*بیٹی کے نصیب کی کنجی ماں کی زبان میں*
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) (نوٹ ، یہ تحریر موجودہ ماحول میں پیدا ہونے والی تلخیوں کی وجہ سے گروپ میں شیئر کی جا رہی ہے ) جی ہاں… آپ نے بالکل درست پڑھا۔اللہ تعالیٰ نے بیٹی کے نصیب کے دروازوں کی کنجی اس کی ماں کی *زبان، اس کی نیت اور اس کی دعا* میں رکھ دی ہے۔یہ بات سننے میں شاید عام لگے، مگر اس کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ آئیے، ذرا دل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم روزمرہ زندگی میں بیٹیوں کو سمجھانے، سکھانے اور “حقیقت” بتانے کے نام پر کچھ ایسے جملے بول دیتے ہیں جو ہمیں معمولی لگتے ہیں، مگر اللہ کے نظام میں وہ معمولی نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر:
“ماں کے گھر جتنی عیش کرنی ہے کر لو، آگے جا کر سب مشکل ہے۔”
“ساس اگر سخت مل گئی تو پتا چلے گا۔”
“شوہر اچھا نہ ملا تو زندگی کا اصل امتحان شروع ہوگا۔”
ایسے نہ جانے کتنے جملے…
جن میں ڈر بھی ہوتا ہے، بدگمانی بھی، اور منفی سوچ بھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بیٹی کو زندگی کے لیے تیار کر رہے ہیں،
*مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم لاشعوری طور پر اس کے مقدر پر اپنے الفاظ کے برے نشانات لگا رہے ہوتے ہیں* ۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں حسنِ ظن کا حکم دیتا ہے۔
نیک لوگ کہتے ہیں کہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی ایک لمحہ ایسا ضرور آتا ہے جب انسان کے منہ سے نکلا ہوا لفظ قبولیت پا لیتا ہے۔
اب ذرا سوچیں…
*اگر اس لمحے میں ماں اپنی بیٹی کے لیے خوف، بدگمانی یا منفی جملہ بول دے تو اس کا کیا اثر ہوگا* ؟
یہ بات مجھے اپنی خالہ جان نے سکھائی تھی، جنہوں نے مجھے قرآن پڑھایا۔
انہوں نے صرف بات نہیں کی، عمل کر کے دکھایا۔
ان کی چار بیٹیاں ہیں اور
ان کے گھر، ان کا رزق، ان کے شوہر—سب کچھ اللہ نے بے مثال عطا فرمایا۔
ایسے داماد کہ خود خالہ جان حیران رہ جاتیں ہیں کہ اللہ نے کس طرح ان کی زبان سے نکلی نرمی، دعا اور حسنِ ظن کو ان کی بیٹیوں کے اچھے نصیب میں بدل دیا۔
*اس لیے یاد رکھیے* :
ماں کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ بیٹی کی قسمت کی اچھی لکیر بن سکتا ہے۔
اگر ماں، سکھاتے ہوئے یہ کہے: “میری بچی! جہاں بھی جائے گی خوش رہے گی،
لوگ تجھ سے محبت کریں گے،
ساس ماں جیسی ملے گی،
اور شوہر تیرے لیے سایہ بنے گا…”
تو یقین کریں، رب ان الفاظ کو سن کر ویسے ہی دروازے کھول دیتا ہے۔
*اور ایک اور بہت اہم بات…*
کسی بھی کام کی شروعات منفی سوچ سے نہ کریں۔
گھر سے نکلنے والے کو یہ نہ کہیں: “پتا نہیں کام ہوگا یا نہیں”
“کیا معلوم کوئی ملے بھی یا نہیں”
“راستہ ٹھیک ہوگا یا نہیں”
ایسے جملے انسان کے قدموں میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
بدگمانی تقدیر کے بہاؤ کو روک دیتی ہے۔
اس کے بجائے یہ کہیں: “اللہ تیرے راستے آسان کرے گا ،
کام میں برکت دے،
اچھے لوگوں سے ملائے،
اور ہر مشکل کو نرمی اور آسانی میں بدل دے۔”
یہی وہ الفاظ ہیں جو گھروں میں خوشی لاتے ہیں،
رزق بڑھاتے ہیں،
اور نصیب سنوارتے ہیں۔
یاد رکھیے… زندگی، موت اور رزق اللہ کے ہاتھ میں ہیں،
*مگر فکر، نیت، بات، دعا اور اچھا گمان* یہ اختیار اللہ نے ہمیں دیا ہے۔
ان اختیارات کو اپنی بیٹیوں کے لیے، اپنے بیٹوں کے لیے، اور اپنے گھروں کے لیے مثبت استعمال کرنا سیکھیں۔
کیونکہ زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ
یا تو دعا بن کر اوپر جاتا ہے،
یا بدگمانی بن کر اپنے ہی گھر پر آ گرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی زبانوں کو خیر بولنے میں لگا دے،
اور ہماری بیٹیوں اور بیٹوں کے نصیب روشن فرما دے۔
آمین یا رب العالمین۔
![]()

