جوش ملیح آبادی کی سوانح حیات “یادوں کی بارات ” سے کچھ حصے..
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)جوش ملیح آبادی کی سوانح حیات “یادوں کی بارات ” سے کچھ حصے.. جن میں رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم ، مولیٰ علی اور شہید انسانیت حسین علیہ السلام کو نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا ہے…
….. اے وحشیوں کو بردباری اے زلزلوں کو تمکین شعاری اے عزائم انسان کو آفاق شکاری عطا کرنے والے اے لاوارثوں کے وارث اے بے آسراؤں کے سہارے ، اے بیواؤں کے سہاگ ، اے فاقہ کش رزاق ، اے خلق کی برہان عظیم ، اے امی حکیم ، اے اولاد آدم کی فتح مبین ، وطین و رحمت العالمین ، روح کائنات کا سجدہ قبول کر…
… محمد کے بعد اب انکے نازش روزگار بھائی علی کی طرف ٹوپی سنبھال کے نگاہ اٹھائیے. ہزاروں ماہ و سال کے مسلسل تجربوں کے بعد یہ کلیہ قائم کیا گیا کہ علم اور شجاعت دو ایسے اضداد ہیں جو ایک ذات میں جمع نہیں ہو سکتے ، جس ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے وہ قلم اپنی انگلیوں کی گرفت میں نہیں لا سکتا ، جس ہاتھ میں قلم ہے وہ تلوار نہیں اٹھا سکتا. لیکن تاریخ انسانی میں علی کا ہاتھ وہ جامع اضداد ہاتھ تھا جو تلوار اور قلم کو مساوی روانی سے چلا سکتا تھا. وہ ادیب ، شاعر اور مفکر تھے اور اسی کے دوش بدوش عدیم الختیر سپاہی بھی ، وہ قرطاس پر مجسم کلک گوہر بار اور میدان کارزار میں سراپا شمشیر آبدار تھے.
اے علی اے میدان جنگ کے سورما ، اے منبر امن کے شیریں سخن خطیب ، اے ایوان عدل کے دیدہ ور قاضی ، اے نان جویں کی پی پناہ طاقت کے مظہر ، اے زندگی کے معتوب اے موت کے محبوب ، سیف و قلم کا مجرا قبول کر…
اب دل تھام کر نگاہ اٹھائیے علی کے سورما بیٹے محمد کے لہولہان نواسے حسین کی جانب جسکے نظام انفاس کی اطمینان آمیز ہمواری کی زد پر کربلا کی باد سموم کا دم ٹوٹ گیا تھا ، جسکی لبوں کی خشکی دیکھ کر فرات کی موجیں آب آب ہو کر رہ گئی تھیں ، جسکے چہرے کی شادابی دیکھ کر کربلا کے تپتے سورج کے ماتھے سے پسینے کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں. وہ حسین جس نے اس ارادے سے کہ ایوان حق کے چراغاں پر کوئی آنچ نہ آئے اپنے گھر کے تمام چراغوں کو بجھا دیا تھا….. اے حسین اے دریائے زہر سے آب حیات پینے والے… اے بپھرے طوفان کو اپنے سفینے میں ڈبونے والے.. اے حریم شہادت کے سب سے اونچے منارے ، سے ہمت مرداں کے اوتار ، اے ثبات و عزم کے پروردگار ،… ازل سے لے کر ابد تک کے انسانیت کا غلامانہ سلام قبول کر….
شبیر حسن خاں (جوش ملیح آبادی )
یادوں کی بارات
صفحہ 324
![]()

