Daily Roshni News

سورۃ العصر — حصہ اوّل

سورۃ العصر — حصہ اوّل

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز  انٹرنیشنل )(تمہید، تعارف، نزول کا پس منظر اور وقت کی قسم کی معنوی بنیادیں)**تمہیدی کلمات:سورۃ العصر قرآنِ مجید کی اُن مختصر مگر نہایت گہری سورتوں میں شامل ہے جو بظاہر چند الفاظ میں پوری انسانی زندگی کا نقشہ کھینچ دیتی ہیں۔ یہ سورت حجم میں مختصر، مگر معنی میں بحرِ بیکراں ہے۔ انسانی تاریخ، فرد کی زندگی، معاشرتی ارتقاء، اخلاقی زوال اور نجات کے ابدی اصول—سب اس سورت میں اس طرح سمو دیے گئے ہیں کہ اگر انسان اسے سمجھ لے اور اس پر عمل کرے تو فکری انتشار، اخلاقی گمراہی اور عملی خسارے سے محفوظ ہو سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم نے اسے “قرآن کا خلاصہ” قرار دیا ہے۔ اس سورت میں نہ کسی واقعے کی تفصیل ہے، نہ کسی حکم کی طوالت، مگر اس کے باوجود یہ انسان کے ماضی، حال اور مستقبل—تینوں پر محیط ہے۔ سورۃ العصر انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ زندگی محض سانسوں کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل امتحان ہے، اور اس امتحان میں کامیابی یا ناکامی کا معیار وقت کے درست یا غلط استعمال سے جڑا ہوا ہے۔

سورۃ العصر کا تعارف

سورۃ العصر مکی سورت ہے۔ اس کا نزول اُس دور میں ہوا جب مکہ کی فضا فکری و اخلاقی کشمکش سے بھری ہوئی تھی۔ قریش ظاہری طور پر تجارت، سماجی حیثیت اور قبائلی طاقت میں مضبوط تھے، مگر روحانی طور پر شدید خسارے میں مبتلا تھے۔ دولت، وقت اور صلاحیتیں سب موجود تھیں، لیکن مقصدِ حیات سے غفلت عام تھی۔

یہ سورت اپنے قلیل الفاظ کے ذریعے انسان کو جھنجھوڑتی ہے اور ایک آفاقی اعلان کرتی ہے کہ: “انسان خسارے میں ہے”

یہ اعلان کسی ایک قوم، زمانے یا علاقے تک محدود نہیں، بلکہ ہر انسان، ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے ہے۔ اس میں نہ کسی خاص فرد کا نام ہے، نہ کسی مخصوص گروہ کی نشاندہی، بلکہ پوری نوعِ انسانی کو مخاطب کیا گیا ہے۔

نزول کا پس منظر اور مکی معاشرہ

مکہ میں نزول کے وقت: * تجارتی سرگرمیاں عروج پر تھیں * قبائلی نظام مضبوط تھا

* وقت کو صرف دنیاوی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا * اخلاقیات کا دار و مدار مفاد پر تھا ایسے ماحول میں “وقت” کی قسم کھا کر یہ کہنا کہ انسان خسارے میں ہے، دراصل اس پورے نظام پر ایک فکری ضرب تھی۔ یہ پیغام تھا کہ محض مصروفیت کامیابی نہیں، اور محض طاقت نجات نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اس سورت کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ وہ جب بھی ایک دوسرے سے جدا ہوتے تو سورۃ العصر کی تلاوت کیے بغیر جدا نہ ہوتے، گویا یہ سورت ان کے درمیان ایک اخلاقی معاہدہ تھی۔

قرآن میں قسم کا اسلوب

قرآنِ مجید میں جب کسی چیز کی قسم کھائی جاتی ہے تو اس کا مقصد محض تاکید نہیں ہوتا بلکہ اس شے کی عظمت، اہمیت اور معنوی وزن کو واضح کرنا ہوتا ہے۔ قرآن نے:

* سورج کی قسم کھائی * چاند کی قسم کھائی * رات اور دن کی قسم کھائی * وقت کی مختلف جہتوں کی قسم کھائی اور یہاں: **وَالْعَصْرِ** یعنی “زمانے کی قسم” یہ قسم بتاتی ہے کہ وقت محض ایک پیمانہ نہیں بلکہ ایک گواہ ہے، ایک عدالت ہے، اور ایک خاموش مؤرخ ہے جو انسان کے ہر عمل کو محفوظ کر رہا ہے۔

