پروا رہتا ہے یہی سب سے بڑا فریب ہے۔

**آیت 2: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ** **“اس دن کچھ چہرے ذلیل اور جھکے ہوئے ہوں گے”**

یہ قرآن کا اسلوب ہے کہ وہ قیامت کے دن کو نظریہ نہیں بناتا، **منظر بنا دیتا ہے۔**

**چہرہ کیوں بتایا گیا؟** کیونکہ: * چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے * اندر کا حال چہرے پر چھلک پڑتا ہے * دل کی ذلت، آنکھوں کی نمی اور پیشانی کی شرمندگی سب چہرے پر ظاہر ہو جاتی ہے

**کن کے چہرے جھکے ہوئے ہوں گے؟** یہ وہ لوگ ہوں گے: * جو دنیا میں گردن اکڑ کر چلتے تھے * جو حق کے سامنے جھکتے نہیں تھے * جو کمزوروں کو حقیر سمجھتے تھے * جو “میں، میری طاقت، میری عقل” کے سہارے جیتے تھے قیامت کے دن یہی لوگ: * نظریں جھکائے ہوں گے * پیشانیاں پسینے سے تر ہوں گی * آوازیں کانپ رہی ہوں گی * اور عزت کی جگہ ذلت نے لے لی ہوگی

**آج کا منظر ذہن میں لائیں**

آج ہم جسے: * وی آئی پی سمجھتے ہیں * طاقت ور سمجھتے ہیں * ناقابلِ شکست سمجھتے ہیں کل وہی چہروں سمیت: * ایک قطار میں کھڑا ہوگا * بغیر پروٹوکول * بغیر سفارش * بغیر کسی سہولت کے

**آیت 3: عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ** **“سخت محنت کرنے والے، تھکے ماندے”**

یہ آیت بہت چونکا دینے والی ہے، کیونکہ یہ بتاتی ہے کہ: **کچھ لوگ بہت محنت کریں گے، مگر ان کی محنت ضائع ہو جائے گی۔**

**یہ کون لوگ ہیں؟**

یہ وہ لوگ ہیں: * جو دنیا کے لیے بہت دوڑے * جنہوں نے دن رات مال کے پیچھے لگائے * جنہوں نے دنیا کو مقصد بنایا * مگر اللہ کی رضا کو مقصد نہ بنایا انہوں نے:

* محنت بھی کی * مشقت بھی اٹھائی * مگر سمت غلط تھی جیسے کوئی ساری عمر ریت پھانکتا رہے اور آخر میں دیکھے کہ ہاتھ خالی ہیں۔

**آج کے انسان کے لیے آئینہ**

آج ہم: * کیریئر کے لیے رات دن جاگتے ہیں * کاروبار کے لیے دل جلاتے ہیں * شہرت کے لیے ضمیر بیچتے ہیں لیکن: * نماز کے لیے وقت نہیں * حلال و حرام کی پروا نہیں

* آخرت کی کوئی فکر نہیں قرآن کہتا ہے: **ہوشیار! کہیں تمہاری محنت ناصبہ نہ بن جائے — تھکن تو ہو، اجر نہ ہو۔**

**آیت 4: تَصْلَىٰ نَارًا حَامِيَةً** **“وہ دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے”**

یہاں قرآن صرف آگ نہیں کہتا، بلکہ: **دہکتی ہوئی آگ** کہتا ہے۔

**یہ کیسی آگ ہے؟**

یہ وہ آگ ہے: * جو صرف جلانے کے لیے نہیں * بلکہ ذلیل کرنے کے لیے ہے * جو صرف سزا نہیں * بلکہ رسوائی بھی ہے دنیا کی آگ: * لکڑی، کوئلہ، پیٹرول سے جلتی ہے   جہنم کی آگ: * انسان کے گناہوں سے بھڑکائی جاتی ہے

**یہ انجام کس کا ہے؟**

یہ انجام ان کا ہے: * جو دنیا میں ضد پر رہے * جو حق کو جان کر بھی ٹھکراتے رہے

* جو اللہ کی زمین پر رہ کر اللہ کے قانون کو روندتے رہے

**آج ہم کیوں نہیں کانپتے؟**

کیونکہ: * ہم نے جہنم کو کہانی بنا دیا * ہم نے عذاب کو علامتی سمجھ لیا * ہم نے قرآن کی دھمکیوں کو “مولویوں کا ڈر” سمجھ لیا مگر قیامت کے دن: * یہ سب کچھ حقیقت ہو جائے گا * اور یقین کا فائدہ ختم ہو چکا ہوگا

