بارش اور آنسو
فارسی کہانی ، باران و اشک کا ترجمہ
تحریر۔۔۔ب۔ مقدم
ترجمہ ۔۔۔نیر مسعود
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بارش اور آنسو۔۔۔ تحریر۔۔۔ب۔ مقدم۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔نیر مسعود)وقت سے پہلے جاگ اٹھے تاکہ ڈیل کی کھڑکیوں سے تو ہیں اور گھوڑے جانے کا منظر دیکھیں۔ یہ دیکھنا بھی تماشا ہی تھا۔ آدمی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ہے اور دیکھتا ہے کہ لوگ اس کا مال لوٹے لیے جارہے ہیں،
مگر وہ کچھ نہیں کر سکتا۔
ہم کھڑکیوں کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ وہاں سے پیر کوں کا احاطہ اور اصطبل دکھائی دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد بارش کی جکی دھند میں دور سے گھوڑوں کے سر نظر آئے۔ ایک ایک روی سپاہی دو گھوڑوں کو دبانوں سے پکڑے کھینچتا لارہا تھا۔ انھیں دیکھ کر مجھ پر میاب نا امیدی سی چھا گئی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا، ٹانگوں میں دم نہ رہا اور منہ خشک ہو گیا۔ پھر بھی میں نے گردن آگے بڑھائی کہ ان میں کاسی کو تلاش کروں ۔ ہماری فوج کے سب گھوڑے گہرے رنگ کے سرنگ اور کمیت تھے۔ صرف کاسی کے رنگ میں سفیدی اور اجلا بین تھا۔ اس کے بدن پر چھوٹی چھوٹی بھوری اور کتنی چنیں تھیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید رنگ پر ان دور نگوں کا چھینٹا دیا گیا ہو۔
آخر میں نے اس کا چتکبر ارنگ دیکھا۔ میر ادم کھنے لگا۔ یہ وہی تھا۔ اس کے تیروں کا تیکھا پن اور گردن کا کھنچاؤ رخصت ہو چکا تھا۔ سر لگا اور کٹوتیاں گری ہوئی تھیں۔ چھل بل اور طراروں کا کہیں نشان نہ تھا۔ میلا چکٹ ہو رہا تھا۔ ٹانگوں پر کیچڑ اور لید کے تھے ہم گئے تھے۔ ہفتوں سے ملائی دلائی ہوئی تھی، نہ کھیر پھیر آگیا تھا۔
وہ جیل کے سامنے پہنچا، تو میری زبان کو قتل لگ گیا۔ چاہتا تھا پکاروں، اسے بلاؤں، چوکیداروں سے کیوں کہ اسے ڈرا میری طرف گھما دیں۔ میں نے کسی طرح خود کو سنبھالا اور سوکھے مجھے سے دو تمین بار صرف ایک لفظ نکال پایا:
کاسی!کاسی!کاسی!
یہ آواز سن کر ابلق گھوڑے میں جان سی پڑ گئی۔ یقین کرو، اس نے گردن تان لی۔ پھر سر تھمایا اور جہاں سے میں نے اسے پکارا تھا، اس طرف دیکھنے لگا اور زور سے ہنہنایا۔ نہیں معلوم قیدیوں کے جھرمٹ میں کھڑکی کے پیچھے میں اسے دکھائی دیا کہ نہیں، مگر چند کھوں کے لیے اس کے پیروں میں وہی رقص کی سی بات پھر نظر آئی۔ پھر سپاہی نے اس کے دہانے کی اپنی ڈنڈی کو منہ کے اندر زور سے کھٹکھٹایا۔ تکلیف کی شدت سے اس کی حالت پھر اسی طرح رای ہو گئی۔ وہ کام کو لے گئے۔ دوسرے گھوڑوں کے ساتھ اسے بھی جہاز پر چڑ ھا دیا گیا۔ ہم دیکھتے رہے کہ ود دور ہوتے جارہے ہیں۔“
ہم دونوں سنسان پیٹتے پر چل رہے تھے۔ سمندر کی جانب سے تیز ہوا کے جھونکے آرہے تھے۔ موتیں پیٹنے سے ٹکرا کر اکر پانی آزار ہی تھیں۔ ملکی ہلکی پھوار بھی پڑرہی تھی۔ میں نے محمود کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں کے بیچے اور رخساروں پر تھی تھی۔ میں نے پو چھا کیا ہوئے ہو ؟”
اپنی کیفیت کو چھپاتے ہوئے وہ بولا: نہیں، ہماری عمر کے آدمی روتے نہیں، آنسو ہی نہیں لکھتے۔ بارش ہوئی ہے۔“