لفظ “عصر” کا لغوی مفہوم

لفظ “عصر” عربی زبان میں کئی معانی رکھتا ہے: * دن کا وہ حصہ جب روشنی ڈھلنے لگتی ہے * نچوڑ، خلاصہ * زمانہ، دور * کسی شے کا آخری مرحلہ

یہ تمام معانی اس سورت میں بیک وقت جمع ہو جاتے ہیں۔ عصر وہ لمحہ ہے جب دن اپنی انتہا کو پہنچتا ہے، اور انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ جو وقت گزر گیا وہ واپس نہیں آئے گا۔ یہی کیفیت پوری زندگی کی ہے۔

وقت بطور سرمایہ

سورۃ العصر کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ وقت انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، مگر سب سے زیادہ ضائع ہونے والا سرمایہ بھی یہی ہے۔ مال اگر ضائع ہو جائے تو دوبارہ کمایا جا سکتا ہے، صحت اگر متاثر ہو جائے تو کسی حد تک بحال ہو سکتی ہے، مگر وقت اگر ہاتھ سے نکل جائے تو کبھی واپس نہیں آتا۔

یہی وجہ ہے کہ: * وقت انسان کے حق میں بھی گواہ بنتا ہے * اور وقت انسان کے خلاف بھی حجت بن جاتا ہے

انسان جب قیامت کے دن کھڑا ہوگا تو اس سے سب سے پہلا سوال وقت کے بارے میں ہوگا—کہ اسے کہاں صرف کیا، کس مقصد کے لیے استعمال کیا، اور کس چیز میں ضائع کیا۔

تمام آسمانی کتب میں وقت کا تصور

سورۃ العصر کا پیغام صرف قرآن تک محدود نہیں بلکہ تمام آسمانی ہدایات میں وقت کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔

**تورات میں**: وقت کو آزمائش کا دور قرار دیا گیا، جہاں قوموں کو مہلت دی جاتی ہے، پھر ان کے اعمال کے مطابق فیصلے ہوتے ہیں۔

**انجیل میں**: وقت کو توبہ اور اصلاح کا موقع کہا گیا، اور یہ بتایا گیا کہ مہلت ہمیشہ نہیں رہتی۔

**زبور میں**: وقت کو انسان کی کمزوری اور فانی حیثیت کے اظہار کے طور پر بیان کیا گیا۔

یوں سورۃ العصر دراصل تمام آسمانی پیغاموں کا خلاصہ پیش کرتی ہے کہ انسان کو دی گئی مہلت محدود ہے، اور اس مہلت کا درست استعمال ہی نجات کا راستہ ہے۔

انسان اور خسارے کا رشتہ

سورۃ العصر کا سب سے چونکا دینے والا پہلو یہ ہے کہ اس میں کسی خاص گناہ کا ذکر نہیں، بلکہ عمومی اعلان ہے کہ: انسان خسارے میں ہے یعنی: * گناہ کرنے والا بھی

* غفلت میں رہنے والا بھی * اور وہ شخص بھی جو صرف دنیا میں کھویا ہوا ہے یہ خسارہ صرف آخرت کا نہیں بلکہ دنیا کا بھی ہے: * سکون کا فقدان * مقصد کی کمی

* تعلقات میں کھوکھلا پن * مسلسل بے چینی یہ سب اسی خسارے کی علامات ہیں۔

اس حصے کا خلاصہ

سورۃ العصر کا آغاز ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ: * وقت کو معمولی نہ سمجھا جائے * زندگی کو محض گزارنے کا نام نہ دیا جائے * مصروفیت کو کامیابی نہ سمجھا جائے

یہ سورت انسان کو آئینہ دکھاتی ہے کہ اگر اس نے اپنی زندگی کو ایمان، عملِ صالح، حق اور صبر کے سانچے میں نہ ڈھالا تو وہ چاہے کتنا ہی کامیاب کیوں نہ نظر آئے، حقیقت میں خسارے میں ہے۔

سورۃ العصر — حصہ دوم

**(آیت بہ آیت تفسیری تجزیہ، معنوی گہرائیاں اور انسانی انجام کا قرآنی اعلان)**

تمہیدی وضاحت

سورۃ العصر کا اصل وزن اس کے الفاظ کی قلت میں نہیں بلکہ اس کے معانی کی وسعت میں ہے۔ یہ وہ سورت ہے جو انسان کے انجام کا فیصلہ محض تین آیات میں سنا دیتی ہے۔ حصہ اوّل میں ہم نے اس کے تعارف، نزول کے پس منظر اور وقت کی قسم کے مفہوم کو سمجھا۔ اب حصہ دوم میں ہم سورۃ العصر کی **ہر آیت کو الگ الگ، گہرائی کے ساتھ** سمجھیں گے، تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ سورت انسان کی پوری زندگی کا نقشہ کیسے کھینچتی ہے۔