**آیت 5: تُسْقَىٰ مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ** **“انہیں کھولتے ہوئے چشمے سے پلایا جائے گا”**

یہ پانی نہیں، **عذاب ہے جو پانی کی صورت میں دیا جائے گا۔**

**“عین آنیہ” کا مفہوم** * ایسا چشمہ جو حد سے زیادہ کھولتا ہو * ایسا پانی جو ہونٹوں کو جلا دے * ایسا سیال جو حلق سے اترتے ہی اندرونی اعضاء کو جھلسا دے جس کا مقصد: * پیاس بجھانا نہیں * بلکہ عذاب کو مکمل کرنا ہے

**دنیا اور آخرت کا عجیب فرق**

دنیا میں: * پیاس لگے تو ٹھنڈا پانی مانگتے ہیں * شربت، دودھ، جوس — راحت کی چیزیں ہیں آخرت میں: * پیاس کے بدلے کھولتا پانی ملے گا * جو راحت نہیں، مزید عذاب بنے گا

**آیت 6: لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍ** **“ان کے لیے کانٹے دار جھاڑی کے سوا کوئی کھانا نہ ہوگا”**

یہ کھانا نہیں، **زخم ہے جو کھانے کے نام پر دیا جائے گا۔**

**“ضریع” کیا ہے؟** یہ ایسی جھاڑی ہے جو: * نہ پیٹ بھرتی ہے * نہ طاقت دیتی ہے

* کانٹوں سے بھری ہوتی ہے * نہ زندہ رہنے دیتی ہے * نہ مرنے دیتی ہے

**دنیا میں اللہ نے ہمیں کیا دیا؟** * نرم روٹی * خوش ذائقہ پھل * طرح طرح کی نعمتیں ہم نے: * شکر کی جگہ شکایت کی * سادگی کی جگہ اسراف کیا * حلال کی جگہ حرام کو ترجیح دی آخرت میں: * کھانا بھی ایسا ہوگا جو ذلت بن جائے گا

**آیت 7: لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِن جُوعٍ** **“وہ نہ موٹا کرے گا نہ بھوک مٹائے گا”**

یہ قرآن کا سب سے دردناک بیان ہے: * کھانے کو کچھ ملے گا * مگر بھوک ختم نہیں ہوگی * بدن کو کچھ ملے گا * مگر طاقت پیدا نہیں ہوگی

 **یہ محنت کا انجام ہے**

آیت 3 میں کہا تھا: **عاملة ناصبة** — بہت محنت کرنے والے آیت 7 میں بتایا: **مگر وہ محنت انھیں بھوک سے بھی نہیں بچا سکے گی** یعنی: * زندگی کی ساری تگ و دو غلط سمت میں لگ گئی * طاقت صرف دنیا کو بنانے میں کھپ گئی * آخرت خالی رہ گئی

✅ **حصہ اوّل (آیات 1 تا 7) کا جامع خلاصہ**

اس حصے میں اللہ نے ہمیں یہ دکھایا:

  1. 1. قیامت ایک اچانک چھا جانے والی حقیقت ہے

  2. 2. اس دن کچھ چہرے ذلت میں ڈوبے ہوں گے

  3. 3. بہت سے لوگ دنیا میں شدید محنت کے باوجود آخرت میں ناکام ہوں گے

  4. 4. دہکتی آگ، کھولتا پانی اور کانٹے دار کھانا ان کا انجام ہوگا

  5. 5. ان کی بھوک بھی مٹے گی نہیں اور ذلت بھی ختم نہ ہوگی

یہ وہ پہلا جھٹکا ہے جو سورۃ الغاشیہ انسان کو دیتی ہے۔

**دل کو ہلا دینے والا سوال**

اے انسان! تو دن رات محنت کر رہا ہے تھک رہا ہے جل رہا ہے دوڑ رہا ہے مگر ذرا سوچ: **کہیں تو بھی عاملة ناصبة تو نہیں بن رہا؟** کہیں تو بھی وہ شخص تو نہیں

جو سب کچھ کما رہا ہے سوائے نجات کے؟

🌙 سورۃ الغاشیہ — حصہ دوم  **(آیات 9 تا 26)**

🌿 1. جنت والوں کی مسرت، محنت کی قبولیت اور دل کی راحت

**(آیت 9)** “اپنی کوششوں سے راضی ہوں گے”

یہ آیت اہلِ جنت کی سب سے گہری نفسیاتی کیفیت کو بیان کرتی ہے۔ دنیا میں انسان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اُس کی محنت ضائع نہ جائے۔ دنیا میں کوئی بھی شخص سو فی صد یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کی کوشش کامیاب ہو ہی جائے گی۔ یہاں ہر محنت شک، اندیشے اور خوف کے سائے میں کی جاتی ہے۔ لیکن جنت میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلا جذباتی انعام یہ ہو گا کہ بندہ یہ شعور پا لے گا کہ:

