Daily Roshni News

سورۃ القارعۃ — حصہ اوّل    قسط ۱    (آیات ۱ تا ۳)

سورۃ القارعۃ — حصہ اوّل    قسط ۱    (آیات ۱ تا ۳)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قیامت کی دستک، شعور کی بیداری، اور انسان کی بنیادی غفلت۔تمہید: یہ سورت کیوں لرزاتی ہے؟قرآنِ مجید کی بعض سورتیں ایسی ہیں جو **سمجھائی نہیں جاتیں، بلکہ ٹکرائی جاتی ہیں**۔  سورۃ القارعۃ انہی میں سے ہے۔ یہ سورت: * دلیل سے پہلے جھنجھوڑتی ہے

* نرمی سے پہلے چونکاتی ہے * عقل سے پہلے دل کو پکڑتی ہے یہ اس انسان سے بات کرتی ہے جو: * بہت جانتا ہے * بہت بولتا ہے * بہت مصروف ہے   مگر **بہت غافل** ہے۔ سورۃ القارعۃ کا پیغام یہ نہیں: تم نے کیا کیا؟ بلکہ یہ سوال ہے: **تم تیار ہو؟**

سورۃ القارعۃ کا مقام

یہ سورت قرآن کے آخری حصّے میں ہے، جہاں آ کر قرآن انسان سے **کوئی نئی بات نہیں کہتا**، بلکہ وہی پرانی حقیقت آخری شدت کے ساتھ دہراتا ہے: ایک دن ایسا ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ یہ سورت: * ایمان کی بنیاد ہلاتی ہے * غرور کو توڑتی ہے * دنیا کے وزن کو ہلکا کر دیتی ہے

لفظ “القارعۃ” — صرف نام نہیں، کیفیت

“قارعۃ” عربی زبان کا عام لفظ نہیں۔ یہ لفظ اس آواز کے لیے آتا ہے جو: * اچانک ہو

* شدید ہو * دل دہلا دے * انسان کو سنبھلنے نہ دے یہ کسی دروازے کی نرم دستک نہیں، یہ وہ ضرب ہے جو: غفلت کے تالے توڑ دیتی ہے۔

انسان اور دستک کا تعلق

انسان کی تاریخ یہ ہے کہ: * وہ نرمی نہیں سمجھتا * وہ اشارہ نہیں مانتا * وہ مہلت کو غفلت بنا لیتا ہے پھر اچانک: ایک سخت لمحہ آتا ہے جو سب کچھ واضح کر دیتا ہے۔ سورۃ القارعۃ اسی لمحے کا نام ہے۔

آیت ۱: القارعۃ     اَلْقَارِعَةُ

یہ ایک لفظ ہے،  مگر اس کے اندر ایک پورا زلزلہ بند ہے۔ یہاں: * نہ فاعل بتایا گیا * نہ وقت * نہ جگہ صرف ایک اعلان: القارعۃ یعنی: * وہ آ گئی * وہ حقیقت ہے * وہ ٹکرانے والی ہے

اسلوب کی شدت

قرآن عام طور پر بات کو: * تدریج سے لاتا ہے * عقل کو ساتھ لے کر چلتا ہے لیکن یہاں: کوئی تمہید نہیں کوئی وضاحت نہیں یہ اسلوب اس وقت استعمال ہوتا ہے جب:

* سننے والا بہت غافل ہو * وقت بہت کم ہو

آج کے انسان پر اطلاق

آج انسان: * خبروں کا عادی ہے * حادثوں کو معمول سمجھتا ہے * موت کو دوسروں کا مسئلہ مانتا ہے یہ آیت آ کر کہتی ہے: یہ تمہارا مسئلہ ہے۔

آیت ۲: القارعۃ کیا ہے؟    مَا الْقَارِعَةُ

یہ سوال لاعلمی کا نہیں، یہ **اہمیت کا سوال** ہے۔ یعنی: تم سمجھتے ہو کہ یہ معمولی بات ہے؟ یہ سوال انسان کے اندر: * تجسس پیدا کرتا ہے * خوف نہیں، ہوش جگاتا ہے