یہ حصہ علمی بھی ہے، فکری بھی، روحانی بھی، اور عملی بھی—کیونکہ قرآن کی تفسیر صرف الفاظ کی وضاحت نہیں بلکہ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔

پہلی آیت:     **وَالْعَصْرِ**

یہ آیت صرف دو الفاظ پر مشتمل ہے، مگر یہ دو الفاظ پوری انسانیت کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں۔

“وَ” — قسم کا اعلان

عربی زبان میں “وَ” جب کسی اسم کے ساتھ آتا ہے تو وہ قسم کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی یہاں اللہ تعالیٰ انسان سے براہِ راست کلام فرما رہے ہیں اور کسی معمولی شے کی نہیں بلکہ **عصر** کی قسم کھا رہے ہیں۔ یہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ: * جو بات آگے آ رہی ہے وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے * انسان کو پوری توجہ سے سننا چاہیے * یہ محض نصیحت نہیں بلکہ حتمی اعلان ہے

“عصر” — محض وقت نہیں، مکمل حقیقت

لفظ “عصر” کو اگر صرف “وقت” یا “زمانہ” ترجمہ کر دیا جائے تو اس کا اصل مفہوم محدود ہو جاتا ہے۔ عصر کے اندر کئی جہتیں شامل ہیں:

۱۔ دن کا عصر

دن کا وہ حصہ جب سورج ڈھلنے لگتا ہے، روشنی کم ہونے لگتی ہے، اور انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ دن ختم ہونے والا ہے۔ یہ لمحہ یاد دلاتا ہے کہ: * جو وقت گزر گیا، وہ واپس نہیں آئے گا * اب حساب کا وقت قریب ہے

۲۔ زمانہ اور تاریخ

عصر سے مراد پورا زمانہ بھی ہے—انسانی تاریخ، قوموں کے عروج و زوال، تہذیبوں کا بننا اور مٹنا۔ گویا اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں: میں پورے انسانی زمانے کو گواہ بنا کر کہتا ہوں

۳۔ نچوڑ اور خلاصہ

عصر کا ایک مفہوم “نچوڑ” بھی ہے۔ یعنی سورۃ العصر دراصل پوری زندگی کا نچوڑ پیش کر رہی ہے۔

وقت بطور گواہ

وقت نہ بولتا ہے، نہ حرکت کرتا ہے، مگر یہ سب کچھ محفوظ کر لیتا ہے۔ انسان کے ہر لمحے، ہر ارادے، ہر عمل کا اندراج وقت کے دامن میں ہوتا ہے۔ * وقت انسان کے خلاف گواہی دیتا ہے * وقت انسان کے حق میں بھی گواہ بن سکتا ہے یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ وقت کو کس طرف کھڑا کرتا ہے۔

پہلی آیت کا خلاصہ

پہلی آیت انسان کو یہ بتاتی ہے کہ: * تمہاری زندگی ایک عدالت میں ہے * اس عدالت کا گواہ وقت ہے * تمہارا ہر لمحہ محفوظ ہو رہا ہے اب اس کے بعد جو فیصلہ آئے گا، وہ ناقابلِ تردید ہوگا۔

دوسری آیت:      **إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ**

یہ قرآن کا سب سے جامع اور سخت ترین اعلان ہے۔

“إِنَّ” — قطعی اعلان

لفظ “إِنَّ” عربی زبان میں تاکید کے لیے آتا ہے۔ یعنی یہ کوئی امکان، خدشہ یا رائے نہیں بلکہ **یقینی حقیقت** ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں: بے شک، بلا شبہ، یقینی طور پر

“الْإِنسَانَ” — پوری انسانیت

یہاں “الانسان” سے مراد کوئی خاص فرد نہیں، بلکہ: * ہر انسان * ہر قوم * ہر نسل * ہر زمانہ یعنی یہ فیصلہ عالمی ہے، آفاقی ہے، اور ہر ایک پر لاگو ہوتا ہے۔