* میری نماز ضائع نہ ہوئی * میرا صبر رائیگاں نہ گیا * میرا حلال کمانا بے معنی نہ تھا

* میری خاموش قربانیاں محفوظ رہیں یہی وہ سکون ہے جسے قرآن “رضا” کہتا ہے۔ انسان اُس وقت حقیقی مسرت کو چھوتا ہے جب وہ اپنی محنت کے نتائج سے مطمئن ہو جائے۔

🌹 2. بلند مرتبہ جنت

**(آیت 10)** “بلند درجے کی جنت میں ہوں گے”

یہ صرف جغرافیائی بلندی نہیں بلکہ: * روحانی بلندی * شعوری بلندی * قربِ الٰہی

* عزتِ ابدی دنیا میں جو لوگ دین پر چلتے ہوئے ذلتیں جھیلتے ہیں، مذاق سہتے ہیں، اور دنیا کی چکاچوند کو رد کرتے ہیں، قیامت کے دن وہی لوگ اصل بلندیوں پر ہوں گے۔ یہ دنیا **دھکے کی سیڑھی** ہے، آخرت **وقار کی منزل** ہے۔

🌼 3. بے مقصد گفتگو سے پاک ماحول

**(آیت 11)** “وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے”

دنیا میں سب سے زیادہ روح کو تھکانے والی چیز **فضول گفتگو** ہے: * غیبت * مذاق اُڑانا * الزام * تضحیک * بے حیائی * شور * لغو تفریح جنت کی ایک پہچان یہ ہو گی کہ وہاں انسان کی سماعت کو کبھی آلودگی نہیں پہنچے گی۔ وہاں ہر آواز: * سکون دے گی

* وقار سکھائے گی * جمال پیدا کرے گی یہ آیت اس بات کی علامت ہے کہ **جنت صرف جسم کی آسائش نہیں، روح کی تطہیر کی آخری منزل بھی ہے۔**

💧 4. بہتے چشمے

**(آیت 12)** “اس میں بہتا ہوا چشمہ ہو گا”

یہ بہتے ہوئے چشمے محض پانی نہیں: * سکون کی روانی ہیں * زندگی کی علامت

* ابدی تازگی دنیا میں پانی کمیاب، آلودہ اور محدود ہے۔ جنت میں نعمتیں: * نہ ختم ہوں گی * نہ آلودہ ہوں گی * نہ رکیں گی یہ نعمت صرف جسم کو نہیں، **روح کو بھی سیراب کرے گی۔**

🪑 5. اُونچے تخت، نرم قالین اور ترتیب

**(آیات 13 تا 16)** “بلند بچھونے، رکھے ہوئے جام، قطار میں لگے تکیے، اور بچھے ہوئے فرش”

یہ پورا منظر بتاتا ہے کہ جنت میں: * بدن کو آرام * آنکھ کو خوبصورتی * دل کو اطمینان

* اور روح کو وقار ملے گا یہ ترتیب ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ: اللہ کے ہاں خوبصورتی، ترتیب اور وقار کوئی معمولی چیز نہیں۔ جو دنیا میں اپنی زندگی کو بے ترتیبی، گندگی اور لاپرواہی میں گزارتا ہے، وہ جنت کی ذہنی تیاری ہی نہیں کر رہا۔

🐫 6. مشاہدۂ کائنات کی دعوت

**(آیت 17)** “کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیسے پیدا کیا گیا؟”

یہ آیت **سائنس، فطرت اور عقل کی سب سے بڑی دعوت ہے۔** عرب کے لیے اونٹ محض جانور نہیں تھا، اُس کی: * سواری * خوراک * تجارت * سفر * بقا سب اسی سے جڑی تھی۔ قرآن یہاں یہ اعلان کر رہا ہے: جو چیز تمہارے سب سے زیادہ قریب ہے، اُسی میں اللہ کی قدرت سب سے واضح ہے۔

اونٹ: * پیاس برداشت کرتا ہے * ریگستان میں چلتا ہے * بھاری بوجھ اٹھاتا ہے * کم غذا میں زندہ رہتا ہے یہ محض حیاتیات نہیں، **قدرت کا زندہ معجزہ ہے۔**

🌌 7. آسمان کی بلندی

**(آیت 18)** “اور آسمان کی طرف کہ وہ کیسے بلند کیا گیا”

یہ آیت انسان کو کائنات کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔ جس آسمان کے نیچے انسان اکڑ کر چلتا ہے، وہ آسمان: * بغیر ستون کے قائم ہے * بغیر کسی انسانی سہارے کے معلق ہے * بغیر تھکے حرکت میں ہے یہ آیت انسان کے غرور کو توڑتی ہے: تم چھوٹے ہو، بہت چھوٹے!