اند میرا جھیل رہا تھا۔ سمندر سیلو ہوتا جارہا تھا۔ ہم واپس آنے لگے۔ راستے میں محمود کو میں نے یہ قصہ سنایا:میں فوج میں نیا نیا افسر ہوا تھا۔ روزانہ صبح اپنے گھر کی گلی کے آگے سڑک پر جا کھڑا ہوتا۔ میری رجمنٹ کی بس آتی اور میں اس پر کیمپ چلا جاتا۔
ایک دن میں ذرا جلد سڑک پر آگیا۔ کچھ بس نے بھی دیر لگائی۔ میرا ایک دوست ادھر آنکلا اور ہم وہیں کھڑے باتیں کرنے لگے۔ وہ بھی فوج میں افسر تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا، میرے پاس ایک خوبصورت سمند (وہ گھوڑا جس کے جسم کا رنگ بادامی اور ایال اور دم و زانو سیاہ ہوں یا زانو اور اگلے پچھلے پائیں کے بال سیاہ ہوں ) گھوڑا ہے۔ وہ اسے بیچنا چاہتا تھا۔ میں اس دوست سے بخوبی واقف تھا۔ وہ معاملت کا کھرا ہے اور سمند گھوڑے مجھے پسند بھی تھے۔ لہذا میں نے دیکھے بغیر خرید لیا اور سودا وہیں کا وہیں پکا ہو گیا۔ دوست یہ کہہ کر رخصت ہوا کہ اسی دن گھوڑے کو میری رجمنٹ میں بھجوادے گا۔ ہماری رجمنٹ کا پڑاؤ شہر سے فاصلے پر تھا اور دو پیر کو ہم وہیں رہ جاتے۔ اس دن میں کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی خبر لایا، گھوڑا آگیا ہے۔ ہمارے کیمپ کے بیچ میں ایک لمبی سڑک تھی جس کے دونوں طرف چنار اور سفیدے کے درختوں کی قطاریں تھیں۔ میں دفتر سے باہر آکر سڑک پر کھڑا ہو گیا۔ دیکھا ایک سپاہی شوخ رنگ کے ایک گھوڑے پر بیٹھا آرہا ہے۔
وہ بڑے قد کاٹھ اور بلند گردن کا گھوڑا تھا۔ جماعت ایسی کہ اس کے زمین پر بیٹھا سپاہی چھوٹا سا معلوم ہو تا تھا۔ قریب آیا، تو دیکھا کہ تجب خوش انداز اور خوش رنگ گھوڑا ہے۔ اس کے رونگٹے سنہری مائل اور مجھل مل جھل مل کر رہے تھے۔ چھوٹا
سر، نرم چمکیلی آنکھ، مضبوط جوڑ بند اور بھاری ٹم، اورچی گردن، کشادہ سینہ ، چلنے رکنے میں سر کو تانے ہوئے۔ اس چھب کا گھوڑا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ خصوصا یکساں اور شوخ بادامی رنگ کا۔ میں بے اختیار ہو کر اس کا سر اور کٹوتیاں سہلانے لگا۔ وہ مزے میں کھڑا رہا، جیسے برسوں کا مجھ سے مانوس ہو۔
سپاہی اس پر سے اترا اور میں وہیں آزمائش کے لیے اس کی رکاب میں پیر ڈال زمین پر بیٹھ گیا۔ گھوڑا آگے بڑھا، تو میں نے اسے پو یا چلایا پھر دیکھی۔ اس کے بعد کیمپ کی سڑک پر دور تک بڑے اطمینان کے ساتھ سرپٹ دوڑایا۔ اس کی سواری ایسی ہموار اور آرام دہ تھی کہ معلوم ہو تا تھا، نرم گدے پر بیٹا فضا میں تیر رہا ہوں۔
میں نے اُسے اصطبل پہنچا دیا۔ وہاں سپاہی کو لوٹانے کے لیے اس کا زین اتارا گیا، تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ خوبصورت گھوڑازبین پشت ہے۔ زین پشت اسے کہتے ہیں جس کی کمر میں تم ہو۔ یہ گھوڑے کا عیب سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں، اس غم کے زیادہ ہونے سے گھوڑے کا دم کم ہو جاتا ہے۔ اس گھوڑے کی کمر میں زیادہ غم تھا۔ اس کی پیٹھ کا وہ حصہ جہاں زین رکھتے ہیں، کمان کی طرح جھکا ہوا تھا۔
لمحہ بھر کو مجھے خیال آیا کہ اسے واپس پھیر دوں لیکن میرابی نہ مانا۔ وہ بہت خوبصورت تھا۔ اس کی اصالت، تیور اور جمال سے کیونکر آنکھیں پھیر لیتا؟