“لَفِي” — خسارے میں گھرا ہوا

یہاں “لَفِي” کا استعمال یہ بتاتا ہے کہ انسان محض خسارے کے قریب نہیں بلکہ **خسارے کے اندر ڈوبا ہوا** ہے۔ یہ خسارہ: * وقتی نہیں * جزوی نہیں * بلکہ مکمل اور ہمہ گیر ہے

“خُسْرٍ” — کس چیز کا نقصان؟

خسارے کا مطلب صرف مال کا نقصان نہیں۔ سورۃ العصر میں خسارہ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے:

۱۔ عمر کا نقصان

انسان سب سے زیادہ جو چیز ضائع کرتا ہے وہ اس کی عمر ہے۔ سال گزرتے جاتے ہیں، مگر مقصد واضح نہیں ہوتا۔

۲۔ صلاحیتوں کا ضیاع

انسان کے اندر بے شمار صلاحیتیں ہوتی ہیں، مگر وہ انہیں دنیاوی دوڑ میں کھپا دیتا ہے۔

۳۔ روحانی خسارہ

دل کا مردہ ہونا، ضمیر کا خاموش ہو جانا، اور حق سے بے نیازی—یہ سب خسارے کی علامات ہیں۔

۴۔ آخرت کا خسارہ

یہ سب سے بڑا نقصان ہے، کیونکہ یہاں واپسی ممکن نہیں۔

دنیاوی کامیابی اور حقیقی خسارہ

یہ آیت ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ: * کیا دولت کامیابی ہے؟ * کیا شہرت کامیابی ہے؟ * کیا طاقت کامیابی ہے؟ قرآن کہتا ہے: اگر ایمان، عملِ صالح، حق اور صبر نہیں—تو سب خسارہ ہے

دوسری آیت کا خلاصہ

یہ آیت انسان کو اس کی اصل حیثیت دکھاتی ہے: * تم مصروف ہو سکتے ہو، مگر کامیاب نہیں * تم آگے بڑھ سکتے ہو، مگر درست سمت میں نہیں * تم جیت سکتے ہو، مگر حقیقت میں ہار سکتے ہو اب سوال یہ ہے کہ اس خسارے سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟

تیسری آیت:      **إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ      وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ**

یہ آیت امید کی کرن ہے، نجات کا اعلان ہے، اور کامیابی کا مکمل فارمولا ہے۔

“إِلَّا” — استثناء کا دروازہ

یہ لفظ بتاتا ہے کہ: * خسارہ عمومی ہے * مگر نجات مخصوص ہے * ہر شخص نہیں بچتا * مگر راستہ سب کے لیے کھلا ہے

پہلی شرط:      **الَّذِينَ آمَنُوا** — ایمان

ایمان صرف زبانی اقرار نہیں بلکہ: * دل کی تصدیق * فکر کی تبدیلی * ترجیحات کی درستگی ایمان انسان کو: * مقصد دیتا ہے * سمت دیتا ہے * معیار دیتا ہے

دوسری شرط:    **وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ** — عملِ صالح

ایمان اگر عمل میں نہ ڈھلے تو وہ دعویٰ رہ جاتا ہے۔ عملِ صالح: * وہ عمل جو نیت میں خالص ہو * طریقے میں درست ہو * نتیجے میں خیر ہو

تیسری شرط:    **وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ** — حق کی تلقین

یہ شرط دین کو ذاتی دائرے سے نکال کر اجتماعی نظام بناتی ہے۔ حق کہنا: * آسان نہیں

* مقبول نہیں * مگر ضروری ہے خاموش نیکی قرآن کے نزدیک کافی نہیں۔

چوتھی شرط:     **وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ** — صبر کی تلقین

صبر: * برداشت نہیں * مستقل مزاجی ہے * حق پر جمے رہنے کا نام ہے یہ وہ قوت ہے جو حق کو زندہ رکھتی ہے۔

تیسری آیت کا جامع خلاصہ

یہ آیت بتاتی ہے کہ نجات: * فرد کی اصلاح سے شروع ہوتی ہے * عمل سے مضبوط ہوتی ہے * حق سے پھیلتی ہے * صبر سے قائم رہتی ہے

حصہ دوم کا مجموعی خلاصہ

سورۃ العصر کی آیات ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ: * وقت گواہ ہے * انسان خسارے میں ہے

* مگر نجات کا راستہ واضح ہے یہ سورت انسان سے سوال نہیں کرتی، بلکہ فیصلہ سناتی ہے—اور ساتھ ہی نجات کا دروازہ بھی کھلا رکھتی ہے۔