🏔️ 8. پہاڑوں کا استحکام

**(آیت 19)** “اور پہاڑوں کی طرف کہ وہ کیسے گاڑے گئے”

پہاڑ صرف خوبصورتی نہیں: * زمینی توازن * زمینی دباؤ کی تقسیم * موسموں کا نظام

* پانی کی ذخیرہ اندوزی یہ سب انہی سے وابستہ ہے۔ قرآن ان کو **زمین کی میخیں** کہتا ہے۔ یہ ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ: استحکام خاموش ہوتا ہے، شور نہیں مچاتا۔

🌍 9. زمین کا بچھایا جانا

**(آیت 20)** “اور زمین کہ وہ کیسے بچھائی گئی”

یہ عام فہم مگر گہری آیت ہے۔ زمین: * نہ بہت سخت * نہ بہت نرم * نہ بہت تیز گھومتی ہے * نہ بہت سست انسان کے لیے مکمل متوازن پلیٹ فارم ہے۔

🗣️ 10. نبی کا بنیادی فرض: یاد دہانی

**(آیت 21)** “پس تم نصیحت کرتے رہو، تم صرف نصیحت کرنے والے ہو”

یہ آیت ہر داعی، ہر عالم، ہر معلم کے لیے ابدی اصول دے دیتی ہے: تم: * زبردستی ہدایت دینے والے نہیں * دلوں کے مالک نہیں * ضمیر کے کنٹرولر نہیں تمہارا کام صرف **پیغام پہنچانا** ہے۔

🔓 11. جبرِ ایمان کی نفی

**(آیت 22)** “تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو”

اسلام میں سب سے پہلی انسانی آزادی: آزادیٔ ایمان کوئی شخص دل سے مانے بغیر اللہ کا بندہ ہو ہی نہیں سکتا۔

❌ 12. حق سے منہ موڑنے کا انجام

**(آیات 23 تا 24)** “جو منہ موڑے اور کفر کرے گا، اللہ اسے بڑا عذاب دے گا”

یہاں فیصلہ **اللہ کے پاس چلا جاتا ہے**۔ نہ کوئی پیر بچا سکتا ہے نہ کوئی دنیاوی طاقت۔

⚖️ 13. آخری واپسی

**(آیات 25 تا 26)** “ان کی واپسی ہماری طرف ہی ہے، پھر ان کا حساب لینا ہمارے ذمہ ہے”

یہ سورۃ کا مکمل انجام ہے۔ انسان کا آخری ٹھکانہ: * قبر نہیں * موت نہیں * دنیا نہیں بلکہ: اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔

✅ خلاصۂ حصہ دوم

یہ حصہ انسان کو: * جنت کا سکون * جہنم کا انجام * کائنات کی گواہی * انسانی آزادی

* اور آخرت کے فیصلے سب کچھ بیک وقت دکھا دیتا ہے۔

زندگی میں کیسے نافذ کریں؟ (How to Apply in Today’s Life)

**حصہ اوّل: سوچ کی اصلاح، ترجیحات کی تبدیلی، اور انجام کی تیاری**

  1. 1. آج کا انسان اور “الغاشیہ” کا دھچکا

سورۃ الغاشیہ کا آغاز ہی ایک جھٹکے سے ہوتا ہے: **“کیا تمہارے پاس اس چھا جانے والی آفت کی خبر آئی؟”** آج کا انسان بھی ایک “غاشیہ” میں جکڑا ہوا ہے: * اسکرینوں کی دنیا * سوشل میڈیا کی دوڑ * دولت کی حرص * شہرت کا نشہ * مقابلہ بازی کی آگ یہ سب کچھ انسان پر اس طرح چھایا ہوا ہے کہ: * اسے اپنی روح کی خبر نہیں * اسے اپنے انجام کا خیال نہیں * اسے موت کی تیاری کی فرصت نہیں

**عملی اطلاق:**

آج سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ انسان: * دن میں چند لمحے “خاموشی کے” اپنے لیے مخصوص کرے * خود سے یہ سوال کرے:   * میں کس دوڑ میں بھاگ رہا ہوں؟   * میں کس چیز کے پیچھے اپنی زندگی کھپا رہا ہوں؟   * اگر آج سب ختم ہو جائے تو میں کہاں کھڑا ہوں؟ یہی “الغاشیہ” کا پہلا عملی پیغام ہے: انسان کو جھنجھوڑا جائے، سُلایا نہ جائے۔

