Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔ تحریر۔۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی

صدائے جرس

تحریر۔۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔ تحریر۔۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)زمین کی مخفی قوتیں :جب ہم اپنی زمین، چاند، سورج، کہکشانی نظام اور کائنات کی ساخت پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ سارا نظام ایک قاعدے ضابطے اور قانون کے تحت کام کر رہا ہے یہ قانون اور ضابطہ ایسا مضبوط اور مستحکم ہے کہ کائنات میں موجود کوئی شئے اس ضابطہ اور قاعدے سے ایک انچ کے ہزارویں حصےمیں بھی اپنا تعلق منقطع نہیں کر سکتی۔

 زمین اپنی مخصوص رفتار سے محوری اور طولانی گردش کر رہی ہے۔ زمین کو اپنے مدار پر حرکت کرنے کے لئے ایک مخصوص رفتار اور گردش کی ضرورت ہے۔ اس رفتار میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا۔ پانی کا بہنا، بخارات بن کر اڑنا، شدید ٹکراؤ سے اس کے Molecules کا ٹوٹنا، بجلی کا پیدا ہونا اور ماحول کو منور کرنا یہ سب ایک مقررہ قاعدے اور ضابطے کے تحت ہے۔ حیوانات، نباتات کی پیدائش اور افزائش میں بھی ایک لگے بندھے قانون کی پیروی ہو رہی ہے۔

انسانی دنیا میں بھی پیدائش اور نشو و نما کا نظام ایک ہی چلا آرہا ہے۔ آدمی پیدا ہو کر بڑھتا ہے، لڑکپن اور جوانی کے زمانوں سے گزر کر بڑھاپے میں داخل ہو جاتا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کوئی نہیں چاہتا کہ میں بوڑھا ہو جاؤں لیکن ہر شخص بوڑھا ہونے پر مجبور ہے۔ کوئی شخص پسند نہیں کرتا کہ اس کے اوپر موت وارد ہو لیکن دنیا میں ایک مثال بھی ایسی موجود نہیں ہے کہ آدمی نے موت سے نجات حاصل کر لی ہو۔ ان باتوں پر گہرے غور و خوض کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اس قدر منظم و مربوط نظام کو چلانے والی کوئی ہستی ضرور موجود ہے۔ آدم جب سے زمین پر آباد ہے اس علم سے واقف ہو تا رہا کہ زمین کے اندر ایسی مخفی طاقتیں موجود ہیں جن سے زندگی کے لئے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ زمین کے اندر کوئی بیج ڈالا جاتا ہے تو بیچ کی اپنی مخفی طاقت اور زمین کی مخفی طاقت مل کر ایک دوسرے سے ضرب ہوتی ہے۔ نتیجہ میں تیسری چیز کاو جودی پیکر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے اس بات کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ بیج کے اندر مخفی قوت یا انرجی زمین کی مخفی قوت یا انرجی سے مل کر جب اپنا مظاہرہ کرتی ہے تو کوئی پودا نمودار ہوتا ہے ۔ وہ پودابڑھ کر تناور درخت بن جاتا ہے اور اس درخت میں پھل اور پھول لگتے ہیں ….

بیج کے اندر مخفی طاقت کی بنیاد کیا ہے اور زمین کے اندر مخفی طاقت کی بنیاد کیا ہے …؟ یہ بات کون نہیں جانتا کہ ہر ذی نفس کی زندگی غذاؤں کے اوپر قائم ہے۔ انسان گوشت، سبزی، دالوں، اور گندم وغیرہ سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے۔ کچھ جانور گھاس کھاتے ہیں ، درندے گوشت کھاتے ہیں، پرندے دانا چگتے ہیں، حشرات الارض مٹی چاہتے ہیں۔ پودوں کے لئے ان کی غذا نائٹروجن، چونا، پوٹاس اور ہائیڈ روجن فراہم کی جاتی ہے۔

زمین کی غذائی ضرورت خزاں کے پت جھڑ ہڈیوں، گو بر، خون اور بالوں سے پوری ہوتی ہے۔ پچیس ہزار میل لمبی اور وسیع و عریض زمین کو قوت و توانائی منتقل کرنے کے لئے قدرت نے سورج کی شعاعوں سے ایک خوب صورت اور فکر انگیز نظام قائم کیا ہے۔ سورج کی تیز شعائیں سمندر کے اوپر پڑتی ہیں تو پانی کے بخارات ہو اؤں کے دوش پر اوپر اٹھتے ہیں اور پھر زمین پر جل تھل ہو جاتا ہے۔ زمین میں تخلیقی سانچے انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔ روحانی سائنس والے کہتے ہیں کہ درخت بھی آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ انسانوں کی طرح کھاتے پیتے اور سانس لیتے ہیں، بڑھتے اور بچے پیدا کرتے ہیں…. انسانوں کی طرح کش مکش میں الجھے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف حسن تدبیر کے ساتھ اور عسکری خرد و دانش کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ ہر مخلوق باشعور اور با حو اس ہے اور اپنی خداداد صلاحیتوں سے متحرک ہے۔ نہاتات، جمادات آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ نباتات، جمادات اور زمین پر موجود دوسری مخلوق کی آپس میں گفتگو ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہے کہ زمین اور زمین کے اندر تمام ذرات شعور رکھتے ہیں۔ زمین بھی ایک مخلوق ہے . توانائی اور پانی دوڑ رہا ہے …. زمین ایک ماں کی طرح تخلیقی قوتوں کی حامل ہے ۔ جس طرح ایک ماں اپنے جسم سے ایک نئے جسم کو جنم دیتی ہے اسی طرح زمین عوامل سے گزر کر ایسے ایسے رنگ بکھیرتی ہے۔ جو عقل و دانائی کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ زمین کے پیٹ میں کروڑوں سانچے ہیں۔ جس سانچے میں پانی ٹھہر جاتا ہے۔ پانی Dye کے مطابق نیا روپ اختیار کر لیتا ہے۔ یہی پانی کبھی کیلا بن جاتا ہے، کبھی سیب بن جاتا ہے، کبھی انگور بن جاتا ہے اور کبھی پھولوں کے نقش و نگار بن کر سامنے آجاتا ہے۔ زمین پر موجود کائنات کے مظاہر نے انسان کو دعوت دی ہے کہ وہ اپنی عقل و شعور کو استعمال کرے اور یہ سوچے کہ انسان حیوانات، نباتات اور جمادات سے کس طرح ممتاز ہے ۔ اے عقل والو غور کرو۔ تفکر اور تدبر کے ساتھ کائنات کے اندر جھانک کر دیکھو اور اندازہ لگاؤ کہ ایک پینج میں جب قدرت نے زندگی کا اتنا بڑا ذخیرہ محفوظ کر دیا ہے تو اللہ کے نائب انسان میں کتنے خزانے محفوظ ہوں گے۔

بشکریہ  ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر 2024

Loading