سوال کا نفسیاتی اثر

جب انسان سے پوچھا جائے: کیا تم جانتے ہو؟ تو: * وہ چونکتا ہے * اس کا ذہن حاضر ہوتا ہے * اس کی توجہ مرکوز ہوتی ہے یہی قرآن کا طریقہ ہے۔

آیت ۳: تم نہیں جانتے   وَمَا اَدْرٰىكَ مَا الْقَارِعَةُ

یہاں بات فیصلہ کن ہو جاتی ہے۔ یہ اعلان ہے: تم جان ہی نہیں سکتے۔

انسان کی حد

انسان: * وقت کا اسیر ہے * تجربے کا غلام ہے * آنکھ سے دیکھے بغیر نہیں مانتا

قیامت: * وقت سے باہر ہے * تجربے سے باہر ہے * تصور سے باہر ہے اسی لیے فرمایا گیا: تم نہیں جان سکتے۔

لاعلمی کی خطرناک قسم

یہ لاعلمی معصوم نہیں، یہ وہ لاعلمی ہے جو: * جان بوجھ کر اختیار کی گئی * غفلت سے پیدا ہوئی       انسان نے: * سوچنا چھوڑ دیا * انجام کو موخر کر دیا

القارعۃ اور جدید انسان

آج انسان کہتا ہے: * ابھی وقت ہے * کل دیکھیں گے * سب ٹھیک چل رہا ہے یہی جملے: القارعۃ سے پہلے کے ہیں۔

ابتدائی تین آیات کا مجموعی پیغام

ان تین آیات میں: * ایک اعلان ہے * ایک سوال ہے * ایک رد ہے اعلان: القارعۃ آ رہی ہے

سوال: کیا تم جانتے ہو؟ رد:  تم نہیں جانتے  یہ ترتیب انسان کو:  * خاموش کر دیتی ہے

* سوچنے پر مجبور کرتی ہے

دل سے سوال

اگر آج: * سب کچھ چھن جائے * پردے اٹھ جائیں * حساب شروع ہو جائے تو: کیا ہمارے پاس جواب ہوگا؟

یہ قسط یہاں کیوں رکی؟

یہ قسط یہاں اس لیے روکی جا رہی ہے کیونکہ: * یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن خود رکتا ہے * یہی وہ لمحہ ہے جہاں انسان کو سوچنے کا موقع ملتا ہے اگلی قسط میں: * قیامت کا منظر * انسانوں کی حالت * اعمال کا وزن تفصیل سے آئے گا۔

سورۃ القارعۃ — حصہ اوّل     قسط ۲

(آیات ۱ تا ۳ کی مزید گہرائی، انسانی نفسیات، غفلت کی جڑیں، اور شعور کی بیداری)

القارعۃ: ایک لفظ، کئی سطحیں

قسط ۱ میں ہم نے دیکھا کہ **القارعۃ** محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایک کیفیت ہے۔ اب اس کیفیت کو مزید گہرائی میں سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ جب تک انسان **دل سے اس لفظ کو محسوس نہ کرے**، اس سورت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔

القارعۃ:

* صرف کانوں سے سنی جانے والی آواز نہیں * یہ دل پر پڑنے والی ضرب ہے * یہ ذہن کے پردے چاک کرنے والا لمحہ ہے یہ وہ لمحہ ہے جب: * انسان کی ساری  منصوبہ بندی بے معنی ہو جاتی ہے * اس کے تمام بہانے ختم ہو جاتے ہیں * اور وہ پہلی بار **خود کو بے بس** محسوس کرتا ہے