  1. 2. تھکے ہوئے چہرے — آج کے دور میں اس کی جھلک

سورۃ میں فرمایا گیا: **“اس دن کچھ چہرے جھکے ہوئے ہوں گے، محنت کرنے والے، تھکے ہوئے”** آج ہم یہ منظر روز دیکھتے ہیں: * فیکٹری میں مزدور * دفتر میں کلرک

* بازار میں دکاندار * اسپتال میں نرس * سڑکوں پر مزدور بچے سب محنت کرتے ہیں، سب تھکتے ہیں، لیکن: * سب کو سکون نہیں ملتا * سب کی محنت قبول نہیں ہوتی **آج کا بڑا مسئلہ:** ہم محنت کو **دنیا کے لیے کرتے ہیں، آخرت کے لیے نہیں۔**

**عملی اطلاق:**

ہر شخص کو اپنی زندگی کی محنت میں یہ نیت شامل کرنی ہے: * میں جو کما رہا ہوں، وہ حلال ہو * میں جو سیکھ رہا ہوں، وہ خیر بنے * میں جو برداشت کر رہا ہوں، وہ اللہ کے لیے ہو نیت بدلتے ہی: * مزدوری عبادت بن جاتی ہے * تجارت عبادت بن جاتی ہے

* تعلیم عبادت بن جاتی ہے * خدمت عبادت بن جاتی ہے

  1. 3. جہنم کی آگ اور جدید تہذیب

سورۃ میں جہنم کی آگ کا ذکر ہے: * تیز دھکتی ہوئی * جلانے والی * ذلت دینے والی آج کا انسان جہنم کو “علامتی” سمجھتا ہے، مگر: * وہ خود روز نئی آگیں جلا رہا ہے

  * نفرت کی آگ   * حسد کی آگ   * فحاشی کی آگ   * بے حیائی کی آگ   * سود کی آگ

  * ظلم کی آگ یہ سب آگیں: * گھروں کو جلا رہی ہیں * رشتوں کو جلا رہی ہیں

* معاشروں کو جلا رہی ہیں

**عملی اطلاق:**

آج جہنم سے بچنے کا پہلا عملی قدم یہ ہے کہ: * زبان کو آگ بننے سے روکا جائے

* آنکھ کو آگ بننے سے بچایا جائے * ہاتھ کو ظلم سے روکا جائے * کمائی کو حرام سے روکا جائے جو شخص: * دوسروں کو دنیا میں جلاتا ہے   وہ خود آخرت میں آگ کا ایندھن بننے کے راستے پر ہے۔

  1. 4. کھارے کانٹے کی غذا اور آج کا رزق

جہنمیوں کی غذا کو: * کڑوی * سخت * بدذائقہ * بے نتیجہ بتایا گیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں:

* حرام مال * سودی کمائی * ملاوٹ * دھوکا * ذخیرہ اندوزی یہ سب آج کا “کانٹوں والا کھانا” ہے: * پیٹ تو بھر جاتا ہے * دل بھوکا رہتا ہے * روح تڑپتی رہتی ہے * سکون غائب ہو جاتا ہے

**عملی اطلاق:**

رزق کے بارے میں تین فیصلے زندگی بدل دیتے ہیں: 1. جو ملے، حلال ہو 2. کم ہو تو صبر ہو 3. زیادہ ہو تو شکر ہو جس گھر میں: * حلال کا ایک لقمہ جاتا ہے   وہ گھر جہنم سے ایک قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

  1. 5. جنت کے چہرے اور آج کے مسکراتے چہرے

اہلِ جنت کے بارے میں فرمایا: * چہرے شاداں ہوں گے * خوش ہوں گے * مطمئن ہوں گے آج کی دنیا میں مسکراہٹیں دو طرح کی ہیں: 1. تصویری، مصنوعی، وقتی 2. حقیقی، مطمئن، اندر سے اُبھرنے والی اکثر لوگ: * ہنس رہے ہوتے ہیں * مگر اندر سے ٹوٹے ہوتے ہیں

**عملی اطلاق:**

اگر ہم دنیا میں جنت کے سے چہرے چاہتے ہیں تو: * دل کو بغض سے پاک کریں * حسد کو دفن کریں * تکبر کو توڑیں * معافی کو عادت بنائیں تبھی: * چہرے پر نور آئے گا

* آنکھوں میں چین اترے گا * آواز میں مٹھاس پیدا ہو گی

  1. 6. محنت سے راضی ہونا — آج کے انسان کا سب سے بڑا بحران

سورۃ کہتی ہے: **“وہ اپنی کوششوں سے راضی ہوں گے”** آج کا انسان: * بہت محنت کرتا ہے * مگر کبھی راضی نہیں ہوتا اسے: * اپنے حال سے شکایت * اپنے مقدر سے شکوہ * اپنی قسمت سے ناراضی * اپنے رب سے بدگمانی لگی رہتی ہے۔

