بایزید بسطامیؒ کے مریدین دور دور سے حکمت و معرفت لینے آتے تھے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بایزید بسطامیؒ کے مریدین دور دور سے حکمت و معرفت لینے آتے تھے۔ان کی خانقاہ میں نور، خاموشی اور عاجزی کی خوشبو رچی ہوئی تھی۔
لیکن اُن کے صالحین میں سے ایک نوجوان شاگرد تھا…ذہین، عبادت گزار، ذکر میں سرگرم اور دن رات محنت کرنے والا۔
وقت کے ساتھ ساتھ…اُس کے دل میں تکبر کا ایک چھوٹا سابیج اُگ گیا—وہ سمجھنے لگا:“اب میں بھی مقام والا بن گیا ہوں… اب میں بھی خاص ہوں…”نوجوان کو احساس نہ تھا کہ یہ چھوٹا سا بیج بعد میں پہاڑ بن جاتا ہے۔
ایک دن کا واقعہ — جب شاگرد نے گمان کیا کہ وہ پہنچ گیا ہے شاگرد نے بایزیدؒ کی خدمت میں آ کر فخر کے ساتھ کہا:
“حضرت! میں نے تمام علوم سیکھ لیے ہیں میں عبادت میں بھی سب سے آگے ہوں، ذکر میں بھی آگے ہوں…اب میں کیا کروں؟”
یہ سن کر بایزیدؒ کی آنکھوں میں درد ابھرا۔ وہ جان گئے کہ شاگرد کے دل میں “میں” اُگ آئی ہے جو سب سے خطرناک چیز ہے۔
بایزیدؒ نے بہت نرمی سے کہا: “بیٹا، کیا واقعی تم سمجھتے ہو کہ تم کچھ بن گئے ہو؟”
شاگرد نے مسکرا کر کہا: “جی حضور! اب تو مجھے یقین ہے کہ میں پہنچ چکا ہوں۔”
بس… یہی وہ لمحہ تھا جب بایزیدؒ نے اس کے دل کا زنگ اتارنا تھا۔
بایزیدؒ کا امتحان — شاگرد کے غرور کو توڑنے والی آزمائش
بایزیدؒ نے شاگرد کو اپنے ساتھ شہر کے بازار کی طرف لے گئے راستے میں ایک گدھا کھڑا تھا۔ اس پر بوجھ تھا، پیٹھ پر گرد لوگ اسے مار رہے تھے اور وہ بے بسی سے کھڑا تھا۔
بایزیدؒ نے شاگرد سے کہا:“جاؤ…اس گدھے کی دم پکڑو اور اسے تھوڑی دیر بازار میں گھماؤ۔”
شاگرد کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ چونکا—لوگ کیا کہیں گے؟ میں گدھے کی دم پکڑوں؟ میری عزت، میرا مقام، میرا وقار؟
شاگرد نے ہچکچاتے ہوئے کہا: “حضرت… یہ تو میری شان کے خلاف ہے!”
بایزیدؒ نے گہری نظر سے دیکھا اور فرمایا: “اگر گدھے کی دم پکڑنا تمہاری شان کے خلاف ہے تو پھر خدا کی راہ پر چلنے کی تم میں کوئی شان باقی نہیں۔”
شاگرد خاموش ہو گیا…اس کی “میں” پھٹ گئی۔ اصل ضرب ایک جملہ جو تقدیر بدل دے
شاگرد نے ہمت کر کے پوچھا: “حضرت! کیا واقعی میں کچھ نہیں ہوں؟”
بایزید بسطامیؒ مسکرائے… خاموشی میں اُس کی روح ٹوٹنے کی آواز سن رہے تھے۔
پھر وہ تاریخی جملہ فرمایا—
وہ جملہ جس نے شاگرد کو آنسوؤں میں ڈبو دیا:
“بیٹا…
جب تک تم اپنے آپ کو ‘کچھ’ سمجھتے ہو، تم حقیقت میں ‘کچھ بھی نہیں’۔
اور جب تم اپنے آپ کو ‘کچھ بھی نہیں’ سمجھ لیتے ہو…تب اللہ تمہیں ‘سب کچھ’ بنا دیتا ہے۔”
شاگرد پر جیسے بجلی گر گئی۔ تکبر خوف کی مانند ٹوٹا، اس کا دل نرم ہو گیا، اور وہ بایزیدؒ کے قدموں میں گر کر رونے لگا۔
بایزیدؒ نے اسے اٹھایا اور کہا: “اب تم نے پہلا قدم رکھ دیا ہے باقی سفر اللہ کا ہے۔”
یہ حکایت کیوں دل کو ہلا دیتی ہے؟ کیونکہ یہ عاجزی کا درس ہے. ” میں” کو مارنے کا پہلا قدم ہے. روح کی شفایابی کا آغاز ہے اور بتاتی ہے کہ: “جس نے اپنی انا کو مار لی، وہی ولی بن گیا۔”
![]()