انسان کیوں نہیں سمجھ پاتا؟

سورۃ القارعۃ بار بار یہ نکتہ واضح کرتی ہے کہ: انسان جان ہی نہیں سکتا کہ القارعۃ کیا ہے۔ یہ لاعلمی محض علم کی کمی نہیں، بلکہ **نفسیاتی غفلت** ہے۔

انسانی غفلت کی چند بنیادی وجوہات

  1. **عادت کا زہر**

   انسان جس چیز کو روز دیکھتا ہے، اس سے بے حس ہو جاتا ہے۔

   موت روز ہوتی ہے، اس لیے وہ معمول لگتی ہے۔

  1. **وقت کا دھوکہ**

   انسان سمجھتا ہے کہ: * ابھی بہت وقت ہے * ابھی سب ٹھیک ہے

یہی سوچ اسے تیاری سے روکتی ہے۔

  1. **طاقت کا فریب**

   جب انسان کے پاس: * صحت * مال * اختیار ہوتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ: یہ سب عارضی ہے۔

القارعۃ اور جھنجھوڑنے کا اسلوب

قرآن میں کچھ سورتیں نرمی سے سمجھاتی ہیں، اور کچھ سورتیں **ٹکرا کر جگاتی ہیں**۔ سورۃ القارعۃ دوسری قسم سے ہے۔ یہ اس انسان سے بات کرتی ہے جو: * بار بار سمجھایا جا چکا * بار بار مہلت پا چکا * مگر پھر بھی نہیں سنبھلا ایسے انسان کے لیے: نرمی کافی نہیں رہتی۔

“ما القارعۃ” — سوال کیوں؟

یہ سوال ہمیں بتاتا ہے کہ: * انسان چیزوں کو معمولی سمجھ لیتا ہے * قیامت کو بھی ایک لفظ بنا دیتا ہے قرآن اس سوال کے ذریعے: * قیامت کو لفظ سے نکال کر * ایک زندہ حقیقت بنا دیتا ہے یہ سوال اصل میں انسان سے یہ کہتا ہے: تم نے کبھی واقعی سوچا ہے؟

سوچنے سے بھاگنے والا انسان

آج کا انسان: * سوالات سے بھاگتا ہے * خاموشی سے ڈرتا ہے * تنہائی سے گھبراتا ہے کیونکہ تنہائی میں: القارعۃ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔  اسی لیے انسان: * شور میں جیتا ہے * مصروف رہتا ہے * خود سے دور بھاگتا ہے

“وما ادراک” — عقل کی حد

قرآن جب کہتا ہے: وما ادراک   تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ: * یہ چیز انسانی عقل سے بڑی ہے * اس کا ادراک تجربے سے ممکن نہیں * یہ ایمان کا امتحان ہے یہاں اللہ تعالیٰ انسان کو یہ نہیں کہہ رہا کہ: * تم بے عقل ہو بلکہ یہ فرما رہا ہے: تمہاری عقل کی بھی ایک حد ہے۔

عقل، علم اور غرور

انسان جب: * علم حاصل کرتا ہے * ترقی دیکھتا ہے * کامیاب ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ: اب میں سب جانتا ہوں۔ سورۃ القارعۃ اس غرور کو توڑتی ہے۔ یہ کہتی ہے: سب سے بڑا لمحہ تمہارے علم سے باہر ہے۔

القارعۃ اور اچانک پن

اس سورت کا ایک بہت اہم پہلو یہ ہے کہ: القارعۃ اچانک آئے گی۔ انسان ہمیشہ کہتا ہے: * میں تیار ہو جاؤں گا * میں سنبھل لوں گا لیکن اچانک پن: تیاری کا وقت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن بار بار: * آج کی اصلاح پر زور دیتا ہے * کل پر چھوڑنے سے روکتا ہے

آج کی دنیا اور القارعۃ

آج کی دنیا میں: * عمارتیں اونچی ہیں * منصوبے لمبے ہیں * خواہشات بے شمار ہیں مگر: * دل کمزور ہیں * روح خالی ہے * انجام بھلا دیا گیا ہے سورۃ القارعۃ اس دنیا کو کہتی ہے: تمہاری مضبوط دنیا، ایک دن لرز جائے گی۔