سورۃ العصر — حصہ سوم

**(فکری، اجتماعی اور تمدنی پہلو: ایک مکمل نظامِ زندگی کی تشکیل)**

تمہیدی کلمات

سورۃ العصر اگرچہ الفاظ میں مختصر ہے، مگر اپنے اثر میں نہایت ہمہ گیر ہے۔ حصہ اوّل اور حصہ دوم میں ہم نے اس کے تعارف، پس منظر اور آیت بہ آیت تفسیری معانی کو سمجھا۔ اب حصہ سوم میں ہم اس سورت کو **فرد کی ذات سے نکال کر معاشرے، امت اور انسانی تہذیب** کے دائرے میں رکھ کر دیکھیں گے۔

یہ حصہ اس حقیقت کو واضح کرے گا کہ سورۃ العصر محض انفرادی نجات کا نسخہ نہیں بلکہ **ایک مکمل فکری، اخلاقی اور اجتماعی نظام** پیش کرتی ہے۔ اگر اس سورت کو صحیح معنوں میں نافذ کر لیا جائے تو افراد سنور جاتے ہیں، معاشرے زندہ ہو جاتے ہیں اور امت زوال سے نکل کر تعمیر کے راستے پر آ جاتی ہے۔

سورۃ العصر: فرد سے نظام تک

قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ وہ پہلے فرد کو مخاطب کرتا ہے، پھر معاشرے کو۔ سورۃ العصر بھی اسی اصول پر قائم ہے۔ * پہلے انسان کے خسارے کا اعلان * پھر فرد کی اصلاح (ایمان اور عمل صالح) * پھر اجتماعی ذمہ داری (حق اور صبر کی تلقین) یہ ترتیب بتاتی ہے کہ: * بغیر درست فرد کے درست معاشرہ ممکن نہیں * اور بغیر اجتماعی شعور کے فرد کی اصلاح نامکمل ہے

ایمان: فکری بنیاد کی تشکیل

کسی بھی معاشرے کی اصل بنیاد اس کا **فکری تصورِ حیات** ہوتا ہے۔ سورۃ العصر میں ایمان کو سب سے پہلے رکھا گیا، کیونکہ: * ایمان سوچ کو درست کرتا ہے * ایمان مقصد واضح کرتا ہے * ایمان اقدار کا تعین کرتا ہے

ایمان اور معاشرتی فکر

جب ایمان محض ذاتی عقیدہ بن جائے اور اجتماعی فکر سے نکل جائے تو معاشرہ دو حصوں میں بٹ جاتا ہے: * ایک طرف عبادات * دوسری طرف زندگی

سورۃ العصر اس تقسیم کو رد کرتی ہے۔ ایمان یہاں: * معاشی فیصلوں میں بھی شامل ہے * اخلاقی رویوں میں بھی * عدل، دیانت اور امانت میں بھی

عملِ صالح: سماجی کردار کی تعمیر

عملِ صالح صرف چند مذہبی اعمال کا نام نہیں بلکہ وہ ہر کام ہے جو: * نیت میں خالص ہو * طریقے میں درست ہو * اور اثر میں خیر پیدا کرے

عملِ صالح اور معاشرہ

جب عملِ صالح معاشرے میں رائج ہوتا ہے تو: * انصاف مضبوط ہوتا ہے * ظلم کمزور پڑتا ہے * اعتماد پیدا ہوتا ہے * رشتے محفوظ ہوتے ہیں عملِ صالح فرد کو معاشرے کا مفید رکن بناتا ہے، نہ کہ بوجھ۔

حق کی تلقین: زندہ معاشرے کی علامت

سورۃ العصر کا سب سے انقلابی پہلو **حق کی تلقین** ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو دین کو خانقاہ سے نکال کر میدانِ عمل میں لے آتا ہے۔

حق کی تلقین کا مفہوم

حق کی تلقین کا مطلب: * سچ بولنا * سچ کا ساتھ دینا * سچ پر خاموش نہ رہنا یہ صرف زبان سے نہیں بلکہ: * کردار سے * رویے سے * فیصلوں سے بھی ہوتی ہے۔

خاموش معاشرہ اور زندہ معاشرہ

قرآن کے نزدیک سب سے خطرناک معاشرہ وہ ہے جہاں: * غلطی دیکھی جائے * مگر کوئی بولے نہیں * ظلم ہو * مگر خاموشی اختیار کی جائے ایسا معاشرہ بظاہر پُرامن ہوتا ہے، مگر اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہوتا ہے۔ سورۃ العصر ایسے معاشرے کو قبول نہیں کرتی۔