گھوڑے کو اصطبل میں باندھ دیا گیا۔ دوسرے دن سے وہ میری سواری میں رہنے لگا۔ تمہارے اور ابلق گھوڑے کی طرح ہم دونوں میں بھی عجب چاہت اور لگاؤ پیدا ہو گیا۔ میر ابلند قامت زین پشت سمند، جو گردن اٹھا کر چلتا اور بن بن کر زمین پر پاؤں رکھتا، بہت جلد مشہور ہو گیا۔ سرپٹ چال میں وہ صر صر کی طرح فضا کو چیر تا نکل جاتا۔ چونکہ اس کی کمر میں خم تھا، اسی لیے اس پر بیٹھنے میں بڑی راحت ملتی۔ دو سال گزرے تھے کہ توپ گاڑیاں پٹرول سے چلنے لگیں۔ پرانی چال کی گاڑیاں کباڑ خانوں میں ڈھیر ہوتی گئیں۔ انھیں کھینچنے والے گھوڑے گلوں میں بھیجے جانے لگے۔ فوج سے اصطبل اور گھوڑوں کا صیغہ ہی ختم ہوا، تو میں بھی مجبور ہوا کہ اپنے سمند کو وہاں سے بنائے جاؤں ۔ چونکہ میرے پاس رکھنے کا ٹکانا نہیں تھا، لہذا اسے بیچنے کے سوا چارہ نہ رہا۔ دو تین ہفتے اسی ادھیڑ بن میں گزر گئے۔ میرا دل اس کو الگ کرنے پر کسی طرح آمادہ نہ تھا۔ بالآخر جب سارے اصطبل خالی ہو گئے اور توپ گاڑیاں بنادی گئیں پھر میرا تبادلہ بھی ہو گیا۔ تب مجھے صبر کرنا پڑا “میری رجمنٹ کا سائیں ایک خریدار کولے آیا۔ اس نے گھوڑے کو دیکھا بھالا، پسند کر لیا اور پیسے بھی اچھے دیے۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ اس لاڈلے گھوڑے کو تکلیف نہ دینا۔ اگر اسے بیچے ، تو کسی ایسے آدمی کو دے جو اس کو فٹن یا چھکڑے میں نہ جوتے۔
کئی مہینے گزر گئے۔ مجھے اپنے زین پشت سمند کی یاد آتی رہتی۔ جیسا کہ تم نے بتایا، میرا بھی دل چاہتا کہ کسی صورت اسے دیکھوں، تھپ تھپاؤں، اس بے زبان کے منہ کے آگے ہاتھ کروں اور گرم اور نرم سانسوں کو محسوس کروں۔
ایک دن خیابان شمیران کی چڑھائی پر مجھے ایک اونچا، لاغر سمند گھوڑا دکھائی دیا۔ آنکھیں بھی بھی، نڈھال بدن پینے میں شرابور ، مگر اُسی آن کے ساتھ جو مجھے اپنے سمند میں نظر آتی تھی، بوجھ سے لدے ایک کھڑ کھڑے میں جتا اسے کھینچ رہا تھا۔ کو چوان نیچے اتر کر اس پر چابک برسا اور کھٹر کھڑے کو دھکا لگا کر چڑھائی چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ “یہ وہی تھا۔ اس کا سنہر ابدن میل کچیل اور پینے کے لیپ سے چک کر کالا ہو چکا تھا۔ میرا بہت جی چاہا کہ قریب جا کر دیکھوں، اسے پکاروں اور اس کا بدن سہلاؤں، لیکن مجھے شرم ہی آرہی تھی۔ وہ ایسے حال میں نہ تھا کہ میں اس کے سامنے جا سکتا۔ اس کی رگیں ابھر آئی تھیں۔ دائیں بائیں پٹھوں اور پیٹھ پر چابک کی مار سے نالیاں بن گئی تھیں۔
میں نے سوچا، کو چو ان سے بات کر کے اس کی کچھ سفارش کروں، لیکن اس سے کیا ہو نا تھا…؟ وہ شکستہ حال قیدی، تھک ہار ازین پشت سمند، جواب میرا نہیں تھا۔ اپنے مقدر کا لکھا پورا کر رہا تھا۔ میں خود سمجھ سکتا تھا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہو گا۔”
بارش نیز برسنے لگی اور ستار یکی پھیل گئی۔ میں اور محمود اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ بلب کی روشنی میں محمود نے مجھے دیکھا اور بولا:
“تمہارا چہرہ بھیگا ہوا ہے۔ روئے ہو ؟”
اس عمر کو پہنچ کر آدمی نہیں روتا ” میں نے کہا۔ ” پانی برس رہا ہے۔
بشکریہ ماہنا مہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2015
![]()