ابتدائی تین آیات اور ایمان

یہ تین آیات: * ایمان کی بنیاد ہلاتی ہیں * یقین کو تازہ کرتی ہیں * غفلت کے پردے چاک کرتی ہیں یہ آیات یہ نہیں بتاتیں کہ: * قیامت کیسے آئے گی بلکہ یہ بتاتی ہیں: تم اس کے لیے تیار نہیں ہو۔

حصہ اوّل کی تکمیل — مجموعی خلاصہ    حصہ اوّل (آیات ۱ تا ۳) ہمیں یہ سکھاتا ہے:

* قیامت ایک اچانک حقیقت ہے * انسان اس کی شدت کا اندازہ نہیں کر سکتا * غفلت علم کی کمی نہیں، دل کی بیماری ہے * سب سے پہلا قدم شعور کی بیداری ہے

یہ حصہ:  * دل کو چونکاتا ہے * ذہن کو خاموش کرتا ہے * انسان کو سوال میں ڈال دیتا ہے

اگلے حصے کی جھلک

اب جب انسان چونک چکا، اب جب سوال اس کے دل میں اتر چکا، تو اگلے حصے میں بتایا جائے گا: * اس دن انسان کی حالت کیا ہوگی * لوگ بکھرے پروانوں کی طرح کیوں ہوں گے * اعمال کا وزن کیسے طے ہوگا یعنی: اب منظر شروع ہوگا۔

سورۃ القارعۃ — حصہ دوم     قسط اوّل

(آیات ۴ تا ۶ — قیامت کا منظر، انسان کی بے سمتی، اعمال کا وزن، اور باطن کا حساب)

اب منظر بدلتا ہے حصہ اوّل میں **آواز** تھی، ایک ایسی ضرب جو دل پر پڑی۔ اب حصہ دوم میں: * آواز کے بعد **منظر** آتا ہے * سوال کے بعد **حقیقت** آتی ہے

* چونکنے کے بعد **سامنا** ہوتا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں قرآن: انسان کو قیامت دکھاتا نہیں، بلکہ **اس کے اندر اتار دیتا ہے**۔

آیت چہارم: انسان بکھرے ہوئے پروانوں کی مانند

قیامت کے دن انسانوں کو: بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح بتایا گیا ہے۔ یہ تشبیہ معمولی نہیں۔ پروانہ کیا ہے؟ * روشنی کا دیوانہ * سمت سے بے خبر * انجام سے غافل پروانہ: * آگ کی طرف لپکتا ہے * جلتا ہے * مگر باز نہیں آتا یہی انسان کی علامت ہے۔

دنیا میں انسان بھی پروانہ ہے

دنیا میں انسان: * خواہش کی روشنی کے گرد گھومتا ہے * طاقت، مال، شہرت کی چمک پر لپکتا ہے * انجام نہیں دیکھتا قیامت کے دن: * روشنی ختم ہو جائے گی * سمت ختم ہو جائے گی * سہارا ختم ہو جائے گا تب انسان: بکھر جائے گا۔

بکھراؤ کا مفہوم

یہ بکھراؤ صرف جسمانی نہیں ہوگا۔ یہ بکھراؤ ہوگا: * سوچ کا * شناخت کا * غرور کا

انسان: * اپنے نام سے محروم * اپنے رتبے سے خالی * اپنے سہاروں سے کٹا ہوا ہر ایک: صرف ایک جان ہوگا۔

اجتماعی نظام کا خاتمہ

دنیا میں: * انسان جماعتوں میں جیتا ہے * قوم، خاندان، عہدہ اس کا سہارا ہوتے ہیں قیامت میں: * کوئی جماعت نہیں * کوئی پہچان نہیں * کوئی سفارش نہیں یہی وجہ ہے کہ: ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا۔