**عملی اطلاق:**

دن کا اختتام تین باتوں پر کریں: 1. آج میں نے کیا اچھا کیا؟ 2. آج میں نے کہاں غلطی کی؟ 3. آج اللہ نے مجھے کس مصیبت سے بچایا؟ جو شخص روز اپنا محاسبہ کر لیتا ہے، اسے آخرت میں سخت حساب سے بچا لیا جاتا ہے۔

  1. 7. جنت کا ماحول اور ہمارے گھر

جنت کی شان: * کوئی لغو بات نہیں * پاکیزہ گفتگو * وقار بھرا ماحول ذرا آج اپنے گھروں کو دیکھئے: * چیخ و پکار * گالیاں * طنز * طعنے * نفرت * بے ادبی

**عملی اطلاق:**

اپنے گھر کو جنت نما بنانے کے پانچ اصول: 1. آواز نیچی رکھیں 2. بات نرمی سے کریں

  1. 3. اختلاف میں بھی ادب قائم رکھیں 4. بچوں کے سامنے جھگڑا نہ کریں 5. میاں بیوی ایک دوسرے کو رسوا نہ کریں وہ گھر جہاں: * زبان پاک ہو وہاں فرشتے اترتے ہیں، جھگڑے نہیں۔

  1. 8. بہتے چشمے اور دل کی پیاس

جنت میں چشمے بہتے ہیں: * کبھی نہیں سوکھتے * کبھی آلودہ نہیں ہوتے آج انسان کے پاس: * دولت ہے * سہولت ہے * وسائل ہیں مگر: * دل کی پیاس باقی ہے * روح کی خشکی باقی ہے * ذہن کی بے چینی باقی ہے

**عملی اطلاق:**

دل کا چشمہ تین چیزوں سے بہتا ہے: 1. ذکر 2. شکر 3. خدمت  جو شخص: * روز تھوڑا سا اللہ کو یاد کرتا ہے * اللہ کی نعمتوں کو گنتا ہے * کسی ایک انسان کے لیے آسانی بن جاتا ہے اس کے دل میں: * سکون کا چشمہ جاری ہو جاتا ہے۔

حصہ دوم: تعلیم، میڈیا، سیاست، نوجوان، والدین اور اجتماعی زندگی میں اطلاق

  1. 9. سورۃ الغاشیہ اور آج کا تعلیمی نظام

آج کا تعلیمی نظام انسان کو: * ہنر سکھاتا ہے * ڈگری دیتا ہے * روزگار کی راہ دکھاتا ہے مگر اکثر: * کردار نہیں بناتا * آخرت کا شعور نہیں دیتا * اللہ کے سامنے جواب دہی کا احساس پیدا نہیں کرتا سورۃ الغاشیہ کا بنیادی سبق یہ ہے کہ: اصل کامیابی وہ ہے جو اللہ کے سامنے سرخرو کرے۔ آج تعلیم کی دوڑ میں: * بچے پریشر میں ہیں * والدین بے چین ہیں * استاد تھکے ہوئے ہیں * مگر روح خالی ہے

**عملی اطلاق:**

  1. 1. تعلیم کے ساتھ “مقصدِ زندگی” بھی سکھایا جائے

  2. 2. بچوں کو صرف ڈاکٹر، انجینئر نہ بنایا جائے بلکہ: * سچا انسان * امانت دار فرد    * اللہ سے ڈرنے والا بندہ بنایا جائے

  3. 3. نصاب میں: * اخلاق * حلال و حرام    * جواب دہی    * خدمتِ خلق      کا عملی شعور شامل کیا جائے وہ علم جو: * اللہ کی پہچان نہ دے   وہ اندھا علم بن جاتا ہے۔

  1. 10. میڈیا، سوشل میڈیا اور “الغاشیہ” کا فتنہ

آج کا سب سے بڑا فتنہ: * سکرین * کیمرہ * وائرل ہونا * شہرت * لائکس اور ویوز یہ سب بھی ایک “غاشیہ” ہے جو: * آنکھوں پر چھا گیا * کانوں پر چھا گیا * دلوں پر چھا گیا

انسان: * جو دیکھ رہا ہے، وہی بن رہا ہے * جو سنتا ہے، وہی سوچ رہا ہے فحاشی، بے حیائی، جھوٹ، تماشہ، تحقیر: سب کچھ معمول بن چکا ہے۔

