اناکی جنگ میں بیٹے قتل
تحریر۔۔۔حمیراعلیم،
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اناکی جنگ میں بیٹے قتل۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم)اگر کسی کی بیٹی یہ کہہ دے کہ اسے کوئی لڑکا پسند ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اکثر والدین کی غیرت جوش مارنے لگتی ہے۔اور وہ لڑکی کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اس کی شادی اس کی پسند کے لڑکے سے کرنے کی بجائے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا کر کبھی بیٹی کو قتل کر دیتے ہیں اور کبھی اس کی شادی کسی اور سے کر کے اسے جیتے جی مار دیتے ہیں۔شاید انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر بیٹی کی پسند کی شادی کر دی تو لوگ کیا کہیں گے۔حالانکہ لوگوں کا تو کام ہی باتیں کرنا ہوتا ہے وہ کسی کو کسی بھی حال میں خوش نہیں دیکھ سکتے۔
اسلام شادی کے لیے لڑکی کی اجازت لینے کا حکم دیتا ہے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور اس کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔چنانچہ اس معاملے میں بھی آباء و اجداد کے طریقوں کو اسلام پر ترجیح دی جاتی ہے۔اور یہ کہہ کر کہ لڑکیوں سے کون پوچھتا ہے ہم بڑے جو فیصلہ کریں گے وہ بہتر ہو گا۔
اگرچہ والدین یہ سب کچھ بچیوں کی بھلائی کی نیت سے کرتے ہیں۔اور یہ سوچتے ہیں کہ بیٹی کم عمر ،جذباتی اور کم عقل ہے درست فیصلہ نہیں کر سکتی۔اکثر کیسیز میں لڑکیاں والدین کی جذباتی بلیک میلنگ اورزور زبردستی کے نتیجے میں چپ چاپ کہیں اور شادی کر کے اپنی محبت بھلا کر زندگی گزار دیتی ہیں۔لیکن بعض اوقات کچھ لڑکیاں باغی ہو جاتی ہیں اور نہ صرف اپنے گھر والوں بلکہ شوہر اور سسرال کو بھی والدین کی اس غلطی کی پوری پوری سزا دیتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں ایسی کئی خبریں سامنے آئیں کہ کسی لڑکی نے پسند کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے شوہر کو قتل کروا دیا۔ یہ واقعات کسی ایک طبقے یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ معاشرتی بے حسی اور خاندانی انا کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔
چند دن پہلے ڈسکہ میں لڑکی نے پسند کی شادی نہ ہونے کے جرم میں ولیمے والے دن اپنے محبوب کے ذریعے شوہر کو قتل کروا دیا ۔بے حسی اور سفاکی کی انتہا دیکھیے کہ جب دلہا جان کنی کے عالم میں تڑپ رہا تھا تو دلہن اس کی پاکٹ سے موبائل اور پیسے نکال رہی تھی۔ایسے ہی کئی واقعات میں لڑکی نے بڑی پلاننگ کے ساتھ شوہر کو زہر دیا۔یا جب دلہا خوش گوار سپنے آنکھوں میں سجائے بارات کے ساتھ دلہن لے جانے ہال کی طرف روانہ ہوا تو دلہن کے محبوب نے اسے راستے میں کار پر فائرنگ کر کے مار دیا۔
ایسے قاتل چونکہ پروفیشنلز نہیں بلکہ ناکام عاشق ،غصیلے ،جذباتی اور کم عقل ہوتے ہیں لہذا فورا ہی پکڑے جاتے ہیں۔اور اپنے جرم کا اعتراف تو کر لیتے ہیں لیکن الزام سارا لڑکی کے والدین پر دھرکر خودبری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔حالانکہ قصور اگرچہ لڑکی کے والدین کا بھی ہوتا ہے مگر صرف اتنا کہ وہ اس عاشق کی مجرمانہ ذہنیت اور بد کرداری کو بھانپ کر اپنی لڑکی کو اندھے کنوئیں میں گرنے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اصل قصوروار وہ لڑکی اور اس کا عاشق ہوتے ہیں جن میں اتنی جرات تو ہوتی نہیں کہ والدین کے سامنے ڈٹ جائیں یا ان کی مرضی کے بغیر نکاح کر لیں۔جو لوگ میری اس بات پر اعتراض کریں گے کہ میں انہیں غلط راہ دکھا رہی ہوں وہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ نامحرم سے تعلق بنانا ہی سب سے بڑا گناہ اور گمراہی ہے۔اگر وہ والدین کی مرضی کے بغیر یہ گناہ کر سکتے ہیں تو نکاح کرنے کے لئے ان کی رضامندی کی ضرورت کیوں ہے؟
چلیے فرض کیجئے آپ یہ ہمت نہیں کر پائیں اور کسی بھی مجبوری کے تحت شادی کر ہی لی ہے اور اسے نبھانا نہیں چاہتیں تو شوہر کو سچ بتا کر خلع لے لیجئے مگر کسی کے بڑھاپے کا سہارا ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکوںن تو نہ چھینیں۔اگر آپ کو طلاق کی صورت میں معاشرے، برادری، والدین کی باتوں کا ڈر ہے تو یاد رکھیے قتل کی صورت میں بھی آپ بچ نہیں سکیں گی۔طلاق یافتہ ہونا قاتلہ ہونے سے بہتر ہے۔لوگ چند دن باتیں کریں گے پھر بھول جائیں گے۔مگر قتل کی واردات کوئی نہیں بھولتا۔خصوصا پولیس تو ہرگز نہیں بھولے گی نہ بھولنے دے گی۔وہ تو آپ کو تختہ دار پر پہنچا کر ہی دم لے گی۔
اور والدین سے بھی گزارش ہے کہ پہلے تو بچوں کی تربیت پر دھیان دیں۔ انہیں دین سکھائیں۔معاشرے کی اونچ نیچ سمجھائیں۔تاکہ وہ کسی گناہ میں مبتلا نہ ہوں۔انہیں اعتماد دیں تاکہ اگر کوئی لغزش ہو ہی جائے تو وہ آپ کے ساتھ شیئر کر سکیں۔اور جب وہ اپنے دل کی بات آپ کے ساتھ شیئر کریں تو بجائے طنز و تشنیع اور مار پیٹ کے تحمل سے بات سنیں اور حل تلاش کریں۔اگر لڑکی کسی کو پسند کرتی ہے اور وہ بھی اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو کم از کم ایک بار اس سے مل لیں۔اگر لڑکا مناسب لگے تو شادی کر دیں اور نامناسب ہو تو بیٹی کو پیار سے سمجھائیں۔پھر بھی نہ مانے تو بیاہ دیں۔خود ہی عقل ٹھکانے آ جائے گی۔
فضول کی انااور لوگوں کا خوف وقتی ڈر ہیں ان کو بیٹی کی خوشی اور سکون پر ترجیح نہ دیں۔اللہ سے ڈریں اور اپنے بچوں کی خوشی کو مقدم رکھیں۔ورنہ جس عزت کو بچانے کے لئے آپ بیٹی پر جبر کرتے ہیں وہی عزت سر بازار نیلام ہو گی اور آپ کو منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔اور آپ کی اس انا کی بھینٹ کوئی معصوم چڑھے گا جس کے والدین اس کی شادی پر دل کے ارمان پورے کرتے ہوئے بہو کو خوشی اور عزت کے ساتھ رخصت کروا کر لے جاتے ہیں۔اور بدلے میں بیٹے سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
![]()