آیت پنجم: پہاڑوں کا حال

پہاڑ: * طاقت کی علامت * مضبوطی کی نشانی * ثبات کی مثال دنیا میں انسان کہتا ہے: پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔ قرآن کہتا ہے: قیامت میں پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہوں گے۔

یہ مثال کیوں دی گئی؟

تاکہ انسان سمجھے: * جس پر تم نے بھروسا کیا * جسے تم نے مستقل سمجھا * جسے تم نے طاقت کی علامت مانا وہ سب: بے وزن ہو جائے گا۔

پہاڑ اور انسانی غرور

انسان کے دل میں بھی پہاڑ ہوتے ہیں: * اپنی عقل کا * اپنی طاقت کا * اپنے تعلقات کا قیامت ان سب پہاڑوں کو: اڑا دے گی۔

دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ

انسان یہ سمجھتا ہے: میں مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوں۔ سورۃ القارعۃ کہتی ہے: وہ بنیادیں تمہارے وہم میں ہیں۔

اب اصل فیصلہ

آیات چار اور پانچ کے بعد: اب قرآن ہمیں **مرکز** کی طرف لاتا ہے۔

آیت ششم:  جس کے اعمال بھاری ہوں گے

یہاں فیصلہ * نسل پر نہیں * حسب پر نہیں * زبان پر نہیں بلکہ: اعمال پر ہے۔

اعمال کا وزن کیا ہے؟

یہاں وزن: * تعداد کا نہیں * دکھاوے کا نہیں یہ وزن ہے: * نیت کا * اخلاص کا

* سچائی کا ایک چھوٹا عمل: اگر خالص ہو تو بھاری ہو سکتا ہے۔

دنیا اور وزن کا غلط تصور

دنیا میں: * بڑے کام بھاری سمجھے جاتے ہیں * چھوٹے کام نظرانداز قیامت میں: * نیت ترازو بنے گی * دل کا حال سامنے آئے گا

اعمال کیوں تولے جائیں گے؟

تاکہ: * کوئی ظلم نہ ہو * کوئی شکایت نہ رہے * کوئی یہ نہ کہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی یہ اللہ تعالیٰ کی کامل عدل ہے۔

انسان کا اصل سرمایہ

اس دن انسان کے پاس: * مال نہیں ہوگا * طاقت نہیں ہوگی * تعلقات نہیں ہوں گے صرف: اعمال ہوں گے۔

حصہ دوم کی سمت

قسط اوّل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ: * انسان کی ظاہری طاقت ختم ہو جائے گی * دنیا کے مضبوط نظام ٹوٹ جائیں گے * اصل قدر اعمال کی ہوگی

اب قسط دوم میں: * ہلکے اعمال والوں کا انجام * ہاویہ کی حقیقت * انجام کا آخری فیصلہ بیان کیا جائے گا۔

سورۃ القارعۃ — حصہ دوم   قسط دوم

(آیات ۷ تا ۱۱ — اصل انجام، ہلکے اعمال، ہاویہ کی حقیقت، اور آخری فیصلہ)

اب فیصلہ کن لمحہ

قسط اوّل میں ہم نے دیکھا: * انسان بکھر چکا * پہاڑ بے وزن ہو چکے * اعمال ترازو میں رکھ دیے گئے اب یہاں: کوئی مہلت نہیں کوئی وضاحت نہیں کوئی تاخیر نہیں یہ **حتمی مرحلہ** ہے۔

آیت ہفتم: جس کے اعمال بھاری ہوئے

قرآن کہتا ہے: وہ خوشگوار زندگی میں ہوگا یہاں خوشگوار زندگی: * محل کا نام نہیں

* آرام کا تصور نہیں * خواہشات کی تکمیل نہیں یہ وہ زندگی ہے: جس میں خوف نہیں  جس میں ندامت نہیں جس میں محرومی نہیں