**عملی اطلاق:**

  1. 1. دیکھنے سے پہلے یہ سوال: * کیا یہ میرے اللہ کو ناراض کرے گا؟

  2. 2. بچوں کے اسکرین ٹائم پر: * سخت نگرانی * محبت کے ساتھ کنٹرول

  3. 3. خود اپنے لیے “ڈیجیٹل روزہ”: * دن میں ایک وقت مکمل موبائل سے دور

  4. 4. سوشل میڈیا کو: * دعوت * تعلیم    * خیر      کے لیے استعمال کریں، نہ کہ نفس کی نمائش کے لیے جو آنکھ: * حرام دیکھنے کی عادی ہو جائے   وہ قیامت کی ہولناکی بھی دیکھے بغیر نہ رہے گی۔

  1. 11. سیاست، اقتدار اور آخرت کا شعور

سورۃ الغاشیہ ہمیں یاد دلاتی ہے: اقتدار عارضی ہے، حساب دائمی ہے۔ آج سیاست:

* طاقت کا کھیل بن گئی * عوام کی بجائے مفاد کی غلام ہو گئی * سچ کی جگہ مصلحت نے لے لی لیکن قرآن کا اعلان ہے: “لوگ ہمارے پاس ہی لوٹ کر آئیں گے، پھر حساب ہم ہی لیں گے”

**عملی اطلاق:**

  1. 1. اقتدار میں بیٹھے افراد: * فیصلے کرتے وقت قبر کو یاد رکھیں

  2. 2. ووٹ دینے والا عوام: * دینداری * امانت    * کردار      کو ترجیح دیں

  3. 3. ظلم پر خاموش رہنا بھی: * ظلم کا حصہ بن جانا ہے

وہ ریاست: * جو اللہ کے خوف کے بغیر چلائی جائے   وہ دنیا میں بھی رسوا ہوتی ہے، آخرت میں بھی۔

  1. 12. عدل، ظلم اور اجتماعی نجات

سورۃ الغاشیہ میں جہنمیوں کی سب سے بڑی پہچان: * حق سے منہ موڑنا * ظلم پر جم جانا * ہدایت کو ٹھکرا دینا آج ظلم: * عدالت میں * بازار میں * دفتر میں * گھر میں

* سیاست میں   ہر جگہ موجود ہے۔

**عملی اطلاق:**

  1. 1. اپنے دائرے میں کبھی ظلم نہ کریں: * نوکر پر * بیوی پر * بچوں پر * ملازم پر

  2. 2. اگر ظلم دیکھیں تو: * زبان سے روکیں * دل سے بُرا جانیں

  3. 3. انصاف: * اپنے خلاف بھی ہو تو قبول کریں

قومیں: * طاقت سے نہیں * عدل سے زندہ رہتی ہیں۔

  1. 13. نوجوان نسل اور سورۃ الغاشیہ

آج نوجوان: * سوالوں میں گھرا ہوا * شکوک میں مبتلا * خواہشات میں الجھا ہوا * مقصد سے بھٹکا ہوا اس کے سامنے: * ماڈل غلط * ہیرو فیک * کامیابی کا تصور جھوٹا سورۃ الغاشیہ نوجوان کو بتاتی ہے: اصل کامیابی جنت کی مسکراہٹ ہے، دنیا کی تالیاں نہیں۔

**عملی اطلاق:**

  1. 1. نوجوان کو یہ سمجھایا جائے کہ: * گناہ آزادی نہیں، غلامی ہے

  2. 2. اس کی توانائی: * کھیل * علم    * خدمت      میں لگائی جائے

  3. 3. اسے یہ یقین دلایا جائے کہ: * پاکیزگی کمزوری نہیں * حیا شکست نہیں

   * نماز پسماندگی نہیں     جو نوجوان: * اللہ کے سامنے جھکتا ہے   وہ دنیا کے سامنے کبھی نہیں جھکتا۔

  1. 14. والدین اور سورۃ الغاشیہ کی روشنی

والدین کا سب سے بڑا فتنہ آج یہ ہے کہ: * وہ بچوں کو دنیا تو دے رہے ہیں * مگر آخرت نہیں دے رہے بچے: * اسکول جا رہے ہیں * اکیڈمیز میں جا رہے ہیں * مگر مسجد سے دور ہیں

**عملی اطلاق:**

  1. 1. بچے کے سامنے: * نماز کی زندہ مثال بنیں

  2. 2. گھر میں: * اللہ کا ذکر ہو * شکر کا ماحول ہو

  3. 3. صرف کیریئر نہیں، کردار بھی بنائیں

وہ بچہ: * جو دنیا میں اللہ کو سیکھ جاتا ہے   وہ آخرت میں ماں باپ کے لیے نجات کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

