Daily Roshni News

وہ عثمانی سلطان جس کی گواہی قاضی نے رد کر دی تھی!

وہ عثمانی سلطان جس کی گواہی قاضی نے رد کر دی تھی!

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تاریخ کی جستجو رکھنے والے دوستو،ہم تاریخ کے اُس دور میں کھڑے ہیں جب شہرِ بورصہ سلطنتِ عثمانیہ کا اہم سیاسی و روحانی مرکز تھا۔ یہ سلطان بایزید اوّل کا زمانہ تھا، جو تاریخ میں یلدرم (صاعقہ) کے لقب سے مشہور ہیں۔

سلطان بایزید اوّل وہ عظیم عثمانی فرمانروا تھے جنہوں نے اپنے مختصر مگر انتہائی تیز رفتار عہدِ حکومت میں بلغاریہ، بوسنیا، سلانیك (تھسالونیکی) اور البانیہ جیسے اہم یورپی علاقوں کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کیا۔ یہ وہی سلطان ہیں جنہوں نے یورپ کی متحدہ صلیبی افواج کو ایسی عبرتناک شکست دی

 جو صدیوں تک یورپی تاریخ میں یاد رکھی گئی۔

یہ صلیبی لشکر پوپ بونیفاس نہم (Boniface IX) کی اپیل پر جمع ہوا تھا،

 جس میں پندرہ یورپی ریاستیں شریک تھیں، جن میں انگلینڈ، فرانس، ہنگری، جرمنی اور دیگر طاقتور سلطنتیں شامل تھیں۔

یہ فیصلہ کن معرکہ

 جنگِ نیکوپولس1396ء میں پیش آیا، اور اسے اکثر مؤرخین قرونِ وسطیٰ کی آخری عظیم صلیبی جنگ قرار دیتے ہیں۔

ایک دن یہی فاتحِ اعظم کسی ذاتی یا عوامی معاملے میں بطورِ گواہ مشہور قاضی، فقیہ اور جلیل القدر عالمِ دین شمس الدین فناریؒ کی عدالت میں حاضر ہوئے۔ یہ وہی شمس الدین فناری ہیں جو بعد میں سلطنتِ عثمانیہ کے پہلے شیخ الاسلام مقرر ہوئے اور فقہِ اسلامی میں غیر معمولی مقام رکھتے تھے۔ سلطان عدالت میں داخل ہوئے، نہ شاہی رعب، نہ محافظوں کا ہجوم، سر جھکائے کھڑے ہوئے، اور اپنے ہاتھ باندھ لیے بالکل ایک عام مسلمان گواہ کی طرح یہ منظر خود اس بات کی دلیل تھا۔ کہ عثمانی نظام میں قانون اور شریعت، سلطان سے بھی بالا تھے۔

قاضی شمس الدین فناریؒ نے سلطان کی طرف دیکھا اور غیر معمولی جرأت کے ساتھ فرمایا:

“اے سلطان!

 آپ کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی، کیونکہ آپ باجماعت نماز کے پابند نہیں، اور جو شخص بلا عذر جماعت کی نماز چھوڑ دے، وہ اپنی گواہی میں بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔”

 یہ الفاظ عدالت میں موجود ہر شخص پر صاعقہ بن کر گرے، یہ محض ایک قانونی فیصلہ نہیں تھا، بلکہ ایک فاتح سلطان کی شان میں بظاہر بہت بڑی بات تھی۔ سب ساکت رہ گئے۔ سب کو یہی گمان تھا کہ اب سلطان قاضی کے قتل کا حکم دے گا، کیونکہ تاریخ میں طاقت ور حکمران ایسی باتیں برداشت نہیں کیا کرتے تھے۔

لیکن تاریخ نے وہ منظر دیکھا جو صرف اسلامی تہذیب کا خاصہ ہے۔ سلطان بایزید اوّل نے نہ غصہ کیا، نہ زبان سے ایک لفظ کہا، نہ قاضی پر ہاتھ اٹھایا،بلکہ خاموشی سے مڑے اور وقار کے ساتھ عدالت سے باہر چلے گئے۔

اسی دن سلطان بایزید اوّل نے حکم دیا کہ ان کے محل کے بالکل ساتھ ایک مسجد تعمیر کی جائے تاکہ وہ نمازِ باجماعت میں کبھی کوتاہی نہ کریں۔ جب مسجد مکمل ہوئی تو سلطان بایزید اوّل باقاعدگی سے پانچ وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے لگے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک سلطان نے ثابت کیا کہ اسلام میں اقتدار نہیں، احتساب اصل طاقت ہے۔

اس واقعے کو ترک مؤرخ عثمان نزار نے اپنی مشہور کتاب “حدیقۃ السلاطین” میں بیان کیا ہے،اور بعد ازاں مؤرخ اورخان محمد علی نے اسے اپنی تصنیف “روائع من التاريخ العثماني” میں نقل کیا۔

 جب مسلمانوں کے پاس شمس الدین فناری جیسے بے خوف علماء ہوتے تھے،

 تو ان کے پاس بایزید صاعقہ جیسے باعمل اور عاجز سلطان بھی ہوتے تھے۔ یہی وہ امت تھی, جس میں سلطان عدالت میں کھڑا ہوتا تھا اور قاضی حق بولنے

سے نہیں ڈرتا تھا۔

I Love ALLAH

Loading