اصل خوشی کیا ہے؟

دنیا میں انسان خوشی کو: * مال سے جوڑتا ہے * صحت سے باندھتا ہے * اختیار میں دیکھتا ہے قرآن خوشی کو: اطمینانِ دل سے جوڑتا ہے وہ اطمینان جو اس شخص کو ملے گا: * جس کا حساب صاف ہوگا * جس کے اعمال قبول ہوں گے * جس کا بوجھ ہلکا ہو چکا ہوگا

خوشگوار زندگی کا مفہوم

یہ زندگی: * دائمی ہوگی * غیر مشروط ہوگی * زوال سے پاک ہوگی یہاں: * کوئی خوف نہیں ہوگا کہ چھن جائے * کوئی ڈر نہیں ہوگا کہ ختم ہو جائے یہی اصل کامیابی ہے۔

آیت ہشتم: جس کے اعمال ہلکے ہوئے

اب قرآن رخ بدلتا ہے۔ یہاں کوئی تفصیل نہیں: * کیوں ہلکے ہوئے * کس وجہ سے کیونکہ: حقیقت خود بول رہی ہے

اعمال ہلکے ہونا: * نیت کی خرابی * دکھاوے کی عبادت * ظلم اور غفلت کا نتیجہ ہے۔

اعمال ہلکے کیوں ہوتے ہیں؟ کچھ بنیادی وجوہات:

۱) **ریا** عمل کیا، مگر لوگوں کے لیے

۲) **غرور**  نیکی کی، مگر خود کو بڑا سمجھا

۳) **غفلت** زندگی گزاری، مگر انجام بھلا دیا

۴) **حق تلفی** اپنا فائدہ دیکھا، دوسروں کا حق مارا

ہلکا پن صرف اعمال کا نہیں

یہ ہلکا پن: * دل کا ہوتا ہے * شعور کا ہوتا ہے * ذمہ داری سے فرار کا ہوتا ہے ایسا انسان: دنیا میں بھی وزن نہیں رکھتا مگر اسے احساس نہیں ہوتا۔

آیت نہم: اس کا ٹھکانہ ہاویہ

یہاں قرآن ایک لفظ استعمال کرتا ہے: ہاویہ یہ لفظ خود: * گراوٹ کی علامت ہے * نیچے جانے کا احساس ہے * بے انتہا کھائی کا تصور ہے

ہاویہ کیا ہے؟

یہ صرف آگ نہیں: * یہ ذلت ہے * یہ محرومی ہے * یہ حسرت ہے یہ وہ انجام ہے  جہاں: * انسان گرتا ہی جاتا ہے * امید ختم ہو چکی ہوتی ہے

انسان کیوں ہاویہ میں گرتا ہے؟

کیونکہ اس نے: * خود کو بلند سمجھا * حساب کو ہلکا لیا * تنبیہ کو نظرانداز کیا دنیا میں: وہ اوپر تھا قیامت میں: وہ نیچے ہے

آیت دہم: تم کیا جانو ہاویہ کیا ہے؟

یہ سوال: * عقل کو خاموش کر دیتا ہے * تصور کو توڑ دیتا ہے کیونکہ ہاویہ: انسانی تصور سے باہر ہے انسان دنیا کی آگ جانتا ہے، مگر یہ: دنیا کی آگ نہیں

آیت یازدہم: دہکتی ہوئی آگ

یہ آگ: * جسم کو نہیں * صرف جلاتی نہیں یہ آگ: وجود کو گھلا دیتی ہے یہ اس دل کا انجام ہے: * جو دنیا میں پتھر بن گیا تھا * جس نے حق کو ٹھکرا دیا تھا

آگ اور انصاف

یہ آگ: * ظلم نہیں * زیادتی نہیں یہ: عدل کا ظہور ہے ہر وہ دل: * جو اللہ کی تنبیہ کے باوجود نہ بدلا   وہ اس انجام کا خود ذمہ دار ہے۔