  1. 15. گھر، خاندان اور جنت کا ماحول

سورۃ الغاشیہ میں جنت کا ماحول: * پاکیزہ * باوقار * پر سکون * لغو سے پاک آج ہمارے گھر: * ٹینشن سے بھرے * شکایت سے بھرے * چیخ و پکار سے بھرے

**عملی اطلاق:**

  1. 1. گھر میں: * سلام کو عام کریں * شکر کو عادت بنائیں

  2. 2. شوہر: * زبان نرم رکھے

  3. 3. بیوی: * شکایت پر صبر کو غالب رکھے

  4. 4. اولاد: * بڑوں کا ادب سیکھے

وہ گھر: * جہاں اللہ کا ذکر ہو   وہ دنیا میں ہی جنت کا ایک سایہ بن جاتا ہے۔

  1. 16. تجارت، ملازمت اور حلال کمائی

سورۃ الغاشیہ ہمیں دو راستے دکھاتی ہے: * ایک وہ جو آگ کی طرف لے جائے * دوسرا وہ جو جنت کی طرف لے جائے آج رزق کے میدان میں: * رشوت * سود * دھوکا

* جھوٹ  معمول بن چکے ہیں۔

**عملی اطلاق:**

  1. 1. کم مگر حلال کمائی: * زیادہ مگر حرام سے بہتر ہے

  2. 2. تول میں کمی: * جہنم کی سیڑھی ہے

  3. 3. وعدہ خلافی: * ایمان کو کمزور کرتی ہے

وہ دکان: * جو حلال پر چلتی ہے   وہ جہنم سے محفوظ ہو جاتی ہے۔

  1. 17. موت، قبر اور سورۃ الغاشیہ

سورۃ کا اختتام ہمیں سیدھا موت کے بعد کی حقیقت پر لا کھڑا کرتا ہے: “واپسی ہماری طرف ہی ہے” آج موت: * دوسروں کے لیے خبر * اپنے لیے حقیقت نہیں   سمجھی جاتی ہے۔

**عملی اطلاق:**

  1. 1. ہفتے میں ایک بار: * موت کا تصور * قبر کا تصور 2. جنازے میں:    * صرف شرکت نہیں، عبرت

  2. 3. ہر منصوبے کے ساتھ: * “اگر میں نہ رہا تو؟” جو شخص: * موت سے پہلے مرنا سیکھ لیتا ہے وہ آخرت کی ہولناکی سے بچا لیا جاتا ہے۔

  1. 18. اجتماعی توبہ اور سورۃ الغاشیہ

یہ سورۃ صرف فرد کو نہیں، قوم کو بھی جھنجھوڑتی ہے۔ اگر: * بازار جھوٹ سے بھر جائیں * عدالت ظلم سے بھر جائیں * تعلیمی ادارے بے حیائی سے بھر جائیں * قیادت بددیانتی سے بھر جائے تو عذاب صرف فرد پر نہیں، اجتماعی طور پر آتا ہے۔

**عملی اطلاق:**

  1. 1. قوم کو اجتماعی توبہ کی طرف بلایا جائے

  2. 2. منبر و محراب: * صرف رسم نہ بنیں، اصلاح کا مرکز بنیں

  3. 3. علماء: * درباروں کے نہیں، حق کے ترجمان بنیں

جب قوم: * اجتماعی طور پر اللہ کی طرف پلٹتی ہے   تو عذاب ٹل جاتا ہے۔

  1. 19. سورۃ الغاشیہ اور ہماری روزمرہ زندگی کا خلاصہ

یہ سورۃ ہمیں روز یہ سوال سناتی ہے: * میں کہاں جا رہا ہوں؟ * میں کس کے لیے جی رہا ہوں؟ * میری محنت کس طرف جا رہی ہے؟ * میرا انجام کیا ہو گا؟ اگر انسان: * یہ سوال روز خود سے پوچھ لے   تو جہنم تک جانے والا راستہ خود بند ہو جاتا ہے۔

  1. 20. عملی چیک لسٹ (Daily Action Plan)

سورۃ الغاشیہ کو زندگی میں نافذ کرنے کے لیے روز یہ چھ باتیں اپنائیں:

  1. 1. ایک نماز ایسی پڑھیں جس میں دل حاضر ہو

  2. 2. ایک گناہ ایسا چھوڑیں جو چھوٹا سمجھتے تھے

  3. 3. ایک انسان کی زندگی میں آسانی پیدا کریں

  4. 4. ایک نعمت پر اللہ کا شکر ادا کریں

  5. 5. ایک ظلم سے خود کو روکیں

  6. 6. سونے سے پہلے ایک بار یہ سوچیں: * اگر آج میرا حساب ہو جائے تو؟

Loading