صبر کی تلقین: اجتماعی استقامت

حق کہنا آسان نہیں، اور حق پر قائم رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اسی لیے چوتھی شرط **صبر** رکھی گئی۔

 صبر کا اجتماعی مفہوم

صبر یہاں: * خاموش برداشت نہیں * بلکہ ثابت قدمی ہے * مسلسل جدوجہد ہے * وقتی ناکامی کے باوجود حق پر ڈٹے رہنا ہے جب ایک معاشرہ صبر سے خالی ہو جائے تو:

* وہ جلد مایوس ہو جاتا ہے * حق کی قیمت ادا نہیں کر پاتا * اور باطل کے سامنے جھک جاتا ہے

سورۃ العصر اور امت کا زوال

اگر امت کی تاریخ کو سورۃ العصر کی روشنی میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ زوال کی بنیادی وجوہ یہی رہی ہیں: * ایمان کا رسمی ہو جانا * عملِ صالح کا محدود ہو جانا * حق کہنا خطرہ بن جانا * صبر کی جگہ جلد بازی آ جانا یہ چاروں چیزیں جب کمزور ہوئیں تو امت طاقت کے باوجود کمزور ہو گئی۔

وقت اور اجتماعی ذمہ داری

سورۃ العصر وقت کی قسم کھا کر ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ: * قوموں کو بھی وقت دیا جاتا ہے * معاشروں کو بھی مہلت ملتی ہے لیکن جب: * اصلاح کا وقت ضائع ہو جائے

* تنبیہات کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر وقت خود فیصلے سناتا ہے۔

سورۃ العصر اور تمدنی شعور

تمدن صرف عمارتوں، سڑکوں اور معیشت کا نام نہیں بلکہ: * اقدار * اخلاق * انصاف

* ذمہ داری کا مجموعہ ہے۔ سورۃ العصر ایک ایسا تمدنی ماڈل دیتی ہے جہاں: * ایمان بنیاد ہے * عملِ صالح ڈھانچہ ہے * حق روح ہے * صبر حفاظت ہے

فرد اور جماعت کا توازن

یہ سورت ہمیں یہ توازن سکھاتی ہے کہ: * نہ فرد کو نظر انداز کیا جائے * نہ جماعت کو صرف فرد کی اصلاح معاشرے کو نہیں بدل سکتی، اور صرف نعرے فرد کو نہیں سنوارتے۔

سورۃ العصر: ایک خاموش انقلاب

یہ سورت کوئی ہنگامی نعرہ نہیں لگاتی، کوئی فوری سیاسی تبدیلی کا اعلان نہیں کرتی، بلکہ: * سوچ بدلتی ہے * ترجیحات درست کرتی ہے * کردار بناتی ہے اور یہی اصل انقلاب ہوتا ہے۔

حصہ سوم کا جامع خلاصہ

سورۃ العصر ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ: * خسارے سے نکلنے کا راستہ فرد سے شروع ہو کر معاشرے تک جاتا ہے * دین صرف ذاتی نجات نہیں بلکہ اجتماعی ذمہ داری ہے * حق اور صبر کے بغیر کوئی تہذیب زندہ نہیں رہ سکتی یہ سورت اگر معاشرے میں زندہ ہو جائے تو: * زوال رک جاتا ہے * اصلاح شروع ہو جاتی ہے * اور وقت انسان کے حق میں گواہ بن جاتا ہے

سورۃ العصر — حصہ چہارم

**(آج کی زندگی میں عملی اطلاق: فرد، گھر، معاشرہ اور امت کی سطح پر)**

تمہیدی کلمات

سورۃ العصر کی اصل روح اسی وقت مکمل طور پر واضح ہوتی ہے جب اس کے پیغام کو **عملی زندگی میں نافذ** کیا جائے۔ اگر یہ سورت صرف تلاوت تک محدود رہے اور زندگی کے فیصلوں، ترجیحات اور رویّوں میں داخل نہ ہو تو وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جس کے لیے یہ نازل ہوئی۔ قرآن کا ہر پیغام عمل چاہتا ہے، اور سورۃ العصر تو خاص طور پر **عمل، ذمہ داری اور جواب دہی** کی سورت ہے۔

حصہ اوّل، دوم اور سوم میں ہم نے یہ دیکھا کہ:

* وقت گواہ ہے * انسان عمومی طور پر خسارے میں ہے * نجات کا راستہ ایمان، عملِ صالح، حق اور صبر سے ہو کر گزرتا ہے * یہ پیغام فرد سے نکل کر معاشرے اور تمدن تک جاتا ہے اب حصہ چہارم میں ہم یہ سمجھیں گے کہ **آج کے دور میں**—جہاں زندگی تیز رفتار ہے، مصروفیات بے شمار ہیں، اور اقدار کمزور ہو رہی ہیں—سورۃ العصر کو **کیسے جیا جائے**۔

آج کا انسان اور وقت کی حقیقت

آج کا انسان شاید تاریخ کا سب سے زیادہ مصروف انسان ہے: * گھڑی ہر وقت ساتھ ہے

* کیلنڈر بھرے ہوئے ہیں * مصروفیت کو کامیابی سمجھا جاتا ہے لیکن سوال یہ ہے: * کیا یہ مصروفیت نجات بھی ہے؟ * کیا یہ رفتار خسارے سے بچا رہی ہے؟ سورۃ العصر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ: وقت کی تیزی نجات کی ضمانت نہیں، بلکہ وقت کا درست مصرف نجات کا معیار ہے۔

ایمان کا عملی اطلاق — آج کے فرد کی سطح پر

آج ایمان کو اکثر صرف: * عبادات * رسومات * شناخت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سورۃ العصر ہمیں بتاتی ہے کہ ایمان: * سوچ بدلتا ہے * ترجیحات درست کرتا ہے * فیصلوں کی بنیاد بنتا ہے

آج ایمان کا مطلب کیا ہو؟

آج ایمان کا عملی مطلب یہ ہے کہ: * زندگی کا مقصد واضح ہو * حلال و حرام میں فرق زندہ ہو * فائدہ اور نقصان کا معیار صرف دنیا نہ ہو جب انسان ایمان کو عملی بناتا ہے تو: * وہ غلط کو فائدہ ہونے کے باوجود چھوڑ دیتا ہے * وہ حق کو نقصان کے باوجود اختیار کرتا ہے یہی ایمان خسارے سے نکلنے کی پہلی سیڑھی ہے۔

عملِ صالح کا اطلاق — روزمرہ زندگی میں

عملِ صالح کو اکثر صرف: * نماز * روزہ * صدقہ تک محدود کر دیا جاتا ہے، حالانکہ سورۃ العصر میں عملِ صالح کا مفہوم بہت وسیع ہے۔

عملِ صالح آج کیا ہے؟

آج عملِ صالح میں شامل ہے: * دیانت داری سے کام کرنا * وعدہ پورا کرنا * کسی کا حق نہ مارنا * ذمہ داری کو عبادت سمجھ کر نبھانا دفتر، بازار، اسکول، عدالت، گھر—ہر جگہ عملِ صالح کا میدان ہے۔ جب معاشرے میں عملِ صالح عام ہو جائے تو: * اعتماد بحال ہوتا ہے * ظلم کم ہوتا ہے * تعلقات مضبوط ہوتے ہیں

گھر کی سطح پر سورۃ العصر

ہر معاشرہ گھر سے بنتا ہے، اور ہر گھر فرد سے۔ اگر سورۃ العصر گھر میں زندہ ہو جائے تو معاشرہ خود بخود بدلنے لگتا ہے۔

گھر میں ایمان

* بچوں کو مقصدِ حیات سے روشناس کرایا جائے * صرف کامیابی نہیں، بلکہ درست کامیابی سکھائی جائے * وقت کی قدر سکھائی جائے

گھر میں عملِ صالح

* والدین کا کردار * سچائی کا ماحول * انصاف اور محبت کا توازن

گھر میں حق اور صبر

* غلط بات پر خاموشی نہ ہو * اصلاح حکمت سے ہو * مشکلات میں ایک دوسرے کا ساتھ ہو ایسا گھر خسارے کے بجائے نجات کی طرف بڑھتا ہے۔

معاشرے کی سطح پر حق کی تلقین

سورۃ العصر ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ دین صرف ذاتی نجات کا نام نہیں بلکہ **اجتماعی ذمہ داری** ہے۔

آج حق کہنا کیوں مشکل ہے؟

آج: * حق کہنا غیر مقبول ہے * حق کی قیمت زیادہ ہے * خاموشی کو عقلمندی سمجھا جاتا ہے مگر سورۃ العصر کہتی ہے: خاموش نیکی کافی نہیں، حق کی تلقین لازم ہے۔

حق کی تلقین کیسے کی جائے؟

* حکمت کے ساتھ * نرمی کے ساتھ * مگر وضاحت اور استقامت کے ساتھ حق کی تلقین صرف زبان سے نہیں بلکہ: * کردار سے * فیصلوں سے * اجتماعی رویّوں سے بھی ہوتی ہے۔