سورۃ القارعۃ کا مجموعی پیغام (حصہ دوم)

حصہ دوم ہمیں یہ بتاتا ہے: * قیامت صرف ہنگامہ نہیں، حساب ہے * اعمال کی اصل قدر نیت سے ہے * دنیا کا وزن وہاں کوئی معنی نہیں رکھتا * اصل کامیابی خوشگوار دائمی زندگی ہے * اصل ناکامی ہاویہ کی گراوٹ ہے

انسان کے لیے آخری پیغام

یہ سورت انسان سے کہتی ہے: ابھی وقت ہے ابھی ترازو خالی ہے ابھی نیت بدلی جا سکتی ہے کیونکہ: جب القارعۃ آ جائے گی تو کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔

سورۃ القارعۃ   آج کی زندگی میں اطلاق

اطلاق کا مفہوم کیا ہے؟

اکثر انسان قرآن پڑھتا ہے، سمجھتا بھی ہے، مگر اس کی زندگی میں **کوئی تبدیلی نہیں آتی**۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ: * ہم قرآن کو معلومات سمجھتے ہیں * جبکہ قرآن **ہدایت** ہے اطلاق کا مطلب یہ ہے کہ: آیات دل میں اتریں سوچ بدلے رویہ بدلے ترجیحات بدلیں     سورۃ القارعۃ اس تبدیلی کا آغاز **دل کے جھٹکے** سے کرتی ہے۔

القارعۃ کو روزمرہ زندگی میں کیسے محسوس کیا جائے؟

سورۃ القارعۃ ہمیں ایک ہی سوال پر لا کھڑا کرتی ہے: اگر آج القارعۃ آ جائے تو؟ یہ سوال اگر دل میں زندہ ہو جائے تو: * زندگی خود بخود سنورنے لگتی ہے * بہت سے گناہ خود بخود چھوٹ جاتے ہیں

عملی قدم:

ہر دن کا آغاز اس نیت سے کریں: آج کا دن آخری بھی ہو سکتا ہے یہ سوچ: * زبان کو محتاط بناتی ہے * نظر کو پاک کرتی ہے * دل کو نرم رکھتی ہے

غفلت کا علاج: شعوری جھٹکا

سورۃ القارعۃ غفلت توڑنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ آج کی زندگی میں غفلت کی شکلیں: * مصروفیت کو نیکی سمجھ لینا * دنیا کی دوڑ کو کامیابی مان لینا * انجام کو بعد کی بات سمجھنا

اطلاق:

روزانہ خود سے ایک سوال: آج میں نے کیا ایسا کیا جو ترازو میں بھاری ہو؟ اگر یہ سوال زندہ رہے تو: * غفلت مرنے لگتی ہے * شعور جاگنے لگتا ہے

بکھرے پروانوں جیسی زندگی سے نکلنا

قرآن کہتا ہے: انسان بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوگا آج کا انسان بھی: * ایک کام سے دوسرے کی طرف بھاگتا ہے * مقصد کے بغیر زندگی گزارتا ہے * اندر سے منتشر ہے

اطلاق:

اپنی زندگی میں: * ایک مرکزی مقصد طے کریں * ہر کام کو اسی مقصد سے جوڑیں وہ مقصد یہ ہو: اللہ کی رضا اور آخرت کی تیاری

پہاڑوں کے روئی بننے کا پیغام

پہاڑوں کا روئی بن جانا ہمیں سکھاتا ہے کہ: * جسے ہم مضبوط سمجھتے ہیں * وہ بھی ٹوٹ سکتا ہے آج کے پہاڑ: * دولت * عہدہ * تعلقات * صحت

اطلاق:

ان چیزوں کو: * سہارا نہ بنائیں * بلکہ امانت سمجھیں دل کا سہارا صرف: اللہ کی اطاعت ہو

اعمال کے وزن کا شعور

سورۃ القارعۃ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ: اصل فیصلہ اعمال کے وزن پر ہے آج ہم وزن کو: * مقدار میں دیکھتے ہیں * جبکہ اللہ وزن کو نیت سے ناپتا ہے

اطلاق:

چھوٹے اعمال کو حقیر نہ سمجھیں: * کسی کا دل نہ توڑنا * کسی کو معاف کر دینا

* سچ بول لینا یہ اعمال: ترازو میں پہاڑ بن سکتے ہیں

نیت کی اصلاح — سب سے پہلا قدم

اعمال بھاری یا ہلکے: * نیت سے بنتے ہیں آج کا بڑا مسئلہ: * نیکی بھی دکھاوے کے لیے

* عبادت بھی تعریف کے لیے

اطلاق:

ہر عمل سے پہلے دل میں کہیں: یہ عمل صرف اللہ کے لیے ہے اگر دل مطمئن نہ ہو: تو عمل روک لیں

خوشگوار زندگی کی تلاش کا درست راستہ

قرآن کہتا ہے: بھاری اعمال والا خوشگوار زندگی میں ہوگا آج ہم خوشی ڈھونڈتے ہیں:

* خریداری میں * تعریف میں * آرام میں لیکن خوشی: دل کے اطمینان کا نام ہے

اطلاق:

* سادہ زندگی اختیار کریں * حلال پر قناعت کریں * شکر کو عادت بنائیں دل خود گواہی دے گا: یہی خوشگوار زندگی ہے

ہاویہ سے بچنے کی عملی تدابیر

ہاویہ کوئی اچانک سزا نہیں، یہ ایک راستے کا انجام ہے۔ وہ راستہ: * ظلم * تکبر * حق تلفی * غفلت

اطلاق:

ہر رات سونے سے پہلے: * اپنے دن کا جائزہ لیں * کس کا حق مارا؟ * کس کو دکھ دیا؟

اور فوراً: اصلاح کا ارادہ کریں

احتساب کو معمول بنانا

قیامت کا حساب: * اچانک ہوگا * مکمل ہوگا اگر انسان: * دنیا میں خود حساب کرتا رہے تو: وہاں حساب آسان ہو جائے گا

اطلاق:

ہفتے میں ایک دن: * خاموش بیٹھیں * اپنی زندگی کا وزن تولیں یہ عمل: دل کو زندہ رکھتا ہے

خوف اور امید کا توازن

سورۃ القارعۃ: * خوف بھی دیتی ہے * امید بھی    خوف: * ہاویہ کا   امید: * خوشگوار زندگی کی

اطلاق:

* خوف سے گناہ چھوڑیں * امید سے نیکی کریں یہی توازن: مومن کی پہچان ہے

بچوں اور خاندان کی تربیت

اس سورت کا اطلاق صرف فرد پر نہیں: * خاندان پر بھی ہے

اطلاق:

* بچوں کو صرف کامیابی نہ سکھائیں * بلکہ جواب دہی کا شعور دیں انہیں بتائیں: اصل کامیابی وہ ہے جو ترازو میں بھاری ہو

معاشرتی زندگی میں اطلاق

اگر معاشرہ سورۃ القارعۃ کو اپنائے: * ظلم کم ہو جائے * حق تلفی رک جائے * امانت لوٹ آئے

اطلاق:

* اپنے دائرے میں انصاف کریں * کمزور کا ساتھ دیں * طاقت کو امانت سمجھیں

آخری عملی خلاصہ

سورۃ القارعۃ ہمیں روز یہ یاد دلائے: * زندگی عارضی ہے * حساب یقینی ہے * نیت فیصلہ کن ہے * وقت ابھی ہے اگر یہ چار باتیں: دل میں زندہ رہیں تو: * زندگی خود بخود سنور جائے گی * القارعۃ خوف نہیں، نجات بن جائے گی

Loading