صبر کا اطلاق — جلدی کے دور میں

آج کا دور فوری نتائج کا دور ہے: * فوراً کامیابی * فوراً فائدہ * فوراً تسلیم ایسے دور میں صبر سب سے مشکل مگر سب سے ضروری وصف بن چکا ہے۔

صبر کا درست مفہوم

سورۃ العصر میں صبر: * خاموشی نہیں * بے بسی نہیں * بلکہ مستقل مزاجی ہے حق پر ڈٹے رہنا، ناکامی کے باوجود ہمت نہ ہارنا، اور وقتی نقصان کے باوجود درست راستہ نہ چھوڑنا—یہی صبر ہے۔

تعلیم اور تربیت میں سورۃ العصر

آج تعلیم کا مقصد زیادہ تر: * نوکری * آمدن * مقابلہ بن چکا ہے۔ سورۃ العصر ہمیں یاد  دلاتی ہے کہ: * تعلیم کا مقصد کردار ہے * تربیت کا مقصد انسان بنانا ہے اگر تعلیم میں: * ایمان * عملِ صالح * حق * صبر  شامل نہ ہوں تو وہ تعلیم خسارے کو بڑھا دیتی ہے۔

میڈیا اور سورۃ العصر

میڈیا آج رائے سازی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

سورۃ العصر کی روشنی میں میڈیا

* وقت کو فضولیات میں ضائع کرنا خسارہ ہے * جھوٹ، فحاشی اور فتنہ خسارے کو بڑھاتے ہیں * سچ، شعور اور اصلاح نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں میڈیا اگر حق اور صبر کے ساتھ کام کرے تو وہ معاشرے کو جوڑ سکتا ہے، توڑ نہیں۔

معاشی زندگی میں سورۃ العصر

معاشی دوڑ آج انسان کو سب سے زیادہ مصروف رکھے ہوئے ہے۔ سورۃ العصر ہمیں سکھاتی ہے کہ: * حلال کمائی عبادت ہے * حرام فائدہ خسارہ ہے * انصاف کے بغیر ترقی فریب ہے جو معیشت: * ایمان سے خالی ہو * عملِ صالح سے کٹی ہو * حق سے دور ہو وہ وقتی فائدہ دے سکتی ہے، نجات نہیں۔

امت کی سطح پر سورۃ العصر

اگر امت مجموعی طور پر سورۃ العصر کو اپنا لے تو: * زوال رک سکتا ہے * انتشار ختم ہو سکتا ہے * اعتماد بحال ہو سکتا ہے امت کا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، بلکہ: * وقت کا ضیاع * حق سے فرار * صبر کی کمی  ہے۔

سورۃ العصر اور ذاتی محاسبہ

آخر میں سورۃ العصر ہر فرد سے یہ سوال کرتی ہے: * تمہارا وقت کہاں جا رہا ہے؟

* تمہاری مصروفیت کس مقصد کے لیے ہے؟ * تم حق کے ساتھ ہو یا خاموشی کے ساتھ؟ یہ سورت انسان کو دوسروں کا محاسبہ نہیں سکھاتی بلکہ **خود کا محاسبہ** سکھاتی ہے۔

حصہ چہارم کا جامع خلاصہ

سورۃ العصر آج کی زندگی میں ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ: * وقت سب سے بڑی نعمت بھی ہے اور سب سے بڑی حجت بھی * ایمان سوچ بدلے بغیر نجات ممکن نہیں * عملِ صالح کے بغیر ایمان مکمل نہیں * حق اور صبر کے بغیر معاشرہ زندہ نہیں رہ سکتا یہ سورت اگر: * فرد میں زندہ ہو جائے * گھر میں رچ بس جائے * معاشرے میں نافذ ہو جائے تو خسارہ نجات میں بدل سکتا ہے۔

اختتامی کلمات

سورۃ العصر مختصر ہے، مگر انسان کو مکمل بدل دیتی ہے۔ یہ سورت شور نہیں مچاتی، مگر ضمیر کو جگا دیتی ہے۔ یہ وقت کی قسم کھا کر انسان کو یاد دلاتی ہے کہ: وقت گزر رہا ہے، فیصلہ لکھا جا رہا ہے، اور نجات کا راستہ کھلا ہے— مگر صرف ان کے لیے جو ایمان، عملِ صالح، حق اور صبر کو زندگی بنا لیں۔

Loading